سنت کا سفـــر !

سنت کا سفـــر !

March 12, 2014 at 5:20pm

الحمد للہ و کفی والصلوۃُ والسلام علی اشرف الانبیاء محمد المصطفی و علی آلہ و صحبہ و من والاہ

اما بعد !

اللہ کا شکر و احسان ھے کہ اس نے مجھے چھوٹی سی عمر میں ھی اپنے گھر کی راہ سجھائی، دین کے علم کی لو لگائی،اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے تعصب سے مجھے قطعاً دور رکھا،، یہ اس کا خاص الخاص کرم تھا کہ میں نے چھ فقہوں کا انتہائی باریک بینی سے بلا تعصب مطالعہ کیا ،کچھ میں تخصص کیا ! میں نے فقہ حنفی ،مالکی ، شافعی اور حنبلی کو دیکھا تو فقہ جعفریہ کا دقیق  مطالعہ کیا، اس کے مصادر کو دیکھا ،،خوارج کا بچا کچھا قبیلہ اباضیہ جو زنجبار اور سلطنت عمان میں پایا جاتا ھے، عمان کے حکمران سمیت ایک عظیم اکثریت اباضی فرقے سے تعلق رکھتی ھے،میں نے 1979 سے لے کر 1985 تک ان کی مسجد میں امامت اور خطابت کی، اس دوران ان کی فقہ کی عربی کتب کو دیکھنے کا موقع ملا اور ان سے تفصیلی بات چیت ھوئی ! مجھے ابوظہبی کی مرکزی فتوی کمیٹی  ( اللجنۃ المرکزیہ للفتوی ) کے لئے بھی منتخب کیا گیا مگر میں نے بعض ناگزیر وجوھات کی بنیاد پر اسے جائن نہیں کیا ! یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ھے کہ میرا تعلق ھر فقہ کے علماء سے رھا اور یہ تعلق تعصب سے بالاتر اللہ کے دین کی نسبت سے رھا ! اب بھی جب میں دیکھتا ھوں کہ کسی مکتبہ فکر کے ساتھ زیادتی کی جارھی ھے تو مجھے اس کے حق میں بولنے سے کسی دوسری فقہ کا تعصب نہیں روکتا ۔ یہی وجہ ھے کہ میرے دوست چاھتے ھیں کہ میں کسی نہ کسی فقہ کی نمبر پلیٹ ضرور لگاؤں تا کہ انہیں مجھ سے معاملہ کرنے میں آسانی رھے،مگر میں ان تمام فقہوں کو دین کی مختلف تعبیریں ھی سمجھتا ھوں !

 

اب آیئے اصل موضوع کی طرف کہ کتاب و سنت جو ھمیں عطا کی گئیں اور داڑھوں سے پکڑنے کا حکم دیا گیا اس کا روٹ کیا طے کیا گیا ؟  اس کا روٹ پرمٹ نبی کریم ﷺ کے خلفاء کے نام بنایا گیا ھے ،دین ان کے رستے ھمیں ملا ھے، انہوں نے اپنے اقدامات کے ذریعے جو کیا وہ سب کتاب و سنت ھے ان کا ان خلفاء کے ھاتھوں سر انجام پا جانا ھی اسے سنت بنا دیتا ھے، اس میں ان کو  نہ کوئی حدیث کوٹ کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ھی انہوں نے کی !

دین ایمان و عمل ھے یا علم و عمل ھے، علم کا نتیجہ ایمان ھے اس لئے علم والا ایمان فرض کیا گیا ھے ،جبکہ ایمان کا حتمی نتیجہ عمل ھے ! عمل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر کرنے کا ایک فطری طریقہ بتایا ھے جو قیامت تک کے لئے واحد غیر متنازعہ طریقہ ھے ،، نبی کریم ﷺ کو دیکھ کر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو اپنایا اس کو دیکھ کر ان کی اولاد نے اپنا اور ان کو دیکھ کر ان کی اوالد نے،یوں آج تک بچے والد کو ھی دیکھ کر پہلے پہل نماز پڑھتے ھیں نہ کہ بخاری شریف پڑھ کر ! اور قیامت تک اسی طرح ھوتا رھے گا، اس دیکھنے اور کرنے میں ایک دن کا بھی ناغہ نہیں ھوا اس لئے سنت کے کھو جانے کا کوئی امکان نہیں ھے ،اسی رستے سے قرآن نے سفر کیا ھے اور قرآن کے شانہ بشانہ سنت نے بھی سفر کیا ھے ! نہ تو قرآن کو اپنی قرانیت کے لئے کسی گواہ کی ضرورت ھے اور نہ سنت کو کسی سہارے کی ،اس کو ھر پیدا ھونے والا مسلمان بچہ وھیں سے لیتا ھے جہاں سے اس کے باپ نے لیا تھا ! یہ طریقہ صرف اسلام کی عبادات کے ساتھ نہیں بلکہ سابقہ امتوں کے ساتھ بھی اسی طریقے سے عبادات کی سنن نے باپ سے بیٹے کے رستے سفر کیا ھے اور ھزاروں سال اس میں رائی کے دانے کے برابر فرق نہیں آیا نہ آ سکتا تھا اور نہ آ سکتا ھے ! عیسی علیہ السلام نے بھی یہود کے کردار ر تنقید کی ھےمگر عبادات و مناسک پر اعتراض نہیں کا ایک حرف نہیں کہا، خود قرآن حکیم نے ںبی ﷺ کو خطاب کر کے نشاندھی فرمائی ھے کہ ان کے مناسکِ عبادت عین ھمارے حکم کے مطابق ھیں جن کو وہ سر انجام دیتے چلے جا رھے ھیں، آپ ان پر کوئی اعتراض و تنازعہ مت کھڑا کیجئے گا بلکہ انہیں اپنے رب کی طرف دعوت دیں ( الحج ) البتہ دین کو دوسرا جزء علم چونکہ خبر ھے اور خبر کے راویوں میں جھوٹ اور کـُوڑ کتاڑ شامل ھو جاتا ھے لہذا امتوں میں زوال علم یعنی ان کے ایمان میں آتا رھا ھے اور نبی ایمان درست کرنے اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے آتے ھیں،، پھر اس کے بعد حالات کے مطابق پہلی سنتوں میں ترمیم کرتے ھیں ،، عبادات کا صیغہ اسلام سے پہلے ڈھائی ھزار سال سے ایک ھی تھا، اس پیکج میں ایک ذرا نہ کمی کی گئ اور نہ زیادتی، وھی شہادتین، پھر نماز ،پھر زکوۃ اور حج ،، عبادات اپنے تسلسل یا چین کی وجہ سے ھزاروں سال محفوظ رھیں ،وہ اسلام میں کس طرح ایک صدی میں ھی کھو گئیں؟ لوگ سوال کرتے ھیں کہ پھر ھمیں سنت کا پتہ کیسے چلے گا؟  سنت کا پتہ ویسے ھی چلے گا جیسے صحاح ستہ کی تصنیف سے پہلے چلتا تھا ! امام بخاری اور ان کی والدہ نے کیا نماز بخاری شریف کے بعد بخاری کو پڑھ کر شروع کی تھی یا پہلے سے نماز پڑھتے تھے؟ وہ بغیر سنت کے نماز تھی؟ احادیث کا زیادہ سے زیادہ فائدہ یہ ھے کہ نبی کریمﷺ نے کبھی یوں بھی نماز پڑھی تھی ! مگر جب اس کو یوں بنا لیا گیا کہ نبیﷺ نے” یوں ھی ” نماز پڑھی تھی تو پھر مساجد میں فساد شروع ھوا ! اس کے علاوہ احادیث سے اذکار کا ایک  عظیم خزانہ ھاتھ لگتا ھے ! دعاؤں کا معلوم ھوتا ھے کہ نبی پاکﷺ نے کون کون سی دعائیں مانگیں تھیں ،، ان دعاؤں کی تاثیر انسان کو رب
سے جوڑ دیتی ھے ! اب رھا معاملہ عقائد کا تو وہ قرآن کی صورت میں  ھمارے پاس محفوظ ھیں اور محفوظ رھیں گے،، اس کا وعدہ اللہ پاک نے فرمایا ھے ! بہت ساری احادیث نے خود عقائد پر سوالیہ نشان کھڑے کئے ھیں! بخاری نے ” اصیحابی” اصیحابی” کا نام لے کر ” ارتدوا” کی خبر دی ھے، کہ یہ تو میرے اصحابی ھیں ،،میرے اصحابی ھیں انہیں کیوں حوضِ کوثر سے پیچھے دھکیل رھے ھو ،،جواب ملے گا آپﷺ نہیں جانتے انہوں نے اپ کے پیچھے کیا کیا نئے کام کئے ھیں،، ارتدوا بعدک ،یہ آپ کے بعد مرتد ھو گئے تھے !! میں اپنے علماء سے پوچھتا ھوں کہ جس طرح پولیس نے جب زیادہ بندے پکڑنے ھوں تو نامعلوم کے خلاف ایف آئ آر کاٹی جاتی ھے تا کہ وہ جسے چاھے وقت آنے پر ضمنیوں میں شاملِ چالان کر لے ! اسی طرح اس حدیث میں صرف اصحاب کا ذکر کر کے ان کو مرتد قرار دے کر آنے والوں کے لئے راہ نہیں کھولی گئ کہ وہ ابوبکر
ؓ عمرؓ عثماؓن کو اس میں ڈال لیں ؟

