اسلام، قران اور انسان ! -1

April 16, 2013 at 12:18am

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمدُ للہ رب العالمیین،والصلوۃ والسلامُ علی اشرف الانبیاء والمرسلین،، و علی آلہ و صحبہ اجمعین،

اما بعد ! اسلام  اپنی فائنل شکل میں مکمل ھو چکا ھے،اور اسلام کے بعد اب دنیا کے لئے کوئی اور آسمانی نظام حیات دستیاب نہیں ھے،، اللہ پاک انسانیت سے الوداعی خطاب فرما چکا ھے اور وہ قرآن حکیم کی شکل میں محفوظ و موجودھے،اور اللہ کی ضمانت سے قیامت تک موجود رھے گا ، اللہ پاک جو کہ کائنات کا خالق ومالک،اور مستقبل کا جاننے والا ھے، وہ قیامت تک انے والے انسانوں اور ان کےکارناموں اور صلاحیتوں،نیز خامیوں اور خوبیوں سے بخوبی آگاہ ھے ، جس چیز کو ھم کرکے آگاہ ھوتے ھیں وہ اس چیز سے ھمارے کرنے سے پہلے بھی واقف ھوتا ھے،، ماں باپ نےھمیں پیدا کر کے اور پال کے جانا ھے،،جب کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ھمیں جان کرپیدا فرمایا ھے،،جب ھم آدم علیہ السلام کی مٹی میں ایک ذرہ تھے وہ اس وقت بھی ھم سے واقف تھا اور جب رحمِ مادر میں جنین تھے وہ تب بھی ھم سے ایسا ھی واقف تھا جیساآج ھے اور جب ھم خاک ھو جائیں گے تب بھی اس کے علم میں اسی طرح زندہ و تابندہ موجود رھیں گے،،وہ کسی چیز کو بھولتا نہیں،، اس کے علم میں کمی اور زیادتی نہیں ھوتی، نہ حوادث سے تغیر پذیر ھوتا ھے،عقلیں اس کی کنہہ کا احاطہ کرنے سے عاجز ھیں،اور سوچ درماندہ ھے،گمان اس کے پاس تک نہیں پھٹکتا، کوئی وصف بیان کرنے والا اس کےاوصاف بیان نہیں کر پایا اور کوئی بولنے والا آج تک اس کی مکمل تعریف نہیں کر پایا، کوئی اس کی نعمتوں کا احاطہ نہیں کر پایا اور نہ کوئی بدلہ دے پایا،،اس رب جلیل کی رحمت کاانسانیت پر سب سے بڑا احسان قرآن کی صورت میں  ھمارے پاس ھے اور اسکی نعمتوں کا اتمام  اسلام کی شکل میں ھمارے پاس موجود  ھے

سبوخ سید کے نام ! محبت کیا ھوتی ھے،کیسی ھوتی ھے ؟

July 28, 2013 at 12:21pm

صبح صبح سحری کے وقت اپنے ایک مہربان صحافی دوست کا لطیفہ موصول ھوا، لطیفہ کچھ یوں ھے کہ بیوی نے شوھر سے گلہ کیا کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ھے ! جس پر شوھر نے پلٹ کر جواب دیا ،بچے کیا عامر لیاقت کے پروگرام سے گفٹ میں لائی ھو؟ پہلے یہ لطیفہ کچھ یوں تھا کہ’ بچے کیا گوگل سے ڈاؤن لؤڈ کیئے ھیں؟ بات لطیفے کی نہیں، بات ھماری نفسیات کی ھے،،جب بھی کسی بیوی نے شوھر سے گلہ کیا ھے کہ اسے اب بیوی سے محبت نہیں رھی تو شوھر نے بچے پکڑ کر اس کے سامنے ثبوت کے طور پر کھڑے کر دئیے،،یا ان کی طرف اشارہ کر دیا ! کیا بچے پیدا کرنا محبت کی نشانی ھے یا کیا بچے محبت کا ثبوت ھیں،، یا کیا جنسی تعلق محبت کا ثبوت ھے ؟؟؟؟ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ھے،، بچے درجن بھی ھوں تو ضروری نہیں کہ ان میاں بیوی کو آپس مین محبت بھی ھو، ، جنسی جذبہ اور جنسی تعلق ایک حیوانی جذبہ ھے جو تناسل کے لئے بالقوہ رکھا گیا ھے،،جنسی تعلق میں انسان اور حیوان صرف ایک ھی جذبے، ایک ھی ضرورت کے غلام ھوتے ھیں، دونوں میں انیس ،بیس کا فرق بھی نہیں ھوتا، اس لئے جنسی تعلق اور افزائشِ نسل کو محبت نہ کہا جا سکتا ھے ،نہ محبت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ھے،،ھماری اسی غلط فہمی کا نتیجہ ھے کہ گھروں سے محبت کا جنازہ نکل چکا ھوتا ھے اور ھم اولاد کو دیکھ دیکھ کر محبت کی وافر موجودگی کا یقین کیئے بیٹھے ھوتے ھیں،، پھر محبت کیا ھے ؟ محبت ایک جذبہ ھے، جو اپنے اثرات اور نشانیاں رکھتا ھے،، اس کے شواھد ھوتے ھیں،، محبت اپنے محبوب کے سامنے سرنگوں رھتی ھے،، محبوب کی مرضی میں اپنی مرضی گم کر دیتی ھے،،وہ محبوب کو خوش کر کے اس کی خوشی میں سے اپنی خوشی کشید کرتی ھے،،اس میں انا کوئی نہیں ھوتی،، اس میں اتھارٹی کی طلب نہیں ھوتی،، وہ اپنے تمام حقوق لکھ کر محبوب کو دے دیتی ھے اور پھر کبھی پلٹ کر صلہ طلب نہیں کرتی،، وہ محبوب کی ناراضی برداشت نہیں کرتی،، وہ پوری طرح اپنے محبوب کے رنگ میں رنگ جاتی ھے،، وہ تو حکم کا انتظار بھی نہیں کرتی وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے محبوب کی پسند کا اندازہ کرتی اور اسے کہے بغیر پورا کرتی ھے،، جب گھروں میں مطالبے ھونے لگیں اور اپنے اپنے حقوق کا رونا رویا جائے ،ھر ایک اپنے دکھ سنانے کے چکر مین ھو،اپنی قربانیاں گنوانے کو بے قرار ھو تو سمجھ لیں محبت اس گھر سے کوچ کر گئی ھے،،اب اس کی لاش کی چیر پھاڑ جاری ھے،، اللہ جب انسان سے محبت کرتا ھے تو اپنی اتھارٹی بھول جاتا ھے،، اپنی شان کے ساتھ  سماء دنیا پر تنزل فرماتا ھے ،،بندہ چل کے آتا ھے تو وہ دوڑ کر آتا ھے،، معاف کرنے پر تلا بیٹھا ھوتا ھے ، خود معاف کرنے کے بہانے فراھم کرتا ھے اورسب سے بڑی بات کہ کائنات میں نہ سما سکنے والا قلبِ انسان میں ٹھکانہ بنا لیتا ھے، جن گھروں میں محبت ھوتی ھے وھاں سزا نہیں ھوتی،، معافی ھوتی ھے،اور معافی مانگنے کا انتظار بھی نہیں ھوتا، عورت کے لیئے سب سے بڑی سزا اس کے شوھر کا ناراض ھو جانا ھے بشرطیکہ  اسے شوھر سے محبت ھو،جسمانی مار تو طلاق کی پہلی سیڑھی ھے ! علماء اللہ سے اپنی محبت کے ثبوت میں نماز روزہ پیش کرتے ھیں،جس طرح بیوی کی محبت کے ثبوت میں شوھر بچے پیش کرتا ھے! جبکہ نماز پڑھنے والا ضروری نہیں اللہ سے محبت بھی کرتا ھو،،وہ بھی نمازی ھی ھیں جن کو ویل کی دھمکی دی گئی ھے اور وہ بھی نمازی ھی ھو گا جس پر بخاری کی رویت کے مطابق جہنم بھڑکائی جائے گی،، نماز مسلمان کی نفسیاتی ضرورت ھے،، اصل بات دل کی ھے کہ نماز کے علاوہ بھی دل محبوب کی یاد میں غرق ھو، اور بار بار اسکی گلی کا خیال آتا ھو،، ارشادِ مصطفی ھے کہ جو سات بندے قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے کے نیچے ھوں گے ،ان میں وہ بھی ھو گا جس کا دل مسجد میں اٹکا ھو گا،، بہت سارے حج پر جاتے ھیں مگر ضروری نہیں ان کو محبت بھی ھو،، اپنی جنت کا چکر ساتھ ساتھ ھے،ضرورت اور مطلب پرستی ساتھ ساتھ چلتی ھیں،، محبت ایک الگ جذبہ ھے،جس کی طلب اللہ پاک کو ھے،، والذین آمنوا اشد حباً للہ،، مومن تو شدید محبت اللہ ھی سے کرتے ھیں،، مصطفی فرماتے ھیں تم میں سے کوئی مومن نہیں ھو سکتا جب تک میں اسے اپنی اولاد ،ماں باپ اور ساری دنیا سے زیادہ محبوب نہ ھو جاؤں،، اور محبت کا ثبوت یہ ھے کہ جو تمہیں محبوب ھے وہ محبوب کی خاطر چھوڑ دو،،لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون،، جب تک محبوب کو محبوب پر قربان نہ کرو،محبت ثابت نہیں ھوتی،، ابراھیم کے دل میں اسماعیل کو بسا کر الفت ڈال کر،جب دیکھا کہ دل نے  کانٹا نگل لیا ھے، و بلغ معہ السعی،، تو چھری کے نیچے لٹانے کا اشارہ کر دیا،، اور لٹانے والا لٹا کر خلیل بن گیا،، ھمارے گھروں میں یہ منظر شادی کے ابتدائی دنوں میں اپنی جھلک دکھاتا ھے،، عورت اپنے جہیز کی چیزیں سسرال میں استعمال کرتی نظر آتی ھے،، پھر جوں جوں محبت سمٹتی جاتی ھے،چیزیں دوبارہ پیک ھونا شروع ھو جاتی ھے،، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھروں میں صرف ورکنگ ریلیشن شپ باقی رہ جاتی ھے جس کا ثبوت بچے ھوتے ھیں،،محبت جس گھر میں ھوتی ھے وہ دنیا میں جنت ھوتا ھے، بات بات پر طلاق مانگنا اور بات بے بات طلاق دینا،، پھر فتوے لے کر رکھنا،،یہ کوئی محبت نہیں،،یہ بندہ سوچتا ھے کہ بچوں کا کیا بنے گا،،عورت بھی سوچتی ھے شریک میرے والدین کو طعنے دیں گے،،اپنا اپنا مفاد دیکھ کر گھر بسائے جا
رھے ھوتے ھیں ورنہ عورت ایسے شوھر کے ساتھ جنت میں بھی رھنے پر  راضی نہیں ھوتی،28 سال پرانی بات ھے ھمارے پڑوس میں حیدر آباد انڈیا کی ایک عورت رھتی تھی ،اس کی اپنے شوھر سے بنتی نہیں تھی، ایک تو اس وجہ سے کہ وہ بہت خوبصورت تھی شوھر اس کے مقابلے کا نہیں تھا، دوسرا وہ امیر گھرانے کی تھی،اس کا والد کویت کا شہری تھا،جبکہ سالم صاحب غریب آدمی تھے،تیسرا وہ عمر میں سالم صاحب سے بہت چھوٹی تھی اور فساد کی چوتھی وجہ یہ تھی کہ سالم صاحب کا زیادہ تر وقت گھر سے باھر سہ روزے اور چلے پر لگتا تھا،،چھوٹے چھوٹے بچوں کی لائن لگی تھی اور زینب کو سودا سلف بھی کسی سے منگوانا پڑتا تھا،، گھر میں فساد کی کیفیت تھی، رمضان کا مہینہ تھا اور عصر کے بعد کا وقت میں اندر لیٹا تھا اور زینب میری گھر والی کے پاس صحن میں بیٹھی تھی،باپردہ لڑکی تھی،اس نے اتفاقًا پوچھ لیا کہ مردوں کو تو جنت میں حوریں ملیں گی،عورت کو کیا ملے گا،میں نے اندر سے پکار کر کہا کہ عورت کو اس کا شوھر ملے گا،، اس لڑکی کی بے ساختہ چیخ نکل گئی،،بولی اللہ رے میں ساری نمازیں روزے اس موئے چھوٹی سری والے سالم کے لئے پڑھی؟ میں اب کوئی نماز نہیں پڑھوں گی،یہ سالم میرا پیچھا مر کے بھی نہیں چھوڑے گا،،خطرہ بھانپ کر میں نے اسے فوراً تسلی دی کہ وھاں سالم کا سر بڑا کر دیا جائے گا اور عادتیں ٹھیک کر دی جائیں گی ،اگر پھر بھی اسے پسند نہ ھوا تو اللہ پاک اسے انتخاب کا موقع دیں گے کہ وہ اپنی مرضی کا شوھر منتخب کر لے،،اس سے آپ اندازہ کر سکتے ھیں کہ ڈھیر سارے بچے ھونے کے باوجود وہ عورت جنت میں بھی سالم کے ساتھ رھنے کو تیار نہیں تھی،، نماز چھوڑ کر جہنم میں جانے کو تیار تھی،گویا اسے سالم سمیت گھر جہنم سے بھی بدتر لگتا تھا !! عورت سے محبت ھم شادی سے پہلے کرتے ھیں،، جب وہ ھماری محبوبہ ھوتی ھے،جب اس کی ناراضی ھماری نیند اڑا دیتی ھے،جب گھر سے نیا جوڑا اور بال بنا کر انسان نکلتا ھے اور دس چکروں کے بعد آمنا سامنا ھوتا ھے تو صرف ایک نظر پڑ جانے پر انسان سمجھتا ھے اسکی محنت کام آ گئی ھے،جن کے لئے پہنے تھے انہوں نے دیکھ لیا،، اللہ پاک فرماتا ھے،،ھر نماز میں کنگھی پٹی کر کے آیا کرو،،بن سنور کے آیا کرو،، خذوا زینتکم عند کل مسجد،، ھر نماز مین زینت اختیار کر کے آیا کرو،، اس کی وعدہ خلافی مزید آتشِ شوق بھڑکاتی ھے،،اس کا غصہ ادا لگتا ھے،،مگر شادی کے ساتھ ھی ھم افسر بن جاتے ھیں اور وہ ھماری
ملازمہ ھو جاتی ھے، اور پھر افسری کی نفسیات شروع ھو جاتی ھیں،، اب اس کا ناراض ھونا اس کا حق نہیں بلکہ ھماری انسلٹ ھوتی ھے،، اب ھم محبت نہیں تابعداری چاھتے ھیں،، پھر اس تابعداری کو ھم ڈنڈے سے پیدا کرتے ھیں،، اور گھر میں ایک چلتی پھرتی لاش ھماری بیوی اور ھمارے بچوں کی ماں کہلاتی ھے !!

