پانچ نمازیں اور قرآن و سنت ۔

میرے نزدیک اسلامی شریعت کے سورس دو ہیں ، ایک اللہ کا حکم یعنی کتاب اللہ ، دوسرا نبی کریم ﷺ کا حکم یا نبی کریم ﷺ کا وہ عمل جو تسلسل کے ساتھ بذریعہ صحابہ امت تک منتقل ہوا،،
یہ بات میں ہوا میں نہیں کر رہا ،، بلکہ یہ دونوں ذرائع قرآن نے بھی بیان کیئے ہیں اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ سلم نے بھی اپنی مختلف احادیث میں اس کا حکم دیا ،،
سورہ الاحقاف کی آیت 4 میں اللہ تعالی مشرکینِ مکہ سے کہتے ہیں کہ ایتونی ( 1- بکتاب من قبل ھذا ۔ او ( 2-اثارۃ من علم ان کنتم صادقین)
ان سے کہیں کہ لے آؤ اس قرآن سے پہلے کی کسی کتاب کو ،، یا پھر اس حکم کا کوئی عملی ثبوت یعنی تواتر ،، جو اس کتاب کے نزول سے لے کر اب تک عملی طور پر جاری و ساری ہو ،،
امام ابوحنیفہ نے کتاب الآثار میں احادیث سے نہیں بلکہ صحابہ کرام کے عملی تواتر سے سنت کو ثابت کیا ہے ،،، اور سنت وہی ہے جو صحابہ کے عمل سے ثابت ہو، یعنی نبئی کریم ﷺ کے وصال کے سو سال کے بعد میں دریافت شدہ کوئی روایت کتنی بھی صحیح ہو وہ قول رسولﷺ تو ہے مگر سنت نہیں ،، کیوں کہ آخری صحابی ۱۰۰ ھجری میں فوت ہو گئے تھے ،، جس طرح عیسی علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے، اللہ کا قول ہونے کے باوجود یہ اللہ کی سنت نہیں کیونکہ یہ عمل ان کے بعد جاری نہیں ہوا ، ایک واقعہ یا معجزہ بن کر رہ گیا، سنت یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثی ،، اے نوع انسانیت ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت کے ذریعے پیدا کیا ہے ،، یہی سنت اللہ ہے، یہی مرد و عورت سے پیدا ہونا ہی الہی تواتر ہے ،،
نماز ایک ایسا عمل ہے جو رسول اللہ ﷺ نے عملی طور پر جاری فرمایا ، اور اس کے اوقات اور طریقہ کار بھی متعین فرمایا ،،
اللہ تعالی نے سورہ النور میں فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور اس کی تفصیلات کے لئے رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ،،
وأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة وأطيعوا الرسول لعلكم ترحمون،( النور-56)
نبی کریم ﷺ نے نماز کے اوقات جبرائیل امین سے سیکھے، جس نے باقاعدہ نماز ان اوقات میں پڑھا کر رسول اللہ ﷺ کو فرمایا کہ اب ان اوقات کو لازم پکڑیں ،، ظہر پہلے وقت میں بھی پڑھائی پھر عصر پہلے وقت میں پڑھائی، اگلے دن جو ظہر آخری وقت میں پڑھائی اور یہ تقریبا وہی وقت تھا جس گزرے کل میں عصر پڑہائی گئی تھی، گویا عصر کا پہلا وقت ظہر کا آخری وقت ہے، یہی معاملہ مغرب و عشاء کے ساتھ بھی ہوا کہ گزرے کل جو مغرب کا آخری وقت تھا اس وقت عشاء کی نماز پڑھائی گویا جہاں نماز مغرب کا آخری وقت تھا وہ عشاء کا ابتدائی وقت بھی تھا،،
قرآن کریم میں اجمالی اوقاتِ صلوۃ ،،
1- أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (78)
نماز قائم کیجئے سورج کے(نصف النہار کے بعد) غروب کی جانب مائل ہو جانے سے لے کر رات کے خوب گہرے ہو جانے تک ،،
