فقط ساقی بدلنے سے تو مے خانہ نہیں چلتا شاعر نے بھی کیا خوب بات کہی تھی کہ ؛ بدلنا ھے تو رنــدوں سے کہــو اپنـی ادا بدلیں !! فقط ساقــی بدلنے سے تو میخـانہ نہیں چلتا !!! جنہوں نے بدلنا تھا انہیں ایک سجدے نے ھی بدل ڈالا تھا، اور ایسا بدلا تھا کہ … Read more

Prohibition on killing a human being in Islam (Urdu) in PDF

انسانی جان کی حرمت و توقیر ! اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں جہاں بھی بڑے گناھوں کا ذکر فرمایا ھے وھاں شرک کے فوراً بعد قتلِ نفس کو ضرور ذکر کیا ھے،، جہاں میں شرک سے منع کیا ھے وھیں ناحق انسانی جان لینے کو بھی حرام قرار دیا ھے ! ایک انسان کا … Read more

یورپ کے مسلمان ،یورپ کے علماء سے ھی مسائل پوچھیں

یورپ والے اپنے مسائل یورپ کے علماء سے پوچھیں Ask your issues to your Regional Scholars December 15, 2013 at 3:08pm ایک کمپنی، عید پارٹی دیتی ھے اور اپنے تمام ورکرز کو بلا تفریقِ ملک و مذھب اس میں بلاتی ھے اور سب مل کر خوشی مناتے ھیں ! کوئی مسئلہ نہیں ھوتا،،اس میں ھندو … Read more

معوذتین اور جادو

معوذتین اور جادو ! پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ! August 26, 2013 at 6:29am سورہ الفلق اور سورہ الناس جن کو جوڑ کر معوذتین کہا جاتا ھے،،یعنی وہ دو سورتیں جن میں مختلف خطرات سے اللہ کی پناہ حاصل کی جاتی ھے، یہ سورتیں ابتدائی مکی دور میں جب کہ نبی … Read more

علم کی تقسیم اور اس کی تباہ کاریاں

اللہ پاک نے جب انسان کو پیدا فرمانے کا اعلان فرمایا تو فرشتوں نے عرض کیا کہ مالک کیا ھم سے عبادت میں کوئی کوتاھی ھو گئ  جو نئی تخلیق کی ضرورت پڑی ،ھم صبح شام آپکی تسبیح و تحمید کر تو رھے ھیں، ارشاد باری تعالی ھوا کہ میں وہ جانتا ھوں جو تم … Read more