ھمارے علماء بجائے مسائل کا سامنا کرنے کے انہیں کارپِٹ کے نیچے چھپانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ھیں !

االغرض اس مضمون میں ان باتوں کا احاطہ کیا گیا ھے !

1-     1-سنت کا ماخذ دیکھ کر عمل کو  نقل کرنا ھے

2-     2- یہ دیکھنا باپ کا بیٹے کو دیکھ کر نقل کرنے کی طرح کا ھے

3-     3-اسی عملِ نقل کے ذریعے سنت نبیﷺ سے اس دم تک چلتی چلی آ رھی ھے

4-    4-صحاح ستہ کے علاوہ دیگر کتب حدیث بھی ایک رکعت نماز پر امت کو مجتمع نہیں کر سکیں مگر پھر بھی نشانِ حیدر گلے میں لٹکائے پھرتے ھیں کہ سنت کا ماخذ کتب حدیث ھیں !

5-    5- کتب حدیث میں سب سے قوی کتاب بخاری شریف میں ھی صحابہ کو ” ما احدثوا بعدک  اور ارتدوا بعدک کے واضح الفاظ کے ساتھ مرتد قرار دیا گیا ھے ! اور علماء منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ھیں! شیعہ کو کافر کہتے ھیں مگر اپنی چارپائی کے نیچے سوٹا پھیرنے کو تیار نہیں !

6-    6- بخاری شریف میں ھی سورہ الفرقان میں دو قریشی صحابہ عمر ابن الخطاب اور ھشام کے درمیان جس اختلاف کی خبر دی گئ وہ لہجے اور تلفظ کا فرق نہیں تھا،، حضورﷺ نے فرقان کے نام پر دونوں اصحاب کو الگ الگ آیتیں پڑھا دی تھیں ! جس کی وجہ سے عمر کے دل میں کفر پیدا ھو گیا !! جسے نبیﷺ نے ھاتھ مار کر ھٹایا ،، وہ آیتیں ھمارے علماء کو آج تک نہیں ملیں ! جو تضاد عمرؓ کو کافر کر سکتاھے وہ آج کے نوجوان کو ملحد کیوں نہیں کرے گا ؟

7-    7-  ایسا ھی واقعہ ابئ ابن کعب کے بارے میں بیان کیا گیا جس میں ابئ ابن کعبؓ فرماتے ھیں کہ میرے دل میں وہ کفر پیدا ھوا جو زمانہ کفر میں بھی نہیں تھا !! یہ کیا تماشہ ھے؟ جو قرآن کے امام ھیں انہی کو کفر سے دوچار کیا جا رھا ھے،یہ کوئی معمولی اختلاف نہیں ھو سکتا؟

8-    8- شیعہ نہیں کہتا کہ قرآن میں کمی بیشی کی گئ ھے، ابنِ کثیر نے سورہ الاحزاب کی تفسیر میں ابوموسی الاشعری سے روایت کیا ھے کہ کسی زمانے میں یہ سورہ الاحزاب سورہ البقرہ کے برابر ھوا کرتی تھی (286 آیتیں ) مگر اب وہ تمہارے سامنے ھے جتنی کہ تم پڑھتے ھو (73 آیتیں ) ھمارے اھل حدیث دوستوں کو چاھئے کہ باقی 213 آیتیں ڈھونڈ دیں ،،

9-    الغرض فتنے کا ھر بیج ان کتابوں میں موجود ھے اور ھر فرقے کو مواد ان میں سے ملتا ھے !

10-انہوں نے امت کو مجتمع نہیں کیا بلکہ ایک مجتمع امت کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ھے

الف اللہ چنبے دی بُوٹی !!

ویگن اسٹاپ پر آدھی رات کے وقت ایک اک تارے والا گا رھا تھا "

ایمان سلامت ھر کوئی منگے ، عشق سلامت کوئی ھـُو !
ایمان منــگن شـــرماون عشقوں ، دل نوں غیرت ھوئی ھـُو !

جس منزل نوں عشق پہنچاوے،ایمانوں خبر نہ کوئی ھـُو !
میرا عشـــق سلامت رکھیں ،، ایمانـوں دیا دھــروئی ھـُو !

ایک صاحب نے پوچھا بابا عشق کیا ھوتا ھے ؟

اک تارے والے نے انہیں غور سے دیکھا ! اور دھیمے لہجے میں پوچھا !
بابو جی ! بھوک کیا ھوتی ھے ؟

بابو جی لاجواب ھو کر اس کا منہ دیکھنے لگے !!

بابا بولا ، بابو جی جسے کبھی بھوک لگی ھی نہ ھو ،اسے کوئی کیسے سمجھا سکتا ھے کہ بھوک کیا ھے ؟ اور جسے لگتی ھے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ھی نہیں رھتی کہ بھوک کیا ھے ! اس کا تو اندر بھوک بھوک کا ورد کرتا ھے ! اتنا کہہ کر اک تارے والا گہری سوچ میں ڈوب گیا !
پھر آئستہ سے بولا ! بابو جی بھوک نہ ھو تو کھانا بھی بوجھ بن جاتا ھے !
عشق نہ ھو تو ایمان بھی بوجھ بن جاتا ھے اور انسان پہلی فرصت میں اس سے جان چھڑا لیتا ھے !
واضح رھے یہ پوچھنے والا سابقہ جج اور فلسفوں کو کنگھال مارنے والا پڑھا لکھا شخص تھا مگر بقول اس کے اس ٹھٹھرتی رات میں اس اکتارے والے کے سامنے اس کے سارے فلسفے ٹھٹھر کر رہ گئے تھے !
اللہ اور اس کے حبیبﷺ سے محبت نہ ھو تو فرائض اور سنتیں ایک بوجھ بن جاتے ھیں ،، جن سے آگ کے ڈر کی وجہ سے ھی انسان عہدہ برآ ھوتا ھے !
وہ مسجد آ کر عزت نہیں پاتا بلکہ بستہ بے کے مجرموں کی طرح حاضری لگوانے آتا ھے ! اور تیرا دل تو ھے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں ” کا مصداق ھوتا ھے !!