دلوک ریورس میں نہیں ہوتا ،مشرق سے سورج چلا ہے تو دلوک ہمیشہ مغرب کی جانب ہی ہو گا ، سورج میں ریورس گیئر بھی نہیں اور بیک اسپیس بھی نہیں، شرق سے چڑھتا سورج نصف النہار تک پہنچ کر مغرب کی سمت جھکے گا، وہ واہس مشرق کی سمت دلوک نہیں کر سکتا، یہاں سے نماز شروع ہوئی ہے یعنی ظہر ، عصر، مغرب اور رات کے خوب گہرا ہونے یعنی عشاء تک چار نمازیں ہو گئین ،، پانچویں و قرآن الفجر، فجر کی وہ نماز جس میں قرآن کی قرأت دوسری نمازوں کی نسبت زیادہ کی جاتی ہے جیسا کہ روایات میں ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عموما فجر مین ساٹھ آیات یعنی تقریبا چھ رکوع تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔
عن أبي مسعود عقبة بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” أتاني جُبْرَائِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ حِينَ زَالَتْ فَصَلَّى بِيَ الظُّهْرَ”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل دلوک الشمس کے وقت تشریف لائے اور مجھے ظہر پڑہائی ۔
عن جابر بن عبد الله، قال: دعوت نبيّ الله صلى الله عليه وسلم ومن شاء من أصحابه، فطعموا عندي، ثم خرجوا حين زالت الشمس، فخرج النبيّ صلى الله عليه وسلم فقال: ” اخْرُجْ يا أبا بَكْرٍ قَدْ دَلَكَتِ الشَّمْسُ”.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے کچھ اصحاب کی دعوت کی، کھانا کھانے کے بعد وہ سورج کے زوال پذیر ہونے کے بعد میرے یہاں سے نکلے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ” اے ابوبکر نکلو سورج دلوک پذیر ہو گیا ہے "
2- وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ (114) ھود
اور نماز قائم کیجئے دن کے اطراف میں اور رات کے قریبی اوقات میں
اگر مراد صبح یعنی طلوع شمس سے لے کر غروب شمس ہوتا تو مجرد ” طرفا” کہا جاتا ،، طرفی دو سے زیادہ ہے،، دن کے دونوں کناروں پر چار کنارے ہیں ، ایک کنارہ رات والی طرف ہے دوسرا دن والی طرف، جس طرح پاکستان اور افغانستان کی چمن بارڈر پر ایک طرف اسپن بولدک ہے تو دوسری جانب چمن ہے رات والی سائڈ پر فجر کی نماز ہے، پھر سورج طلوع ہونے سے دن اگلی سمت ظہر ہے، پھر دن کا دوسرا سرا غروب الشمس ہے تو آخری سرے پر غروب سے پہلےعصر ہے، جس کے بعد دن کے غروب الشمس کے ساتھ ہی دوسری جانب مغرب کی نماز ہے، دن شروع ہونے سے پہلےفجر، شروع ہونے کے بعد ظہر، دن ختم ہونے سے پہلے عصر اور ختم ہونے کے بعد مغرب،، اور زلفا من اللیل رات کے قریبی حصے میں عشاء ، ہم زلف کا لفظ بھی یہیں سے نکلا ہے یعنی کسی شخص کا غیر ہونے کے باوجود کسی رشتے کی وجہ سے قریب ہو جانا ،،
3- فاصبر علی ما یقولون و سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس،( فجر) و قبل الغروب( الظہر و العصر) و من اللیل فسبحہ( المغرب والعشاء) و ادبار السجود ،،ق،39-40
یعنی نمازوں کے اختتام پر بھی اللہ کی تسبیح کے ساتھ جڑے رہنا، جیسا کہ سورہ الجمعہ میں ذکر کی طرف بلایا اور نماز کے اختتام کے بعد ذکر کی تلقین کے ساتھ ہی لوٹا دیا، واذکرو اللہ لعلکم تتقون الجمعہ .