مشترکہ خاندان ایک سماجی سرطان

مشترکہ خاندان ایک سماجی سرطان

February 25, 2013 at 12:34am
للہ تعالی نے انسان کو نر اور مادہ سے پیدا فرمایا اور پھر ان میں سے انگنت جوڑے پیدا فرمائے،
ان جوڑوں میں صلاحیتوں کے لحاظ سے فرق و تفاوت رکھا،اور دو بھائیوں اور دو بہنوں میں بھی یکساں معاملہ نہیں کیا،
جب ایک نیا جوڑا بنتا ھے،تو ایک نیا یونٹ وجود میں آتا ھے ،جس کے دونوں افراد اپنے کچھ خواب رکھتے ھیں جن کو وہ مستقبل میں پورا کرنا چاھتے ھیں،،ان کی کچھ محرومیاں ھوتی ھیں جن سے وہ اپنی اولاد کو محفوظ رکھنا چاھتے ھیں ،عورت اپنی ماں کے گھر سے یہ سنتی آتی ھے کہ”تم اپنے گھر جا کے یہ کر لینا،،تو اپنے گھر میں یہ سجا لینا مگر جب وہ اپنے گھر آتی ھے تو پتہ چلتا ھے کہ  یہ گھر بھی اس کا اپنا نہیں ھے وہ صرف یہاں روٹی کپرے کی ملازم ھے،،ھمارے یہاں ایسے گھروں کو مشترکہ خاندانی نظام یا جائنٹ فیملی سسٹم کہا جاتا ھے ،، یہ نظام ظلم پر مبنی اور سماجی کینسر ھے ،جس میں نفرتیں اگتی اور نفاق پنپتا  ھے ،حسد ،حقد،بے انصافی اور ظلم کا دور دورہ ھوتا ھے ،لوگ اس کو محبت کی علامت سمجھتے ھیں مگر حقیقت میں یہ نفرت کی بھٹی ھوتی ھے ،،ظلم یہ ھے کہ ایک انسان جب کمانے لگتا ھے تو باقی بھائیوں کو پالنے لگ جاتا ھے ،انکی ضروریات کو (جو کہ دن بدن لامحدود ھوتی جاتی ھیں) پورا کرنے میں اس طرح جُت جاتا ھے ،کہ بھول جاتا ھے کہ اس کی اپنی اولاد بھی ھے ،جس کی تعلیم و تربیت اسکی پہلی ذمہ داری ھے،،ان کے مستقبل کا سوچنا اس کا شرعی اور اخلاقی فرض ھے،،اس مرحلے پر عورت جس کو اللہ  نے اولاد کے حقوق کے معاملے میں کچھ زیادہ ھی حساس بنا دیا ھے ،وہ مداخلت کرتی ھے اور شوھر کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ھے کہ اس کے اپنے بچے بھی ھین اور انکی ضروریات مقدم ھیں،،نیز یہ کہ انسانوں کے اس میلے اور چڑیا گھر نما حویلی میں ،بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ناممکن ھے،،اپنا ایک گھر ھونا چاھئے جہاں پر کہ بچوں کے سونے ،جاگنے، کھیلنے،اور پڑھنے کے اوقات ھونے چاھییں ،،یہ ایک ایسا مطالبہ ھے کہ جس کے بعد قیامت کا آنا لازمی ھے،،یہ کوئی عام مطالبہ نہیں ھے بلکہ مولانا حالی کے الفاظ میں” وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ھادی ! عرب کی زمیں جس نے ساری ھلا دی !! اب اسلام بھی خطرے میں پڑ جاتا ھے اور ماں باپ کی عزت و توقیر کا بھی مسئلہ درپیش ھوتا ھے ،،
جائنٹ فیملی سسٹم کی شرعی حیثیت،
اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کا سرے سے کوئی تصور نہیں ھے،،نبی کریمﷺ نے اپنی 9 بیویوں کو الگ رکھا ھے،جہاں ایک بیوی کو یہ اجازت نہیں ھوتی تھی کہ وہ دوسری کے حجرے میں اسکی اجازت کے بغیر سالن تک بھیجے،جس کے حجرے میں نبی ﷺ کی باری ھوتی تھی اسی کی پسند نبیﷺ کو کھانی ھوتی تھی ، مشترکہ خاندان میں خود خاندان کی تباھی کا جو سامان ھے اس کے مدِۜ نظر یہ ممکن ھی نہیں کہ آسمان والی شریعت اس کو قبول کرے،، اصلاً یہ راجپوتانہ نظام ھے،، اور اس کا مداوہ بھی شاید ھندو راجپوتانہ نظام میں رکھا گیا ھے،کہ چونکہ بڑا بھائی ھی قربانی کا بکرا بنتا ھے،اور چھوٹے کی شادی تک خاندان کا بوجھ اُٹھاتا ھے،لہٰذا ساری جائداد کا مالک بھی بڑا بیٹا ھوتا ھے،، اب جب آپ راجپوتانہ نظام کو اسلام کے ساتھ ری میکس کرتے ھیں تو دشمنیاں جنم لیتی ھیں،، مثلاً بڑے بیٹے پر ذمہ داریاں تو راجپوتوں والی ڈال دی گئیں ،مگر جائداد کی تقسیم اسلامی طریقے سے کرنے کا مطالبہ کر دیا ،تو اس صورت میں ظلم کی بدترین صورت نے جنم لیا ،،اسلام میں تو اولاد اپنے باپ کی جائداد میں وارث ھے،،مگر ھمارے سسٹم میں وہ بھائی کی جائداد میں وارث بن جاتی ھے،ایک تو پورا خاندان پالو ،، جو کما کے بھیجو وہ ابا جی کمائی والے کی بجائے اپنے نام کی جائداد بناتے ھیں ،اور اس طرح ظلم کے ذریعے دوسری اولاد کو اس میں وارث بناتے ھیں،،قبائلی نظام میں بھائی کے نام کی جائداد میں بھی بھائی شریک ھوتے ھیں،جو کہ اولاد کی موجودگی میں کسی طور شرک نہیں ھو سکتے ،نیز اس سلسلے میں عموماً ایک حدیث فوراً بیان کر دی جاتی ھے کہ "تو اور تیرا مال تیرے والد کے ھو ” حدیث تو صحیح ھے مگر یہ غیر شادی شدہ کے لئے ھے شادی شدہ کے لئے نہیں،،ورنہ جب انسان مر جاتا ھے،اور اسکا مال اللہ کی کسٹڈی میں چلا جاتا ھے اور اللہ خود تقسیم فرماتا ھے،تو باپ کو تو سارا نہیں دیتا ؟اس کو صرف چھٹا حصۜہ دیتا ھے؟ ماں کو بھی چھٹا دیتا ھے،بیوی کو آٹھواں اور باقی سارا اولاد کا؟ بس عقلمند کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ وہ سمجھ لے کہ صاحب اولاد کی جائداد میں بھائیوں کا سرے سے کوئی حق نہیں ،اور ماں باپ کا چھٹا،چھٹا ھے،سارا نہیں ھے،،