پیــار دی کـــہانی لــوکــو کــتھے آ کے رُک گئی ! ھاسیاں تو شروع ھوئی ،ھنجواں تے مُک گئی !

گونگی بدمعاشی !

August 25, 2013 at 10:10pm
  • اللہ پاک نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ھے کہ،، دنیا میں صبر کی جزاء جنت ھے” ادخلوا الجنۃ بما صبرتم” اور دوسری جگہ فرشتے شاباش دیتے ھوئے کہتے ھیں ” سلٰمٓ علیکم بما صبرتم،، صبر کی بدولت آج تمیں سلامتی نصیب ھوئی ھے،، دوسری جانب فرمایا، آخرت میں صبر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں،، فان یصبروا فالنارُ مثوی لھم،، اگر وہ صبر کریں گے بھی تو آگ ھی ٹھکانہ ھے ان کا،، اور کافر ایک دوسرے کو یہ ھی کہیں گے،، سواءٓ علینا أجزعنا ام صبرنا ،ما لنا من محیص،، ھم صبر کریں یا جزع فزع کریں برابر ھے،، جان چھوٹنے کی کوئی سبیل نہیں ! عورت اگر صبر کرے تو یہ گھر بسانے کا ایک سنہری اصول ھے، وقتی زیادتیاں برداشت کرے ،انہیں اینٹ کی طرح اپنے صبر کی بھٹی میں پکائے ،اینٹ بنائے اور ان اینٹوں سے اپنا مستقبل تعمیر کرے،، ایک وقت آئے گا کہ شوھر ان زیادتیوں کو اسی طرح تسلیم کرے گا ،جس طرح یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے بھرے دربار میں ان کی عظمت کا اعلان کیا تھا،، یوسف علیہ السلام کے اس قول کے جواب مین کہ "انہ من یتق و یصبر ،فان اللہ لا یضیع اجر المحسنین،،” جو بھی پرھیزگاری کی روش اختیار کرتا ھے اور صبر سے کام لیتا ھے تو اللہ پاک احسان والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا،، بھائیوں نے اخر قسم کھا کر اعتراف کر لیا کہ نہ صرف باپ کا یوسف کو پیار میں ترجیح دینا درست تھا، بلکہ یہ کہ اصلاً یہ ترجیح اللہ کی طرف سے دی کئی تھی،،تاللہ لقد آثرک اللہ علینا،و ان کنا لخطئین” اللہ کی قسم اللہ نے آپ کو ھمارے اوپر فوقیت عطا فرمائی ھے اور یقیناً ھم ھی خطا کار تھے،، مرد چونکہ اپنی اجارہ داری اور چودھراھٹ چاھتا ھے، لہذا عورت کی خاموشی اس کی اس حس کی پیاس بجھاتی ھے، جس سے وہ سکون محسوس کرتا اور گھر کاماحول بھی پرسکون ھو جاتا ھے ، لیکن مرد کی خاموشی اور صبر عورت کو مطمئن نہیں کرتا بلکہ اس کو مشتعل کرتا ھے،کیونکہ وہ شور شرابا اپنی چودھراہٹ کے لئے نہیں کرتی بلکہ مرد کو اذیت دینے کے لئے کرتی ھے، اور جب مرد اس کے شور شرابے پر کسی تکلیف کا اظہار نہیں کرتا تو وہ اسے اپنی انسلٹ سمجھتی ھے اور مزید مشتعل ھو جاتی ھے، میرے عزیز علی طارق کی وال پر ایک حقیقت درج تھی جسے انہوں نے لطیفے کا رنگ دیا ھوا تھا، مگر میں حیران ھوں کہ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے ان کی شادی ھوئی ھے، مگر حسب عادت انہوں نے گھریلو زندگی پر بھی پی ایچ ڈی کرلی ھے،یوں ان کے ایم -اے اور پی ایچ ڈیز میں ایک اور اضافہ دیکھنے کو ملا،،لکھتے ھیں کہ عورت اپنے شوھر کو غصے سے کہنے لگی جو مسلسل پچھلے 15 منٹ سے سر نیچے کیئے اور ھونٹ سیئے بیوی کی لعن طعن سن رھا تھا اور کوئی رد عمل نہیں دے رھا تھا، کہنے لگی میں تو یہ چخ چخ ختم کرنا چاھتی ھوں مگر تیری اس گونگی بدمعاشی نے گھر کو جہنم بنا کے رکھ دیا ھے !! یوں مرد کا صبر غیر تعمیری     ھوتا ھے،، مرد کو چاھئے کہ وہ تکلیف کا اظہار کرے تا کہ عورت کے جذبہ انتقام کی تسکین ھو،، پہلے سے کریک اور ھیئر لائن فریکچر والی پلیٹیں اور گلاس کہیں اکٹھے کر کے رکھے،بہتر جگہ تو کار کی ڈگی ھے، اور ضرورت کے وقت انہیں توڑ تاڑ کر اپنے غصے کا اظہار کرتے ھوئے گھر سے نکل بھاگے،، کیفیٹیریا سے چائے پی کر واپس آنے تک ماحول پرسکون ھو گا،، گھر سے کشیدگی کے بادل چھٹ چکے ھوں گے، اب یتیموں کی طرح مسکین شکل بنا کر بیٹھ جائے،، اچانک عورت کے اندر کی مامتا جاگ اٹھے گی اور امید ھے امن کی آشا رنگ لائے گی ! ھر بچے کی تمنا ھوتی ھے کہ اس کا والد اس کی ماں کو اپنی ماں سمجھے،اور اس کو اسی ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھے اور اس کی اطاعت کرے جس طرح وہ اپنی امی کی اطاعت کرتا ھے،، ھر بچے کو اپنی ماں مظلوم اور باپ ظالم لگتا ھے،، تا آنکہ اس کی اپنی شادی ھو جاتی ھے،، چند دن کے بعد اسے اپنے والد کے دکھ درد کا احساس ھونا شروع ھوتا ھے،اب اسے اپنے والد کے ماضی کا ایک ایک منظر اور بے بسی یاد آتی ھے  ، پہلے والدہ کی باتوں پر اسے والد کے ردعمل پر تعجب ھوتا تھا کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ابا جی ٹینشن لے لیتے ھیں، مگر اب جب اپنی بیوی کی چلتی زبان پر اسے ھفتہ ھفتہ قبض رھتی ھے تو احساس ھوتا ھے کہ بات چھوٹی ھوتی ھے مگر گھاؤ گہرا لگاتی ھے،، عموماً شادی کے بعد باپ بیٹے کا اتحاد مضبوط بنیادوں پر قائم ھو جاتا ھے اور کسی بھی گھریلو کرائسس میں باپ بہٹے کی پشت پر کھڑا ھوتا ھے،، بیوی روٹھے بھی تو بیٹا باپ کے مشورے پر دوبارہ واپس لاتا ھے جبکہ والدہ عموماً طلاق کی طرف مائل ھوتی ھے،، ظاھر سفید چادر سر پر رکھ کر گھر گھر وی آئی پی بن کر لڑکیاں دیکھنا اور سموسے کھانا کس کو اچھا نہیں لگتا؟ دل ڈھونڈتا ھے پھر وھی فرصت کے رات  دن،پھرتے رھیں گھر گھر آپا بنے ھوئے !