سورہ النور میں حکم ،،
سورہ النور میں نماز کے اوقات زیر بحث نہیں بلکہ کسی کے ہاں داخلے کے اوقات بیان کئے گئے ہیں ،،
گھڑیاں تو تھیں نہیں لہذا اتنے بجے سے اتنے بجے تک نہیں کہا جا سکتا تھا بلکہ کچھ مواقع کا تذکرہ کر دیا گیا، جس طرح گوگل پر کوئی ایڈریس لیا یا دیا جائے تو کوئی اہم لوکیشن دینی پڑتی ہے، جیسے جی پی او کے قریب، الشفاء اسپتال کے قریب یا گیگا مول کے بالمقابل وغیرہ، اس موقع پر ان اہم مقامات سے ہمین کچھ لینا دینا نہیں ہوتا کہ بندہ گیگا مول کی اہمیت پر خطبہ دینا شروع کر دے ، عرب وقت اسی طرح بتاتے تھے، جیسے اللہ پاک نے بھی فرمایا کہ قیامت پلک جھپکتے آ جائے گی، دودھ دوہتے وقت تھن کو نچوڑ کر پھر دوھنے کے لئے دبا کر ایک سیکنڈ کے لئے چھوڑ کر پھر دبانا پڑتا ہے، ما لھا من فواق کا مطلب ہے کہ اتنا وقت بھی کسی کو نہیں دیا جائے گا جتنا دودھ نکالنے والی تھین کو دوبارہ بھرنے کا موقع دیتی ہے، جیسے کسی نے وصیت کی کہ میری قبر پر اتنی دیر کھڑا ہونا جتنا ایک اونٹ ذبح کر کے بانٹا جاتا ہے، اسی طرح سورہ النور میں فرمایا کہ ،،
اے ایمان والو تمہارے غلاموں اور بالغ لڑکوں کو تمہارے پاس آنے کے لئے تین مواقع پر اجازت لینی ہو گی،، قریب ترین لوکیشن
1- من قبلِ صلوۃ الفجر،، فجر کی نماز سے پہلے ،،
2- و حین تضعون ثیابکم من الظھیرۃ، جب تم کپڑے اتار دیتے ہو ظہر کے وقت ،، نماز کا ذکر اس لئے نہیں کیا کیونکہ کچھ لوگ ظہر سے پہلے سوتے تھے اور اتھ کر نماز پڑھتے تھے، یعنی جو بارہ بجے سو کر دو ڈھائی بجے اٹھ کر ظہر پڑھتے ہیں، جبکہ کچھ بارہ ساڑھے بارہ بجے پہلے وقت میں ظہر پڑھ کر پھر عصر تک سو جاتے ہیں ، لہذا یہاں ظہر کی بجائے ظہیرہ یعنی ظہر کے پہلے حصے کا تذکرہ کیا، مگر علت کپڑے اتارنا بیان کی کیونکہ پرانے زمانے میں لوگ کپڑے اتار کر سوتے تھے اور کوئی دھوتی وغیرہ لپیٹ لیتے تھے جو بے احتیاطی کی وجہ سے کھل بھی جاتی تھی، اگر کپڑے اتارنے کا رواج نہ رہا ہو اور لوگ نارمل لباس میں سوتے ہوں تو آنے جانے میں کوئی حرج نہیں ،،
3- و من بعد صلاۃ العشاء ،، اور عشاء کی نماز کے بعد، ثلاث عورات لکم ،، تین اوقات ہیں جو تمہارے لئے غیر محفوظ ہیں ، ویقولون ان بیوتنا عورۃ وما ھی بعورہ ،، یہ کہتے ہیں کہ ہمیں میدان جنگ سے گھر جانے دیجئے ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں جبکہ ان کے گھر غیر محفوظ نہیں ہیں ، بلکہ یہ بس فرار کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں ،( سورہ الاحزاب 13)
قرآن ، رسول ﷺ اور سنتِ رسول ،،
اللہ تعالی نے صرف کتاب ہی نہیں بھیجی بلکہ ساتھ کتاب پر عمل سکھانے والا معلم بھی بھیجا ہے ،، جن کو قرآن کے اپنے قبیلے کی زبان میں نازل ہونے کے باوجود اس کتاب کی تفہیم اور تبیان و تفسیر کے لئے اللہ تعالی کی مدد کی ضرورت تھی ،، جیسا کہ اللہ تعالی نے سورہ القیامہ میں ارشاد فرمایا کہ آپ کتاب کی تنزیل یعنی ڈاؤن لؤڈنگ کے دوران یاد کرنے کی مشقت مت کیجئے ، تیز تیز زبان چلا کر یاد کرنے کی کوشش مت کیجئے، بس ہماری وحی کے دوران اس پر توجہ قائم رکھیئے اس قرآن کو آپ کے سینے میں جمع کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے اور پھر اس کتاب کا تبیان بھی ہمارے ذمے ہے،
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (17) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (18) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (19) القیامۃ
اسی طرح قریش کی زبان میں نزول کے باوجود وہ لوگ محتاج تھے کہ نبی کریم ﷺ ان کو اس کتاب کی حکمت سے آگاہ کریں ،
ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ و یزکیھم و "” یعلمھم الکتاب والحکمہ ،، ” الجمعہ ،،
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (44) النحل
اور ہم نے آپ کی طرف الذکر یعنی قرآن نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کو کھول کر بتائیں کہ ان کے لئے کیا حکم نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ اس پر تفکر کریں ،،