جائنٹ فیملی سسٹم کے تباہ کن سماجی نتائج
جو عورت جتنی باشعور اور سوچ سمجھ والی ھوتی ھے وہ اتنا جلدی پاگل ھوتی ھے،وہ نسلوں کی تباھی کھلی آنکھوں سے دیکھ رھی ھوتی ھے،اولاد کے بارے میں اس کے کچھ خواب ھوتے ھیں ،جن کو وہ حقیقت میں بدلنا چاھتی ھے،مگر شوھر صاحب اس کو ماں باپ کی نافرمانی اور اسلام کے خلاف سمجھتے ھیں کہ کوئی الگ گھر لے کر اولاد کو رکھا جائے اور ان کی تعلیم کا کوئی سامان کیا جائے ، ایک حویلی میں جب دو درجن بچے کھیل رھے ھوں اور باھر شور مچا ھو ،، تو اندر کوئی بچہ کیسے توجہ سے پڑھ سکتا ھے، اس کے اندر کے بچے کی توجہ تو باھر لگی ھوتی ھے ،،نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ان پڑھوں کی ایک نئی کھیپ تیار ھو کر سسٹم مین داخل ھو جاتی ھے،، عورت کے روز روز کے تقاضے میاں بیوی کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دیتے ھیں اور نتیجہ طلاق یا پاگل پن یا خودکشی کی صورت میں نکلتا ھے،، کمیونزم کے خلاف 25،30 سال جنگ لڑنے والوں کے گھروں میں کمیونزم کی بد ترین شکل نافذ ھے ،،جہاں کمانے والا اور سارا دن چرس پینے والا ایک پلڑے میں تلتے ھیں ،،جو اٹھارہ گھنٹے کام کرتا اور پھر ٹیکسی ھی میں سو جاتا ھے،اس کے بچے اور سارا دن لڑکیوں کے کالج کے باھر کھڑے کھڑے گزار دینے والے بھائی کے بچے برابر کی سہولیات سے استفادہ کرتے ھیں،،بلکہ شاید پردیس ھونے کی وجہ سے اسکے بچے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جو موقعے پر موجود باپ اپنی اولاد کو دے دیتا ھے،،اس سے بھی بڑا ظلم یہ ھے کہ  ، ایک عورت کو ڈیلیوری کیس میں اس لئے اسپتال لے کر نہیں جانا کہ دوسرے بھائی کی بیوی کی ڈیلیوری گھر میں نارمل ھوئی تھی تو یہ کوئی نواب کی بچی ھے کہ اس کو اسپتال لے جایا جائے،؟ حالانکہ یہ سب جانتے ھیں کہ یہ کیس ٹو کیس فیصلہ ھوتا ھے،بعض صورتوں میں شوگر کی وجہ سے بچہ زیادہ وزنی ھوتا ھے اور بعض دفعہ اُلٹا ھو جاتا ھے،اور آپریشن لازمی ھوتا ھے،،مگر جب چھوٹے کی بیوی نے گھر جنا ھے تو دبئی والے کی اسپتال کیوں جائے ؟؟ بیوی اور بچہ دونوں مر گئے ، چار بچے بغیر ماں کے رہ گئے،،شوھر کو نئی بیوی مل جائے گی مگر بچوں کو ماں نہیں ملے گی ، یوں محروم نسلوں کا سامان کر دیا گیا،،باقی ان شاء اللہ کل،
اپ ڈیٹڈ
مشترکہ خاندانی نظام ، ایک سماجی کینسر
اللہ تعالی نے انسان کو نر اور مادہ سے پیدا فرمایا اور پھر ان میں سے ان گنت جوڑے پیدا فرمائے ان جوڑوں میں صلاحیتوں کے لحاظ سے فرق و تفاوت رکھا،اور دو بھائیوں اور دو بہنوں میں بھی یکساں معاملہ نہیں کیا، جب ایک نیا جوڑا بنتا ھے،تو ایک نیا یونٹ وجود میں آتا ھے ،جس کے دونوں افراد اپنے کچھ خواب رکھتے ھیں جن کو وہ مستقبل میں پورا کرنا چاھتے ھیں،،ان کی کچھ محرومیاں ھوتی ھیں جن سے وہ اپنی اولاد کو محفوظ رکھنا چاھتے ھیں ،عورت اپنی ماں کے گھر سے یہ سنتی آتی ھے کہ”تم اپنے گھر جا کے یہ کر لینا،،تو اپنے گھر میں یہ سجا لینا مگر جب وہ اپنے گھر آتی ھے تو پتہ چلتا ھے کہ یہ گھر بھی اس کا اپنا نہیں ھے وہ صرف یہاں روٹی کپرے کی ملازم ھے،،ھمارے یہاں ایسے گھروں کو مشترکہ خاندانی نظام یا جائنٹ فیملی سسٹم کہا جاتا ھے ،، یہ نظام ظلم پر مبنی اور سماجی کینسر ھے ،جس میں نفرتیں اگتی اور نفاق پنپتا ھے ،حسد ،حقد،بے انصافی اور ظلم کا دور دورہ ھوتا ھے ،لوگ اس کو محبت کی علامت سمجھتے ھیں مگر حقیقت میں یہ نفرت کی بھٹی ھوتی ھے ،،
ظلم یہ ھے کہ ایک انسان جب کمانے لگتا ھے تو باقی بھائیوں کو پالنے لگ جاتا ھے ،انکی ضروریات کو (جو کہ دن بدن بڑھتی اور بے لگام ھوتی جاتی ھیں) پورا کرنے میں اس طرح جُت جاتا ھے ،کہ بھول جاتا ھے کہ اس کی اپنی اولاد بھی ھے ،جس کی تعلیم و تربیت اسکی پہلی ذمہ داری ھے،،ان کے مستقبل کا سوچنا اس کا شرعی اور اخلاقی فرض ھے،،اس مرحلے پر عورت جس کو اللہ نے اولاد کے حقوق کے معاملے میں کچھ زیادہ ھی حساس بنا دیا ھے ،وہ مداخلت کرتی ھے اور شوھر کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ھے کہ اس کے اپنے بچے بھی ھین اور انکی ضروریات مقدم ھیں،،نیز یہ کہ انسانوں کے اس میلے اور چڑیا گھر نما حویلی میں ،بچوں کا تعلیم حاصل کرنا ناممکن ھے،،اپنا ایک گھر ھونا چاھئے جہاں پر کہ بچوں کے سونے ،جاگنے، کھیلنے،اور پڑھنے کے اوقات ھونے چاھییں ،،یہ ایک ایسا مطالبہ ھے کہ جس کے بعد قیامت کا آنا لازمی ھے،،یہ کوئی عام مطالبہ نہیں ھے بلکہ مولانا حالی کے الفاظ میں؎
” وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ھادی ،،
عرب کی زمیں جس نے ساری ھلا دی ،،
اب اسلام بھی خطرے میں پڑ جاتا ھے اور ماں باپ کی عزت و توقیر کا بھی مسئلہ درپیش ھوتا ھے ،،
جائنٹ فیملی سسٹم کی شرعی حیثیت،،،
اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کا سرے سے کوئی تصور نہیں ھے،،نبی کریمﷺ نے اپنی 9 بیویوں کو الگ رکھا ھے،جہاں ایک بیوی کو یہ اجازت نہیں ھوتی تھی کہ وہ دوسری کے حجرے میں اسکی اجازت کے بغیر سالن تک بھیجے،جس کے حجرے میں نبی ﷺ کی باری ھوتی تھی اسی کی پسند نبیﷺ کو کھانی ھوتی تھی ، مشترکہ خاندان میں خود خاندان کی تباھی کا جو سامان ھے اس کے مدِۜ نظر یہ ممکن ھی نہیں کہ آسمان والی شریعت اس کو قبول کرے،، اصلاً یہ راجپوتانہ نظام ھے،، اور اس کا مداوہ بھی شاید ھندو راجپوتانہ نظام میں رکھا گیا ھے،کہ چونکہ بڑا بھائی ھی قربانی کا بکرا بنتا ھے،اور چھوٹے کی شادی تک خاندان کا بوجھ اُٹھاتا ھے،لہٰذا ساری جائداد کا مالک بھی بڑا بیٹا ھوتا ھے،، اب جب آپ راجپوتانہ نظام کو اسلام کے ساتھ ری میکس کرتے ھیں تو دشمنیاں جنم لیتی ھیں،، مثلاً بڑے بیٹے پر ذمہ داریاں تو راجپوتوں والی ڈال دی گئیں ،مگر جائداد کی تقسیم اسلامی طریقے سے کرنے کا مطالبہ کر دیا ،تو اس صورت میں ظلم کی بدترین صورت نے جنم لیا ،،اسلام میں تو اولاد اپنے باپ کی جائداد میں وارث ھے،،مگر ھمارے سسٹم میں وہ بھائی کی جائداد میں وارث بن جاتی ھے،
ایک تو پورا خاندان پالو ،، جو کما کے بھیجو وہ ابا جی کمائی والے کی بجائے اپنے نام کی جائداد بناتے ھیں ،اور اس طرح ظلم کے ذریعے دوسری اولاد کو اس میں وارث بناتے چلے جاتے ھیں،،قبائلی نظام میں بھائی کے نام کی جائداد میں بھی بھائی شریک ھوتے ھیں،جو کہ اولاد کی موجودگی میں کسی طور شریک نہیں ھو سکتے ،نیز اس سلسلے میں عموماً ایک حدیث فوراً بیان کر دی جاتی ھے کہ "تو اور تیرا مال تیرے والد کے ھو ” حدیث اس حد تک تو صحیح ھے کہ یہ غیر شادی شدہ کے لئے ھے شادی شدہ کے لئے نہیں،،ورنہ جب انسان مر جاتا ھے،اور اسکا مال اللہ کی کسٹڈی میں چلا جاتا ھے اور اللہ خود تقسیم فرماتا ھے،تو باپ کو تو سارا نہیں دیتا ؟اس کو صرف چھٹا حصۜہ دیتا ھے؟ ماں کو بھی چھٹا دیتا ھے،بیوی کو آٹھواں اور باقی سارا اولاد کا؟ بس عقلمند کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ وہ سمجھ لے کہ صاحب اولاد کی جائداد میں بھائیوں کا سرے سے کوئی حق نہیں ،اور ماں باپ کا چھٹا،چھٹا ھے،سارا نہیں ھے،،
جائنٹ فیملی سسٹم کے تباہ کن سماجی نتائج
جو عورت جتنی باشعور اور سوچ سمجھ والی ھوتی ھے وہ اتنا جلدی پاگل ھوتی ھے،وہ نسلوں کی تباھی کھلی آنکھوں سے دیکھ رھی ھوتی ھے،اولاد کے بارے میں اس کے کچھ خواب ھوتے ھیں ،جن کو وہ حقیقت میں بدلنا چاھتی ھے،مگر شوھر صاحب اس کو ماں باپ کی نافرمانی اور اسلام کے خلاف سمجھتے ھیں کہ کوئی الگ گھر لے کر اولاد کو رکھا جائے اور ان کی تعلیم کا کوئی سامان کیا جائے ، ایک حویلی میں جب دو درجن بچے کھیل رھے ھوں اور باھر شور مچا ھو ،، تو اندر کوئی بچہ کیسے توجہ سے پڑھ سکتا ھے، اس کے اندر کے بچے کی توجہ تو باھر لگی ھوتی ھے ،،نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ان پڑھوں کی ایک نئی کھیپ تیار ھو کر سسٹم میں داخل ھو جاتی ھے،، عورت کے روز روز کے تقاضے میاں بیوی کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دیتے ھیں اور نتیجہ طلاق یا پاگل پن یا خودکشی کی صورت میں نکلتا ھے،، کمیونزم کے خلاف 25،30 سال جنگ لڑنے والوں کے گھروں میں کمیونزم کی بد ترین شکل نافذ ھے ،،جہاں کمانے والا اور سارا دن چرس پینے والا ایک پلڑے میں تلتے ھیں ،جو اٹھارہ گھنٹے کام کرتا اور پھر ٹیکسی ھی میں سو جاتا ھے،اس کے بچے اور سارا دن لڑکیوں کے کالج کے باھر کھڑے کھڑے گزار دینے والے بھائی کے بچے برابر کی سہولیات سے استفادہ کرتے ھیں،،بلکہ شاید پردیس ھونے کی وجہ سے اسکے بچے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جو موقعے پر موجود باپ اپنی اولاد کو دے دیتا ھے،،