کیا غربت کوئی عیب ھے ؟

July 25, 2013 at 6:43am

غربت نہ تو کوئی عیب ھے، نہ کوئی غیر فطری چیزھے ، رات اور دن ،، گرمی اور سردی کی طرح امیری اور غریبی بھی اللہ پاک کی حکمت کے جوڑے ھیں،، اور یہ سب انسان کے فائدے کے لئے ھی ھیں،، یہ الگ بات ھے کہ انسان کسی حال میں بھی خوش نہیں رھتا،، آج کل رمضان کا موسم ھے اور غربت پر بہت دردناک پوسٹیں چل رھی ھیں،، ملحدین کے پیج پر جاؤ تو ما شاء اللہ ان لوگوں نے تو باقاعدہ اللہ پر مقدمہ چلایا ھوا ھے کہ وہ اگر کچھ کر سکتا ھے تو اپنی شکتیوں کو بروئے کار لاتے ھوئے غربت ختم کر کے دکھائے،،ورنہ بھوک سے خود کشیاں کرنے والوں کا خون تو کم از کم اپنے سر لے،،مسلمانوں سے سوال ھو رھا ھے کہ ایسا بے درد خدا جو لوگوں کو بھوک سے مارے جا رھا ھے،، بھلا رحیم اور کریم خدا کیسے ھو سکتا ھے،، وغیرہ وغیرہ،، میں یہ سب کچھ دیکھتا رھتا ھوں مگر سوچتا تھا رمضان کے بعد اس موضوع پر کچھ لکھوں گا ،مگر اپنے جناب حنیف سامنا صاحب کی پوسٹ پر کسان پارٹی کے راہنما کے کمنٹس کے بعد سوچا چار حرف گھسیٹ ھی لئے جائیں،، پھر پتہ نہیں حنیف ڈار یا حنیف سامنا میں سے کون ھو گا اور کون نہیں،،،، تو جناب اللہ پاک نے غربت کو اپنے سر لیا ھے،اس کو اون کیا ھے کہ یہ سب میرا ھی کمال ھے،، اگر میں سارے لوگوں کو امیر بنا دوں تو زمین میں کوئی کسی کے کام نہ آئے اور معاشرے کے سارے کام ٹھپ ھو جائیں،، یہ غربت ھے جسکی وجہ سے تمہیں کپڑے سینے کو درزی، جوتے کے لئے موچی،مکان بنانے کو مستری مزدور، تندور پر روٹی پکانے والے دستیاب ھیں،، مجبوری نے ان کو تمہارے قابو میں دیا ھوا ھے،، سورہ شوری کی آیت نمبر 27 میں اللہ پاک نے فرمایا ھے،،اگر اللہ اپنے سارے بندوں کا رزق کھول دے تو وہ زمین میں سرکش بن جائیں،، بغاوت کر دیں،، مگر اللہ ایک خاص اندازے کے ساتھ رزق تقسیم کرتا ھے،،وہ اپنے بندوں کی فطرت سے بخوبی واقف ھے ! پھر اگلی ھی سورت الزخرف کی ایت 32 میں ارشاد فرمایا ھے،،ھم نے دنیا کی زندگی میں معیشت تقسیم کی ھے اور کچھ لوگوں کو کچھ پر معاشی لحاظ سے فوقیت دی ھے تا کہ تم ایک دوسرے کو قابو میں رکھ کے اپنے کام چلاؤ،،، یعنی اگر سب لوگ ایک ھی جیسے مالی درجے کے ھوں گے تو کون کسی کی خاطر کسی کے تابع ھو کر کام کرے گا؟ اور دنیا مین ” میں بھی رانی تو بھی رانی کون بھرے گا پانی؟ ” والا معاملہ ھو جائے گا،، عملی طور پر دیکھ لیں ھمارے معاشرے مین جب کبھی کوئی ناراضگی ھو تھی تو فصلوں کی کٹائی،گاھی اور ساون میں مکان لیپنے کے موسم میں جھٹ پٹ صلح صفائیاں ھو جاتیں تھیں کیونکہ یہ کام کرنے کو چار ھاتھ سب کو مطلوب ھوتے تھے اور دونوں فریق صلح کے لئے اپنے اپنے مطلب کی خاطر تیار بیٹھے ھوتے تھے،، آج مکان پکے بن جانے اور کٹائی ، گاھی کے لئے تھریشر اور ریپر مشینوں کے آ جانے کے بعد لوگ ناراض کے ناراض مر جاتے ھیں،،زور لگا لو راضی نہیں ھوتے کیونکہ مجبوریاں ختم ھو گئی ھیں،، تصویر کا دوسرا رخ سورہ الفجر میں اللہ پاک نے دکھایا ھے کہ” جب ھم کسی بندے کا امتحان لیتے ھیں تو اس کو بے تحاشہ رزق دیتے ھیں اور وہ کہتا ھے کہ رب نے مجھے بڑی عزت دی ھے،، اور جب دوسری طرح امتحان مطلوب ھوتا ھے تو ھم اس کا رزق بہت ناپ تول کر دینا شروع کر دیتے ھیں تو وہ کہتا ھے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا،،،،پھر ان دونوں باتوں کا رد فرما دیا کہ ھر گز نہیں،،امارت عزت نہیں اک امتحان ھے کہ تم یتیموں کا خیال رکھتے ھو یا نہیں،،اور غریبی کوئی ذلت نہیں امتحان ھے،،کہ تم خواھشوں کی بھرمار میں اللہ کی حدوں کا خیال رکھتے ھو یا نہیں،، عزت اور ذلت کے فیصلے قیامت کے دن ھوں گے،، آج میڈیا نے دولت کو ایک ذات بنا دیا ھے،،جو بہت بلند ذات ھے،،اور غربت کو بھی ایک کاسٹ یا ذات بنا دیا ھے کہ غریب کم ذات ھے،، یہ تصور غلط ھے ،اسلام اس کی بیخ کنی کرتا ھے،، غریب ھمیشہ سے تھے ،مگر غربت کا ذلت سمجھنے کا مغالطہ میڈیا نے بڑھایا ھے،جسکی وجہ سے ھر کوئی ڈیپریس ھو کر خود کشی کی طرف لپکتا ھے ! نبی کریم کے زمانے میں ایک شخص مسجد کے سامنے سے گزرا تو آپ نے اصحابؓ سے پوچھا،اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ھے،، صحابہؓ نے اپنی معاشرتی سوچ کا اظہار کیا کہ اے اللہ کے رسول پیسے والا بندہ ھے،، کسی کی ضمانت دے تو قبول کی جائے،، کسی کا دروازہ کھٹکھٹائے تو فوراً کھولا جائے اور رشتہ مانگے تو انکار نہ کیا جائے !! اللہ کا نبی خاموش ھو گیا،،کچھ دیر بعد ایک اور صاحب گزرے،،حضور نبی کریم نے پوچھا اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ھے؟ اس سارے صحابہ بیک زبان بولے کہ اے اللہ کے رسول یہ بس ایویں ھی ھے،، ضمانت دے تو قبول نہ کی جائے،،دروازہ بجائے تو کھولا نہ جائے اور رشتہ بھیجے تو رد کر دیا جائے،، بس یہ سننا تھا کہ اللہ کے رازدار نے فرمایا،،اب میری سنو،، وہ جو پہلا بندہ گزرا تھا اور تم نے اس کی تعریف میں یہ ،یہ بولا تھا،، اگر یہ ساری زمین ویسے آدمیوں سے بھر جائے تب بھی اللہ کی قسم اللہ کو یہ بعد والا ان سب سے پیارا ھے،،اگر یہ قسم کھا لے تو اللہ جھٹ اس کی قسم پوری کر دے !! پھر نبی کریم نے خود دعا مانگی ھے۔۔، اے اللہ مجھے غریبوں میں زندہ رکھ، غریبوں میں موت دے اور حشر میں غریبوں کے ساتھ اٹھا،، آپ نے فرمایا عائشہ مجھے اللہ نے فرمایا ھے کہ محمد احد کو سونے کا بنا دوں،،تو خرچ کرے تو کم بھی نہ ھو،،مگر میں نے ائے عائشہؓ یہ دعا کی ھے کہ ائے مجھے ایک دن دے تا کہ میں تیرا شکر ادا کروں اور ایک دن بھوکا رکھ کہ میں تجھ سے سوال کروں،، آپ ھر سال اپنی امت کے غریبوں کی طرف سے کالے رنگ کا مینڈھا قربانی دیا کرتے تھے اور فرماتے” اے اللہ یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ھے جو قیامت تک آئیں گے اور قربانی کی استطاعت نہ رکھیں گے،، گویا امیر کی قربانی تو خدا جانے قبول ھوتی ھو گی یا ریاکاری کی دفعہ لگے گی،،مگر غریب کی ایڈوانس میں منظور شدہ پوسٹیڈ چیک کی طرح قبول شدہ ھے،، غریب کے لئے اللہ قرض مانگتا ھے ،، اور غریب کی مدد کو اپنے اوپر قرض قرار دیتا ھے،، نبی کریم نے فرمایا ھے،،میں نے جنت میں جھانکا تو اسے پریشان حال غریبوں سے بھرے پایا، اور جہنم میں جھانکا تو اسے متکبر اور پیٹ بھرے لوگون سے بھرے پایا،، مسئلہ امارت اور غربت نہیں،، مسئلہ سوچ کا ھے،،ھماری سوچ گھٹیا ھو گئی ھے،،سگا بھائی غریب ھو گا تو ھمارا رویہ اس کے ساتھ بےرخی کا ھو گا،، رشتہ لینے دینے میں ھم سگے رشتوں کو دولت میں تولتے ھیں،، جس کی وجہ سے لوگ غربت کو عیب سمجھتے ھیں ،، ورنہ جسطرح ایک ماں باپ کے بچے شکلوں مین خوبصورت اور بدصورت ھو کر بھی بہن بھائی ھی ھوتے ھیں،،اسی طرح امیر اور غریب ھو کر بھی رویوں اور میل جول میںفرق نہیں کرنا چاھئے،، جن معاشروں سے غربت ختم کر دی گئی،،کیا وہ معاشرے جنت بن گئے ھیں؟ متحدہ عرب امارات میں دیکھ لیں،،کوئی لوکل غریب نہیں ھے،،سر کے اوپر سے بھی دولت برس رھی ھے اور پاؤں کے نیچے سے بھی،، پھر ان کو غریب امپورٹ کرنے پڑے،کیوںکہ غریب معاشرے کی جینویئن ضرورت ھے،،اس کے بغیر کوئی ملک یا معاشرہ نہیں چل سکتا،، اب کوئی فلپین سے امپورٹ کیا گیا،،کوئی بنگلہ دیش سے،، کوئی سری لنکا اور کوئی پاکستان سے،،، آج امارات مین دولت ھے مگر کوئی کلچر نہیں ھے،، بچوں کو سریلنکی زبان زیادہ آتی ھے اور عربی کم۔۔،، ان کے کلچر کا بیڑہ غرق ھو گیا ھے،، اگر ان کے اپنے غریب ھوتے تو یہ کچھ نہ ھوتا،، باقی قباحتیں اپنی جگہ پر ھیں،،

مگر لوگوں کے روئیے کا شکوہ تو ساغر صدیقی بھی کر گیا ھے کہ

میری غربت نے اڑایا ھے میرے فن کا مذاق!

اور تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ھیں

 

یہ سوشلسٹ لوگ نبیﷺ کی تبلیغ اور اسلامی انقلاب کو بھوکوں کی بغاوت ثابت کرنا چاھتے ھیں،، حالانکہ نبیﷺ رائل فیملی سے تعلق رکھتے تھے ،، اعلانِ نبوت سے پہلے آسودہ حال تھے،،تبلیغ کے دوران سب کچھ لگا دیا،، حاکم بن کے بھی مالی طور پر کوئی فائدہ نہیں اٹھایا،،2، 2 ماہ گھر چولہا نہیں جلتا تھا،،اور کئی دن فاقہ ھوتا تھا،، بھوک سے روزہ رکھ لیتے تھے،،اور ھدیہ آنے پر بعض دفعہ خود بھی روزہ افطار کر دیا اور ازواج کو بھی افطار کرا دیا،، اپنی آل پر زکوۃ تک حرام کر دی،، ابو ھریرہؓ جو صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائے،جبکہ مسلمانوں کے حالات اچھے ھو چکے تھے،، پھر بھی بھوک سے بے ھوش ھو جاتے تھے، عثمانؓ اور عبدالرحمان بن عوفؓ جیسے 600 اونٹ اور 600 غلام بیک وقت دینے والے بھی اسی معاشرے میں تھے،،30 ہزار غلام عبدالرحمان بن عوف نے آزاد کیا ھے،، یہ دونوں طبقات ھمیشہ موجود رھے،، پسینہ خشک ھونے سے پہلے مزدور کی مزدوری ادا کرو،، آج اس نبوی حکم پر یورپ عمل کر رھا ھے،، گھنٹوں کے حساب سے مزدوری دیتا ھے،،اور ترقی کر رھا ھے، دوسری طرف مسلم ممالک میں غریب کا حق شیرِ مادر سمجھ کر ھضم کر لیا جاتا ھے،،پھر سوشلسٹوں نے روس اور مشرقی یورپ میں مزدور انقلاب برپا کر کے دیکھ جو لیا ھے کہ کیا ھوا ھے؟دنیا کے زرخیز ترین علاقے اس کے پاس تھے اور جفا کش ترین لوگوں پر مشتمل یہ اتنا بڑا علاقہ تھا کہ 9 اسٹینڈرڈ تائمز تھے اس سوویت یونین کے اندر،، پھر انجام کیا ھوا؟ اور آج چائنا میں مزدور پر ظلم و ستم کا کیا حال ھے ؟آج بھیلاکوں لوگ چائنا کہ کنسنٹریشن کیمپوں میں پڑے ھیں،جن کو اصلاحی کیمپ کہا جاتا ھے،جہاں کے لوگوں  کو  فیکٹریوں میں فری کام کرایا جاتا ھے،،یہ ناکام سوشلسٹ کہہ رھے ھین،، اسلام سرمایہ دارانہ نظام کو سپورٹ کرتا ھے،، اسلام صرف اسلامی نظام کو سپورٹ کرتا ھے جس میں امیر کو مال لگانے کو کہا گیا ھے،، زکوۃ کی ایماندارانہ ادائیگی پر زور ھے مزدور کے حقوق کا پاس ھے،، اور اسے حکم دیا گیا ھے کہ اللہ سے ڈر کر حلال روزی کی فکر کرو ،،تمہارا رب تمہارا نگران کافی ھے،،کسی فورمین یا سپر وائزر کی کوئی ضرورت نہیں،، اسلام نہ تو سرمایہ دار کا دشمن ھے نہ مزدور کا دشمن ھے،، وہ دونوں کے مفادات کا نگہبان ھے ،،سرمایہ دار نہیں ھو گا تو مزدور کے گھر کا چولہا بھی بجھا رھے گا،، سوشلسٹ سوچ جدلی سوچ ھے،،یہ مالک کو مزدور سے ،شوھر کو بیوی سے ،غریب کو امیر سے لڑاتی ھے ،، ھم پاکستان میں یہ تجربہ کر کے دیکھ چکے ھیں،، بھٹو دور میں ،،جبکہ اسلام تعاون کی فضا دیتا ھے،،اور دونوں سوچوں میں مشرق اور مغرب کا فرق ھے !

 

،

ھذا ما عندی والعلمُ عنداللہ

قصاص اور دیت کا قانون !

September 12, 2013 at 3:59pm

قصاص اور دیت کا قانون !

 