نہ تو توکل توکل لکھنے سے کوئی متوکل ھو جاتا ھے اور نہ ھی سکون سکون کا ورد کرنے سے کسی کو سکون قلب ملتا ھے،، جب کسی سے محبت ھو تو پھر اس کا نام سن کر جو راحت دل میں پیدا ھوتی ھے اس کا نام سکون قلب ھے،، الا بذکر اللہ تطمئن القلوب کا یہ مطلب ھے ،، اور لوگ اللہ اللہ اللہ کا ورد کر کے اس میں سے سکون نکالنا چاھتے ھیں،، وہ اللہ کہنا عاشق کا اللہ کہنا ھے،، نہ کہ کسی ھائپر ٹینشن کے مریض کا ! کیا مجازی محبت میں محبوب کے تذکرے سے آپ کو سکون نہیں ملتا ؟ وہ کہاں سے آتا ھے ؟ اسی کنوئیں سے اللہ والا سکون بھی ملتا ھے مگر شرط پیار کی ھے ! اور جب پیار ھو جائے اور وہ اصلی والا ھو تو محبوب کے رستے کی تکلیفیں بھی سکون دیتی ھیں ،، گِلے پیدا نہیں کرتیں !

عامر عثمانی کی طویل غزل کا شعر ھے !

عشق کے مراحل میں وہ بھی مقام آتا ھے !
آفـتیں برستــی ھیں، دل سکـــــون پاتا ھے !

مشکلیں اے دل! سخت ھی سہـــی لیـکن !
یہ نصیب کیا کم ھے کہ ” کوئی ” آزماتا ھے !

میں غالباً چار سال کا تھا ! سپارہ پڑھ کر مسجد سے نکلا تو ایک لڑکے نے لڑکی کا رستہ روکا ھوا تھا، دونوں ماموں اور پھوپھی سے کزن تھے ! لڑکی کے ھاتھ میں کپڑے ماپنے والا لوھے کا گز تھا ،جو وہ غالباً کسی کے گھر سے مانگ کر لے جا رھی تھی، اس نے لڑکے کو کہا کہ میرا دل چاھتا ھے کہ میں یہ گز تمہارے سر پہ دے ماروں ! اس پہ اس لڑکے نے اسے قسم دی اگر وہ اس کو نہ مارے ! لڑکی نے مسکراتے ھوئے ٹھاہ کر کے گز اس کے سر پہ دے مارا ! لڑکے نے سر پہ ھاتھ رکھ لیا،جب ھاتھ ھٹایا تو اس کا ھاتھ خون سے لتھڑا ھوا تھا ! اس نے خون کو چوما اور رستہ چھوڑ دیا،، رشتہ ھو گیا دونوں کی شادی ھو گئ ،اولاد ابھی تک نہیں ھوئی اور ظاھر ھے اب ھونے کے امکانات بھی نہیں رھے،، والدین کے اصرار کے باوجود اس لڑکے نے زندگی بھر شادی نہیں کی، مجھے اس سے محبت ھے اولاد سے نہیں،، جو اولاد اسے دکھ دے کر ملے وہ مجھے نہیں چاھئے ،،یہ عشقِ مجازی کی وارداتیں ھیں،، عشقِ حقیقی کی تو عین میں ھی جہان ڈوب جاتا ھے !

جو لوگ صحابہؓ کی دعاؤں پہ عقلی استدلال کرتے ھیں ،وہ بھی ابھی بغدادی قاعدہ پڑھتے ھیں،،میں ان سے درخواست کرتا ھوں کہ وہ عقلی طور پر ثابت کر دیں کہ انسان کی تخیلق ھی عقلاً ضروری تھی ! اللہ کی وہ کونسی ضرورت تھی یا مجبوری تھی جو انسان کی تخلیق کی محرک بنی ھے ! اور اگر انسان نہ ھوتا تو اللہ کی عظمت میں کیا فرق پڑ جانا تھا ؟

انسان عقل کی تخلیق نہیں عشق کی تخلیق ھے ! اللہ کو صاحب عشق مخلوق درکار تھی،، عشق ضرورت نہیں دیکھتا ، اس کے اپنے قواعد ھیں،، جنت والے بھی ھیں اور جہنم والے بھی ھیں،، دائیں والے بھی ھیں اور بائیں والے بھی ھیں ،،مگر آگے نکل جانے والے بھی ھیں،، و کنتم ازواجاً ثلاثہ،، اور تم تین گروھوں میں بٹ جاؤ گے،، اصحاب الیمین ،، و اصحاب الشمال ،،، والسابقون السابقون ،، یہ آگے نکل جانے والے ھی عشق والے ھیں،، جنت والوں کو نبی اپنی معیت میں جنت میں لے جائیں گے،، اور عشق والوں کو اللہ اپنے ساتھ لے کر جائے گا،، اللہ فرمائے گا،،جنہوں نے جنت کے لئے کیئے وہ جنت میں چلے گئے،، جنہوں نے جہنم والے کیئے وہ جہنم میں چلے گئے،، میرے لئے کرنے والو آؤ چلیں ،،یہ رب کی معیت میں چلیں گے،،
یہ وہ مقام ھے جہاں کہنے والے کہتے ھیں کہ جہنم کے ڈر سے کرتی ھوں تو جہنم واجب کر دے ،، جنت کی لالچ میں کرتی ھوں تو جنت حرام کر دے،، ائے اللہ میں تو تجھے اس لئے سجدے کرتی ھوں کہ تو ھے ھی سجدوں کے قابل !
یا "جنت میں جو میرا حصہ ھے اے اللہ وہ اپنے دوستوں کو دے دے،،دنیا میں جو میرا حصہ ھے اے اللہ وہ اپنے دشمنوں کو دے دے،، میرے لئے تو تـُو اور تیری محبت ھے کافی ھے !

بس مجھے سمجھ نہیں لگتی میں اپنا دل کہاں کہاں رکھوں !

Normal
0

false
false
false

EN-US
X-NONE
AR-SA

/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:”Table Normal”;
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:””;
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:10.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:115%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:”Calibri”,”sans-serif”;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;}

میں اور الیاس کاشمیری مرحوم !

