معـــــــروف اور منکـــــــــــــر !

کسی پوسٹ پر جب کمنٹس آتے ھیں تو احساس ھوتا ھے کہ جسے ھم زکام یا عام فلو سمجھ کر علاج کرنے چلے تھے وہ تو برڈ فلو یا انفلوئنزا الخنازیر نکلا ھے ! کانسیپٹ عام آدمی کا تو خراب تھا ھی مگر پتہ چلتا ھے کہ یہ ھمارے دیندار طبقے میں بھی کافی قوت کے ساتھ اور کافی گہرائی میں موجود ھے !
اللہ پاک نے یہود کے بارے میں سورہ آلِ عمران میں ارشاد فرمایا ھے کہ ” ذلک بانھم قالوا لیس علینا فی الامیین سبیل ” یہ یہود حرام حلال کی تمیز کیئے بغیر جو غیر یہود کا مال کھائے چلے جا رھے ھیں تو اس کی وجہ ان کا یہ فتوی ھے کہ ” غیر یہودیوں کا مال کھا جانے پر ھم سے کوئی باز پرس نہیں ھو گی، وجہ ظاھر ھے کہ جب غیر یہودی ھے ھی کافر ، اور اس نے جنت میں تو جانا نہیں اور غیر یہودی کی نیکی کوئی نیکی نہیں جب تک وہ یہودی نہ ھو جائے اور نہ اس کے جان و مال کو تحفط حاصل ھے،اور نہ ھی ھمیں یہ خطرہ ھے کہ اللہ ھماری نیکیاں اس کو دے کر اسے جنت میں داخل کر دے گا،، اور ھمیں اس مال کے کھانے پر جہنم میں پھینک دے گا !
جب یہ اصول طے کر لیا تو اب کون انہیں حرام خوری سے روک سکتا ھے،پھر اس اصول کی تردید پر اللہ نے سارا رکوع صرف کر دیا کہ یہ سب ان کے منہ کی باتیں ھیں،جنہیں یہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ھیں اور جانتے بوجھتے جھوٹ بولتے ھیں حالانکہ اللہ نے کسی کو کسی کا مال کھانے کی چھوٹ نہیں دی !( آیت نمبر 75 تا 78 یہ بحث دیکھی جا سکتی ھے )
اب اپنے علماء کا فتوی دیکھ لیجئے کہ ھندوستان چونکہ دارالسلام نہیں لہذا ھندوستان میں بینکوں کا سود جائز ھے ،، اس پر بہت لمبی دلائل کی بھرماریں ھیں،،مگر جواب صرف اتنا ھے کہ اگر ھندوستان کا زنا ، زنا ھے تو پھر ھند کا سود ، سود کیوں نہیں ؟ اگر کسی پشپا کماری سے زیادتی بدکاری ھے تو کسی وشوا کمار سے لیا گیا سود سود کیوں نہیں ؟
گویا ھمارے نزدیک مسلمان کا مال کھانا تو حرام ھے یہود کی طرح،،مگر غیر مسلم کا مال بلکہ وہ مال بھی کہ جس میں زیادہ حصہ غیر مسلم کا اور کم حصہ مسلم کا ھو تو اس کو کھایا جا سکتا ھے،کیونکہ اعتبار بہرحال غالب جنس کا ھی کیا جاتا ھے ! اگر غیر مسلموں کو پتہ چلے کہ ھمارے علماء ھمیں کیا پٹی پڑھا رھے ھیں تو کوئی غیر مسلم ھمیں کیشئر یا امین رکھے گا ؟
کوئی مالی ادارہ جس میں ھر مذھب والے اور لامذھب کے پیسے جمع ھوتے ھیں ھم مسلمانوں کو اپنا ملازم رکھے گا ؟ اگر کبھی ھم اس بات پر غور کریں کہ نبی کریم جب مکے سے ھجرت کر رھے تھے تو مکہ دارالحرب اور مؤکد دارالکفر تھا اور مکے والے عذاب الہی کے مستحق قرار دے دیئے گئے تھے اس کے باوجود کہ وہ نبی کریمﷺ کے قتل کی سازشیں کر رھے تھے، آپﷺ نے ان کا مال کھانا ،نہ تو کافر ھونے کی وجہ سے حلال قرار دیا اور نہ ھی اپنا جانی دشمن ھونے کی وجہ سے بلکہ حضرت علیؓ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ان بدبودار لوگوں کی امانتیں ان کو واپس کر کے مدینہ آئیں !
اس کے بعد کیا دلیل رہ جاتی ھے ھند میں سود کھانے کے جواز کی ؟ اصل حقیقت یہ ھے کہ یہ کانسپیٹ بھل اور نتیجہ ھے ایک اور غلط کانسیپٹ کا کہ ” نیکی صرف مسلمان کی نیکی ھے اور خیر صرف اسلام میں ھی پایا جاتا ھے "
حالانکہ خیر کی دو قسمیں ھیں ایک خیر یا معروف کا تعلق مذاھب کے اندرونی ڈھانچے سے ھے وہ اس مذھب کا اپنا پرائیویٹ خیر ھے، سماجی طور کسی کا نفع نقصان اس سے جڑا ھوا نہیں ھے،، اگر میں نماز پڑھتا ھوں اور بہت لمبی پڑھتا ھوں تو اس کا میرے سوا کسی کو کوئی فائدہ نہیں اور نہ ھی اس عبادت سے مجھے اپھارہ ھونا چاھئے ،، یہ میرا ذاتی خیر ھے،یہی بات روزے اور حج کے بارے میں کہی جا سکتی ھے،، یہ وہ خیر ھے جو مذھبی خیر ھے ،جس طرح ھم مسلمان ایک دوسرے کو اس کی تلقین کرتے ھیں کہ نماز پڑھا کرو،،بھائی روزہ رکھا کرو،، یہ بات ھر مذھب کے مذھبی راہنما اپنے اپنے ھم مذھبوں کو کہتے ھیں !
اور خیر کی یہ قسم صرف اور صرف چند چیزوں تک محدود ھے !!
مگر خیر کی وافر مقدار وہ ھے جس کا ھر ابن آدم اور معاشرے کا ھر فرد مکلف ھے اور اس سے توقع کی جاتی ھے کہ وہ ان پر عامل ھو گا ! جسے انسانی ضمیر مذھب سے اوپر اٹھ کر تسلیم کرتا ھے اور یہی معروف کہلاتا ھے ! یہی معروف کسی بھی شخص سے آپ کے مکالمے کی بنیاد بنتا ھے،، معاشرہ اس معروف سے چونکہ استفادہ کرتا ھے لہذا اس معروف کو بڑھانے پھیلانے اور نشو ونما دینے سے اسلام کی بھی خدمت ھوتی ھے اور انسانیت اور سماج کی بھی خدمت ھوتی ھے !
اسلام اس سارے معروف کو اپناتا ھے ،، اسے Own کرتا ھے اور مسلمان کے کردار میں یہ دیکھنا چاھتا ھے،، اسلام نے جب بھی کسی کی مذمت کی ھے تو اسی المعروف کی کمی کی بنیاد پر کی ھے اور اس سماجی المعروف کی عدم موجودگی میں ،عبادت کی بھی مذمت کی ھے اور نمازوں پر بربادی کی خبر دی ھے اور سماجی المعروف کی عدم موجودگی میں عبادت کو دکھاوا قرار دیا ھے،تقریباً ھر نماز میں پڑھے جانے والی سورت ” الماعون ” جس کا نام ھی مدد اور معاونت ھے،، فویلۤ للمصلین، ھلاکت ھے نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز کے مقصد سے غافل ھیں جو ریا کار ھیں اور عام استعمال کی چیزیں تک لوگوں کو نہیں دیتے ! قرآن اس قسم کی مثالوں سے بھرا پڑا ھے جہاں اللہ پاک نے کسی کافر کی مذمت کرتے ھوئے اس کے اخلاق کے پول کھولے ھیں !