اس سے بھی بڑا ظلم یہ ھے کہ ، عدل اور برابری کے نام پر ایک عورت کو ڈیلیوری کیس میں اس لئے اسپتال لے کر نہیں جانا کہ دوسرے بھائی کی بیوی کی ڈیلیوری گھر میں نارمل ھوئی تھی تو یہ کوئی نواب کی بچی ھے کہ اس کو اسپتال لے جایا جائے،؟ حالانکہ یہ سب جانتے ھیں کہ یہ کیس ٹو کیس فیصلہ ھوتا ھے،بعض صورتوں میں شوگر کی وجہ سے بچہ زیادہ وزنی ھوتا ھے اور بعض دفعہ اُلٹا ھو جاتا ھے،اور آپریشن لازمی ھوتا ھے،،مگر جب چھوٹے کی بیوی نے گھر جنا ھے تو دبئی والے کی اسپتال کیوں جائے ؟؟ بیوی اور بچہ دونوں مر گئے ، چار بچے بغیر ماں کے رہ گئے،،شوھر کو نئی بیوی مل جائے گی مگر بچوں کو ماں نہیں ملے گی ، یوں محروم نسلوں کا سامان کر دیا گیا،،
اس سے پہلے کہ آگے چلیں چند مثالیں سن لیں تا کہ واضح ھو جائے کہ جس مشترکہ خاندان کی بات کر رھا ھوں وہ کیا بلا ھے ،، نوروز خان کو امارات میں آئے ھوئے 40 سال ھو گئے ھیں، وہ جب امارات میں آیا تھا تو اس کے منہ پر مونچھ داڑھی کے نام پر کوئی بال نہ تھا،آج جب وہ کام سے فارغ ھوا ھے تو اس کے سر پر بال نام کی کوئی مخلوق نہیں پائی جاتی ،،وہ اپنے بھائی کے ساتھ مسئلہ پوچھنے آیا تھا کہ ،اسکی کمپنی کی طرف سے جو ڈیوز ملے ھیں ،ان پر اس کے بھائیوں کا حق ھے یا نہیں؟ بقول اس کے اس نے آج تک جو کمایا وہ باپ کو بھیجا ، وہ 5 بہن بھائی تھے ،کہ والدہ فوت ھوگئیں ،والد کو بولا کہ شادی کر لو مگر اس عمر کی کرو کہ آگے اولاد پیدا نہ ھو مگر والد صاحب نے چھوٹی بیٹی کی عمر کی لڑکی سے شادی کر لی ،اس میں سے 4 بھائی ھیں گویا ٹوٹل 9 بہن بھائی ھوگئے ،ساری زندگی جو کمایا وہ والد صاحب کو دیا،والد صاحب نے جو جائداد بنائی دوسرے بیٹوں کے نام بنائی ،،اس کا بیٹا بیمار ھوا ،کسی نے اسپتال تک لے جانے کی زحمت گوارہ نہیں کی وہ گھر میں ایڑیاں رگڑ کر فوت ھو گیا، باقی بچوں اور بیوی کو یہاں بلایا تو گویا قیامت ھوگئی اور والد سمیت سب کہتے ھیں کہ بےغیرت اور جورو کا غلام ھو گیا ھے، اب نوکری گئی ھے تو وہ کہتے ھیں کہ دیگر 8 بہن بھائیوں میں بھی تقسیم ھو گی ،ورنہ گاؤں میں قدم نہیں رکھ سکتے !
دوسرے جہانزیب خان صاحب ھیں،،وزارت داخلہ کی بہت اھم اور حساس پوسٹ پر ھیں،25 ھزار درھم تنخواہ لیتے ھیں ،مگر جوائنٹ فیملی سسٹم کا شکار ھیں ، مردان اور ھنگو میں کئ ایکڑ بہترین زرعی زمین خریدی ھے،مگر والد نے اپنے نام سے خریدی ھے، والد کے انتقال کے بعد ساری زمین پر بھائیوں نے قبضہ کر لیا ھے ،، اس کے بعد انہوں نے اپنے نام سے زمین لینا شروع کی ،،یہ لے کر واپس آتے اور بھائی قبضہ کر لیتے ، ایک بھائی کرائے کا قاتل اور اغوا برائے تاوان کا مجرم ھے، پیسے دے کر پاکستان میں جہاں چاھو بندہ مروا لو ،میں یہ بات اس کے خلاف ایف آئی آر اور عدالتی کارروائی کی کاپیاں پڑھ کر کہہ رھا ھوں جو انہوں نے مجھے دکھائیں ،، ان پر بھی بھائیوں نے فائرنگ کی اور یہ علاقہ چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ھوئے ،،ایک کوٹھی لی ،،بھائی وھاں بھی پہنچ گئے ،کرائے داروں کو دھمکا کر نکالا اور قبضہ کر لیا، آخر کسی کو اونے پونے داموں بیچ کر جان چھڑائی ،،
میرے دوست ھیں ننکانہ صاحب سے یہ پولیس میں فارماسسسٹ ھیں،،بھائی کو بلا کر جیولری کی دکان ڈال کر دی ،بھائی صاحب ھوٹلوں کے چکر میں 5 لاکھ درھم کی دکان کھا کر اور مزید 1 لاکھ درھم کا قرض لے کر پاکستان بھاگ گیا ، پاکستان گئے تو دونوں چھوٹے بھائیوں نے پکڑ کر تسلی سے مارا اور ابا جی نے بھی مارنے میں اخلاقی مدد فرمائی ان کو اپنے ھی بنائے گئے گھر سے نکال دیا گیا ،رات کو کسی کے گھر بستر مانگ کر رھے اور اگلے دن واپس آگئے، جائداد پہلے ھی ابا جان اپنے نام اور دوسرے بیٹوں کے نام لیتے رھے تھے لہٰذا ان کے پاس اب سوائے نوکری کے کچھ نہیں !!
دبئی کے صاحب ھیں جن کی بیوی کا پرسوں فون تھا،، بدقسمتی سے سب سے بڑے ھیں،مگر اپنی اولاد کے لئے کچھ نہیں ،،بھائیوں کے مکان پہلے بنیں گے پھر اپنا دیکھیں گے، وہ کہہ رھی تھیں زندگی کا بھروسہ نہیں،ابھی صرف چھوٹے کا مکان بنا ھے اور اس نے پہلا کام یہ کیا ھے کہ الگ ھو گیا ھے،، یوں چھوٹے تو شادی کرتے اور الگ ھوتے چلے جائیں گے ،بڑی بہو کو شاید قبر ھی الگ نصیب ھو گی الغرض یہ دس میں سے آٹھ آدمیوں کا فسانہ ھے،نفرتیں اندر ھی اندر کینسر پھوڑے کی طرح اکٹھی ھوتی رھتی ھیں،،اور قرآن کے الفاظ میں،،تحسبُھم جمیعاً و قلوبھم شتیۜ ،،تم ان کو اکٹھا سمجھتے ھو جبکہ ان کے دل دور دور ھیں،
کرنا کیا چاھئے؟
