سوشلستان یا قبرستان سیزن ـ2

خواتین کے حقوق کے بارے میں فیس بک پر سب سے مدلل اور زوردار آواز ہم نے بلند کی ، ان کے بارے میں مذھبی نقطہ نظر میں جو ڈنڈی ماری گئ اس کا رد قرآن و سنت سے پیش کیا ، اس لئے ہمیں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ھم مردانہ تعصب سے کام لے رہے ہیں ، ھم حقیقت بیان کر رھے جو کہ نہایت خوفناک ہے ، رشتے کرانا بھی ھماری فیلڈ ھے اور ٹوٹتے رشتوں کو بچانے کا کام بھی ھم کرتے ہیں ،لہذا ھماری رائے اس شعبہ زندگی کے بارے میں تجربے پر مبنی ہے !!

حقوق ایک الگ چیز ھے ، ایک مزدور کو حقوق ملنے چاہیں مگر ظاھر ھے ملیں گے تو مزدور والے حقوق آپ اس کو مالک بنانے کی کوشش کریں گے تو اس بیچارے کی روٹی پر لات ماریں گے ،، اولاد کو حقوق ملنے چاہیں مگر اولاد والے ہی ملیں گے ناں آپ اس کو باپ بنائیں گے تو گھر سے نکلوا دیں گے ،، بیوی کو اس کے حقوق اور مقام ملنا چاہئے مگر مقام تو بیوی والا ہی ملے گا ناں ؟ اس کا نام بیوی والے خانے میں لکھا ھوا ھے شوھر والے خانے میں نہیں ،،
خونی رشتے موسم کی طرح ھوتے ہیں جو آتے جاتے رہتے ہیں ان سے تعلق کبھی ٹوٹتا نہیں ،،ھر خوشی غمی پر وہ پھر سے بحال ھو جاتے ہیں جبکہ میاں بیوی کا تعلق مجرد تین لفظوں کا تعلق ھے ،، ٹوٹ گیا تو جڑنے کا نہیں ،،
جو خواتین حقوق اور سیلف کانفیڈینس کے نام پر لڑکیوں کو بانس پر چڑھا رھی ہیں خود ان کو بھی شوھر پر سواری کرنے کے لئے بہت سارا وقت اور دو چار بچے دینے پڑے ہیں ،، اور جس نام نہاد کانفیڈنس کی چوٹی پر وہ کھڑی ہیں اس کانفیڈنس کے ساتھ وہ سونے کی بن جائیں تو بھی آج ان کو کوئی گھاس نہ ڈالے ،،

ایک طلاق یافتہ خاتون نے جو تیسرا شوھر ڈھونڈ رھی تھیں فون کیا کہ قاری صاحب پلیز میرے لئے کوئی کھوتا ڈھونڈ دیں( Please See a Donkey 4 me)،، خاتون شارجہ بینک میں ٹھیک ٹھاک تنخواہ لے رہی تھیں ، میں نے عرض کیا کہ بی بی اسی نفسیات کی وجہ سے پہلے دو کھوتے بھی آپ کو چھوڑ گئے ہیں ۔۔

جب ھم کمپرومائز اور اندڑ اسٹینڈنگ کا کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ھوتا ھے کہ اگر شوھر کی تنخواہ ۱۵ یا ۲۰ ھزار ھے تو اسی کے اندر گزارہ کرنے کی کوشش کرے اور دو لاکھ تنخواہ لینے والے پڑوسی کی بیوی جیسے نہ تو مطالبے کرے اپنے شوھر سے اور نہ ہی اس کے شوھر کی واہ واہ کرتی پھرے ، نہ ھی حسرتوں کے چرچے کرتی پھرے اور نہ ھی شوھر کی غریبی کو اس کا جرم بنا کر اس کی بےعزتی کرتی پھرے ، حسرتیں تو بہادر شاہ ظفر کی بھی پوری نہیں ہوئی تھیں جو انڈیا ، پاکستان اور بنگلہ دیش کا بے تاج بادشاہ تھا ،، وہ بھی کہہ گیا ھے کہ ؎
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں ـ
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں ـ