March 1, 2014 at 4:10pm

 مولوی ھونا یا مولوی کا بیٹا ھونا ! ایک ھی درجے کا جھٹکا دیتا ھے ! آپ اللہ سے ڈریں یا نہ ڈریں لوگوں سے ڈرنا واجب ھو جاتا ھے ! لوگوں سے ڈرنا اس وجہ واجب نہیں ھو جاتا کہ لوگ بہت پرھیز گار ھیں ،بلکہ اس لئے کہ لوگ آپ کو امام بناتے ھی اس وجہ سے ھیں کہ آپ روحانی طور پر صحتمند ھیں اور قربانی صحتمند جانور ھی کی لگتی ھے ! ویسے تو مولوی ، مولوی ھی ھوتا ھے گنہگار ھو یا بے گناہ ! کیونکہ گوشت یعنی سالن جل بھی جائے تو سالن ھی کہلاتا ھے دال نہیں بن جاتا ! ویسے تو کل بنی آدم خطاؤن،، و خیر الخطائین توابوں کے فرمانِ نبوی کے مطابق ،آدم کے ھر بیٹے سے خطا ھوتی ھے اور خطا کاروں میں بہترین وھی ھیں جو پلٹ آتے ھیں ! مگر امام صاحب کی خطا کا ریٹ بھی ایک کے سات سو لگتا ھے،جبکہ عوام اپنا گناہ سستا بیچ دیتے ھیں یعنی ایک کے دس ،، اس معاملے میں وہ بہت انکساری سے کام لیتے ھیں ! امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ھیں کہ عام آدمی کا گناہ چھپانا واجب جبکہ عالم کا گناہ چھپانا فرض ھو جاتا ھے کیونکہ لوگ اس سے دلیل پکڑتے اور گناہ پر جری ھوتے ھیں ! خیر گنہگار تب تک ھی کام کی چیز رھتا ھے جب تک اسے احساس رھتا ھے کہ وہ گنہگار ھے ! اس احساس کے تحت اللہ پاک اسے اپنی رحمت کے آئی سی یو وارڈ میں رکھتا ھے اور اس کے قلب کا دورہ کرتا رھتا ھے،، مگر جب وہ سمجھتا ھے کہ وہ گنہگار نہیں ھے تو اللہ بھی اسے آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں شفٹ کر دیتا ھے جہاں ھاؤس جاب والے ھی اسے ڈیل کرتے ھیں،، بندے کو یہ گھمنڈ ھو جائے کہ وہ نیک ھے یا یہ گمان ھو جائے کہ وہ بے گناہ ھے ! نتیجہ دونوں کا رب کی رحمت سے دوری ھے !! قصہ ابلیس اس معاملے میں ایک عبرت ناک مثال ھے،، سجدے سے اسے اس گھمنڈ نے روکا کہ وہ آدم سے بہتر ھے،، تو توبہ اسے اس گمان نے نہیں کرنے دی کہ اس کی تو کوئی غلطی ھے ھی نہیں توبہ کس بات کی ؟ مولوی جب خود نیک بن کر اور گناہگاروں کا وکیل بن کر تصور میں کالا کوٹ پہن کر رب کی عدالت میں پیش ھوتا ھے تو دھتکار دیا جاتا ھے، مگر جب خود کو بڑا پاپی سمجھ کر پاپیوں کے ساتھ جھکی اور ندامت زدہ آنکھوں کے ساتھ ،، شرمسار دل اور ضمیر کے ساتھ مجرم بن کر اللہ کے سامنے پیش ھوتا ھے تو پھر اپنے ساتھ دوسروں کی بخشش کا سامان بھی کر دیتا ھے ! ایک اللہ والے کے پاس بستی والے حاضر ھوئے کہ ” حضرت قحط سالی نے تباہ و بدحال کر کے رکھ دیا ھے – آپ اللہ کے مقبول و محبوب بندے ھیں ، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ھمیں اور ھماری خطائیں معاف کر دے ! وہ چونکہ اصلی اللہ والا تھا، اور اللہ پاک کا مزاج شناس تھا،، وہ تڑپ اٹھا ،، اس نے کہا لوگو ! جس کے کئے پر پکڑے گئے ھو اسی کو سفارشی بنانے چلے آئے ھو ؟ میں نے مانگا تو بارش کی بجائے لاوا برسے گا ! مجھے اس بستی سے نکل جانے دو پھر اللہ سے مانگو گے تو بارش برسا دے گا ! اس نے اپنے کپڑے سمیٹ کر ایک تھیلے میں ڈالے جوتے پہنے اور رو رو کر اللہ سے دعا کی ” یا اللہ میرے گناھوں کی سزا ان معصوموں کو نہ دے ،، میں یہ بستی چھوڑ رھا ھوں ،میری وجہ سے روٹھی ھوئی رحمت کو ان کی طرف متوجہ کر دے ،،بزرگ کے ساتھ لوگ بھی رو رھے تھے کہ آسمان بھی رو پڑا،، اس طرح ٹوٹ کر رحمت برسی کہ جل تھل کر دیا ! نہ صرف سات آسمان بلکہ خود اللہ کے ڈیرے بھی انسان کے اندر ھیں ،، حدیث قدسی میں فرمایا ھے کہ میں زمین آسمان میں نہیں سماتا مگر بندہ مومن کا قلب مجھے سمو لیتا ھے ! بارش انسان کے اندر سے برستی ھے اور اندر سے ھی روکی جاتی،، جب تک انسان کی آنکھ نم رھتی ھے آسمان بھی نمناک رھتا ھے،، جب انسان کے اندر شقاوت اور سختی پیدا ھوتی ھے تو آسمان بھی سختی اور خشکی سے تڑخ تڑخ جاتا ھے ! خیر عرض کر رھا تھا کہ گنہگار دو قسم کے ھوتے ھیں ایک تو وہ جو گنہگار ھوتے بھی ھیں اور اپنے آپ کو سمجھتے بھی ھیں،، دوسرے وہ جو گنہگار ھوتے تو ھیں مگر اپنے کو گنہگار سمجھتے نہیں بلکہ آداب کی وجہ سے انکساری کا اظہار کرتے ھوئے اپنے کو گنہگار کہتے ھیں اور اس پر بھی اجر کے امیدوار ھوتے ھیں کہ انہوں نے گنہگار نہ ھوتے ھوئے بھی گناہ کا اعتراف کیا ھے،جس طرح آپ مشین پہ بل جمع کراتے ھوئے بڑا نوٹ جمع کرا دیں تو مشین ایکسٹرا پیسے ایڈوانس آپ کے اکاؤنٹ میں جمع کر دیتی ھے ! دعا مانگنے کا مزہ اصلی گنہگار کے پیچھے ھی آتا ھے،، نہ کہ اس کے پیچھے جو دعا کو احسان چڑھا کر مانگ رھا ھو ! جس طرح اصلی مریض کی چیخ و پکار اور درد سے تڑپنا دوسرے انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ھے یہی کیفیت اصلی گنہگار کے ساتھ کھڑے ھو کر ھوتی ھے ! حج کے دوران میدان عرفات میں تھے ،، 3 بجے کے لگ بھگ ھم دو تین ساتھی باھر نکلے کہ جبلِ رحمت کی طرف چلیں ! خیمے سے نکل کر کوئی 200 گز دور گئے ھونگے کہ اچانک رونے دھونے اور چیخ و پکار کی آوازیں کان میں پڑیں ،، سوچا کوئی حاجی بےچارہ اللہ کو پیارا ھو گیا ھے ،، پاس جا کر دیکھا تو مجمع لگا ھوا تھا، ایک موٹا تازہ اور لمبا دھڑنگا گنہگار رو رو کر اور بلک بلک کر اللہ سے معافیاں مانگ رھا تھا،، وہ اردو میں دعا کراتے کراتے اچانک پنجابی میں دہائی دینے لگتا ،، بس جناب دل کے سوتے کھل گئے سوچا رحمت تو ادھر برس رھی ھے ھمارے خیمے کے پاس ،، چونکہ وہ بھی بار بار مٹی اٹھا کر اپنے سر پر ڈال رھے تھے ھم نے بھی ریت کی مٹھی بھری اور سر پر ڈال کر شروع ھو گئے،، رونے میں ھمیں بچپن سے کمال حاصل تھا، ماسٹر حسن اختر صاحب دوسری صف کو مار رھے ھوتے تھے اور ھم سامنے کی صف میں ایڈوانس رو رھے ھوتے تھے ! دعا جب ختم ھوئی تو میں اس گنہگار کے ھاتھ چومنے کے لئے آگے بڑھا جس نے ھمیں دھوبی کی طرح نچوڑ کر گند نکال دیا تھا،، اگر وہ ” گنــد "ھم میدانِ عرفات سے بھی واپس لے آتے تو پھر وہ کسی لانڈری میں نہیں دھل سکتا تھا ! پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ ” آنجناب ” کا نام الیاس کاشمیری تھا جو غالباً پنجابی فلموں کے ولن تھے اور بڑے قد آور شخص تھے ! بس جو مزہ الیاس کاشمیری کے پیچھے دعا میں آیا وہ پھر کبھی نصیب نہ ھوا اگرچہ کئ چکر عرفات کے لگ گئے مگر کوئی الیاس کاشمیری نہ ملا جو ھمیں نچوڑتا ! مولوی کی اولاد ھونا بھی ایک مسئلہ ھے،، آپ گناہ سے اس لئے نہیں بچتے کہ وہ بری چیز ھے، بلکہ اس لئے بچتے ھیں کہ آپ امام صاحب کے بیٹے ھیں ! اسی طرح نیکی کو نیکی سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ھیں کہ آپ امام صاحب کے بیٹے ھیں،، بس گویا نیکی ایک چونگی ھے یا ٹول ٹیکس ھے جو آپ کو مولوی کا بیٹا ھونے کے ناطے ادا کرنا ھے،، آپ کرکٹ نہیں کھیل سکتے کیونکہ لوگ کیا کہیں گے کہ مولوی کا بیٹا ھو کر کرکٹ کھیلتا ھے ! آپ ٹوپی سر سے ھٹا کر اپنے کنگھی کردہ ریشمی بال کسی کو نہیں دکھا سکتے کیونکہ آپ امام صاحب کے بیٹے ھیں،، بلکہ سر کو ھر وقت اس طرح کس کر باندھے رکھنا ھے جس طرح دیہات میں لوگ پنجیری والے گڑوے کا منہ کپڑے سے کس کر باندھتے ھیں،، ھاں اگر ابا جی کو مسجد سے فارغ کر دیا جائے تو اب آپ بھی آزاد ھیں،، یا محلہ تبدیل کر لیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ! بچہ بچہ ھوتا ھے امام صاحب کا ھو یا وسیم اکرم کا ،،اس کا دل بچہ ھوتا ھے، اللہ نے اسے جو گریس پیریڈ دیا ھے ،جس میں وہ مرفوع القلم ھے اس کی برائیوں کی ابھی فائل نہیں بنی،، اس عرصے میں اسے اپنا بچپن انجوائے کرنے دیجئے ورنہ ابنارمل بچپن آگے چل کر مسائل پیدا کرتا ھے، اور پھر جب ایسا بچہ مولوی بنتا ھے تو دل پشوری کرنے کے لئے وھی کچھ کرتا ھے جو ھمارے بدعتی مولوی میلاد کے نام پر ھر سال نئے نئے میلے ٹھلے ایجاد کرتے ھیں ! یہ ان کاکچا پکچا  بچپن ھی ھے جو دین کو بگاڑ کر خراج وصول کر رھا ھے !

