میرے کزن کا پچھلے ھفتے انتقال ھو گیا ھے ، اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے نہایت سیدھے سادے آدمی تھے ، شارجہ میں تقریباً 43 سال گزار دیئے ،، انہوں نے ایک دفعہ اپنے بیٹے کو میرے پاس بھیجا کہ چاچو کے پاس قرآن پڑھو ،،
ظہور 10 سال کا بچہ تھا 23 سال قبل میرے یہاں آیا تھا ،، میں نے اس کی آمد پر فریج میں سے سارے کھٹے مالٹے نکال کر ، ایک بڑی ” سلور کی ترامی ” جس میں عورتیں آتا گوندھتی ھیں ، اس میں کاٹ کر اس کے آگے رکھے کہ بیٹا کھاؤ ،کیا یاد کرو گے کہ چاچو نے کیسی خدمت کی ھے ،، اس نے پہلی پھانک منہ میں رکھی ھی تھی کہ کن اکھیوں سے مجھے دیکھا ،، وہ میری سنجیدگی کا اندازہ کر رھا تھا ، اور میں ایک دائی کی سی سنجیدگی کے ساتھ اسے دیکھے جا رھا تھا ،، کوئی پانچ سات پھاڑیاں کھانے کے بعد ظہور کی ھمت جواب دے گئ ، اس نے بے بسی سے سامنے رکھی ترامی کی طرف دیکھا ،، اس کی آنکھوں میں کھٹاس کی وجہ سے آنسو آئے ھوئے ،، آنسو بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ھوئے اس نے بڑی بےچارگی سے پہاڑی زبان میں کہا ” چاچا تساں وی کھاؤ ناں ” چاچو آپ بھی کھائیں ناں ، میں نے کہا نہ بیٹا تم مہمان ھو تم کھاؤ !
میں پشاور قتلِ عام میں شہید کیئے گئے بچوں کی ماؤں کی آنکھوں میں آنسو دیکھتا ھوں تو مجھے ظہور ڈار کا وہ جملہ یاد آتا ھے ” اے علمائے کرام اور مفتیانِ عظام اس اسلام کا کچھ تھوڑا بہت سواد تم بھی تو چکھو ناں !!
یا دنیا کے پاس ھم یہ تصویریں لے کر جائیں گے کہ ان درندوں کے منہ کو خون لگانے والو تم بھی تو کچھ حصہ بٹاؤ ناں –