اچھی بات کبھی مرتی نہیں اور بری بات بھی کبھی مرتی نہیں ،، ھر اچھی بات صدقہ ھے اور لوگوں کے لئے ھی لکھی جاتی ھے ، اس کی کوئی رائلٹی نہیں ھے ، مفت میں ملا ھے مفت بانٹو دین کا اصول ھے ،، مگر بعض دفعہ لوگ اس تحریر کی بنیاد پر کراس کوئیسچن کرتے ھیں اور بندہ پھنس جاتا ھے ،، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک کی مجلس کا واقعہ تو یاد ھو گا ،، امام شافعی جب عراق سے پلٹے تو امام مالک کی مجلس میں بیٹھے ھوئے تھے ،امام مالک کی مجلس کے آداب میں سے تھا کہ وہ علم کی نسبت سے قرب عطا کرتے تھے ،پہلے مفتی پھر عالم پھر نیم عالم پھر شاگرد ،، امام شافعی شاگردوں میں بیٹھے ھوئے تھے ،، امام مالک جو سوال کرتے تو امام شافعی ساتھ والے کو اس کا جواب بتا دیتے ،وہ اونچا بول دیتا ،جب دس بارہ سوال جواب ھو چکے تو امام مالک حیران ھو گئے اور اس بندے کو کھڑا کر کے ڈانٹا کہ تم عالم ھو کر وھاں کیوں بیٹھے ھو – ادھر میرے پاس آ کر بیٹھو ، وہ بے چارہ آ کر بیٹھ تو گیا ،مگر اب امام مالک سوال کرتے اور وہ بغلیں جھانکتا ،، امام مالک نے پوچھا جوان کیا ھو گیا ھے تمہیں ؟ کہنے لگا حضرت وہ تو میرے ساتھ ایک جوان تھا وہ مجھے بتا رھا تھا ،، امام نے اس جوان کو کھڑا کیا ،، پاس بلایا اور پوچھا کہاں سے آئے ھو ؟ اس نے جواب دیا ” عراق سے ” امام شافعی کافی دبلے بھی ھو گئے تھے اور سفر کی صعوبت نے رنگ بھی کملا دیا تھا ، امام مالک کے پاس سے بھیگی مونچھوں کے ساتھ گئے تھے جبکہ اب گھنی داڑھی آ گئ تھی،، امام مالک ان کو پہچان نہیں سکے تھے ،، جونہی امام شافعی کی آواز سنی تو پہچان لیا اور اٹھ کر ماتھا چوما ،، محمد بن ادریس الشافعی الھاشمی کہہ کر گلے لگایا ،، بخدا مجھے ان پے در پے جوابات پر تم ھی یاد آئے تھے !