الہدی انٹرنیشنل اور علماء اھلسنت میں بقائے باھمی کے امکانات !

January 28, 2014 at 10:36pm

ڈاکٹر فرحت ھاشمی اور الہدی انٹرنیشنل ! ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ھماری مسجد اور مدرسہ چونکہ وفاق المدارس دیوبند کے ساتھ الحاق رکھتا ھے لہذا ھم امام و خطیب و مدرس جامعہ فریدیہ یا فاروقیہ راوالپنڈی سے لیتے ھیں ،ھمارے قاری حفظ الرحمٰن جو کہ تازہ تازہ فارغ ھوئے تھے جامعہ فریدیہ سے انہیں ھم نے اچک لیا ( جامعہ سیدہ حفصہؓ لڑکیوں کا کیمپس ھے تو جامعہ فریدیہ لڑکوں کا کیمپس ھے ) قاری صاحب بہت باخلاق انسان تھے، بلکہ نوجوان تھے،، اپنے اخلاق کے زور پہ انہوں نے ماشاء اللہ قصبے کے لوگوں کی حالت بدل کر رکھ دی ،، چلتے چلتے انہوں نے مجھے کتابوں کا ایک سیٹ تحفے میں دیا ،،جن کے درمیان ایک کتاب ” الہدی انٹرنیشنل کیا ھے ” نامی کتاب بھی رکھ دی جو کہ مفتی محمد اسماعیل طورو صاحب کا کتابی فتوی تھا،،ھم فتوے کے لئے اپنے قصبے سے لوگوں کو مفتی طورو صاحب کے پاس ھی بھیجا کرتے ھیں ! ابوظہبی آ کر میں نے جب وہ کتابیں چیک کیں تو ان میں یہ کتاب پا کر میں نے اس کا مطالعہ کیا ! اس پوری کتاب میں کوئی بھی دلیل ایسی سنجیدہ نہیں تھی جس کا اتنا سخت نوٹس لیا جاتا اور فتوی جاری کیا جاتا ! سارا زور این جی اوز کی سرگرمیوں پر تھا، جس میں عاصمہ جیلانی اور دیگر خواتین کے کارنامے گنوائے گئے تھے اور صرف این جی او کا نام مشترک ھونے کی وجہ سے انہیں اس الہدی انٹرنیشنل نام کی این جی او پر لاگو کر دیا گیا ! حالانکہ سارے دینی مدارس ملک کی سب سے بڑی این جی اوز ھیں اور اس نام کے ناتے سے جو کچھ ڈاکٹر فرحت ھاشمی پہ لاگو ھوتا ھے وہ سب دینی مدارس پہ لاگو ھوتا ھے ! سب سے پہلے تو یہ جائزہ لیا جانا ضروری تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کی سرگرمیوں سے کون سی چیز پروموٹ ھو رھی ھے،، پھر دیکھنا یہ تھا کہ ان کا کام دین کے لئے نفع رساں ھے یا فائدہ مند،، معاشرے کے لئے مثبت ھے یا منفی ،، اور یہ امر بالمعروف کی کوئی قسم ھے یا امر بالمنکر قسم کی ،، پھر اس کے عملی اثرات کا ایک جائزہ پیش کرنا چاھیئے تھا کہ،، اس کام کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ھو رھے ھیں اور آگے چل کر یہ کیونکر معاشرے یا دین کو ضرر پہنچا سکتے ھیں ! خیر ھم اسی انداز میں اس تحریک کا ایک جائزہ لیتے ھیں ! عورت انسانی سماج کا اھم ترین عنصر ھے ! یہ انسان گر ھے،انسان کو پیدا کرتی ھے،اور انسان کو پالتی پوستی اور ایک حقیقی انسان بناتی ھے،، جس قدر اھمیت کائنات میں انسان کی ھے،اسی نسبت سے عورت کی اھمیت معاشرے میں ھے،،یہ بات ھم جانیں یا نہ جانیں شیطان اور اس کے چیلے چانٹے یہ بات بخوبی جانتے ھیں، کہ عورت ھر انسان کی "ماسٹر کی” یا شاہ کلید ھے،اس کے ذریعے انسان کو لاک بھی کیا جا سکتا ھے اور ان لاک بھی کیا جا سکتا ھے،،حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد کو ماں نے ھی خراب کیا تھا ! اس سے اپ اندازہ لگا سکتے ھیں کہ ایک اولوالعزم رسول کا گھر بھی ایک عورت کی وجہ سے برباد ھو گیا ،، اس کی اھمیت کے پیش نظر شیاطین اور شیطانی اداروں نے ھمیشہ سے عورت کو اپنا ٹارگٹ رکھا ،جبکہ ھم نے ھمیشہ اس کے برخلاف رویہ اختیار کیا ! بجائے اس کے کہ ھم عورت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیتے اور اس کی تعلیمی اور فکری تطہیر و تزکیئے کا بندوبست کرتے ھم نے اسے فتنہ گردان کر مساجد سے دور کر دیا اور اجتماعی دینی سرگرمیوں سے روک دیا،،اسے جمعے اور جماعت،نیز عیدین کے اجتماعات و خطبات سے بھی محروم کر دیا،، ظاھر ھے دین سے بے بہرہ عورت اولاد کو کیا سکھا سکے گی،اور معصوم بچے کے ان سوالات کا کیا جواب دے گی جو ابتدا میں تو افیم کے پودے کے پھول کی طرح بہت معصوم مگر آگے چل کر انتہائ ایمان لیوا بن جاتے ھیں ! اسلام آباد جسے ترقی یافتہ اور مادر پدر آزاد شہر میں لڑکیوں کی جو حالت ھو گی اس کا صرف تصور ھی کیا جا سکتا تھا،کیونکہ جب گاؤں کے حالات یہ ھیں کہ وھاں لڑکیوں کے لباس دیکھے نہیں جاتے تو شہر کا تو باوا آدم ھی نرالا ھو گا ! ان حالات میں اللہ پاک نے ٹھیک اپنی سنت کے مطابق ایک عورت کو اٹھایا،،وہ عورت کوئی بہت بڑی فلاسفر نہیں تھی،، انٹرنیشنل فورمز پر انعامات اور میڈلز لینے والی نہیں تھی، ایک پردہ دار خاتون اٹھتی ھے،،اور ایک کام کا بیڑہ اٹھاتی ھے،، جن گھرانوں کو ھم مسلمانی سے خارج کر کے جہنم کے حوالے کر چکے تھے،جن کی بچیاں بیوٹی پارلر چلاتی اور بیوٹی پارلر جاتی تھیں،، اس عورت نے انہیں پہ ھاتھ رکھا،، انہی کو آئی سی یو والا مریض سمجھا،، یکہ و تنہا عورت اس معاشرے میں اٹھتی ھے جہاں دین کی نسبت سے عورت کا کوئی دینی رول نہیں ھے،، اور اس طرح چھاتی چلی جاتی ھے کہ اس کی مثال ھماری اسلامی تاریخ میں کوئی عورت پیش نہیں کر سکتی،، اس کی تحریک کی مثل پوری اسلامی تاریخ مین نہیں ملتی اور اس کو ملنے والی پذیرائی بھی بے مثل ھے اور بول بول کر چیخ چیخ کر نصرتِ الہی کا اعلان کرتی ھے ! کل تک جہاں بیوٹی پارلرز کے بورڈز لگے تھے اور جینز اور شرٹ میں ملبوس پریاں آتی جاتی تھیں،، ٹھیک انہی ولاز کے باھر درسِ قرآن کے بورڈز آویزاں ھو گئے اور دن رات سراپا پردے میں ملبوس حوریں آنے جانے لگ گئیں جو امریکن لہجے میں انگریزی بولتی تھیں تو ٹھیک عربی لہجے میں قرآن پڑھتی تھیں ! ربانی نصرت کے بغیر یہ مکمن نہیں تھا،، بڑے بڑے بیوروکریٹس کی بیٹیاں ،بیویاں جو اعلی تعلیم یافتہ تھیں، ایم بی بی ایس ڈاکٹرز تھیں،، جو اس تحریک کا ھراول دستہ بنیں اور یہ تحریک شہروں سے نکل گاؤں تک جا پہنچی ،، پاکستان سے نکل کر پوری دنیا مین پھیل گئ،، علماء کے فتوے بھی چلتے رھے،،ملامت کی بوچھاڑ بھی چلتی رھی،، یہود کی ایجنٹ کے الزامات بھی چلتے رھے اور اللہ والوں کا کام بھی جاری و ساری رھا ! تحریکِ الہـــــــــــــدی اور اس کے مثبت اور منفی اثرات ! 1-الہدی کی مساعی کا سب سے پہلا نتیجہ جو نکلا وہ نفسیاتی تھا ! اس نے پڑھے لکھے گھرانوں کو یہ یقین دلا دیا کہ اللہ کی کتاب تک ان کی رسائی بھی ممکن ھے اور یہ کسی خاص طبقے کی یرغمال کتاب نہیں ھے،، آپکی بچیاں بھی اللہ سے ھمکلام ھو سکتی ھیں،، اس یقین و اعتماد نے ان میں بجلی بھر دی ،، اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ اسی کتاب کو لے کر بیٹھ گئیں،، کتاب اللہ سے ان کا یہ التزام مجبوراً نہیں تھا بلکہ ان کی محبت اور ذوق و شوق کا آئینہ دار تھا،،جو بچے بچیاں بھوک کے مارے مدرسوں میں جاتے ھیں ،، ان کے علم حاصل کرنے اور ان کے علم حاصل کرنے میں نفسیاتی طور پر وھی فرق تھا جو ایک مزدور اور ایک بزنس مین کے کام کرنے میں ھوتا ھے،، ایک صرف وقت پورا کرتا ھے جبکہ دوسرا جان لڑا دیتا ھے ! 2- الہدی کی جدوجہد نے توحید کی آبیاری کا کام کیا اور شرک و بدعت کی امریکن سنڈی کا قلع قمع کرنے میں ھراول دستے کا کام کیا ! عورت شرک و بدعت کی سب سے بڑی کیرئیر ھے ،، یہ جعلی پیروں اور شعبدے باز ایمان کے لٹیروں کا سب سے آسان ھدف بھی ھے اور فری کی مارکیٹنگ ایجنٹ بھی ھے ! یہ بڑے بڑے توحید کے نام لیواؤں کو درباروں پر لے جاتی ھے اور تعویز گنڈے پر راضی کر لیتی ھے،اس کی رات گئے کی ھپنوٹیسی کبھی رائیگاں نہیں جاتی،، الہدی نے شرک و بدعت کی شاہ رگ پہ جا کر چھری رکھ دی اور عورتوں کو توحید کی ایجنٹس بنا دیا،، شیطان کے چنگل سے آزاد کرا کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے رستے پر لگا دیا،، چونکہ یہ محبت کے ساتھ دین سے جڑی تھیں تو اللہ پاک نے بھی "یُحبِبکُمُ اللہ "کا وعدہ سچ کر دکھایا،، اس کا ثبوت ان کا عمل ھے،، ان کی تبلیغ اور ان کے ذاتی عمل میں کوئی تضاد نہیں ھے، وہ جو کہتی ھیں وہ کرتی بھی ھیں اور کرتی نظر بھی آتی ھیں،، ھمارے گاؤں کی ایک لڑکی کشمیری برادری میں سے کورس کر کے آئی ھے، اس نے پوری برادری تبدیل کر کے رکھ دی ھے، شادی بیاہ کی رسموں سے لے کر فوتگی تک سب رسموں کو ختم کرا دیا ھے، اپنی والدہ فوت ھوئی تو چالیسویں پہ برادری والوں نے اسے کہا کہ اپنا درسِ قرآن رکھ لو اور لوگوں کو دعوت دیتے ھیں،، اس نے کہا کہ چالیسویں پہ کیوں ؟ گویا اپ کسی نہ کسی بہانے بندے ضرور اکٹھا کرنا چاھتے ھیں،، میں درس دو دن بعد رکھ لوں گی مگر چالیسواں نہیں ھونے دوں گی ! حقوق العباد کے ادا کرنے میں ،پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنے میں اور اپنے ارد گرد کے غریبوں یتیموں اور بیواؤں کی مالی مدد کرنے میں پیش پیش ھیں ! یہاں ابوظہبی میں بھی ان کی قرآن کلاسز کا مستقل سلسلہ چل رھا ھے جس سے شادی شدہ بال بچے دار عورتوں سے لے کر جوان بچیوں تک سب استفادہ کر رھی ھیں ! ان کی کلاسز میں شوھر کے حقوق کے علاوہ نند اور ساس سسر سے تعلقات پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ھے،، نتیجے میں الہدی سے متعلق جوڑوں میں ازدواجی تعلقات کے ساتھ ،ساس سسر والا سینڈروم بھی قابو میں ھے ! الہہـــــــــــــدی اور منفی اثرات ! الہدی کو سلفیت نے کیش کروایا اور یوں معاشرے کے گراس روٹ تک اس کی پہنچ کو ممکن بنایا ! یہی وہ وجہ ھے جس نے علماء کے کان کھڑے کیئے اور وہ لے دے کر ڈاکٹر فرحت ھاشمی کے پیچھے پڑ گئے ،، علماء بخوبی جانتے ھیں کہ وہ یہود کی ایجنٹ نہیں ،، مگر وہ سلفیت جو کہ حنفیت کی سوتن ھے ،اس کی پروموشن سے ھراساں ھیں ،، اگر ڈاکٹر فرحت ھاشمی بچیوں کو چھوڑ دیتیں کہ وہ نماز وغیرہ اپنے والدین کے طریقے کے مطابق پڑھتی رھیں تو شاید یہ مخالفت اتنی شدید نہ ھوتی،، نیز اگر فتوے وغیرہ جاری نہ کرتیں تو بھی اس ٹکراؤ کو روکا جا سکتا تھا،، مگر انہوں نے بھی وھی غلطی کی اور وھیں