ھونا یہ چاھئے کہ اگر ایک بھائی نے شادی کی ھے تو اسے سب سے پہلے اگر ممکن ھے تو اپنے بیوی بچے اپنے پاس رکھنے چاھییں ،،اگر ممکن نہیں ھے تو اپنی بیوی کو ایک کمرہ الگ سے بنا کر دینا چاھئے،،کمرہ سے مراد کچن ،باتھ مکمل سیٹ ھے،،اور اگر یہ بھی ممکن نہیں ھے تو پھر شادی ھی نہیں کرنی چاھئے،، اکثر شادی گھر کے کام کاج کے لیئے ایک روٹی کپڑۓ کی ملازم خاتون کی ضرورت کے تحت کی جاتی ھے،اور نکاح صرف اس گھر میں اس کے رھنے کا ایک شرعی جواز پیدا کرنے کا نام ھے،،نکاح کے تحت اس کے حقوق کی ادائیگی سرے سے کسی کے ایجنڈے میں شامل ھی نہیں ھوتی،لہذا ایسی کسی چیز کا مطالبہ ایک جرم سے کم نہیں ھوتا، اگر والدین کے ساتھ بہن بھائی چھوٹے ھیں تو اس صورت میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بیوی کے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں،نہ کہ بیوی کو ماں باپ کے ساتھ رکھے ،بظاھر یہ عجیب بات لگتی ھے کہ؎
"والدین کا بیوی کے ساتھ رھنا اور بیوی کا والدین کے ساتھ رھنا "
ایک ھی تو بات ھے؟ جی نہیں ! زمین آسمان کا فرق ھے،،، اسی بس میں ڈرائیور بھی ھوتا ھے اور سواریاں بھی ،،مگر اسٹئیرنگ کا فرق ھوتا ھے،،ماں باپ بیوی کے ساتھ رھیں گے ،مگر آئینی سربراہ کے طور پر اور گھر کو کس طرح چلانا ھے،،بچے کس اسکول میں ڈالنے ھیں اور گھر کے قواعد و ضوابط عورت طے کرے گی ،کیونکہ وہ حالات سے زیادہ واقف ھے،بنسبت والدہ صاحبہ کے جو کہ 50 سال پرانے نظام کی باتیں کرتی اور اسی زمانے کی مثالیں دیتی ھیں ، جب کہ بیوی والدین کے ساتھ رکھنے کا مطلب ھے،،کہ وہ مہمان اداکارہ کے طور پر رھے گی اور قانون اماں جی کا چلے گا ،، حقیقت یہ ھے کہ اماں جی اپنی اینگز کھیل چکی ھیں اور جو کچھ انہوں نے بنانا تھا اپنی اولاد کو وہ بنا چکی ھیں،،اب کریز خالی کر دیں،،اپنے روٹی کپڑے سے مطلب رکھیں اوراللہ اللہ کریں نماز روزہ کریں اور پچھلے بخشائیں !
اگر بیٹے زیادہ ھیں تو امی جان گھر بدلتی رھیں کبھی ایک بیٹے کو حج کا موقع دیں اور کبھی دوسرے کو،مگر اس میں بھی احتیاط کریں ،،ایک بیٹے کے گھر کی باتیں اور کمزوریاں دوسری بہو کو نہ بتائیں اور جاسوس کا کردار ادا نہ کریں ورنہ سب بہو بیٹوں کی نظر سے گر جائیں گی،، بہو اور بیٹوں کو اپنی اولاد کے فیصلے کرنے میں فری ھینڈ دیں ،، جتنی مداخلت کم کریں گی اُتنا ان کی عزت اور احترام میں اضافہ ھو گا،،مرتے دم تک حکومت کرنے کی ھوس گھروں کو برباد کر دیتی ھے،،ساس اپنا رویہ نہیں بدلتی بہوئیں بدلتی رھتی ھے ، مگر ھر آنے والی شوھر کا مطالبہ کرتی ھے اور اجڑ جاتی ھے،،تا آنکہ ساس کے انگوٹھے باندھ کر قبر میں نہ رکھ دیا جائے،،بیوی کے ساتھ اچھے تعلقات عموماً زن مریدی کی دفعہ کے تحت آتے ھیں ،ساس اس معاملے میں بہت حساس ھوتی ھے کہ اس کا بیٹا کہیں بیوی کے "تھلے” نہ لگ جائے ،اور بھول جاتی ھے کہ اس نے جس کو ساری زندگی "تھلے ” لگا کر رکھا ھے وہ بھی کسی ماں نے نو ماہ پیٹ میں رکھا تھا،،
گھریلو معاملات میں جب بھی حالات نازک ھو جائیں والد سے مشورہ کریں وہ صبر کی تلقین کرے گا،اور گھر بسانے کی بات کرے گا،، اور کبھی کبھی سچ کہہ بھی دیتا ھے کہ،،تیری ماں کوئی کم نہیں تھی،،میں نے بھی تو گزارہ کیا ھے !! والدین کے حقوق اور گھریلو ذمہ داریوں میں بیلنس بنا کر رکھنا چاھئے اور وادین کے حقوق کے نام پر کسی کے حقوق کو پائمال نہیں کرنا چاھئے،ظلم کرنا کبھی بھی والدین کے حقوق کا حصہ نہیں رھا،اور عدل کو ترک کرنا کبھی بھی اولاد کے فرائض میں شامل نہیں رھا،،آخر سورہ النساء ھی کو اس حکم کے لئے کیوں چنا گیا کہ”اے ایمان والو! اللہ کے لئے کھڑے ھو جاؤ ڈٹ کر حق کی گواھی کے لئے چاھے وہ اپنے آپ کے خلاف پڑے یا والدین کے خلاف ھو یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ھو؟(النساء 135 )
پھر مزید مسائل اس وقت جنم لیتے ھین جب بچوں کی شادی کا وقت آتا ھے،، خاندان کا ھر فرد یہ چاھتا ھے کہ شادی میں اس کا مشورہ مانا جائے ،اس طرح بھینسوں کی لڑائی میں عموماً درختوں کی تباھی کا سامان ھوتا ھے،جبکہ بچی کی شادی میں بچی،اس کے والد اور ماں کا مشورہ ھونا چاھئے،،چچا لوگ اپنا گھر دیکھیں،، آپ اپنا گھر لیں ،بہن بھائیوں کے حقوق کا خیال رکھیں،،مشکل میں ان کی مدد کریں،ماں باپ کے خرچے برچے کا دھیان رکھیں،بہنوں کی شادی میں انکی مالی مدد کریں،،جائداد بنانے کی بجائے اولاد کو پڑھانے کی طرف توجہ دیں،،معاشرے کو ایک پڑھا لکھا مہذب انسان دے جانا بہتر ھے اس جائداد سے جسکی خاطر بھائی ایک دوسرے کے گلے کاٹیں،،
قاری حنیف ڈار……..