الحمدُ للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ ! پچھلے دنوں شاہزیب قتل کیس میں والدین کے دیت وصول کر لینے کے بعد مختلف آراء کا اظہار کیا گیا،، جن میں ایک رائے جناب محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی بھی تھی، جو کچھ احباب کی نظر میں قابلِ اعتراض تھی ! وہ رائے کیا تھی میری وال پر موجود ھے، جو ان کی تحریر کا ایک اقتباس ھے،مگر اعتراض کرنے والے صاحب نے اسے بہت بڑا جرم قرار دیا ھے، جو کہ میرے نزدیک درست نہیں بلکہ غامدی صاحب کا موقف عین اسلام و قرآن کی روح کے مطابق ھے ! چونکہ ھم اس قیامت سے گزر چکے ھیں ،میرا سب سے چھوٹا بھائی اور میرا خالہ زاد،تایا زاد بھائی جو کہ میرا برادرِ نسبتی بھی تھا،29/3/1996 کو 12 بور بندوق سے قتل کر دیئے گئے،، 11 سال مقدمہ بازی میں گزرے،، لطیف کھوسہ ھائیکورٹ میں  فریق مخالف کے وکیل تھے، سپریم کورٹ مین اپیل جسٹس رمدے اور جسٹس فلک شیر صاحب نے سنی اور قاتل کی اپیل رد کر کے پھانسی کی سزا بحال رکھی،، اگرچہ قاتل میرا چچا زاد ھی تھا، مگر ھمیں صلح پر مجبور کرنے کے لئے جوابی مقدمات کی بھرمار کر دی گئی، میرے والد صاحب اور گواھوں کے علاوہ خود مجھ پر جو کہ مقدمے کی پیروی اور مالی اخراجات کر رھا تھا، حبسِ بے جا، اغوا ، مسلح ڈکیتی اور حدود کا کیس 17 ھرابہ یعنی دھشت گردی کے مقدمات بنائے گئے،، میرے والد صاحب جو کہ قاتل کے تایا تھے، فالج کے مریض تھے مگر عدالتوں میں رُل کر اللہ کو پیارے ھو گئے وہ فائرنگ کے کیس کی تاریخ بھگت کر آئے اور رات کو ھارٹ اٹیک میں فوت ھو گئے،، اگر ھمیں صلح پر مجبور کرنے کے لئے اپنے سگے عزیز اتنا کچھ کر سکتے ھیں تو شاہزیب فیملی کے ساتھ کیا ھوا ھو گا،، ھمارے عزیز ھمارے لیول کے لوگ تھے جبکہ وھاں زمین آسمان کا فرق تھا،، اس لئے میں اس معاملے کو بہت قریب سے جانتا ھوں،، آخر ان کو یہ کرنا ھی تھا ! کیونکہ پشت پر ریاست بھی نہیں تھی،، قتل میں سب سے پہلے وکیل سرکار بکتا ھے،، اس کا گھونٹ بھرنے کے بعد قاتل پارٹی پھر ورثاء کے پیچھے لگتی ھے ! اس تمہید کے بعد آیئے اصلی موضوع یعنی قصاص کے بارے میں شرعی حکم کیا ھے ! اللہ پاک نے سورہ النساء میں دیت کے موضوع کو زیرِ بحث لاتے ھوئے جو اسلوب اختیار فرمایا ھے وہ کچھ یوں ھے کہ ” کسی مومن کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے،لیکن اگر خطا سے ایسا ھو جائے تو تو پھر وہ گردن آزاد کرے کسی مومن غلام کی اور دیت ادا کرے،،،،،،، النساء 92 اگلی آیت میں پھر قتلِ مومن کی شناءت کو اتنے سخت الفاظ میں بیان کیا ھے کہ رونگٹھے کھڑے ھو جاتے ھیں ” اور جو قتل کرے گا کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی نیت سے،تو بدلہ اس کا جہنم ھے، ھمیشہ رھے گا اس میں اور اللہ کا غضب ھوا اس پر، اور لعنت کی اس پر اللہ نے، اور تیار کر رکھا ھے اس کے لئے عظیم عذاب ( النساء 93 ) ان آیات مین دیت زیرِ بحث ھے، اور مقتول کی مختلف قسمیں بیان ھوئی ھیں اور ادئیگی کا طریقہ وضع کیا گیا ھے ! اب آیئے قصاص کی طرف تو یہاں سورہ بقرہ میں قصاص زیرِ بحث ھے، دیت ضمناً تخفیف یا استثناء کے طور پر ذکر کی گئی ھے،مگر دیت کا ذکر کرنے کے بعد بات کو پھر اس حکم پر ختم کیا گیا ھے کہ تمہاری زندگی قصاص میں مضمر ھے ائے عقلمندو تا کہ تم بچو ! اصل فرض قصاص ھے،، جس کو اسی صیغے میں فرض کیا گیا ھے جس صیغے میں چند آیات آگے چل کر روزے فرض کیئے گئے ھیں،، یا ایہا الذین آمنوا کُتِبَ علیکم القصاص فی القتلی ،، اے ایمان والو قتلِ (عمد) میں تم پر بدلہ لینا فرض کیا گیا ھے،،( البقرہ 178 ) اوریا ایہا الذین آمنوا کُتِبَ علیکم الصیامُ،، ائے ایمان والو روزے تم پر فرض کیئے گئے ھیں ( البقرہ 183 ) حکم کا صیغہ پکار پکار کے فرضیت کا اعلان کرتا ھے،، اور آیت کے دوران ھی معافی کو استثناء اور تخفیف قرار دیتا ھے ” پھر اگر کسی کو اپنے بھائی کی طرف سے معاف کر دیا جائے تو وہ بھی بھلائی کا اتباع کرتے ھوئے اسے اچھے طریقے سے ادا کرے” ذلک تخفیف من ربکم ” یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف ھے” گویا اصل حکم قصاص کا ھے اور دیت تخفیف ھے مگر بات یہاں ختم نہیں ھوئی بلکہ موضوع کو ختم کرتے کرتے دوبارہ نصیحت کی کہ ‘ ولکم فی القصاص حیاۃٓ یا اولوا الالباب لعلکم تتقون،( البقرہ 179 ) قصاص میں ھی تمہاری زندگی ھے،، صرف دیت کی پریکٹس پیسے والوں کے لئے فیس لے کر غریب کے قتل کا لائسنس دینا ھے، اگر قصاص فرض ھے،جس طرح دین میں دیگر فرائض ھیں تو پھر استثناء لازم کسی سبب سے ھو گا،،مثلاً اگر وضو فرض ھے تو تیمم پانی کی عدم موجودگی میں ھی مشروع ھو گا،، جب قاتل نادم ھی نہیں بلکہ وکٹری کے نشان بنا رھا ھے قہقے لگا رھا ھے تو ایک غریب شخص کیسے اس وڈیرے کے سامنے کھڑا ھو گا ،جبکہ ریاست ھی اسے باؤلے کتوں کے آگے پھینک کر بے نیاز ھو جائے ؟ کیا یہ قہقے اتباع ٓ بالمعروف ھیں جو دیت کی ایک شرط تھی یا عدل و انصاف کے منہ پر تمانچہ ھیں ؟اب اس مقتول کے تین وارث ھیں،، ایک اس کا خالق جس کا بندہ مارا گیا،، دوسرے اس کے والدین،بیوی بچے بہن بھائی،،جن کا عزیز مارا گیا،، تیسرے ریاست جس کا شہری مارا گیا،، اللہ نے تو اپنے بارے میں فرما دیا کہ،،اس نے قاتل کے لئے جہنم،لعنت،ٖغضب اور عذابِ عظیم تیار کر رکھا ھے،، والدین اور دیگر ورثاء کو اپنا حصہ معاف کرنے کا اختیار دیا ھے،، اور یہ قاتل پر تخفیف ھے کہ وہ اس کی اھمیت کو سمجھے اور اپنے رویئے سے عاجزی کا اظہار کرے،کیونکہ یہ دوبارہ بخشی گئی زندگی اب مقتول کے ورثاء کی عطا کردہ مستعار زندگی ھے،جس زندگی کو ائندہ کبھی بھی ورثاء کے خلاف اسے استعمال نہیں کرنا چاھئے،،جو کہ عموماً ھوتا نہیں ھے،، تیسرا فریق ریاست ھے جس کا شہری مارا گیا ھے اور باقی شہریوں کی جان خطرے میں ھے،،وہ اس نقطہ نظر کے تحت حرکت میں آئے گی اور مجرم کے بارے میں فیصلہ کرے گی،،وہ اسے بستہ ب کے مجرموں میں بھی رکھ سکتی ھے،، اور اس کے روئیے اور ورثاء کے انڈر پریشر ھونے کی صورت میں صلح کو مسترد کر کے پھانسی کا حکم جاری کر سکتی ھے تا کہ ورثاء کو اس پریشر اور جوابی مقدمات سے بچایا جا سکے ،جو معافی کے لئے مجبور کرنے کی خاطر مقتول کے ورثاء پر بنائے جاتے ھیں،،میں یہ سمجھتا ھوں کہ آیت کا آخری حصہ جس میں اھل حل و عقد کو مخاطب کیا گیا ھے، وہ حکومت ھے اور اسے کہا گیا ھے کہ وہ باقی شہریوں کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ھوئے حرکت میں آئے،، عموماً دیکھا یہ گیا ھے کہ قاتل بار بار چھوٹتا اور مزید قتل کرتا چلا جاتا ھے،کیونکہ وہ اس صلح کو اپنی جیت اور مقتول کی ذلت سمجھتا ھے،گلیوں میں گریبان کھول کر اور ٹانگیں چوڑی کر کے چلتا ھے،، امارات کی عدالتوں میں فقہ مالکی کے تحت مقتول کے ورثاء کو معافی کا حق دیا گیا ھے،مگر اس حق کا اطلاق یہ دیکھ کر کیا جاتا ھے کہ مجرم کی نفسیات کیا ھیں،عدالت نے کئی کیسیز میں اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ،کیونکہ مجرم ڈاکٹروں کے پینل کی رائے میں مزید قتل کر سکتا تھا کیونکہ وہ اپنے پہلے فعل پر نادم بھی نہیں تھا اور قتل کی تفصیلات کو بڑے مزے لے لے کر بیان کرتا تھا،، پھر امارات میں مقتول کے لواحقین کو ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرنا پڑتا ،،نہ گواھیوں کا انتظام کرنا پڑتا ھے، اور نہ وکیل کرنا پڑتا ھے،سب ریاست کرتی ھے – ھمارے یہاں بھی عدالتوں نے کئی مقدمات میں صلح کو مسترد کیا ھے ،  اب آخر میں پھر اپنی آپ بیتی پر ختم کرتا ھوں کہ ھم نے قاتل کو صدر کی جانب سے اپیل مسترد ھونے کے بعد بلیک وارنٹ جاری ھو جانے کے بعد اور پھانسی گھاٹ منتقل ھو جانے کے بعد 24 گھنٹے پہلے خون کے رشتے کی بنیاد پر معاف کیا تھا،، بدمعاشی کا رویہ جب تک برقرار رھا،، ھم نے ھار نہیں مانی،،جب انہوں نے لاش کو وصول کرنے کے انتظامات شروع کئے،،گھر کو لاش رکھنے کے لئے چونا وغیرہ کر لیا،، چاولوں کے لئے بڑے ٹب تیار کر لئے اور قاتل کی زبان جب 24 گھنٹے پہلے خوف اور دھشت سے بند ھو گئی وہ بات تک نہیں کر سکتا تھا،،جب انہیں پتہ چل گیا کہ کوئی رستہ نہیں تو انہیں معاف کر دیا ! اور الحمد للہ انہوں نے بھی اس کے بعد اس صلح کو بھائیوں کی طرح نبھایا اور سگے بھائیوں سے بھی زیادہ اچھے ثابت ھوئے