غلطی کی جہاں اور جو غلطی ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے کی ! حدیث سے کسی کا اختلاف نہیں مگر حدیث کا جو مطلب لیا جا رھا ھے اس پر بہت ساری رائے بن جاتی ھیں،، اور مسلمان آزاد ھیں کہ وہ ان میں سے کوئی بھی رائے اختیار کر لیں ! یہی آزادی ھر مسلک کو اپنے پیروکاروں کو دینی چاھیئے تا کہ مسالک کی باؤنڈریاں ٹوٹیں اور آپس کے تعصبات ختم ھو کر برداشت کا کلچر نشو ونما پائے جیسا کہ عرب دنیا میں ھے،ایک ھی مسجد میں ھر مسلک کا بندہ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ھوتا ھے،،کسی کو کسی سے کوئی عداوت نہیں اور نہ کسی کو کسی دوسرے کی نماز پر اعتراض ،، امام ایک مسلک کا ھے تو مقتدی چار مسالک کے پیچھے کھڑے ھیں،، کیا کوئی یہ تصور کر سکتا ھے کہ پاکستان میں بھی یہ منظر پیش کیا جا سکتا ھے ؟ لیکن ڈاکٹر فرحت ھاشمی کی اپنی عملی مجبوریاں ھیں،، اس کے پاس آنے والی لڑکیاں صمٓ بکمٓ عمیٓ نپہں ھیں،، یہ لڑکیاں ان اداروں میں وہ علم پڑھ کر آئی ھیں جہاں سکھایا ھی سوال کے ذریعے جاتا ھے،، اور دین میں سوال محمود نہیں سمجھا جاتا، یا کم از کم علماء اس کو پسند نہیں کرتے ،، اب اگر ایک شخص کسی حنفی عالم سے مسئلہ پوچھے تو جواب دے دیا جائے گا،، سورس پوچھے تو کتاب کا نام بتا دیا جائے گا،، بلکہ بڑے سے بڑے حنفی ادارے سے فتوی لے لیجئے ،، کذا فی شامی،، و کذا فی تاتارخانیہ ،،و کذا فی عالمگیری کا جواب آئے گا ،، آپ مولوی صاحب سے پوچھ لیں کہ عالمگیری والوں نے کس آیت یا حدیث کو ماخذ بنایا ھے اپنے فتوے کا ؟ تو وہ پوچھیں گے کہ آپ اھلِ حدیث تو نہیں ؟ کیونکہ مقلد تو یہ سوال نہیں پوچھتا وہ تو مولوی صاحب کا فرمایا ھوا اللہ اور رسولﷺ کا فرمایا ھوا سمجھتا ھے ! اب جب یہ لڑکیاں ڈاکٹر صاحبہ سے سوال کرتی ھیں تو فوری دستیاب ماخذ تو حدیث ھے،،جھٹ سے نکالا دکھا دیا،، ھماری فقہ میں دلیل ڈھونڈ کر کسی کو مطمئن کرنا پوری لائبریری الٹ پلٹ کرنا ھوتا ھے،، سیدھا دو اور دو چار کی طرح جواب نہیں ھے !! صحابہؓ کا تعامل پیش کرو تو جواب ملتا ھے یہ رسول کب سے ھو گئے؟ یہ بھی ھماری طرح امتی تھے اور انکی نجات بھی نبیﷺ کے اتباع میں تھی نہ کہ وہ نبیﷺ کے شانہ بشانہ شریعت سازی کا کوئی برابر درجے کا ادارہ تھے ! الغرض اس قسم کے نوجوانوں کی بڑھتی تعداد نے علماء کو الہدی کے خلاف بھڑکایا ھے،، اس کے علاوہ اور کوئی ٹھوس وجہ مخالفت نہیں،، بس مسلک کے دفاع میں الہدی کی مخالفت ضروری ھے !! یہ بات آپ کو الہدی کے خلاف دیئے گئے ھر فتوے میں نظر آئے گی !! پھر علماء دیوبند جو کہ برصغیر میں توحید کے سرخیل اور علمبردار تھے،، ان کی توحید اور ڈاکٹر فرحت کی توحید میں زمین آسمان کا فرق ھے،، علمائے دیوبند کی توحید کو تصوف کے تڑکے نے انتہائی لچکدار بنا رکھا ھے،، جبکہ ڈاکٹر فرحت ھاشمی کی توحید 22 کیریٹ کے سونے کی طرح خالص ھے،، یوں ڈاکٹر صاحبہ کی یہ توحید کی دعوت اور اس کا پھیلاؤ بھی علماء کے لئے کسی ریلیف کا سبب نہیں بلکہ اشتعال انگیز ھے ! میں یہ چاھتا ھوں کہ فقہی اختلاف کو برداشت کیا جائے ،اور نماز میں اسی طرح کا گلدستہ بنے جیسا کہ عربوں میں نماز کے دوران بنتا ھے، یا جس کا نمونہ حج پہ لوگ دیکھتے ھیں کہ کوئی ھاتھ چھوڑے کھڑا ھے تو کوئی ناف پہ باندھے ھوئے،، کسی نے ھاتھ عین سینے کے درمیان ھیں تو کسی نے دونوں ھاتھ جوڑ کر دل کے اوپر رکھے ھوئے ھیں ،گویا اللہ کو سینے سے لگا رکھا ھے ! بقول ھمارے ایک ساتھی کے جب سے وہ کنیڈا منتقل ھوئی ھیں،،خود ڈاکٹر صاحبہ کے خیالات میں بھی کافی تبدیلی آئی ھے اور ان میں بھی اب وسعتِ نظری پیدا ھوئی ھے،، اس سلسلے میں اگر کوئی پُل کا کام کر سکتا ھے تو وہ تبلیغی جماعت ھے،جو اھل سنت میں تازہ پانی کے جھرنے کی طرح ھے، اس کے باھر کے ممالک میں رھنے والے ممبران تو خیر سے وسیع النظر ھیں جو روزانہ سینے پر ھاتھ باندھنے والوں اور رفع یدین کرنے والوں میں پانچوں نمازیں پڑھتے ھیں،، اور جو پاکستان کے ان علماء سے زیادہ وسیع النظر اور وسیع القلب ھیں جنہیں زندگی بھر کبھی ایسا منظر دیکھنا نصیب نہیں ھوتا ،، پھر جو تبلیغی جماعتیں باھر جاتی ھیں انہیں بھی وھاں قسم قسم کے مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ھے، اس کے علاوہ جو تبلیغی ملک کے اندر ھیں وہ بھی سالانہ اجتماع پر عربوں کو رفع یدین کرتے دیکھتے ھیں تو ان میں بھی اس معاملے میں انس اور برداشت پیدا ھوتی ھے، وہ الہدی کو ساتھ لے کر چل سکتے ھیں،،خاص طور پر مولانا طارق جمیل صاحب جنہوں نے نہ صرف الہدی میں خطاب کیا بلکہ اس تحریک کو ایک نعمت قرار دیا ،، یہ لوگ اگر چاھئیں اور الہدی والے ان کے خلوص و اخلاص کو اھمیت دیں تو عالمِ اسلام کی یہ دو تحریکیں عالم اسلام کی کایا پلٹ سکتی ھیں ،، اس بات کو ڈاکٹر ادریس صاحب بہت اچھی طرح سمجھتے ھیں،،

