علم کی تقسیم اور اس کی تباہ کاریاں

اللہ پاک نے جب انسان کو پیدا فرمانے کا اعلان فرمایا تو فرشتوں نے عرض کیا کہ مالک کیا ھم سے عبادت میں کوئی کوتاھی ھو گئ  جو نئی تخلیق کی ضرورت پڑی ،ھم صبح شام آپکی تسبیح و تحمید کر تو رھے ھیں، ارشاد باری تعالی ھوا کہ میں وہ جانتا ھوں جو تم نہیں جانے،، انسان جب بن گیا تو وقت آیا کہ فرشتوں کو ان کے سوال کا عملی جواب بھی دیا جائے کہ نئی مخلوق میں کچھ ایسے فنکشن ھیں جو سابقہ مخلوقات میں نہیں تھے، تخلیق کا یہ نیا شاہکار اپنے اندر پوری کائنات رکھتا تھا،، زمین پر خلیفہ چاھئے تو اُسے زمین پر قابو پانے والا اور قبضہ جمانے والی صلاحیتوں سے مالا مال ھو نا چاھئے تھا، علم الاسماء کی کلاس لگی اور فزکس کیمسٹری سب کو ھی پڑھائی گئ مگر،فرشتوں کے تو وہ سر سے ھی گزر گئ اللہ پاک نے فرشتوں سے سوال کیا کہ جوچیزیں اور نام آپ کو پڑھائے گئے تھے ذرا سنا دیجئے، فرشتوں نے سبحان اللہ و بحمدہ سنایا اور کہا کہ ھمیں تو سوائے اس کے جو آپ نے پہلے پڑھایا تھا اور کچھ یاد نہیں- اس پر خالق نے آدم علیہ السلام کی طرف متوجہ ھو کر فرمایا اے آدم ذرا سنا دے ان چیزوں کے نام اور ان کے خواص ان فرشتوں کو، اور آدم علیہ السلام نے سارے فارمولے اور ساری ویلینسیاں سنا دیں،، بَیس اور ایسڈ بھی بتا دیا،، اب اللہ پاک نے فخریہ انداز میں فرشتوں سے خطاب فرمایا کہ میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ جو میں جانتا ھوں وہ تم نہیں جانتے؟ حضرات جو علم اللہ پاک نے سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو سکھایا تھا وہ وھی مظلوم علم ھے جسے آج کل علماء یہودی علم،کافر علم، دنیاوی علم کہتے اورطرح طرح سے اس کی اھانت اور مخالفت کرتے ھیں،، حالانکہ یہ اس دوسرے علم سے پہلے سکھایا گیا جس پر ھمارے علماء برا ناز کرتے ھیں اور اسے مقدس علم کہتے ھیں،، اور اسی علم الاسماء کی وجہ سے آدم علیہ السلام نے  فرشتوں پراپنی فوقیت ثابت کی تھی ، فرشتوں اور آدم علیہ السلام کے درمیان مقابلہ دعائے قنوت سنانے یا چھ کلمے سنانے کا نہیں ھوا تھا،نہ غسل اور وضو کے فرض پوچھے گئے تھے اور نہ نماز کے ارکان و شرائط !

علم کی دوسری قسم وہ تھی،جسے حلال وحرام کا علم کہتے ھیں جسے شریعت کہتے ھیں،، اور یہ مقابلہ اب آدم علیہ السلام اور شیطان کے درمیان تھا،، اور ستم ظریفی دیکھئے کہ سائنسدان آدم علیہ السلام شریعت کے پرچے میں چاروں شانے چت ھو گئے،، گویا جس علم میں آدم جیت گئے وہ ھو گیا منحوس ( ھمارے علماء کے نزدیک) اور جس میں ھار گئے آج تک اس کا نتیجہ بدلنے کی سعی کر رھے ھیں ھم لوگ ! اللہ پاک نے واضح کر دیا کہ آدم آپ سائنس کے زور پر علم الاسماء کے زور پر زمین پر قبضہ تو کر سکتے ھو،مگر اس زمین کو عدل و اںصاف سے چلانے کے لئے ایک اور علم کی ضرورت ھے،جسے علم الہدی کہتے ھیں اور ڈاؤن لؤڈ کرنا پڑے گا آپ کو( عربی میں ڈاؤن لوڈ کے خانے میں تنزیل لکھا ھوتا ھے) اب اس شیطان کے مقابلے کے لئے ھر زمانے میں آپ کو ھدایات بھیجی جاتی رھیں گی اور اگر آپ ان اپ ڈیٹس کو انسٹالٹ کرتے رھے تو تمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں لا خوفٓ علیھم ولا ھم یحزنون !