تقــــــــدیر اور ھمــــــــــــــــــاری کـــوشــــش !

تقــــــــدیر اور ھمــــــــــــــــــاری کـــوشــــش !

September 7, 2013 at 6:36pm

پتہ نہیں کس نے کہا تھا اور کہہ کے زندہ بھی رھا ھو گا یا چل دیا ھو گا کہ ” ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا، تو بات پہنچی تیری جوانی تک ،، جب بھی والدین کے حقوق پر جمعے کا خطبہ ھوتا ھے، تو افراتفری کا سماں بنتا ھے،، اور اگلا جمعہ لازماً بیوی کے حقوق پر دینا پڑتا ھے، جب بھی کبھی رحم مادر میں نفع اور نقصان کے طے ھو جانے کی بات ھوتی ھے تو پھر تقدیر پر بحث لازم کرنی پڑتی ھے، سعی و جدوجہد کا رحم مادر میں لکھے گئے کے ساتھ کیا کمبینیشن بنتا ھے،، بندہ پھر ٹانگیں پسار کے ٹوم اینڈ جیری کارٹون دیکھے میکائیل خود ھی بیل بجا کر چیک پکڑا جائے گا کہ اللہ نے تیرے مقدر میں جو لکھا تھا وہ وصول کرلو ! بلکہ ائندہ ایزی پیسہ شاپ سے وصول کر لیا کرو،مجھے تکلیف نہ دیا کرو ! رحم مادر میں لکھے پر ھمارا ایمان ھے ! مگر اس میں خود ھمارا بھی کچھ کردار بنتا ھے، ٹھیک اسی طرح جیسے اللہ نے اولاد تو لکھی ھوتی ھے،مگر اس میں ھمارا بھی کوئی کردار ھوتا ھے ! اللہ پاک نے سورہ المائدہ میں موسی علیہ السلام کی قوم کو بیت المقدس لکھ کر دے دیا تھا،، کتب اللہ لکم” مگر وہ بھی ایسے ھی سمجھے تھے کہ جب ھمارے نام رجسٹری ھو گئی ھے تو پھر ڈر کاہے کا ،، مگر اپنا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ قبضہ تم نے خود لینا ھے،، ان کے انکار پر رجسٹری منسوخ ھو گئی اور چالیس سال کے لئے ان پر بیت المقدس مین داخلہ حرام کر دیا گیا اور 40 سال کے لئے میدان تییہہ میں قید کر دیئے گئے ! آج کل تقدیر اور اپنے کرادر کو سمجھنا بہت آسان ھو گیا ھے، اۓ ٹی ایم مشین جس سے نقد رقم وصولی جاتی ھے اس کی تقدیر یا پروگریمنگ بینک والے کرتے ھیں،، اس تقدیر میں ھمارا کردار بہت اھم ھوتا ھے،، ھم کارڈ مشین کو دیتے ھیں تو وہ تقدیر کے مطابق پاس ورڈ مانگتی ھے،، پاس ورڈ غلط ھو جانے کی صورت میں وہ کارڈ کو پکڑ لیتی ھے،یہ بھی تقدیر کا حصہ ھے،،پہلے سے اس میں یہ ھدایات موجود ھیں قاری حنیف سے اس مشین کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں نہ میری شکل سے نفرت ھے،، اسے کسی کی غلطی پر وھی ری ایکشن دینا تھا جو اس نے میری غلطی پر دیا،،اس کو کہتے ھیں سنۃ اللہ،، جو قوم غلطی کرتی ھے،، اللہ کی آفاقی پروگریمنگ یا تقدیر کے مطابق قوانین حرکت میں آتے ھیں اور وہ قوم ٹھیک اسی جگہ کھڑی ھوتی ھے جہاں آج 57 اسلامی ممالک کھڑے ھیں ! پاس ورڈ ٹھیک ھونے کے بعد اب آپشنز کی ایک فہرست کھلتی ھے،، اب پھر میرا کردار شروع ھو گیا،مجھے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ھے کہ مجھے کیا آپشن لینا ھے،، مگر زیادہ سوچنے پر بھی تقدیر ایکشن میں آتی ھے،، اور وارننگ ملتی ھے کہ سرکار کارڈ پکڑو اور گھر جا کر سوچ کر آؤ،یہاں دوسرے لوگوں کا وقت ضائع مت کرو،، اس لئے کہ وقت سب کی مشترکہ امانت ھے، جو بندہ بیلنس انکوائری کا بٹن دبائے گا،،اب کوئی بھی وظیفہ پڑھ لے نتائج بیلنس شیٹ کی صورت سامنے آئیں گے،، کیش ودڈرال والے آپشنز کبھی نہیں کھلیں گے،، عملی زندگی میں بھی بہت سارے بٹن ھمیں کو دبانے ھوتے ھیں اور وقت پر دبانے ھوتے ھیں،،مگر بعض دفعہ ٹھیک دبا کر بھی جواب ملتا ھے کہ جناب آپ بہت پڑھے لکھے اور عقلمند ھیں مگر ویری سوری آپ کے اکاؤنٹ میں آپ کے حسبِ تمنا بیلنس ھی موجود نہیں،، میں نصیب ھوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ھے ” بینک مشین بے رخی کے ساتھ کارڈ باہر نکال دیتی ھے،مگر اللہ ایسی دعا کو محفوظ فرما لیتا ھے اور آخرت میں اس کا اجر دے گا،جسے دنیا میں پورا نہ کیا گیا ! اب سوال یہ ھے کہ جناب پھر سعی کیوں کی جائے، مقدر کا انتظار کر لیا جائے،، اور نماز روزہ کیوں کیا جائے جبکہ جنت جہنم کے فیصلے ھو چکے ھیں؟؟ تو پہلی بات یہ رھی کہ کیا ھمیں اس تقدیر کا پرنٹ آؤٹ ای میل میں بھیج دیا گیا ھے جو ھم ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر بیٹھے رھیں؟؟ تقدیر مشروط بھی ھوتی ھے کہ اگر اس نے یوں کیا تو پھر یوں ھو گا ورنہ پھر ایسا ھو گا ! اگر فلان ڈاکٹر کے پاس پہنچ گیا تو مزید دس سال زندگی مل جائے گی ورنہ چھٹی،، اگر فلاں دفتر انٹرویو دیا تو رزق مین اضافہ کر دیا جائے گا ورنہ پرانے پر گزارہ کرے،، سورہ نوح میں یہ آپشن ذکر کیا گیا،، و یؤخر کم الی اجلٍ مسمی،، ان اجل اللہ اذا جاء لا یؤخر لو کنتم تعلمون،،اے قوم مجھ پر ایمان لے آؤ تو اللہ تمہاری خطائیں معاف فرما دے گا اور تمہیں مٹانے میں ایک خاص مدت تک تاخیر کر دے گا،، جنت اور جہنم کا مسئلہ کچھ یوں ھے کہ اللہ پاک نے جس شخص کو بھی پیدا فرمایا ،اس کے دو گھر بنائے ایک جنت میں اور ایک جہنم میں،، ھر انسان کو دونوں رستے سجھا دیئے کہ یہ جنت میں تیرے گھر کی طرف جاتا ھے اور یہ جہنم میں تیرے گھر کی طرف جاتا ھے،، فیصلہ تو نے کرنا ھے کہ کہاں پدھارنا ھے ! جنتی کو جنت میں جب کسی دوسرے کی جنت دی جائے گی تو بتایا جائے گا کہ آپ فلاں شخص کی جنت کے وارث بنے ھیں جس نے جہنم کا گھر پسند کیا ھے اور ساتھ اسے وہ شخص جہنم میں دکھایا بھی جائے گا تاکہ مومن کے شکر میں اضافہ ھو،، ( اولئک ھم الوارثون، الذین یرثون الفردوس ھم فیہا خالدون) المومنون،، اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے گا کہ وہ جہنم میں آپ کے مکان کا وارث بنا ھے جس سے آپ بچ گئے ھو ! تو وارث ھمیشہ دوسرے کی جائداد کا ھوتا ھے،، اسی طرح جہنمی کو جنت میں اس کا گھر دکھایا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ تم نے اپنی غلطی سے اپنا وہ گھر کھو دیا،،جس سے کافر کی حسرت میں اضافہ ھو گا،، تو جناب جب ھمیں تقدیر کے معاملے میں لاعلم رکھا گیا ھے تو اسی لئے رکھا گیا ھے کہ ھم خیر اور بھلے کی امید رکھتے ھوئے اپنی سعی و کوشش کا رخ صحیح سمت رکھیں،، اور اللہ پر بھروسہ رکھیں کہ وہ ھماری سعی کو رائیگاں نہیں کرے گا