دعا کے آداب و مضمرات

دعا کے آداب و مضمرات

July 31, 2013 at 7:28am

دعا ایک مستقل عبادت ھے جس طرح نماز روزہ زکوۃ اور حج ھے – اللہ سے دعا کرنا بھی اسی طرح فرض کیا گیا ھے جس طرح اللہ کی نماز پڑھنا فرض کیا گیا ھے- قال ربکم ادعونی،استجب لکم،، تمہارا رب کہتا ھے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا( المومن ) اس میں دعا کا حکم بلا امتیاز سب کو دیا گیا ھے،یعنی نیک و بد سب کو ،جسطرح نماز روزے کا حکم سب کے لئے ھے،نیک ھو یا بد،، اس  آیت میں قبولیت کا وعدہ بھی سب سے بلا امتیاز کیا گیا ھے،،نیک ھو یا بد – ماں جس بچے سے ناراض ھوتی ھے،اس کا حصہ ضرور دوسروں سے چھپا کر رکھ دیتی ھے- محروم کبھی نہیں کرتی پھر جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ھے وہ کیسے اپنے بندے کو محروم کر سکتا ھے،، دعا کا حکم نماز سے زیادہ بار دیا گیا ھے،، بلکہ دعا ھر عبادت کا جوھر ھے، الدعاء مخ العبادہ اور الدعاء ھو العبادہ ،، ارشادات نبوی ﷺھیں ! ھمارے یہاں ھر چیز کی طرح دعا کے بارے مین بھی عجیب عجیب تصورات قائم ھیں،، 1- دعا کے لئے ایک نیک انسان کی تلاش – یہ بالکل ایسے ھی ھے جیسے بیمار تو میں ھوں مگر دوا کے لئے مجھے کسی صحتمند آدمی کی تلاش ھے تا کہ اسے دو ڈھکن دوا پلا سکوں،،دعا تو پکار ھے وہ پکار جو ماں سے سرِ بازار بچھڑ جانے والے بچے کے منہ سے نکلتی ھے،،وہ دردناک پکار فلم مین بھی سنی جائے تو رونگھٹے کھڑے ھو جاتے ھیں،، وہ درد بھری پکار کسی گنہگار کے منہ سے ھی نکل سکتی ھے،، میں نے پہلی دلی دعا میدانِ عرفات میں الیاس کاشمیری اداکار کے پیچھے 1982 میں کی تھی،، میں عصر کے بعد خیمے سے جبلِ رحمت جانے کے لئے نکلا ،ابھی تھوڑا دور گیا ھوں گا کہ رونے اور ڈکرانے کی آواز آئی ،، ساہڈ پر دیکھا تو ایک لمبا دھڑنگا آدمی مچل مچل کر رو رھا تھا،اور لوگ بھی اس کے پیچھے آہ و زاری میں مشغول تھے،، میں نے اس کا مچلنا تڑپنا اور اس کے الفاظ سنے ،فریادوں کی بے ترتیبی بتا رھی تھی کہ کسی مولوی سے قافیے سیکھ کر نہیں آیا،، سب کچھ اندر سے نکل رھا ھے،میں سمجھ گیا کہ رحمت ادھر برس رھی ھے،، میں نے خاک کی مٹھی اٹھائی اور اپنے سر پر ڈال لی اور پھر اس کے پیچھے کھڑا ھو گیا،، کیا آپ یقین کریں گے کہ مین آج تک اس دعا کے ثمرات لوٹ رھا ھوں ؟ اس کے بعد میں حج اور عمروں پر بار بار گیا ھوں مگر الیاس کاشمیری مرحوم کی دعا والی فریکوئنسی مجھے پھر نہیں ملی،، اگر عرش ھلانے والی دعا کرنی ھے تو کسی نیک کی تلاش نہ کریں کسی گنہگار کی تلاش کریں،منت ترلا کر کے اسے دعا پر آمادہ کر لیں اور پھر اس کے ہیچھے صرف آمین کریں،دیکھیں وہ کیسے عرش کو ھلاتا ھے ! جس درد سے بیمار اور گنہگار روتا ھے، اس درد سے صحتمند اور پرھیزگار رو ھی نہیں سکتا،،اور آپ کو پتہ ھے کہ ماں بچے کی تکلیف کا اندازہ اس کے رونے کی کیفیت سے لگاتی ھے،،اسے پتہ ھوتا ھے کہ یہ رونا دودھ کا رونا ھے،بچے کو بھوک لگی ھے اور یہ رونا کوئی اوپرا رونا ھے ،تکلیف کا رونا ھے،،گنہگار کے رونے سے صرف رحمان نہیں چونکتا،فرشتوں کی بھی دوڑیں لگ جاتی ھیں ! میں نے دوران طواف ایک گونگے کو دیکھا جو گوں گوں کر کے رو رھا تھا کچھ کہنے کی کوشش کرتا تھا،،وہ جب اپنے اردگرد لوگوں کو ٹولیوں میں قافیوں کے ساتھ مانگتے دیکھتا تو اسے احساس ھوتا کہ یہ بولنے والے تو سارا لوٹ کر لے جائیں گے،میری کون سنے گا ،میرے پاس تو الفاظ ھی نہیں ھیں- اس کے بعد وہ بےساختہ آسمان کی طرف بے بسی سے دیکھتا اور دردناک فریاد کر کے پاگلوں کی طرح غوں غاں کرتا تھوڑی دور تک دوڑتا،، میں سمجھ گیا کہ رحمٰن نے بولنے والوں کو تو فرشتوں کے حوالے کر دیا ھے اور خود اپنی رحمت سے اس گونگے کی طرف متوجہ ھے جس کی اس کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا ،میں پورا طواف اس گونگے کے پیچھے دوڑتا رھا اسی کی غوں غاں پر آمین کرتا رھا،اور ثمرات سمیٹتا رھا ! اللہ پر نیکیوں کی دھونس نہین چلتی،،نیکیاں ھم اپنے بھلے کو اپنے اکاؤنٹ مین بھیجتے ھیں رب پر کونسا احسان ھے کہ بندہ ادائیں دکھاتا پھرے، تازہ تازہ گولڈن کارڈ چلا تھا،، جو پاکستان تین لاکھ اپنے اکاؤنٹ میں بھیجے گا گولڈن کارڈ ملے گا اور کسٹم مین چھوٹ ھو گئی، نیز پاسپورٹ فری بنے گا،،گولڈن کارڈ لے کر اسلام اباد ایئرپورٹ پر اترے، کسٹم پر گزر ھوا ، ھاتھ والی سلائی مشین پاس تھی،، کسٹم لگایا گیا،، اسے کارڈ بتایا،،کہنے لگا یہ کیا ھے؟ بڑے فخر سے بتایا پاکستان 3 لاکھ روپیہ بھیجا ھے،، پلٹ کر کہنے لگا مولوی صاحب اپنے اکاؤنٹ میں بھیجا ھے، مجھ پر کوئی احسان کیا ھے؟ کسٹم والا نہین مانا،، رب کو کوئی چار سجدے کر کے تھلے کیسے لگا سکتا ھے،، ؟ دعا کا فوری اور نقد فائدہ ھی یہ ھے کہ سب سے پہلے آپ کے گناہ معاف اور صاف کیئے جاتے ھیں،،پھر آپکی دعا کا جائزہ لیا جاتا ھے کہ آپ کے لئے فوری قبولیت ٹھیک رھے گی یا اسے مؤخر کر لیا جائے یا آخرت کی ضرورت کے لئے فکس ڈیپازٹ کر لیا جائے جو بھی فیصلہ ھو گا،،آپ ھی کی فیور میں ھوگا،، آپ کی بہتری کے لئے ھو گا،،اللہ پاک کا اپنا مفاد ھے ھی نہیں کہ وہ اپنے فائدے کا سوچے گا،، ھماری عبادت اس کا کوئی فائدہ نہیں کرتی اور ھمارے گناہ اس کا کوئی نقصان نہیں کرتے،،دونوں چیزیں ھم اپنے اکاؤنٹ میں بھیجتے ھیں،، گناھوں سے شرما کر جو لوگ اللہ سے مانگنے سے رک جاتے ھیں،،انہیں وہ بار بار کہتا ھے ،میری رحمت سے مایوس مت ھو جاؤ، اللہ سارے گناہ معاف کر دے گا،، تم ان کی وجہ سے میرے پاس آنے سے کتراتے ھو ناں؟ یہ لو میں نے سارے ڈیلیٹ کر دیئے ،بلکہ ھر گناہ کے بدلے نیکی لکھ دی "یبدل اللہ سیئاتھم حسنات،، اللہ ان کے گناہ لے کر نیکیاں پکڑا دیتا ھے،،ایک ٹوکری مین گناہ ڈالو اور دوسری سے نیکی اٹھا لو،، یہ دعا کے نقد فائدے ھیں،، جب کوئی کسی بڑے سے ملنے جاتا ھے تو پتہ ھے کیا ھوتا ھے؟ بیوروکریسی کے کارندے اسے اس کے دربار کے قابل بناتے ھیں،، یہانتک کہ اگر شیخ صاحب کو سفید بال ناپسند ھوں تو مہمان کے بال سیاہ کیئے جاتے ھیں ،اسی طرح رب کے دربار کے تقاضوں سے آگاہ فرشتے اس کے حکم اور پسند کے مطابق آپ کو گناھوں سے صاف ستھرا کر کے رب کے حضور پیش کرتے ھیں !پھر بھی آپ سوزوکی بک کر کے دعا کروانے نیک کے پاس جاتے ھو،،بھائی وہ بکنگ کے پیسے کیسی مریض کی دوا کے لئے دے دو،، اور ھاتھ کھڑے کر لو،اپنے نبیﷺ کی بات کا اعتبار کرو ،،وہ عرش والا کبھی کسی کے اٹھے ھوئے ھاتھ خالی نہیں لوٹاتا ،اسی لئے تو حکم دیا گیا ھے کہ ھاتھ چہرے پر پھیر کر رب کی عطا پر شکر گزاری کا اظہار کرو ،،تیرے ھاتھ خالی نہیں لوٹے اس لئے اس بھرے ھوئے خزانے کو نیچے نہ گراؤ بلکہ ھاتھ چہرے پر مل کر نیچے کرو،، دعا کے آداب میں پہلے اللہ پاک کی تعریف پھر نبی پاکﷺ پر درود پھر اپنی بات پھر درود پر بند کر دو،، نبیﷺ فرماتے ھیں اللہ بڑا بامروت ھے ممکن نہیں کہ وہ دعا کا پہلا اور آخری حصہ تو قبول فرما لے اور درمیان والا چھوڑ دے !

دعا کے مضمرات !

 

دعا کر کے ھضم کر لینا خالہ جی کا گھر نہیں اس کے لئے یا تو ھمالیہ جیسا ایمان چاھئے یا کے -ٹو  جتنا گناہ -جو

انسان کی گردن جھکا کر رکھے-گنہگار جب دعا مانگتا ھے تو ڈر ڈر کے مانگتا ھے،اسے اپنے گناھوں کے کلپ بار بار نظر آ رھے ھوتے ھیں،، پوری ھو جائے تو فبہا ،، نہ ھو تو وہ اپنے آپ کو ھی کوستا ھے کہ تو نے بھی کونسا کوئی اچھا کام کیا ھوا ھے ! یہ تو ھونا ھی تھا،، وہ مزید مسکینی اور عاجزی کا شکار ھو جاتا ھے ۔۔ اللہ معاف کرے نیک آدمی جب دعا مانگتا ھے تو دعا نہین مانگتا وہ تو الٹی میٹم دیتا ھے،،اپنی نمازوں ،اشراق و اوابین،، حج اور عمرے کے کلپ بار بار لگ رھے ھوتے ھیں،، جوں جوں قبولیت میں دیر ھوتی ھے موڈ خراب ھوتا جاتا ھے،، اور وہ سمجھتا ھے کہ اس کی انسلٹ کی جارھی ھے،، اور آخر بول پڑتا ھے، یار نمازیں بھی پڑھتے ھیں، صدقہ خیرات بھی کرتے ھیں مگر مصیبت نے ھمارا ھی گھر دیکھ لیا ھے،، یہ گلے شکوے کا انداز دعا کو کیا قبول کرائے گا عبادت کو بھی بے کار کر دیتا ھے،، دعا کر کے رب کی مرضی پر چھوڑ دینا چاھئے، یاد رکھئے دعا میں ٹائم فریم نہیں ھوتا،،منگتا کسی کو الٹی میٹم نہیں دیتا،، منگتا یہ نہیں کہتا کہ سرکار اتنے دو،، ڈالرز ھی دو،، وہ کشکول آگے کر دیتا ھے جو آپ کے جی میں آئے ڈال دو ،، موسی علیہ السلام کا دعا کا ادب دیکھا ھے،، درخت کے نیچے کھڑے ھو کر فرمایا ” ربِ انی لما انزلتَ الی من خیر فقیر ( القصص ) ائے میرے پالنہار میں ھر اس چھوٹی سے چھوٹی خیر کا محتاج اور قدردان ھوں جو تو میری جھولی مین ڈال دے، اس ادا پر رب کی رحمت کا ٹوٹ پڑنا دیکھو،، گھر بھی دے دیا، نوکری بھی دے دی، بیوی بھی اسی دن دے دی،، یہ ھے ھمارے رب کا مزاج ،،بلیک میلنگ اسے بالکل پسند نہیں ،، نہ وہ نسب سے بلیک میل ھوتا ھے نہ عبادت سے،، سر جھکا دو، آنکھیں نیچی کر لو، رو لو،، نہیں تو رونے کی صورت بنا لو،، پھر دیکھو وہ خود تمہاری ضرورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے پورا کرے گا ! اللہ آپ کو سلامت اور اپنے در کا محتاج رکھے ! آمین

خود کو دیکھ کے ڈر لگتا ھے

خود کو دیکھ کے ڈر لگتا ھے

August 29, 2013 at 6:33am

ھمارا چہرہ اتنا خوفناک ھے کہ خود ھی دیکھ کے ڈر لگتا ھے ! ایک نورانی چہرہ استاد کا سیاہ کردار سامنے آتے ھی ھم کہتے ھیں اس کا مقصد کیا ھے؟ کیا یہ برائی کی تشہیر نہیں ھے؟ کیا برائی کو چھپانے کا حکم نہیں ھے ؟؟؟ اللہ پاک جو ھمارا خالق ھے وہ ھم سے بڑھ کر ھمارا واقف ھے،، ماں باپ نے ھمیں پیدا کر کے جانا ھے،، مگر اس ھستی نے ھمیں جان کر پیدا فرمایا ھے ” وہ تم سے اس وقت بھی واقف تھا جب اس نے تمہیں زمین سے (آدم) بنانے کے لئے اٹھایا تھا اور جس وقت تم رحم مادر میں جنین تھے وہ تم سے اس وقت بھی وقف تھا،، سو اپنے آپ کو زیادہ پاکیزہ نہ بیان کیا کرو وہ اچھی طرح جانتا ھے کون کتنا متقی ھے ( والنجم ) ھم مختلف مورچوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ھیں ،، کیا چھپانے کو صرف یہی برائی رہ گئی ھے؟ یہ جو پورا سوشل اور پرنٹ میڈیا بھرا پڑا ھے، نواز شریف، عمران خان، پرویز خٹک، فضل الرحمان، طاھر القادری،گیلانی، پرویز اشرف اور دیگر لوگوں کے خلاف !! کیا قرآن و حدیث کے حکم کے مطابق ھی ان کے کپڑے اتارے جارھے ھیں؟؟ کیا یہ وھی دور نہیں جب زمین اپنے راز اگل دے گی،جو کرو گے اگلے دن دیکھ لو گے؟؟ کیا اقرار حسین ھی جو کچھ نشر کرتا ھے وہ اسلام ھے،، اور کیا اس نشر کرنے پر قصائی اور دیگر ملاوٹ مافیا اس کی جان کے درپے ھے تو کیا ھمارا رد عمل بھی ملاوٹ مافیا والا نہیں ؟؟ جو ھم کریں تو حلال ھے ،جو وہ کریں تو حرام ھے،، ؟؟ صرف معلم کے کرتوت کو چھپانا ھی واجب کیوں ٹھہرا؟؟ کیا اس لئے کہ پھر مائیں اپنے بچے قسائی کے پاس نہیں بھیجیں گی؟

میں نے یہ تصویر کیوں لگائی ھے     !!

1- اس لئے کہ آپ دیکھ لیں کہ جو تشدد اس بچے میں بھرا جا رھا ھے،کل یہ تشدد ھی جوان ھو کر آپ سے کسی جگہ ملاقات کرے گا     !