ان دونوں علوم کو ابن خلدون نے کچھ یوں تقسیم کیا ھے کہ ” علم کی دو قسمیں ھیں جو دونوں مل کر ھی العلم کہلاتی ھیں،،ان میں سے ایک قسم لولا لنگڑا علم ھو گا، العلم نہیں ھوگا،جس طرح انسان جسم اور روح کے مجموعے کا نام ھے،ان میں سے ایک بھی رخصت ھو جائے تو لامحالہ دوسرا اپنی اھمیت کھو دیتا ھے، العلمُ علمان،علم الابدان و علمُ الادیان،، العلم دو علم ھیں دی نالج آف فزیکل سائنسیز اینڈ دی  نالج آف نارمیٹو سائنسیز !! دونوں علوم اللہ کے تعلیم کردہ اور مقدس ھیں ایک انسان کے اندر رکھ دیا ھے،جو اس پہ محنت کرتا ھے ،بلا تفریق دین و ملت وہ اس میں مہارت حاصل کرتا ھے،کیونکہ وہ چاھے کسی مذھب سے تعلق رکھتا ھو وہ بیٹا آدم علیہ السلام کا ھی ھے اور اس مٹی کا حصہ ھے جس میں علم الاسماء ودیعت کیا گیا تھا،،اس علم کے نتائج کو اچھائی اور برائی دونوں کے لئے برابر استعمال کیا جا سکتا ھے،جس طرح اللہ کی تخلیق کردہ دیکھنے، سننے ،بولنے اور سوچنے،پلاننگ کرنے اور عمل کرنے کی صلاحیتوں کو منفی یا مثبت انداز میں استعمال کیا جا سکتا ھے،اگر اللہ ان صلاحیتوں کو پیدا کر کے ان کے منفی استعمال کا الزام اپنے سر نہیں لیتا،اسی طرح سائنسی ایجادات کے منفی استعمال کی بنیاد پر سائنسی علوم کے تقدس کو ختم نہیں کیا جا سکتا، جن لائٹوں سے روم کے جؤا خانے اور کسینو دمک رھے ھیں ،اسی کمپنی کی لائٹوں سے مکی حرم اور مدنی حرم جگ مگ کر رھے ھیں،، جس ساؤنڈ سسٹم سے جاز اور ڈسکو چل رھے ھیں اسی ساؤںڈ سسٹم سے حرمین کی نمازیں اور تراویح کی روح پرور صدائیں ساری دنیا سنتی ھے !

جب بھی کوئی تقسیم جنم لیتی ھے چاھے وہ ملکوں مین ھو یا گھروں میں ھو یا علمی اصطلاحات میں ھو وہ ضرور اپنے سائڈ افیکٹس دکھاتی ھے، علم کی تقسیم کا منظر آپ دیکھ چکے،مگر اس کی بنیاد کس نے ڈالی وہ پہلا مجرم کون تھا ؟ کیونکہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ان دونوں علوم کو دینی علوم ھی کہتے ھیں،، نبی کریمؐ نے جب مکے کے قیدیوں سے یہ معاھدہ کیا کہ ان میں سے پڑھے لکھے قیدی اگر ھمارے دس آدمیوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں تو ان سے فدیہ نہیں لیا جائے گا تو وہ کونسا علم تھا؟ جامعہ بنوریہ والا تو خود حضورؐ کے پاس تھا،، کیا مکے کے مشرکوں نے مسلمان طالبِ علموں کو حدیث کی قسمیں اور اصطلاحات سکھانی تھی یا بغدادی قاعدہ پڑھانا تھا؟؟؟ وہ کون سا علم تھا جس سے مدینے والوں کے سینے منور کرنے کے لئے نبیؐ معاھدہ کر کے اپنی موجودگی کے باوجود کافروں سے وہ علم اپنی امت کو سکھانا چاھتے تھے؟؟ وہ علم جو نبی سکھانے کا معاھدہ کریں ناپاک کیسے ھو گیا ؟ اگر مکے کا مشرک پڑھائے تو نبیؐ کو قبول،مگر مسٹر جارج پڑھائے تو مفتی ایکس وائی زیڈ کو نامنظور ؟ الغرض اللہ کو بھی علم الاسماء پر کوئی اعتراض نہیں اور نبیؐ پاک نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ اگر علم الاسماء کافر بھی پڑھائے تو نبیؐ کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ انعام میں کافر کو کفر کے باوجود بری بھی کیا جاتا ھےاسلامی تاریخ میں پہلی بار جس شخص نے علومِ شرعی کی اصطلاح استعمال کی وہ کوئی عالم و مفکر نہ تھا، اس کی شہرت کتابیات کے مرتب کے حوالے سے ہے۔ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن یوسف الکاتب الخوارزمی نے ‘مفاتیح العلوم’ کے نام سے کتابوں کی ایک فہرست مرتب کی تھی جسے اس نے سہولت کی خاطر دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ پہلا حصہ العلوم الشرعیہ پر مشتمل تھا اور دوسرے حصے کی تخصیص علوم العجم کے نام سے کی گئی تھی۔ کسے معلوم تھا کہ ایک کاتب اور فہرست ساز کی اس تقسیم کو آگے چل کر اتنا اعتبار مل جائے گا کہ غزالی جیسا حجۃ الاسلام اور نابغہ روزگار شخص بھی علم کو علوم شرعیہ اور علوم غیر شرعیہ کے خانوں میں منقسم دیکھے گا۔ اور پھر یہ التباس فکری ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسلم ذہن کا حصہ بن جائے گا۔ گویا علم کو دو اصطلحات میں بانٹنے کی جو غلطی ایک عام سے شخص نے کی تھی اسے نہ صرف اپنا کر بلکہ اس کو مزید ڈیفائن کر کے حجۃ الاسلام امام غزالی نے اسے اپنی علمی شخصیت کا وزن بھی دے دیا،جس نے کہا ھے سچ کہا ھے کہ ماسٹرز آر مانسٹرز بڑے لوگ ھی وہ عفریت بنتے ھیں جو قوموں کے لئے عفریت بن جاتے ھیں،بڑے کی غلطی بھی بڑی ھوتی ھے،، امام صاحب اگر چاھتے تو اس اصطلاح کو علوم العرب اور علوم العجم کی اصطلاح بھی دے سکتے تھے کیونکہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ھیں،شام کی ضد صبح ھے اور دن کی ضد رات ھے  علوم العجم کی ضد علوم العرب تھی نہ کہ علوم الشرعیہ تھی،، امام نے اس غلطی کو درست کرنے کی بجائے اس کا غلط آپریشن کیا اور خراب گردے کی بجائے ٹھیک گردہ نکال دیا ،، وہ شرعی کے بالمقابل غیر شرعی علوم کو لے آئے ،یوں علم الاسماء غیر شرعی علم قرار پایا اور پھر یہ تقسیم مذھبی طبقے کا اوڑھنا بچھونا بن گئی، شرعی علوم میں چونکہ دنیا کی کمائی کم تھی لہذا اس کمی کو آخرت کے بارے میں اجر اور اجرت کے نام پر خوب بڑھاوہ دے کر پورا کیا گیا،،پھر ھر مذھبی گھرانے کا بچہ یہ ذھن لے کر پیدا ھونا شروع ھو گیا، میں نے یہ مصیبت گھر میں بھگتی ھے،میرے دادا جان نے دادی جان کو دور سے ڈنڈا پھینک کر مارا جو ان کے اوپر کے ھونٹ پر جا کر لگا اور ناک کے نیچے سے ھونٹ کٹ گیا،سرجری کا زمانہ نہ  تھا ھونٹ خود ھی جیسا بھی جڑ سکا جڑ گیا اور وہ نقص جین میں ٹرانسفر ھو گیا، پھر ھم نے ان کے پوتوں اور پوتیوں کو یہ عیب لے کر پیدا ھوتے دیکھا،ٹھیک اسی جگہ ناک کے نیچے سے ھونٹ کٹا ھوا پیدا ھوتے،پھر ھولی فیملی اسپتال سے ان کی سرجری کرائی جاتی،، گویا پہلا ھونٹ تو سبب سے کٹا تھا مگر بعد میں بلا سبب کٹے ھونٹ والے پیدا ھوتے رھے،اس کا نام ارتقاء ھے، اب یہ تقسیم پیدائشی بن چکی ھے کہ قرآن وحدیث کا علم دینی اور مذھبی اور مقدس علم ھے جبکہ اس کے علاوہ تمام علوم دنیاوی ،غیر شرعی اور غیر مقدس ھیں ان علوم کی تحصیل میں راتوں کا جاگنا کوئی اجر و ثواب نہیں رکھتا، اور ان میں مغز کھپانا کوئی عظمت نہیں رکھتا، یہ کانسپٹ بلا دلیل ھے، مذھبی طبقے کی ھٹ دھرمی ھے، اس کے سوا کچھ نہیں –قرآن وحدیث اس معاملے میں ان کی حمایت نہیں کرتے وہ علم الاسماء اور علم الھدی کو برابر کا مقام دیتے ھیں بلکہ سورہ الکہف میں اللہ پاک نے ذوالقرنین کے واقعے میں زمین پر تمکن یعنی قبضہ اور اللہ کی طرف سے فراھم کردہ اسباب کے استعمال پر بار بار ذوالقرنین کی تعریف کی ھے