ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ کہ گرمیوں میں جب چھٹیاں ھوتی تھیں تو امیروں کے بچے موج کرتے تھے ،، اور غریبوں کے بچے ھنر سیکھتے تھے، میں انہی غریب بچوں میں سے تھا ،، گرمیوں میں درزی کا کام سیکھتا تھا ،، اور پھوپھیاں ، ماسیاں اپنے بچوں کے کپڑے چھوٹے کرانے لے آیا کرتی تھیں ،، یوں فری میں ھمارا ھاؤس جاب مکمل ھو جاتا ،، ماسٹر محمد عالم مرحوم ، اللہ پاک ان کی قبر کو نور سے بھر دے نہایت شریف اور ھنس مکھ انسان تھے ،، ان کے بچے آپس میں لڑتے تو شکایت کرتے ،، ھوئے ابا تکیں ناں مارنا ای ( ابو دیکھیں یہ مجھے مارتا ھے ) اور وہ پرویز رشید صاحب کی طرح نہایت ٹھنڈے انداز میں کہہ دیتے : ھلا مارساں سُو ( اچھا ماروں گا ) مگر ھم نے انہیں کبھی مارتے ھوئے دیکھا نہیں ،، یہ جیو والے جب شکایت کرتے ھیں کہ کیبل آپریٹر بھائی ،،،، تو میرے منہ سے بیساختہ نکلتا ھے ” مارساں نے ” جس گھر کا کوئی سلائی کے بارے مین جانتا ھوتا تو وہ خبردار کر دیتے کہ ” خیال کرنا یہ سلائی کے بارے میں جانتا ھے ،سلائی سیدھی مارنا ،،
میں سلائی کر رھا تھا دکان کا منہ مغرب کی جانب تھا ،سامنے سے دو گلیوں کا ملاپ تھا اور ٹھیک درمیاں میں محمد سرور مرحوم کا ھوٹل ، اسی ملاپ پر ایک دفعہ موضع ڈھونگ کے نابینا حافظ صاحب اور ھمارے استاد حافظ عبدالعزیز جو کہ نابینا تھے دونوں کا ٹاکرا ھو گیا ، سخت بارش ھو رھی تھی اور دونوں مخالف سمت سے تیز تیز چلتے آرھے تھے کہ آپس میں ٹکرا گئے ،، بیساختہ دونوں کے منہ سے نکلا : اوئے انۜاں ایں ؟ ابے اندھے ھو ؟ وہ اس کو بولیں تو اندھا ھے اور وہ آگے سے اس کو بولے کہ تو اندھا ھے ؟ ھوٹل میں بیٹھے ھوئے جو یہ مناظرہ دیکھ رھے تھے انہوں نے آواز دی کہ حافظ جی آپ دونوں نابینا ھیں ،جس پہ دونوں معذرت کر کے اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ھو گئے ،،
عصر کا وقت تھا ،، میں سر نیچے کیئے ھوئے کام میں لگا ھوا تھا شام سے پہلے جوڑا دینا تھا ،،کہ اچانک زور کا پتھر میرے سر پہ آ لگا ،، میں نے ایک ھلکی پھلکی گالی دی اور سر پہ ھاتھ رکھے پتھر مارنے والے کے پیچھے لپکا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، مگر وہ تو پتھر مارنے والی تھی ،،،،،،،،، یہ دیکھ کر کہ پتھر کس نے مارا ھے میرا غصہ مسکراھٹ میں تبدیل ھو گیا ،،،،،،،،،،، اب وہ پتھر بھی مجھے عزیز ھو گیا تھا ، میں اسے سنبھال کر نشانی کے طور پہ رکھنے لگا ،، دیکھا تو وہ گُڑ کی روڑی تھی ،پتھر نہیں تھا !
اللہ والے جو مصائب کی حقیقت سے آگاہ ھوتے ھیں ، وہ مصائب کو محبت کی چھیڑ چھاڑ سمجھ کر عزیز رکھتے ھیں ،جنہیں وہ پتھر سمجھتے ھیں وہ حشر میں گڑ ثابت ھو گا ، یہی لوگ السابقون ھیں ،، جن کا ذکر بیان کرنے میں اللہ پاک نے تیسرے نمبر پر رکھا ھے مگر انعام پانے والوں میں سب سے پہلے بیان کیا ھے ،، سورہ واقعہ کے ابتدائی رکوع کو ذرا پڑھ کر دیکھئے ،،
جنہاں دکھاں تے دلبر راضی سُکھ اُنہاں توں وارے !
دُکھ قبول محمد بخشا راضی رھن پیارے !