2- جن لوگوں کو آپ تشدد ترک کرنے کے مشورے دیتے ھیں انہوں نے تشدد کے سوا کچھ دیکھا اور سیکھا ھی نہیں ھے،یہ تشدد ان میں بڑے نورانی چہروں والوں نے بھرا ھے   !

3- اس بچے کو سکولوں میں ھنستے کھیلتے  جاتے اور آتے بچے زہر لگتے ھیں،اس لئے یہ اسکول اڑا دیتا ھے!

4- آپ جن کی عقل کو خطاب فرماتے ھیں وھاں میموری کارڈ ھے ھی نہیں،،انہیں کہیں کسی اور جگہ سے علم بھرا گیا ھے،، سر کے راستے سے نہیں ! اس لئے آپ وقت ضائع کر رھے ھیں،

5-  اس کے اندر کا بچہ سسک کر مر گیا ھے، اب جب یہ دھماکہ کرے گا تو سسکتے بلکتے بچوں،مردوں اور عورتوں سے اسے کوئی ھمدردی نہیں ھو گی اس لئے کہ جب وہ سسک رھا تھا تو کوئ چھڑانے نہیں آیا تھا،

6- ھمیں سکھایا گیا ھے کہ بچہ بڑوں کی نسبت زیادہ حساس ھوتا ھے اور عزت بے عزتی کو زیادہ اھمیت دیتا ھے،، جب اپنے ھم جولیوں کے سامنے اس کی یہ دھرگت بنتی ھے تو وہ ان سے نظر ملا کر بات نہیں کر سکتا،

7- اب آپ مطالبہ کرتے اور امید رکھتے ھیں کہ کل یہ بچہ کسی قسم کی کوئی تحقیق کرے گا اور وہ بھی اپنے ان بزرگوں کی تحقیق کے خلاف ؟

8- یہ بچہ مولوی صاحب کو اس معاھدے کے تحت دیا گیا تھا کہ  گوشت آپ کا اور ھڈیاں ھماری،، مولوی صاحب حسبِ معاہدہ اپنا حصہ وصول کر رھے ھیں،، 9- جتنا بڑا یہ مجرم ھے اس سے بڑے مجرم اس کے ماں باپ ھیں جو اسے مولوی صاحب کے حوالے کرنے کے بعد ،، ان  رشتے داروں کی لسٹ بنانا شروع کر دیتے ھیں جن کو یہ بچہ بخشوائے گا ! وھاں تو پتہ نہیں بخشوائے گا یا نہیں مگر یہاں سے درجنوں ساتھ لے کر جائے گا !

10- والدین اپنے بچوں کو 3000 کلومیٹر دور کراچی چھوڑ آتے ھیں اور پھر سالوں کے بعد کہیں بچہ واپس آ جائے تو آ جائے کبھی جا کر دیکھتے بھی نہیں کہ ان کے بچے کو کیا بنایا جا رھا ھے، جبکہ مرغی کے انڈے ھر دوسرے دن چیک کرتے ھیں کہ بچے نکلنے میں کتنی کسر رہ گئی ھے،، یہ بچہ جب واپس آتا ھے تو کبھی کسی نے اس سے نہیں پوچھا کہ ” کیا گزری ھے قطرے پہ گہر ھونے تک ! لہذا والدین اور استاد دونوں معاشرے کو ایک مسخ شدہ ، متشدد فرد فراھم کرتے ھیں،،یہ مسجد جاتا ھے تو بھی آگ لگاتا ھے،کسی مذھبی جماعت کا سربراہ بنتا ھے تو بھی آگ لگاتا ھے،،، بچہ وھاں داخل کرائیں جہاں وہ پڑھ کر رات کو گھر آ جائے،، تا کہ نہ اس کا جسمانی استحصال ھو نہ جنسی،، ورنہ اتنے دور تک رکھیں جہاں  آپ ھفتہ دو ھفتے بعد چکر لگا لیں!

11- مدارس میں دو قسم کے بچے پڑھتے ھیں ،اور دو ھی قسم کے رویئے پلتے ھیں،، وہ بچے جن کے اخراجات اس کے والدین ادا کرتے ھیں،، اسے کھانا بھی ڈیسک پر ملتا ھے،، صرف ھاتھ دھو کر جا کر ٹیبل مین کا انتظار کرنا ھوتا ھے،، دوسرے وہ جن کے غریب والدین خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور وہ لوگوں کے صدقات اور نذرانوں پر پلتے اور پڑھتے ھیں،، ان کو لائن میں لگ کر کھانا لینا پڑتا ھے اور جب تک وہ کھانا وصول کرتے تب تک خوشحال بچے کھانا کھا کر  آرام کرنے جا چکے ھوتے ھیں،، اب پہلی قسم کے بچوں کی سزا میں بھی تخفیف ھوتی ھے کیونکہ ان کے پوچھنے والے سر پر ھوتے ھیں،، اور باڈی لینگویج میں اعتماد بھی ،، یہ بچے ھی اساتذہ سے سوال جواب بھی کر لیتے ھیں جبکہ دوسری قسم کے بچے ھر قسم کے تشدد کا نشانہ بنتے ھیں کیونکہ ان کے والدین مفت پڑھائی کے احسان تلے دبے ھوتے ھیں لہذا وہ احتجاج بھی نہیں کر سکتے،، اور سوال جواب سے انہیں کوئی دلچسپی بھی نہیں ھوتی وہ سال گن رھے ھوتے ھیں اس طرح دو قسم کے طلباء فارغ ھو کر آتے ھیں، آسودہ اور پراعتماد،، پزمردہ ،اور بدحال،، آسودہ حال کو اگر اپنے معیار کی نوکری نہ ملے تو عموماً کسی بزنس کی طرف جا نکلتے ھیں،، جبکہ مساجد کے مقدر میں 90٪ یہی کچلی ھوئی انا والے تار تار بچے ھی ھوتے ھیں، ، مدرسہ ھو یا سکول تشدد کا نشانہ غریب کا بچہ ھی بنتا ھے، اسکول ماسٹر بھی کسی بڑی قوم کے بچے کو مارنے سے کنی کتراتا ھے،کیونکہ تھوڑی دیر بعد اس کے وارث پہنچ جاتے ھیں،، اور یہ ھی حال حافظ صاحب کا ھے وہ بھی اپنا غصہ غریب کے بچوں پر اتارتے ھیں،، امیر اور بڑی قوم والا صرف ڈانٹ ڈپٹ پر ھی چھوٹ جاتا ھے،،  آج متشدد تنظیموں میں 99 ٪ وھی غریب کے بچے ھی ھیں جو اپنی شخصیت کو ری پروڈیوس کر رھے ھیں،، کمانڈر وھاں بھی امیر کا بچہ ھی ھوتا ھے

خدا را میرے سر پر ھاتھ رکھئے

خدا را میرے سر پر ھاتھ رکھئے

September 17, 2013 at 11:34pm

سلیم نے جب سے ھوش سنبھالا تھا، سوائے اپنے نابینا دادا کے کسی کو نہیں دیکھا تھا،، اسے دادا نے ھی بتایا تھا کہ ماں اسے پیدا کرنے کے جوکھم میں ھی زندگی کی بازی ھار گئی تھی ، اور پھر جلد ھی باپ بھی ایک حادثے میں اللہ کو پیارا ھو گیا، ایک دادا تھا جو آنکھوں کی کسی بیماری میں مبتلا ھو کر نابینا ھو چکا تھا،، یتیم پوتے کا بوجھ پڑا تو دادا پوتے کا سر پکڑ کر فٹ پاتھ پر آ کھڑا ھوا،، اور بھیک مانگ کر اپنا اور پوتے کا پیٹ پالنا شروع کر دیا، صبح دادا اسے اٹھاتا،، وہ چائے بناتا جسے دادا اور پوتا دونوں پی کر اپنی ڈیوٹی پر نکل کھڑے ھوتے،، سلیم نے اپنا سر ھمیشہ دادا کے قبضہ دست میں پایا،، عید ھو یا شب برأت کوئی چھٹی نہیں،، اب وہ دادا کا ھدایت کار بھی بن گیا تھا،وہ دادا کو بتاتا کہ آنے والا پینٹ شرٹ میں ھے،، اچھے کپڑوں والا امیر لگتا ھے،، بیوی کے ساتھ ھے یا اکیلا ھے،، صرف میاں بیوی ھیں یا ساتھ بچے بھی ھیں،، دادا ھمیشہ موسم کی پیش گوئی کے مطابق صدا دیتا،، سلیم غریب تھا مگر ایک بچہ بھی تھا،، بچہ تو صرف بچہ ھوتا ھے، نہ امیر نہ غریب،، اس کا بھی دل کرتا کہ کبھی بچوں کے ساتھ بے فکری سے کھیلے کودے،، عید والے دن اچھے کپڑے پہنے ، شب برات کی رات پٹاخے کی ھر آواز کے ساتھ اس کے اپنے اندر کوئی چیز ٹھاہ کر کے ٹوٹ جاتی اور وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا،، دادا سے دبے لفظوں پٹاخے کی فرمائش کرتا تو دادا ھمیشہ ایک رٹا رٹایا جملہ بول دیتا” لوگ کہیں گے بھکاری ھو کر پٹاخے چلاتا پھرتا ھے،،اس طرح بھیک کا رستہ کھوٹا ھوتا ھے،،جس طرح مولوی کے بیٹے کو ھمیشہ اپنے ابا کی عزت کا واسطہ دے کر بچپن سے محروم کر دیا جاتا ھے،،تو قاری صاحب کا بیٹا ھے ،لوگ کیا کہیں گے؟ تو ممتاز مفتی کا بیٹا ھے لوگ کیا کہیں گے؟ عید کے دن اس نے دادا سے نئے کپڑوں کی فرمائش کر دی تو گویا زلزلہ آ گیا، دادا نے اسے دھنک کر رکھ دیا،، نواب صاحب کا بیٹا نئے کپڑے پہن کے بھیک مانگے گا تو کیا تیرا باپ قبر سے آ کے بھیک دے گا ؟ صبح بچے کرکٹ کھیل رھے تھے اور سلیم کا جی بھی کرکٹ کھیلنے کو چاہ رھا تھا،مگر سر تھا کہ دادا کی گرفت میں تھا،، جو اسے فٹ پاتھ پر ایک کھمبے کی چھاؤں میں لئے کھڑا تھا،، اپنی طرف آنے والی گیند کو اس نےجو ایک دو دفعہ پاؤں کی ٹھوکر سے واپس کھلاڑی کی طرف پھینکا تو شوق بھڑک اٹھا،، 2 بجے جب دادا نے کھانا کھانے کا وقفہ کیا تو سلیم نے کرکٹ دیکھنے کی فرمائش کر دی،، اور وعدہ کیا کہ وہ چار بجے ڈیوٹی پر حاضر ھو جائے گا،،مگر دادا کو ھمیشہ اس بات کی فکر رھتی تھی کہ ،بھکاری کا امیج خراب نہ ھو جائے،،اس نے اپنی لاٹھی جو اندازے سے گھمائی تو بے دھیانے سلیم کی کنپٹی پر جا لگی،، سلیم کا دماغ لٹو کی طرح گھوما اور وہ گر گیا،، اپنی 10 سالہ زندگی میں سلیم کے دل سے پہلی بار دادا کے لئے بد دعا نکلی کہ اللہ دادا سے اس کی جان چھڑا دے،، پتہ نہیں سلیم نے کس دل سے دعا مانگی تھی یا وہ وقت ھی قبولیت کا تھا کہ دادا کو کچھ اس طرح سے بخار ھوا کہ صبح ھوتے ھوتے جان دے دی،، سلیم جو خود ساری رات روتا رھا تھا، صبح دیر سے جاگا،اسے تعجب یہ تھا کہ اتنی دیر کیسے ھو گئی جبکہ اس کا دادا ھمیشہ صبح صبح اسے اٹھا کر تیار کر دیتا تھا، تاکہ ڈیوٹی پر جانے والوں سے کچھ نہ کچھ بٹور لیا جائے،، سلیم نے دل نہ چاھتے ھوئے بھی دادا کو آواز دی پھر پاس جا کر ھلایا تو دادا نے کوئی حرکت نہ کی،،سلیم جلدی سے کھوکھے والے کو بلا کر لایا جس نے دیکھتے ھی کہہ دیا کہ بڑے میاں چل بسے ھیں،، یہ سلیم کے لئے 14 اگست 1947 کا دن تھا،،یومِ آزادی،، اس کا دل بلیوں اچھل رھا تھا مگر اس نے مصنوعی غم کا غلاف اپنے چہرے پر چڑھائے رکھا،پھر جب لوگوں نے اس کے دادا کو دفن کر دیا اور اس کو لاوارث جان کر لوگوں نے کافی مدد بھی کر دی تو سلیم نے سکھ کا سانس لیا اور اس رات سکون کی نیند سویا، اگلی صبح وہ خوشی خوشی گھر سے نکلا، سکول کے گراؤنڈ میں کھیلتے بچوں کے ساتھ فیلڈنگ کرتا رھا،، ادھر ادھر گھوم پھر کے کھاتا پیتا بھی رھا،،مگر بارہ بجے کے لگ بھگ اس کا جی کھیل کود سے بھر گیا،اور اسے اپنے اندر کسی کمی کا احساس ستانے لگا،، اسے بار بار لگ رھا تھا کہ اس کے ساتھ آج کچھ غلط ھو گیا ھے،،مگر کہاں ؟ یہ اسے اس وقت سمجھ لگی جب اس کا سر درد سے پھٹنے لگا،، سالوں سے کسی کی گرفت میں رھنے والا سر آزادی کے بوجھ کو سنبھال نہیں پا رھا تھا ،، وہ کسی گرفت کا تقاضا کر رھا تھا،، دو بجے چھٹی کر کے آنے والوں کا رش شروع ھوا تو سلیم اپنی مخصوص جگہ پر جا کھڑا ھوا،مگر آج اسے پیسے کی بھیک نہیں چاھئے تھی ،،پیسہ اس کے پاس گزارے کے قابل ھو گیا تھا،، آج وہ کسی اور چیز کو ترس رھا تھا،،ایک پینٹ شرٹ مین ملبوس جوان کو دیکھ کر سلیم بلکتا ھوا اس کی طرف لپکا،بابو جی ، بابو جی ، جوان پلٹا اور سلیم کو روتا بلکتا دیکھ کر پہلے تو ٹھٹکا اور پھر اس کا ھاتھ جیب کی طرف بڑھا،، مگر سلیم چیخ پڑا ، بابو جی مجھے بھیک نہیں چاھئے ” اللہ کے واسطے تھوڑی دیر میرے سر کو پکڑ کر کھڑے ھو جایئے،، خدا را میرے سر پر ھاتھ رکھئے ” انسان والدین کی پابندیوں اور ھر وقت کی ناصحانہ گفتگو سے تنگ ھوتا ھے،سوچتا ھے کوئی دن ھو گا جب اسے ڈانٹنے والا کوئی نہ ھو گا،،پھر جب ڈانٹنے والے چلے جاتے ھیں تو اس کے اندر کا سلیم روتا پھرتا ھے،، شوھر ھر وقت کی چخ چخ سے تنگ ھوتا ھے،،یہ اخبار نیچے سے اٹھائیں،، کمبل تہہ کیا کریں،، یہ پلیٹ اٹھا کر ادھر رکھ دیں،، اور سوچتا ھے کوئی دن ایسا بھی ھو گا جس دن
میں جتنا گند چاھوں گا ڈالوں گا ،کوئی ٹوکنے والا نہیں ھو گا ،پھر گھر والی کے جانے کے بعد چند دن خوب گند ڈالتا ھے،، برتنوں سے سینک بھر دیتا ھے،، دو دو دن کمبل تہہ نہیں کرتا،، اخبار جہاں چاھے پھینک دے،،مگر پھر اس کے اندر کا سلیم کسی حکم دینے والی، کسی ڈاننٹنے والی کے لیئے سسکنا شروع کر دیتا ھے،، پھر فون پر ھی بتانا شروع کر دیتا ھے کہ وہ اب کمبل خود ھی وقت پر تہہ کر دیتا ھے،، اور برتن تو جُڑنے ھی نپیں دیتا، فوراً دھو دیتا ھے،، بس اب تم خدا را میرے سر پر ھاتھ رکھنے آ جاؤ ! کچھ قومیں بھی سلیم ھوتی ھیں،، چار دن آقا ناراض ھو جائے،، تو آزادی کا احساس ان کے سر میں درد پیدا کر دیتا ھے،وہ خود درخواست کرتی ھیں کہ

