میں یہ بات اپنے مضمون میں واضح کر چکا ھوں کہ پرانے فتووے سوائے ھماری طاقت کی رعونت کے اور کچھ ثابت نہیں کرتے ،، جن میں یہاں تک کہا گیا کہ کسی غیر مسلم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے والے کو تعزیر دی جائے گی ،جبکہ نبی کریمﷺ کا اسوہ کوئی اور بات کہتا ھے ،،اور آج کے کلچر میں کیفیٹیریا میں ھندو مسلم ساتھ بیٹھ کر کھاتے ھیں – اب یہ ایک نئ مصیبت آ گئ ھے اور یہ احساسِ کمتری ھے ،، کہ آپ معذرت خواھانہ رویہ اپناتے ھیں یورپ کو خوش کرنے کے لئے You are apologist ،، یا وہ انتہا تھی ،، یا یہ انتہا ھے ،، وسط میں ھم کھڑے ھیں ،، کسی عیسائی کے عید مبارک کہنے سے وہ مسلمان نہیں ھو جاتا ،وہ بھی اسے اخلاقی طور پہ کہتا ھے ایک سماجی رسم سمجھ کر ، ھمارے ھیپی کرسمس کہنے سے ھم عیسائی نہیں ھو جاتے یہ واذا حییتم بتحیۃٍ فحیوا باحسن منھا او ردوھا ،، کی عملی تعبیر ھے ،، قرآن کے حکم کے بعد کسی کے فتوے کی کوئی اھمیت باقی نہیں رھتی – یہ میرا موقف تھا اور ھے اور رھے گا ،کیونکہ مجھے رات دن ان لوگوں سے واسطہ پڑتا ھے ،میری مسجد میں کئ ھندو مسلمان ھونے سے پہلے جمعے کا خطبہ سننے آتے رھے ھیں ،سری لنکن عیاسئی مسلمان ھونے سے پہلے خطبہ سننے آتا رھا ھے ،،ھم سے وہ رویہ اختیار کیا ھی نہیں جا سکتا جو ھمارے پاکستانی علماء کا مئند سیٹ بن چکا ھے ،