لہذا رسول اللہ ﷺ نے جو آیت کا جو مطلب لیا وہ وھبی ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے سکھایا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو سکھا دیا انہوں نے اس کے خلاف اپنی اپچ نہیں لڑائی اور اس تبیان کو ہی فائنل سمجھا ،،
نمازوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا عمل اور اس کا تواتر ،،
نمازِ ظہر کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا عمل ،،
حضرت ابو ھریرہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظھر کی نماز دو رکعت پڑھا دی، جس پر ایک صحابی ذوالیدین نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا نماز مختصر ہو گئی ہے یا آپﷺ بھول گئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے اصحاب سے پوچھا کہ ذوالیدین ٹھیک کہہ رہا ہے؟ اصحاب نے سر ہاں میں ہلا کر تصدیق کر دی، رسول اللہ ﷺ نے بقیہ دو رکعتیں پڑھا کر قعدہ کیا التحیات پڑھ کر سلام پھیرا پھر دو سجدے کئے اور التحیات پڑھ کر دوبارہ دونوں طرف سلام پھیر کر نماز مکمل کر دیں ،
( متفق علیہ )
نماز عصر اور رسول اللہ ﷺ کا عمل ،،
رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احزاب سے فارغ ہوتے ہی صحابہ کو ہتھیار اتارے بغیر بنی قریظہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم نے عصر کی نماز بنو قریظہ میں پڑھنی ہے، ہمیں رستے میں عصر کا وقت ہو گیا تو کچھ نے عصر پڑھ لی اور کچھ نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ کے یہاں پہنچ کر ہی عصر پڑھیں گے کیونکہ ہمیں ایسا ہی حکم دیا گیا تھا،، رسول اللہ ﷺ کو آپس کے اس اختلاف کے بارے میں بتایا گیا تو آپ نے دونوں جماعتوں کے عمل کو درست کہا اور فرمایا کہ جنہوں نے رستے میں پڑھ لی انہوں نے میرے حکم کو سمجھ لیا اور جنہوں نے قبیلے میں پہنچ کر پڑھی ان کے لئے دگنا اجر ہے،
متفق علیہ ،،
اب آتے ہیں سنت اور بدعت کی طرف ،،
جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی میں پانچ نمازیں جاری کر کے تشریف لے گئے تھے، اس کے بعد خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے اس سنت کو نہ صرف قائم دائم رکھا بلکہ یہ پانچ نمازیں مجاہدین کے لشکروں اور اسلامی حکومتوں کے ذریعے امصار عالم تک پہنچیں ، لوگ شرق و غرب سے حج و عمرے پر تشریف لاتے تو یہی پانچ نمازیں پڑھ کر سیکھ کر جاتے ،، کبھی کہیں ثابت نہیں کہ پوری دنیا میں کسی بھی اسلامی ملک یا علاقے میں تین نمازیں پڑھی گئی ہوں ، تین نمازوں کو سنت کہنے والوں کے پاس نہ تو تین کے سنت ہونے کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی پانچ نمازوں کے بدعت ہونے کا کوئی ثبوت ہے، ان ھم الا یظنون و ان ھم الا یخرصون ،، بدعت سنت پر اضافہ ہوتی ہے، کبھی سنت کو مٹا نہیں سکتی ،، کمال یہ ہے کہ ان کے پاس یہ ثبوت بھی نہیں کہ تین نمازیں کس نے پڑھائیں ،کب تک پڑہائیں ، جب تو گاڑیاں ریس لگاتی ہیں تو پہلے پچھلے والی گاڑی اگلی گاڑی کے برابر آتی ہے پھر اس کو پاس کر کے آگے نکلتی ہے، تین کی سنت کب تک جاری رہی، پھر پانچ نمازیں شروع ہوئیں تو کب تک تین نمازوں کے پیچھے رہیں، کس صدی میں متوازی چلتی رہیں، مثلا سعودیہ میں تین چل رہی تھیں تو غرناطہ میں پانچ چل رہی تھیں،، عراق میں تین اور بر صغیر میں پانچ چلتی رہیں ،، یہانتک کہ تین کی سنت فوت ہو گئی اور پانچ کی بدعت پوری دنیا پر غالب آ گئی جبکہ رسول اللہ ﷺ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے ہیں کہ کتاب اللہ اور میری سنت قیامت تک چلتی رہیں گی یہانتک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گی ، گیارہویں والے کا دنبہ بدعت ہے مگر وہ قربانی کی سنت کو ختم نہیں کر سکا، ہمارے یہاں پتھروں اور قبروں کے طواف ہوتے ہیں مگر یہ بدعتیں بیت اللہ کے طواف کو ختم نہیں کر سکیں ،، پھر روز پڑھی جانے والی نماز کی تین نمازوں والی سنت کیسے ختم ہو گئی ؟؟ یہ امت پہلے دن سے پانچ نمازیں لے کر چلی ہے، اور قیامت تک یہی پانچ نمازیں جاری رہیں گی ،، ہمارے لئے پانچ نمازوں کی متواتر سنت کافی دلیل ہے، ثابت تین کی بدعت والوں نے کرنا ہے تین کو بھی اور پانچ کی عدم موجودگی کو بھی