” خدا را ھمارے سر پر ھاتھ رکھیں ”

مســـلح گـــروپوں کے مــذھبی ونگ ! ھماری مذھبی جماعتیں !!

مســـلح گـــروپوں کے مــذھبی ونگ ! ھماری مذھبی جماعتیں !!

September 22, 2013 at 9:46pm
  • پوری دنیا میں ھم قتل و غارت گری کا سبب بن گئے ھیں، غیروں نے اسلام کیا لانا  تھا جو مسلمانوں کے پاس تھا وہ بھی مشکوک کر دیا گیا ، اسلام  نے لوگوں کے درد کا مداوہ کیا کرنا تھا  جو لوگوں کے پاس تھا وہ سب کچھ بھی چھن گیا،، گھر بار سے محروم ھوئے، وطن چھوٹا،کیمپوں میں در بدر ھوئے،، دو وقت کی روٹی کے لئے بھی بائبل والوں کے محتاج ھوئے کہ جن سے جزیہ لینے نکلے تھے،، صومالیہ میں اسلام کے نام پر ،ایک قائم مستحکم حکومت کو گرایا گیا،حالانکہ صومالی معاشرہ انتہائی نیک نام معاشرہ تھا،،ھمارے ساتھ رھنے والے 100٪ صومالی نمازی تھے،، پھر القاعدہ نام کا فتنہ پرور گروہ افغانستان میں تباھی و بربادی کا تحفہ دینے کے بعد صومالیہ میں داخل ھوا اور وھاں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا،، ھزاروں جانوں کی بلی لی گئی اور پھر آپس مین گروپوں کی جنگ شروع ھوئی،،نتیجہ یہ کہ صومالیہ نام کا ملک اب دنیا میں کوئی نہیں ،نہ ان کی حکومت نہ پاسپورٹ،، ایک خطہ زمین ھے جہاں بھیڑیوں کے گروپ پھرتے ھیں،،اور انسانی خون پانی سے بھی ارزاں ھے،، ذرائع آمدنی ختم ھوئے تو بین الاقوامی لٹیروں کے گروہ سمندروں کی طرف نکل کھڑے ھوئے،،جہازوں کے بیگناہ عملے کو یرغمال بنانا بھوکا پیاسا مارنا،، ان کے گھر والوں کو ذلیل خوار کر کے بھیک پر مجبور کرنا،، یہ وھی طریقہ ھے جو اپنے یہاں کراچی میں کیا جا رھا ھے،، جہاد جب ریاستی ذمہ داریوں کے بغیر گروپوں کے زور پر شروع کیا جاتا ھے تو پھر اس کے سائڈ افیکٹس سے بچنا محال ھوتا ھے،خوب اسلام کا نام روشن ھوا ، اور ھو رھا ھے،، صومال کی زمین پر کوئی بھوکا چوری کر لے تو اس کا ھاتھ کاٹا جاتا ھے،، مگر یہ ھاتھ کاٹنے والے جب سمندر میں جاتے ھیں تو پھر ڈاکا حلال ھو جاتا ھے،، اسلام کی اتنی دوغلی تعبیرو تفسیر ان کو بھی نہ سوجھی ھو گی جنہوں نے یہ سوچ پروان چڑھائی تھی ! کہتے ھیں قرآن میں نہیں لکھا،،احل لکم صید البحر و طعامہ؟ سمندر کا شکار اور وھاں سے جو ملے وہ تمہارے لئے حلال کر دیا گیا ھے ؟ بجا کہتے ھو ،سچ کہتے ھو،پھر کہیو کہ ھاں کیوں ھو  
  •     ! یمن میں یہی داستان دھرائی جا رھی ھے وھاں بھی کل اتنے ھی مرے ھیں جتنے آج پشاور میں مرے ھیں،، یمنی اسلام کے معاملےمیں  سخت ترین اور متشدد مسلمان ھیں ان کی خواتین حج عمرے میں بھی نقاب اور دستانے پہنے ھوتی ھیں،مگر وھاں بھی القاعدہ والا نیا ورژن انسٹال کرنے کی کوشش میں ھزاروں جانیں جا چکی ھیں،بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال لیئے ھیں اور لوگ اپنی آٹھ آٹھ سال کی بچیاں عیاش عربوں کو بیچنے پر مجبور ھیں، جو دو چار دن میں ان کو ویاگرا سے مار کر واپس آ جاتے ھیں،، یہی کچھ لیبیا میں اور یہی کچھ اب شام میں دھرایا جا رھا ھے،، آپس میں بھی لڑ رھے ھیں اور ابھی حکومت کافی دور ھے،جس دن حکومت ملی تو کیا ھو گا،، یورپ جو مدد کو دوڑا تھا،، ٹھٹک کر کھڑا ھو گیا ھے،، اسرائیل کے پڑوس میں صومالیہ کوئی بھی نہیں چاھتا،، بھوک و افلاس ،کشت و خون اور فتنہ فساد اسلام کے نام کے ساتھ کچھ یوں جڑ گیا ھے کہ اسلام کے نام کے ساتھ ھی دھماکے۔،کٹی پھٹی لاشیں بین کرتی مائیں ،سہمی بچیاں اور ماتم کرتی بیوائیں ذھن میں ابھرتی ھیں،، کیا اب بھی دینی جماعتوں کی انکھیں کھلیں گی یا نہیں،،، ؟؟ نبی رحمت کے دین کو کیا سے کیا بنا دیا گیا ھے؟ بخدا سینٹ پال نے وہ حشر عیسائیت کا نہیں کیا ھو گا جو ھمارے علماء نے اسلام کا کر دیا ھے کہ پہچانی ھوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی !  
  • اس مسئلے کا حل یہ ھے کہ ھمارے علماء دوغلی پالیسی کو ترک کریں،، لنچ یزید کے ساتھ اور نماز حسین کے پیچھے پڑھنے کی اس پالیسی نے اس ملک کو برباد کر دیا ھے اور اب صومالیہ اور افغانستان کا سا انجام نوشتہ دیوار ھے، بہتر یہ ھے کہ یہ علماء لوگ یہ فیصلہ کریں اور اس فیصلے کا اعلان کریں کہ القاعدہ اور ٹی ٹی پی والے جو کر رھے ھیں یہ شرعی جہاد ھے، اور اس اعلان کے بعد آرام سے کراچی  بیٹھ کر اپنی علمی جاگیریں  وسیع نہ  کریں بلکہ وزیرستان جا کر اس جہاد کی کمان سنبھالیں تا کہ جہاد کے دوران حلال و حرام کو خیال رکھا جا سکے اور اللہ کی حدوں کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے،جہاد جیسی جان لیوا ذمہ داری کو مرنڈے بیچنے والے اور ویگنوں کے کلینرز  کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ،

 

  • وزیرستان جانے کے بعد سب سے پہلے جس صدمے کا سامنا ھمارے بزرگوں کو کرنا پڑے گا وہ یہ ھو گا کہ طالبان  انہیں کمان سونپنے کو کبھی بھی تیار نہیں ھوں گے،اس دن ھمارے علماء کو شاید احساس ھو کہ جن کی خاطر وہ اپنی نبیﷺ کی امت کے قتل عام پر بھی خاموش رھے، وہ بھی اصلاً ان کو اپنی مطلب براری کے لئے استعمال کرتے رھے،یہ پرانی بات ھے کہ مذھبی جماعتوں کے مسلح ونگ ھوا کرتے تھے،،آج کل مسلح گروپوں کے مذھبی ونگ ھوتے ھیں جو معاشرے میں چلتے پھرتے ان کی صفائی پیش کرتے ھیں،،منابر پر بیٹھ لگوں کو برین واش کرتے اور ان کے دل و دماغ میں ان کے جرائم کو خوشنما بنا کر پیش کرتے ھیں،، یہ منی لانڈرنگ کی بجائے کریکٹر لانڈرنگ کرتے اور سیاہ کو سفید کر دکھلاتے ھیں   !

آخر کفر کی اتنی سخت سزا کیوں !

آخر کفر کی اتنی سخت سزا کیوں !

June 4, 2013 at 10:37pm

سوال: ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر ایمان کی حالت میں موت آ جائے تو صحیح ہے، ورنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے۔ جبکہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اتناروایت پسندہے کہ اگر عیسائی کے ہاں پیدا ہوتا ہے تو ساری عمر عیسائی ہی رہتا ہے، اور اگر ہندو کے ہاں پیدا ہوتا ہے تو ساری عمر ہندو ہی رہتا ہے اور کسی دوسرے کے ایمان و عقیدے کی طرف نہیں دیکھتا۔ جب انسان اتنا روایت پسند ہے تو پھر اتنی سخت سزا کیوں رکھی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا؟ جواب: آخرت میں جس بنیاد پر مواخذہ ہو گا وہ یہ ہے کہ ایک مسیحی ، ہندو یا مسلمان جس چیز پر اپنی زندگی بسر کر رہا تھا جو اس نے اپنے والدین سے پائی تھی تو کسی خاص موقع پر اس کی عقل یا اس کے علم نے اس کے سامنے ایک سوال رکھ دیا تو اس نے اس موقع پر کیا رد عمل ظاہر کیا؟اسی طرح سے اگر کوئی دعوت یا کوئی پیغام ،کوئی نئی بات اس تک پہنچی، دین اور مذہب کے بارے میں کوئی حقیقت اس کے سامنے آئی تو اس نے کیا رد عمل ظاہر کیا؟ یہ ہے وہ بنیاد جس پر اللہ تعالیٰ مواخذہ کریں گے۔قرآ ن نے بڑے مذاہب کا نام لے کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ اگر لوگوں کا اللہ پر سچا ایمان ہے، وہ قیامت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ جی رہے ہیں اور اچھا عمل کر رہے ہیں تو اللہ کے لیے ان کے ہاں نجات کی ضمانت ہے بشرطیکہ انھوں نے کسی بڑے جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو ۔جس طرح قتل ایک بڑا جرم ہے، بدکاری کو زندگی کا وطیرہ بنا لینا ایک بڑا جرم ہے۔ اسی طرح ایک بہت بڑا جرم یہ ہے کہ ایک پیغمبر کے بارے میں جب آپ پر واضح ہو گیا کہ وہ خدا کا سچا پیغمبر ہے اور آپ نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔یعنی جب آپ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ مسیح علیہ السلام خدا کے سچے پیغمبر ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے پیغمبر ہیں، پھر بھی آپ نے جانتے بوجھتے ، ضد کی وجہ سے ان کو ماننے سے انکار کر دیا تو تب آپ مواخذے میں آئیں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام لوگوں سے جتنی حقیقت ان تک پہنچی ہے، اس کی بنیاد پر مواخذہ (جواب دہی)کریں گے۔اس کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے کہ جس کو جتنا علم ملا ہے، اس کی بنیاد پر خدا اس سے پوچھے گا۔ 