اور کافر ھوتے ھوئے کسی کے اخلاق اور سماجی معاملات کی تعریف کی ھے ! اھل کتاب میں سے کچھ لوگ ابھی ایمان نہیں لائے تھے مگر ان میں خیر موجود تھی تو اللہ نے جہاں بعض اھل کتاب کی مذمت فرمائی وھاں ان لوگوں کی کافر ھوتے ھوئے بھی تعریف فرمائی !
فرمایا !
اھلِ کتاب سارے برابر نہیں ھوتے ! ان میں ایک گروہ حق پر قائم ھے وہ ساری رات اللہ کی آیات تلاوت کرتے اور سجدے کرتے گزار دیتا ھے ! وہ ایمان رکھتے ھیں اللہ پر ( اگرچہ محمدﷺ کی رسالت کو نہیں مانتے ) اور آخرت کے دن پر ،، وہ حکم دیتے ھیں المعروف کا اور روکتے ھیں المنکر سے، اور خیرات میں سبقت کرتے ھیں،، اور یہ لوگ صالح لوگوں میں سے ھیں ( العمران 114 )
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ھیں کہ مسلمان ھوئے بغیر بھی وہ المعروف کو پھیلاتے اور المنکر کا رستہ روکتے ھیں تو گویا المعروف اور المنکر اسلام کے باھر بھی اپنا وجود رکھتا ھے اور اللہ کی طرف سے اس کو تسلیم بھی کیا جاتا ھے اور اسی کی وجہ سے کوئی اللہ کا محبوب بن کر اسلام کی قبولیت کی توفیق بھی پا لیتا ھے !
جب ھم کسی کو کہتے ھیں کہ اسلام قبول کرو تو وہ سوال کرتا ھے کیوں ؟
ھم کہتے ھیں کہ اسلام میں حکم ھے کہ سچ بولو ! وہ کہتا ھے یہ تو میرے مذھب میں بھی موجود ھے،، اسلام روزے کا کہتا ھے،پورا تولنے کو بولتا ھے، ملاوٹ نہ کرنے کو بولتا ھے، والدین کی خدمت کو بولتا ھے،، غریبوں کی مدد کا کہتا ھے، بیوی کے ساتھ اچھے سلوک کا کہتا ھے، اچھے اخلاق سے پیش آنے کو کہتا ھے، چوری نہ کرنے کو کہتا ھے،جھوٹ نہ بولنے کو کہتا ھے،،
وہ آپ کو جواب دے گا کہ جب یہ سارا کچھ میرا جدی پشتی دین بھی کہتا ھے تو کیا مجھے باولے کتے نے کاٹا ھے کہ میں اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر تمہارے باپ دادا کا دین اختیار کروں جب کہ ان تمام ویلیوز میں ،، میں تم سے زیادہ اچھا ھوں ؟ کیا جواب ھے ھمارے مبلغ کے پاس ؟
ھم صرف توحید کی وجہ سے کسی کو اسلام کی طرف دعوت دے سکتے ھیں ،،باقی سب کچھ اُدھر بھی موجود ھے !
جو لوگ یہ سمجھتے ھیں کہ اسلام کے باھر کسی کے اخلاق اور سوشل ویلیوز یا سوشل مورالز کی کوئی اھمیت نہیں تو وہ جان لیں کہ دین اسلام کی بنیاد نبی کریمﷺ کے اسلام سے پہلے کے اخلاقیات و کردار پر رکھی ھوئی ھے،، اسلام اور رسالت کے اعلان کے بعد والے معروف پر نہیں،،، آپ نے کوہ صفا پر کھڑے ھو کر لوگوں سے اپنی سابقہ قبل از اسلام چالیس سالہ زندگی پر گواھی طلب کی تھی اور اللہ پاک نے بھی اسی زندگی کو پیش کرنے کو کہا تھا،، فقد لبثتُ فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون ؟ ( یونس 16 ) میں اس اعلان نبوت سے پہلے ایک عمر تم میں گزار چکا ھوں ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؛؛
کہ جس شخص نے جھوٹ بولنے کی عمر میں کبھی جھوٹ نہیں بولا ،وہ اب بڑھاپے کی عمر میں جھوٹ بولے گا ؟