اور اسباب کو استعمال کر کے سدِ سکندری کی تعمیر کو دفع فساد کے لئے موثر قرار دیا ھے،، اور بار بار ثمہ اتبع سبباً پھر اس نے اسباب کو استعمال کیا اور مغرب تک جا پہنچا،،پھر اسباب کو استعمال کیا اور مشرق تک جا پہنچا، یہ ساری بحث اللہ نے اسباب کے حصول اور اس کے استعمال کو تقدس عطا فرمانے کے لئے کیا ،مگر ھر جمعے کو سورہ الکہف کا ورد کرنے والے کبھی اس پر غور نہیں کریں گے – اصطلاح کی دھشتگردی کا یہ پہلا نمونہ تھا کہ بلا سوچے سمجھے کوئی اصطلاح استعمال کر لینا کس طرح قوموں اور امتوں کی ذھنی موت کا سبب بن جاتا ھے، بالکل اسی طرح جیسے کیڑے مار دوا کا کھا لینا بندہ مار دیتا ھے- ستم در ستم یہ ھوا کہ جب شرعی علوم کی تقسیم کی گئ تو اب ایک نئی اصطلاح ایجاد کی گئ جو نہ تو قرآن میں تھی نہ حدیث میں تھی اور نہ ھی صحابہ کے دور میں تھی، فقہا نے جب علم مرتب کرنا شروع کیا تو رسوم کو ایک نام دیا عبادات،، باقی کی تقسیم معاشرت،معاملات ،آداب وغیرہ کی اصطلاحات سے کی،یوں عبادات کے ٹائٹل سے چند ظاھری رسوم کو محدود کر دیا ،اگر آپ ان کو ادا کر دیتے ھیں تو اپ نے بندگی کر دی اور وہ غایتِ تخلیق پوری کر دی جس کے لئے اللہ پاک نے انسان کو تخلیق فرمایا تھا، وما خلقتُ الجن والانس الا لیعبدون،، یوں ایک بے رحم آپریشن کے ذریعے عبادت اور معاملات کو جڑواں بچوں کو الگ کرنے کے آپریشن کی طرح الگ کردیا گیا،، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان کردار سے تہی دست ھو گیا، پانچ وقتہ نمازی سات وقتہ رشوت خور بن گیا ،کیونکہ وہ مسجد میں بندگی ادا کر کے بندہ بن آیا ھے،ڈیوٹی ادا کر آیا ھے،اب بازار، دکان، کھیت، عدالت،دفتر اور گھر اس کی ایکسٹرا کریکلم ایکٹیویٹیز کا میدان ھے جیسے چاھے گا کرے گا،اس فقہی تقسیم نے مسلمان کے اندر دو کٹ لگا دیں،جیسے سی این جی اور پیٹرول کی کٹ ھوتی ھے،جب دل کیا سی این جی کا بٹن دبا لیا اور جب چاھا پیٹرول پہ کر لیا،، مسجد کا خدا خوف مسلمان جو شلوار اونچی کر لیتا ھے،ٹوپی نکال کے سر پہ رکھ لیتا ھے،ریح خارج ھو جائے تو صف چھوڑ کے نکل آتا ھے کیونکہ اس کایقین ھے کہ پبلک کو بےشک پتہ نہ چلے اس کے رب کو پتہ چل گیا ھے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ھے،مگر یہی خدا خوف جب مسجد سے نکل کر کسی کا جوتا پہن لیتا ھے،یا کم تولتا اور کم ماپتا ھے،جھوٹ بولتا اور اس پر قسم کھا لیتا ھے،ملاوٹ کرتا ھے تو اسے ایک لمحے کے لئے بھی یہ یقین نہیں ھوتا کہ مسجد والے اتنے الرٹ خدا کو جسے رتی بھر ھوا کا پتہ چل گیا تھا،اس کے ان سارے کرتوتوں کا پتہ چل گیا ھے ،، وہ اسی وضو میں جاکر  اگلی نماز پڑھ لیتا ھے،رتی بھر ھوا سے وضو ٹوٹ جاتا ھے مگر دس لیٹر پانی دودھ میں ملا دو وضو نہیں ٹوٹتا،، ایک متشرع شخص کو رشوت لیتے وقت بار بار اصرار سے یہ کہتے سنا اور گھڑی کی طرف بے قراری سے بار بار دیکھتے دیکھا ھے کہ جلدی کرو میری جماعت نکل جانی ھے، اور رشوت لے کر جلدی میں گنی بھی نہیں فوراً جیب میں ڈال لی ھے کہ جماعت نکل جائے گی اور یہ رشوت بھی بی اے کے امتحان میں انگلش کے پیپر پر زیادہ مارکس دینے کے بارے میں تھی ! یہ ھے صرف ایک جھلک اصطلحات کی تباہ کاری کی کہ جس نے بدروحوں پر مبنی ایک معاشرہ اٹھا کھڑا کیا ھے،