یہ سوال اور اس پر غامدی صاحب کا جواب ملاحظہ فرما لیجئے،یہ ایسا جواب ھے جس سے ملحد بھی شادکام ھو سکتا ھے اور مومن بھی  خوش گمان ! حالانکہ غامدی صاحب پنجابی ھیں مگر ان میں پنجابیوں کی سی دو ٹوک بات کرنا ناپید ھے، لکھنؤ والوں کی طرح اتنے اگر مگر لگا دیتے ھیں کہ ھر ذھن کا بندہ یہ گمان کرتا ھے کہ یہ میرے موقف کی تائید کر رھے ھیں،، عقیدے میں کوئی اگر مگر اللہ نے نہیں لگائے اور نہ ھی عقیدے کے معاملے کو مبہم چھوڑ کر سلسلہ نبوت کو ختم کیا ھے،،قرآن اور اسلام میں اگر کوئی چیز روزِ روشن کی طرح واضح ھے تو وہ عقیدہ ھی ھے، جس کے بارے میں نبی کریمﷺ کا ارشاد

گرامی ھے کہ اس کی راتیں بھی اتنی ھی روشن ھیں جتنا دن روشن ھوتا ھے،، دوسرا مسئلہ جو غامدی صاحب کو درپیش ھے وہ ان کا حافظِ قرآن نہ ھونا ھے،،اگر وہ حافظِ قرآن ھوتے اور پورا قرآن ان کے سامنے کھلا ھوتا تو کسی ایک آدھ آیت پر اپنے موقف کی عمارت تعمیر نہ کرتے !

جیسا کہ میں عرض کر چکا ھوں کہ  قران میں عبادات تو بالکل واضح نہیں ھیں اور ان کی تفصیل نبی ﷺ کے حوالے کر دی گئی ھے،،مگر عقیدے کے ھر اس پہلو کو بڑی تفصیل سے واضح کیا گیا ھے جہاں قیامت تک کوئی ٹھوکر کھا سکتا تھا،، انسان کے روایت پسند ھونے کی بھی بات بھی ایک لطیفے سے کم نہیں،، اگر انسان روایت پسند ھوتا اور اپنے عقل کو استعمال نہ کر سکنے والا ھوتا تو،،پھر قومیں پیشوں کی بنیاد پر بنا کرتیں،،ایک نائی کی ساری نسلیں قیامت تک نائیوں کا کام ھی کرتی رھتیں اور ایک موچی کی نسلیں ساری زندگی موچی،، کسان کا بیٹا کبھی پروفیسر نہ بنتا اور نہ بزنس مین کا بیٹا ڈاکٹر ،، آخر یہ کیا ھے کہ باپ کی کچے گارے کی کٹیا تھی اور روایت پسند بیٹا  کروڑوں کی کوٹھی  بنا کر گھاس بھی اٹلی سے منگوا کر لگا بیٹھا ھے،دنیاوی معاملات میں وہ معصوم روایت پسندی کہاں چلی جاتی ھے،جس کا سہارا لے کر ایمان سے جان چھڑائی جا رھی ھے،، ؟؟ اصل حقیقت یہ ھے کہ انسان دین کو کوئی خاص اھمیت نہیں دیتے، کیونکہ اس سے کسی کا بگڑتا کچھ نہیں ھے،،ایک ھندو یہ دیکھتا ھے کہ اگر مسلمان ھو کر بھی شراب پینی ھے، ناپ تول میں کمی بیشی کرنی ھے،لین دین میں بے ایمانی کرنی ھے تو پھر عقیدہ بدل کر نئی ٹینشن کون پالے،،اخر مسلمان ،مسلم ھو کر بھی کرپٹ ممالک میں ٹاپ پر آتے ھیں تو جو ھو رھا ھے وہ ھوتا جائے،، جوں جوں انسان کی مصروفیات گوناں گوں ھوتی جارھی ھیں،،اللہ پاک نے علم کے ذرائع بھی اتنے ھی زیادہ کر دئیے ھیں،، آپ اپنے پسندیدہ مولوی کو سننے کے لئے لنک پر جاتے ھیں مگر اسی لنگ پر ٹیگ کیئے گئے آپ کے مخالف مولوی اور عقیدے کے لوگ بھی ڈسپلے ھو جاتے ھیں،، آپ موت یا زندگی، یا قیامت کچھ بھی ٹائپ کر دیکھیں،، سب مزاھب کا نقطہ نظر آ جاتا ھے،،لہٰذا یہ کوئی دلیل نہیں ھے کہ کسی کو پتہ ھی نہیں چلا کہ اسلام کیا ھے ! رہ گئے وہ علاقے جہاں کوئی ذریعہ ھی نہیں تعلیم کا جیسے افریقہ کے جنگل ،،تو ان کا معاملہ ان کے ضمیر کے مطابق ھو جائے گا،،یہ سوال کرنے والے کا اپنا پرابلم نہیں ھے،،ڈاکٹر بھی حقیقی مریض کو انٹرٹین کرتا ھے نہ کہ خیالی مریض کو !!

ایمان اور آخرت !

سوال یہ اٹھایا گیا ھے کہ جناب بندہ گناہ تو کرے ساٹھ ،ستر، سال اور جہنم میں جلے اربوں کھربوں سال؟ انسان نیکی تو کرے ساٹھ ، سترسال مگر جنت میں رھے اربوں کھربوں سال؟ جواب کچھ اسطرح سے ھے کہ مومن جنت کا شہری ھے،اپنے ایمان اور نیت  کی بدولت ،، اور کافر جہنم کا شہری ھے اپنی بے ایمانی اور نیت کی بدولت،، کافر کے اعمال چاھے وہ نیک ھوں یا بد وہ تو زیرِ بحث ھی نہیں آئیں گے،اولٰئک الذین کفروا بآیاتِ ربھم و لقائہ فحبطت اعمالھم ،فلا تقیم لھم یوم القیامۃ وزناً( الکہف105 ) گویا کافر اپنے اعمال کی بدولت جہنم میں نہیں جائے گا کیونکہ وہ تو تولے ھی نہیں جائیں گے،انکی تو ڈائریکٹ فلائٹ ھو گی،لہٰذا یہ سوال کہ گناہ ساٹھ سال کرے اور جہنم میں اتنا عرصہ رھے،،چونکہ اس کی نیت سدا کافر رھنے کی اس لئے اپنی نیت کے عوض سدا جہنم میں رھے گا اور مومن کی نیت چونکہ ھمیشہ مومن رھنے کی تھی لہٰذا اپنی نیت کی بدولت سدا جنت میں رھے گا،،، اصلا ً وہ اپنے عمل کی وجہ سے جنت کا باسی نہیں ھے بلکہ نیت اور ایمانن کی وجہ سے ھے،،عمل میں کمی بیشی جنت کے درجات میں کمی بیشی  کا سبب ھو گی،،جسطرح دنیا بھر میں کوئی بھی پاکستان جب سزا کاٹ کر ڈی پورٹ کیا جاتا ھے تو پاکستان ھی ڈی پورٹ کیا جاتا ھے،،اسی طرح مومن جہنم سے سزا کاٹ کر جب بھی ڈی پورٹ ھو گا ، جنت کو ھی ڈی پورٹ کیا جائے گا کیونکہ وہ ایمان کی بدولت جنت کا شہری ھے،،یہ مضمون قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر آیا ھے،، من کان یرید الحیوۃ الدنیا نؤتہ منھا وما لہ فی الاخرۃ من نصیب (شوری 20 )من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ ما نشاء لمن نرید ثمہ جعلنا لہ جھنم،(،الاسراء 18) و من اراد الاخرۃ و سعی لھا سعیھا ” و ھو مومن” فاولئک کان سعیھم مشکورا ( الاسراء 19 ) نیز سورہ آل عمران آیات 21،22،77، 91) اور قرآن میں واضح طور پر بتا دیا گیا ھے کہ ان لوگوں سے زمین کے برابر یا اس جتنا اورسونا بھی اگر پیش کریں گے تو سونا وہ سونا ان کے کفر کے عوض قبول نہیں کیا جائے گا،،

ایمان اور بے عملی

اصولاً تو ایک مسلمان کو اپنے ایمان کے مطابق اعمال کرنے چاھئیں ،مگر عملاً ھم دیکھتے ھیں کہ ایسا عموماً ھوتا نہیں ھے، اور یہ ایک فطری بات ھے،کسی بھی محکمے کے ملازموں کو وھاں 100٪ ذمہ داری اور دیانت داری سے کام کرنا چاھئے مگر یہ کسی محمکمے مین بھی ھوتا نہیں ھے،،مگر ھر محکمے نے اپنے کچھ اصول و ضوابط بنا رکھے ھیں کہ یہاں تک تو قابلِ برداشت ھے،مگر اس سے آگے بڑھا تو فارغ کر دیا جائے گا،، اگر آپ کی سم رجسٹرڈ ھے تو بعض دفعہ بیلنس ختم ھو جانے سے،سہولت تو واپس لے لی جاتی ھے ،مگر اپکی رجسٹریشن برقرار رھتی ھے، اور ری چارج پر واپس مل جاتی ھے،یہ اس شخص سے مختلف حالت ھے،جس کی سم رجسٹرڈ ھی نہیں ھے،، آپ کوتاھی پر محکمانہ سرزنش ھوتی ھے، معطلی بھی ھو جاتی ھے مگر برخواستگی نہیں ھوتی،، اگر آپ کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ھے تو آپ سے غلطیاں بھی ھوتی ھیں اور آپ کو چالان بھی بھرنے پڑتے ھیں،مگر اس سے آپ کے لائسنس یافتہ ھونے کی سہولت واپس نہیں لی جاتی،،یہانتک کہ اگر آپ سے حادثے میں انسان مر بھی جائے تب بھی نہ تو آپ پر قتل کا مقدمہ بنتا ھے اور نہ ھی لائسنس ضبط ھوتا ھے، اور ایک شخص جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ھے ،اگر اس سے بندہ مر جاتا ھے،،تو اگرچہ غلطی اس مرنے والے کی ھو، قتل کا مقدمہ  بے لائسنس ڈرائیور پر ھی بنتا ھے ،،اس لئے مومن کے گناھوں کا تقابل غیر مسلم کے گناھوں سے بھی نہیں کیا جا سکتا،، یہ ھے وہ بات جو ھم نماز جنازہ میں کہتے ھیں، و من توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان،،ایمان پر وفات ھو گئی تو چالان بھی بھرے جا سکتے ھیں اور معافی کی درخواست پر غور کی بھی سہولت ھے ! جبکہ کفر کی حالت میں مرنے پر کوئی نیکی زیرِ بحث ھی نہیں آئے گی !باقی رہ گیا مسئلہ کہ کتنے فیصد مسلمانوں نے یہودیت یا عیسائیت کا مطالعہ کیا ھے ،،تو مسلمان کو کبھی وہ سوال درپیش ھی نہیں آیا جس کا جواب اس کے اپنے مذھب نے نہ دیا ھو،اور اسے کسی اور مذھب کی کتابوں کو اسٹڈی کرنا پڑے،، اپنے گھر دودھ والی بھینس باندھ کر دودھ لینے دکان پر کوئی پاگل ھی جائے گا،،اگر آپ ایک کتاب” ھم مسلمان کیوں ھوئے ” پڑھ لیں تو آپ کو سمجھ لگ جائے گی کہ کیسے کیسے تعلیم یافتہ انسانوں کو کس کس قسم کے سوالات نے پریشان کر رکھا ھے،، یہ وہ سوال ھیں جو کبھی ھمارے بکریں چرانے والے کو بھی پریشان نہیں کرتے،، اللہ پاک قرآن میں سوال کرتے ھیں،، فماذا بعد الحقِ الا الضلال؟ آخر حق کو پالینے کے بعد کسی کی جستجو اسے سوائے گمراھی کے اور کس منزل تک پہنچا سکتی ھے؟ جو بندہ پنڈی پہنچ کر بھی پنڈی کی تلاش میں سفر جاری رکھے ،اسے کبھی پنڈی نہیں مل سکتی ،یہ بات بھی ان مغالطوں میں شامل ھے جو محترم غامدی صاحب کو لگے ھیں،، قران کی موجودگی میں عقیدے کے معاملے میں رسول کی موجودگی اور عدم موجودگی کوئی اھمیت نہیں رکھتی کیونکہ عقیدہ نبیﷺ نے نہیں دیا،،بلکہ نبیﷺ کو بھی عقیدہ قرآن نے دیا ھے( الشوری 52 ) البتہ قوموں کی عذاب میں ھلاکت رسول کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں ھوتی !- —