کیا ھم دلیل کی جنگ ھار چکے ھیں؟

کیا ھم دلیل کی جنگ ھار چکے ھیں؟

March 6, 2013 at 3:25pm
حق اپنا وجود ھمیشہ دلیل سے ثابت کرتا اور باطل سے اس کے وجود کی دلیل طلب کرتا ھے ،، آسمانی کتابیں نازل ھی اسی مقصد سے کی جاتی ھیں اور انبیاء کو دلیل دینا سکھایا جاتا ھے ،، جو امت آسمانی کتاب کھو دیتی ھے وہ حقِ تبلیغ بھی کھو دیتی ھے ، کیونکہ اس کے پاس آلہ تبلیغ نہیں ھوتا ،،اسی وجہ سے مسلمان آج پوری دنیا میں بستر اٹھائے پھرتے ھیں جبکہ دیگر کسی مذھب کو تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے ،، باطل چونکہ  بے دلیل ھوتا ھے ،لہٰذا وہ اپنی بنیاد جبر اور ظلم پر رکھتا ھے ،یہ سورہ البروج میں بہت واضح طور پر سمجھایا گیا ھے ،کہ باطل کو کیوں آگ کی خندقوں کی ضرورت محسوس ھوئی اور کیوں عتبہ بلال کو تپتی زمین پر لٹاتا تھا ،کیونکہ عتبہ ،ربیعہ اور ابو جہل کے پاس دلیل کی طاقت نہیں تھی ، قرآن حکیم میں 400 کے لگ بھگ آیات اوامر اور نواھی یعنی قانون کی ھیں باقی سارا قرآن دلائل سے بھرا پڑا ھے،جو وجودِ باری تعالی کے علاوہ توحید کے دلائل بھی دیتا اور کفار کو چیلنچ دیتا ھے ،کہ ھاتوا برھانکم ، لاؤ اپنے دلائل اگر تم سچے ھو !! آج اھلِ سنت اکثریت میں ھونے کے باوجود دلیل کی قوت سے محروم لگتے ھیں ،اور دلیل کی بجائے اے ۔کے 47 سے کام چلانے کی کوشش کر رھے ھیں- حق اپنے اندر زبردست  کشش اور طاقتور پیغام رکھتا ھے ،،،اسے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے لوگوں تک رسائی اور وقت چاھئے،  یہ ھی وہ دو فائدے تھے تو امام الانبیاء نے حدیبیہ کے میدان میں اپنے ھاتھ سے محمد ﷺ رسول اللہ کاٹ کر محمد بن عبد اللہ لکھ کر حاصل کیے تھے، لوگوں تک بلا روک ٹوک رسائی اور وقت !! صحابہؓ کی جزباتیت کے باوجود اللہ نے اس سہولت کو فتح مبین قرار دیا ، اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہ کام جو 20 سال میں نہیں ھوا تھا وہ دو سال میں ھو گیا  اور لوگ فوج در فوج اسلام  میں داخل ھوئے، حدیبیہ میں اگر 1400 تھے تو 2 سال بعد 10،000 ھزار کا ایک لشکر مکہ میں فاتحانہ داخل ھو رھا تھا ،، کیا یہ باتیں صرف ممبر پر کہنے کو رہ گئی ھیں؟ عملی زندگی میں اسلام اپنا پیغام اور دلیل کھو چکا ھے؟ گالی دینے والے کے پاس کوئی دلیل نہیں اس لئے وہ کسی کے سامنے گالی دیتا بھی نہیں ،اور نہ ھی کوئی نفیس اور سلیم الطبع شخص گالی کو ثواب سمجھ سکتا ھے ،چاھے اس کا تعلق کسی بھی مذھب کے ساتھ ھو ،، الحمد للہ میں نے اپنی 52 سالہ زندگی میں ایک گالی بھی کسی شیعہ سے نہیں سنی ، شاید  خوش قسمتی سے میرا پالا سدا بہترین انسانوں سے ھی پڑا ، باقی میراثی ،اور بھانڈ نسل کا مولوی یا ذاکر دونوں طرف پائے جا سکتے ھیں، اور میراثی  اور گھٹیا انسان تو اپنی ماں ،بہن ،بیوی ،اور بیٹی ،بیٹے کو بھی گالیاں دیتے  ھیں ،،کسی کو دیں تو کیا گلہ ھے ،انکی وجہ سے کسی کمیونٹی کے قتلِ عام کا فتوی کوئی جاھل ھی دے سکتا ھے ،بریلوی میراثی ، دیوبندیوں کی ماں بہن منبر ِرسول پر ایک کر دیتا ھے اور اس کا وضو بھی نہیں ٹوٹتا ،، دیوبندی میراثی ،، بریلویوں کی ماں بہن کو گندی گالیاں دیتا اور ساتھ کہتا ھے بلند آواز سے کہوووووو سبحان اللہ ،، اصل میں دین معزز نسلوں اور قوموں سے نکل کر میراثیوں اور نیچ ذاتوں کے ھاتھ لگ گیا ھے ،اور رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ھے ،،اللہ پاک نے قومیں قبیلے بنائے ھیں تو انکی کچھ  خصوصیات بھی الگ الگ رکھی ھیں ، جسطرح ،چونسے اور سندھڑی کا فرق ھے ،،   بریلوی  دلیل کی جنگ اسی دن ھار گئے تھے جس دن انہوں نے ممتاز قادری کو اپنا ھیرو بنا لیا تھا ،اس دن انہوں نے اپنے قتلِ عام کا لائسنس طالبان کو دے دیا تھا کہ ،جس کو تم کافر سمجھو اسے مارنے کا تمہیں ای طرح حق ھے جسطرح ممتاز قادری کو سلمان تأثیر کو مارنے کا حق تھا ،، بس اس دن کے بعد پھر داتا صاحب اور پاک پتں پر انہوں نے مشرکوں کو مار کر عشقِ نبیﷺ کا حق ادا کیا ، تعجب کی بات یہ ھے کہ جس قانون کے دفاع میں سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا ،اس قانون پر خود ان لوگوں کو اعتبار نہیں  ،اگر اعتبار تھا اور وہ قانون اتنا ھی بے غبار تھا تو تم لوگوں نے سلمان کے خلاف 295،سی کے تحت مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا ؟ اور  اگر اعتبار نہیں تھا تو اسکی خاطر بندہ کیوں مارا؟؟ کوئی عقلی دلیل ھے تم لوگوں کے پاس؟ اسلام صراط مستقیم ھے اور  بھول بھلیوں سے نکلنے کا واحد رستہ ھے ،،اس کے باھر جس نے بھی رستہ تلاش کیا ھمیشہ بند گلی پہ جا کر کھڑا ھوگیا ، اور آج سارے فرقے بند گلی میں کھڑے ھیں ،کسی کے پاس حل نہیں ،،حل قرآن میں موجود ھے مگر ان سارے فرقوں کا قرآن سے کوئی لینا دینا نہیں سارے قرآن کو اپنے پیچھے چلاتے ھیں قرآن کے پیچھے چلنے اور قرآن کو امام بنانے کا کسی کا ارادہ نہیں ،، موجودہ حالات میں سے اگر نکلنا ھے تو سورہ توبہ میں ان تمام مسالک کے اختلافات کا حل موجود ھے ،،فھل من مدکر؟ اب جب عملماء آپس کے مسائل کو مجمعوں میں لے گئے اور علم کی بجائے کثرت اور طاقت کو  دلیل بنا لیا تو پھر ایسا ھوتا ھے کہ انسان حالات پیدا تو خود کرتا ھے مگر پھر حالات کا یرغمال بن جاتا ھے ،جسطرح ھاکس بے پر ڈوبنے والا  اپنی مرضی سے سمندر میں اترتا ھے ،،مگر پھر اپنی مرضی سے نکل نہیں سکتا ، سمندر کا اسیر ھوجاتا ھے ،،اسی طرح  علماء آج حالات کے اسیر ھیں اور دم سادھ کے اور جان بچا کے بیٹھے ھیں ،، اور مسلک کو بارودی مولویوں کے سپرد کر دیا ھے ، جس نے بھی فتوی بدلنے کی کوشش کی مار دیا گیا ، میرے پاس اس کی عملی مثالیں موجود ھیں ،، عام مسلمانوں سے گزارش ھے کہ ان قاتلوں کے لئے جواز نہ تراشیں اور نہ ان کا دفاع کریں ،، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ھینڈ دیں تا کہ وہ ان سے نمٹیں ، سیاسی رابطوں سے ان کو تحفظ فراھم نہ کریں ،  اسی میں ھر فرقے کی بہتری ھ
ے اور آئندہ نسلوں کی بقا اور ملکی سلامتی کا انحصار ھے، ورنہ تیری داستاں بھی نہ ھو گی داستانوں میں !

انسان کی فطری کمزوری

ھر انسان کی ایک کمزوری ھوتی ھے اور وہ ھی اس کا اصل امتحان ھوتا ھے،، لوگ تیاری انگلش کی کرتے رھتے ھیں اور فیل فزکس میں ھو جاتے ھیں،، اللہ کا خاص الخاص فضل ھے اس شخص پر جسے کسی کی محبت اندھا نہ کر سکے اور وہ اپنے ھر محب کو محبت کی … Read more