اگر شوھر کی طبیعت میں تیزی ھے تو عورت کو اس بات کو نوٹ کر لینا چاھئے اور ایسا کوئی موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ بھڑک اٹھے ، اگر وہ کسی چیز سے چڑتا ھے تو اس چیز سے پرھیز کرنا چاہئے ، اگر کوئی رشتہ اس کی کمزوری ھے تو اس رشتے کا احترام کرنا چاہئے ،، مرد ٹکے کا ھو ، امیر ھو یا غریب خوبصورت ھو یا بدصورت وہ طلاق کے اختیار کا مالک ھوتا ھے ،، آپ جب ٹیپ فیتہ استعمال کرتے ہیں تو کھینچتے کھینچتے ایک جگہ وہ آتی ھے جہاں یا تو سرخ نشان ھوتا ھے یا لکھا ھوتا ھے کہ بس کر دو بس یعنی اسٹاپ ،، جونہی اس سے آگے کھینچو پھر وہ فیتہ واپس کبھی نہیں لپٹتا ،، ھوور مشین تار کھینچیں تو پہلے پیلا اور پھر سرخ نشان آتا ھے اس سے آگے نہیں کھینچنا چاہئے اگر کھینچ لیا تو پھر تار باھر ھے رھے گی اب اندر نہیں جائے گی ، یہی معاملہ میاں بیوی کے رشتے کا ھوتا ھے ، ایک حد ھوتی ھے جہاں بس کر دینا چاہئے اس کے بعد شوھر کے پاس سے بس طلاق ہی برآمد ھوتی ھے ـ اب عورت کانفیڈنس کے نام پر طلاق لے لے اور اس کانفیڈنس کو پلاسٹک کور کرا لے یا فریم میں فٹ کروا کر سرھانے سجا لے یا چاندی کے تعویز میں منڈھا کر گلے میں لٹکا لے تو یہ کوئی اچھا انجام تو نہیں !!

قاری حنیف ڈار بقلم خود
[06:26، 14/6/2022] FB Qari Hanif Dar: سوشلستان یا قبرستان ۔سیزن 1

سوشل میڈیا نے لڑکیوں کے دماغ خراب کر دیئے ہیں ـ پہلے یہ ہوتا تھا کہ لڑکی کی جھجھک ختم ھوتے ھوتے اس کے پاؤں جم جاتے تھے ، بچی بچہ ھو جاتا تھا یوں اس گھر میں بسنے کا ایک سبب پیدا ھو جاتا تھا اور لڑکی حالات کے ساتھ کمپرومائز کر لیتی تھی ـ اب گھر بیٹھی کنواری لڑکی ساس کے لیول پر بولڈ ھو چکی ھے ، مختلف اسٹیٹس کے فرینڈز کے ساتھ انٹرایکشن کی وجہ سے عام لڑکا اب ان کی آنکھ میں رڑکتا بھی نہیں ،، ھر لڑکی کو ایک دانشور کی تلاش ھے جو فرنود عالم ، ید بیضا اینڈ کمپنی کے بھی کان کاٹے ،، مختلف فرینڈز کے ساتھ بےتکلفانہ کمنٹس اور جوابی کمنٹس نے ان کو بیباک سے بڑھ کر بد تمیز یا کپتی بنا دیا ہے !
سوشل میڈیا کے مصنوعی اسٹیٹس سنڈروم نے معاشرے کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا ھے جبکہ حقائق نہایت تلخ ہیں ، بہت ہی زیادہ مشہور لکھاریوں اور دانشوروں کے گھر میں مہمان کو بٹھانے کی جگہ نہیں بس گزارہ کر رھے ہیں ، بہت ھی مشہور نامہ نگاروں کو کئ کئ مہینے تنخواہ نہیں ملتی اور ان کو گھر چلانے کے لئے کئ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ،، جو لڑکی سارا دن بڑے بڑے ناموں کے ساتھ گفتار کا تعلق رکھتی ھے میٹرک یا ایف اے لڑکوں کو جوتے پر نہیں لکھتیں ،،

منگنیاں ھو کر ٹوٹ رھی ہیں ، اور شادیاں ھو کر پھوٹ رھی ہیں ،، اب تو جو شادی شدہ ہیں وہ ایسی خوش قسمت لگتی ہیں جیسے لوگ بحریہ ٹاؤن یا ڈیفنس ہاوسنگ اسکیم میں کوٹھی لے کراپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں !!

قاری حنیف ڈار بقلم خود