حیوانی سوچ ” Convergent ” ھوتی ھے تحلیل پذیر ھوتی ھے ،جس چیز پہ پڑتی ھے وھیں اولے کی طرح پگھل جاتی ھے جبکہ انسان کی سوچ ” Divergent ” ھوتی ھے وہ پنگ پانگ گیند کی مانند ادھر سے ادھر اچھلتی جاتی ھے ، انسان نماز میں صرف ایک بات سوچتا ھے اور وہ بات اسے دوسری سے تیسری بات کی طرف دھکا دیتی چلی جاتی ھے ،، اگر اس سوچ کو سوچنے پہ سدھا لیا جائے تو ایک چھوٹی سی بات بندے کو عرش کے نیچے لے جا کھڑا کرتی ھے ،، میں جو موت کو پیدائش ھی کی طرح ایک فطری عمل سمجھتا ھوں مجھے شاید ھی کسی نے کسی میت پہ روتے دیکھا ھو ، مگر بعض دفعہ گاڑی چلاتے ھوئے ایسا خیال آتا ھے کہ چیخیں نکل جاتی ھیں ،رب پاس بیٹھا محسوس ھوتا ھے ،، چھوٹی چھوٹی باتیں ھوتی ھیں مگر وہ انسان کی ذات کو شھد سے اسی طرح بھر دیتی ھیں جیسے شھد کی چھوٹی سی مکھی چھوٹے چھوٹے پھولوں سے نمک کے دانے سے بھی چھوٹے ذرات سے اپنا چھتہ شھد سے بھر لیتی ھے ،، قرآن حکیم میں بار بار تفکر ، تدبر ،تعقل ،تذکر ، نظر اور تفھیم کا حکم عقل کو مھذب بنانے اور اس کی سوچ کو منظم کرنے کی دعوت ھے ،، یہی سوچ دنیا پہ حکومت کر رھی ھے ،، پوری دنیا پہ آسمان کو چھونے والے ٹاور ،، گولی کی رفتار سے چلنے والی ٹرینیں ،رنگ برنگی ایجادات یہ سب پہلے کسی کی سوچ میں ھی آئی تھیں پھر اس سوچ کو میٹریل دیا گیا ھے اور یہ سب کچھ بنا کر کھڑا کر دیا گیا ھے ،، یہی معاملہ کردار کا ھے ،کردار کی ڈیویلمنٹ سوچ سے شروع ھوتی ھے ،ایک بری سوچ رکھنے والا شخص کبھی اچھے کردار کا مالک نہیں ھو سکتا جس طرح کیکر پر سیب نہیں لگ سکتا ،، اللہ پاک نے سورہ واقعہ میں انسانی سوچ کے Tools کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ھے ” جو ٹپکاتے ھو وہ دیکھا ھے ؟ ” جو بوتے ھو وہ دیکھا ھے ؟ جو پیتے ھو اس پانی کو کبھی سوچا ھے ؟ جو آگ جلاتے ھو کبھی اس کو سوچا ھے ؟ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق نہ سوچنے والے لوگ ھیں جو آنکھیں ھوتے ھوئے دیکھتے نہیں ، کان ھوتے ھوئے سنتے نہیں ، زبان ھوتے ھوئے حق کا اقرار کرتے نہیں ،
إن شر الدواب عند الله الصم البكم الذين لا يعقلون ( الانفال )
انسان کی سوچ کا سفر اس کے سامنے سے شروع ھوتا ھے اور عرش کے سامنے ختم ھوتا ھے ،، بدو کو کہا افلا ینظرون الی الابلِ کیف خلقت ؟ کیا دیکھتے نہیں کہ اونٹ کو کس طور بنایا گیا ھے ؟ بس اس ایک جملے نے اس کو آسمان پر پہنچا دیا ،، و الی السماء کیف رفعت ؟ اگر اونٹ رب تک پہنچا سکتا ھے تو انسان تو صلاحیتوں کا سمندر ھے کائنات میں رب تک جانے کا سب سے مختصر رستہ انسان کے اندر سے ھو کر گزرتا ھے ،، وھی اندر جس کے اندر جاتے ھوئے ھم کو ڈر لگتا ھے کیونکہ ھم نے اس کو ویرانہ اور اندھیر نگری بنا رکھا ھے ،،
پڑھ پڑھ عالم فاضل ھویاں، کدی اپنے آپ نوں پڑھیا ای نئیں !
جا جا مندر مسیتاں وڑناں ، کدی اپنے اندر تُوں وڑیا ای نئیں !
بلہے شاہ آسمانیں اُڈھدے پھڑناں ایں !
جہڑا گھر بیٹھا اونہوں پھڑیا ای نئیں !