دولتیں مل گئ ھیں آھوں کی،ایسی تیسی میرے گناھوں کی !

رات کے چراغ !

جب آپ رات تیسر پہــر نفل پڑھ رھے ھوں ،، سر سجدے میں ھو تھوڑی دیر سکوت اختیار کیجئے اچھی طرح اپنی ھیئت کا جائزہ لیجئے کہ آپ کا سر ربِ قدوس کے قدموں میں دھرا ھے جس نے آپ کو بخشنے کے لئے نزول فرمایا ھے ! اس جائزے کے بعد آپ آٹو سے مینوئل پر منتقل ھو جائیں گے،اب آپ آرام کے ساتھ تسبیح پڑھئے ،اس طرح کی سبحان کے بعد ربـــــــــــــــــــــی کو لمبا کھینچیں،،اس ربی میں دو ھستیاں ھیں ایک آپ کا رب ھے اور دوسرے آپ ھیں اس بـــــــــــــــــــــی کو کھینچ کر ان کا اپس میں رابطہ بحال کریں، اس وقت وہ ربنا نہیں ھے،،وہ صرف میرا رب ھے،میرے لئے نزول فرمایا ھے، سبحان ربــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــی،یہ ” ی ” آپ ھیں ،، اپنے کو لمباڈالیں اس کے قدموں میں ، اب آپ تسلی کے ساتھ اپنے رب قدوس کو اپنی مادری زبان میں مخاطب کیجئے اور اپنے گناہ بیان کرنا شروع کیجئے ! میرے مولا ،میرے آقا ،میرے پالنے والے ،مجھے پیدا کرنے والے ،مجھے شکل و صورت عطا فرمانے والے ،مجھ پر نعمتوں کی بارش کرنے والے،میری ذرا ذرا ضرورتوں کا خیال رکھنے والے مجھے سنبھال سنبھال کر رکھنے والے ،اب میرے کارنامے سن ،میرے کرتوت سن ،میری ناشکریاں بھی سن،، بسم اللہ کر کے اپنی خالص مادری زبان میں گنوانا شروع کیجئے ابھی آپ تین یا چار ھی گنوا پائیں گے کہ گناہ اس تیزی سے pop up کرنا شروع کریں گے جیسے موسی دھار بارش میں بلبلے اٹھتے ھیں،، یہ اللہ کی رحمت کی بارش میں اٹھنے والے بلبلے ھیں جو اٹھتا ھے پھٹتا ھے اور مٹتا جا رھا ھے،، لگتا ھے گناھوں میں مسابقت کی دوڑ لگ گئ ھے ،ھر گناہ چاھتا ھے کہ پہلے وہ شمار کیا جائے ! یہ وھی کیفیت ھے جو نبی کریم ﷺ کے اونٹوں کی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو حجۃ الوداع میں ذبح فرما رھے تھے تو ھر اونٹ دوسرے سے پہلے حضورﷺ کے پاس پہنچنا چاھتا تھا،، اسی طرح آج گناھوں کو پاک ھونے کی جلدی ھے،آپ کی زبان ان کی جلدی کا ساتھ نہیں دے سکے گی وہ گنگ ھو جائے گی،ھونٹ تھرتھراتے رہ جائیں جائیں گے، مگر آپ فکر مت کریں ، انہ علیمٓ بذات الصدور ،، وہ سینوں کے سارے بھید جانتا ھے،، آپ بس دھیان جمائے رکھئے گناھوں کے بلبلے پھٹنے دیجئے،، یہ گناہ آج ایکسچیج ھو رھے ھیں،، ُیبَدِۜلُ اللُہ سیئاتھم حسنات ! اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے تبدیل کر دے گا،، آج تبادلے ھونے ھیں،، بڑے بڑے کرنسی نوٹ پہلے گنتی کیئے جاتے ھیں،، ھر بڑا گناہ چاھتا ھے پہلے اسے پاک کیا جائے ،، اترنے والا خالی ھاتھ نہیں آیا ،، وہ رحمت کے خزانوں کے ساتھ آیا ھے،، وہ گناھوں کو نیکیوں سے تبدیل کرتا ھے، پھر نیکیوں کو دس سے ضرب دیتا ھے تو کچھ کو سات سو سے ضرب دیتا ھے،، اس کیفیت میں سجدے کو چلنے دیجئے،دس منٹ ، پندرہ منٹ، کوئی مسئلہ نہیں اسے چلنے دیں،،شاید کل ھی یہ توفیق نہ رھے،،ھمیں بیٹھ کر نماز پڑھنی پڑ جائے،،اشارے سے سجدہ کرنا پڑ جائے،، آج ماتھے کو اس کی لذت لینے دیجئے ،،، آپ اس کیفیت کے ساتھ صرف دو رکعت پڑھ لیجئے ، پھر آپ کو رب ھر جگہ اپنے ساتھ محسوس ھو گا ،، آپ لوگوں سے سوال نہیں کریں گے کہ رب کہاں ھے،، آپ ان کو بتائیں گے کہ میرا رب یہاں ھے،، کلا ان معی ربی،،میرا رب میرے ساتھ ھے،، ان اللہ معنا ،، بیشک اللہ ھمارے ساتھ ھے،،اللہ کی یہ معیت آپ کو اس کیفیت سے دو چار کر دے گی،جسے” لا خوفٓ علیھم ولا ھم یحزنون "کہتے ھیں! ایک طرف اپنی ذات کے اندر تکبر ،غرور،حسد، کینہ جیسی برائیاں آپ دیکھیں گے کہ گویا ڈس ایبل اور معطل ھو گئ ھیں تو دوسری طرف کسی کے کسی فعل کا کوئی رد عمل آپ میں پیدا نہیں ھو گا،، آپ کی شخصیت کو لیمینیٹ کر دیا جائے گا،جس طرح پلاسٹک کور کرنے کے بعد کاغذ جیسی کمزور چیز پر بھی پانی وانی کا اثر نہیں ھوتا،،اسی طرح آپ پر آفس والوں کی کسی سازش کا اب کوئی اثر نہیں ھو گا،، فلاں میرے باس کو بھڑکا دے گا،، میری ترقی رکوا دے گا، یہ ساری باتیں آپ کو اب ثانوی اور معمولی لگنا شروع ھو جائیں گی اور لگنی بھی چاھئیں کیونکہ تقدیروں کا لکھنے والا تو آپ کے ساتھ ھے،،عزت اور ذلت دینے والا آپ کے ساتھ ھے،امیر اور غریب کرنے والا،ارزاق کا بندوبست کرنے والا تو آپ کے ساتھ ھے ،اگر آپ بیوی ھیں تو شوھر کی کوئی بات آپ کو محسوس نہیں ھو گی،یوں لگے گا جیسے آپ کی ذات ھر رد عمل سے ڈس ایبل کر دی گئ ھے،، نہ کوئی خوف نہ کوئی غم،، ان اللہ معنا !! یہ صرف دو رکعت کی بات ھے ! آزما کر دیکھئے اور پھر اپنا اگلا دن بھی آزما کر دیکھ لیجئے !! اللہ پاک آپ کے آنسوؤں کے صدقے میرے خشک سوتے بھی رواں کر دے !

دولتیں مل گئ ھیں آھــوں کی — ایسی تیسی میرے گناھوں کی !

Prohibition on killing a human being in Islam (Urdu) in PDF

انسانی جان کی حرمت و توقیر ! اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں جہاں بھی بڑے گناھوں کا ذکر فرمایا ھے وھاں شرک کے فوراً بعد قتلِ نفس کو ضرور ذکر کیا ھے،، جہاں میں شرک سے منع کیا ھے وھیں ناحق انسانی جان لینے کو بھی حرام قرار دیا ھے ! ایک انسان کا … Read more

آؤ ذرا حشر پبا کر لیں

آؤ ذرا حشر بپا کر لیں ! January 13, 2014 at 8:22pm  اگر ھماری عمر اپنی نبی پاکﷺ جتنی ھو تو !   8 گھنٹے ڈیوٹی کے = 21 سال- 8 گھنٹے سونے کے= 21 سال-   باقی بچ گئے 21 سال !   اس میں سے 15 سال بلوغت کےنکال دیجئے !   باقی … Read more

ھوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ھے تصویریں

پیدائش یعنی نسل آگے چلانے کے مختلف طریقے مخلوق میں پائے جاتے ھیں ! اول نر اور مادہ سے تخلیق ،، دوم انڈے سے تخلیق ،،، سوم بیج سے تخلیق اور چہارم ٹہنی کاٹ کر زمین میں دبا کر پیوند کاری سے تخلیق جیسا کہ نیم کے درخت اور گنے کو دبا کر پیدا کیا … Read more

ھم نے تم کو محبت کا خدا جانا

تیری قسم ھم نے تم کو محبت کا خدا جانا ! January 2, 2014 at 8:11pm لوگوں کے سوالات اور کمنٹس سے جس حقیقت کا اظہار ھوتا ھے ، وہ حقیقت ان سے سوال کر کے بھی کبھی عیاں نہ ھوتی،، بعض دفعہ انسان خود کو بیان نہیں کر سکتا مگر اس کا کمنٹ اور … Read more

آسانی پیدا کرو،تنگی مت پیدا کرو

اللہ کے پیارے نبی محمد مصطفی خیر الانبیاء ﷺ فرماتے ھیں کہ میرا جی چاھتا ھے کہ نماز میں لمبی قرات کروں مگر کسی خاتون کا بچہ رو پڑتا ھے اور میں سوچتا ھوں کہ اس کی ماں کا دل بچے میں اٹک گیا ھو گا،میں اس کی سہولت کے لئے قرات کو مختصر کر … Read more