ایک سوال اورھے!
اگر انسان نے بہت سی چیزیں رب سے مانگ لیں ،مثلاً ایک بچہ ھے اسے جو بھی چیز اچھی لگتی ھے وہ رب سے مانگ لے ،، پھر اسے احساس ھو کہ اللہ کیا سوچتا ھو گا کہ کیسی لڑکی ھے ” جو دیکھتی ھے مانگ لیتی ھے ” تو اس لڑکی کو توبہ کر کے دعا مانگنا چھوڑ دینا چاھئے ؟ کہ اللہ کے پاس فہرست بہت لمبی ھو جائے گی ،اور جب نئ دعا مانگی جائے گی تو وہ پچھلا ریکارڈ دیکھ کر کہتا ھو گا کہ ” اس کو تو عادت ھے مانگنے کی ؟ کیا ایسا ھی ھے ؟
اک جواب اور سہی !
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ھے کہ جب اللہ سے مانگو تو خوب ڈٹ کر مانگو ، اس کے لئے نمک کی ڈلی اور تختِ بادشاھی ایک برابر ھیں ، دونوں کے لئے اس نے کن ھی کہنا ھے ،، مانگ مانگ کر لینا نبیوں کی عادت ھے ، اور یہ سب سے بڑی عبادت ھے ،الدعا مخ العبادہ ،، دعا تو بندگی کا جوھر ھے ، الدعا ھو العبادہ دعا ھی تو عبادت ھے ،، نہ ملنے کے باوجود مانگنے والا اس سے افضل ھے جس نے مانگا اور اسے مل گیا ،، اس لئے کہ اس میں عجب یعنی تکبر اور خودپسندی پیدا ھونے کے امکانات زیادہ ھو جاتے ھیں کہ وہ سوچے کہ میرے اندر کوئی خوبی ایسی ھے کہ خدا میری کوئی دعا رد نہیں کرتا حالانکہ دعا کی جلد قبولیت قرب کا ثبوت نہیں کیونکہ ابلیس کو فوراً مانگ کر مل گیا تھا اور انبیاء سالوں تک مانگتے رھے تو ملا ،، جبکہ جس کی دعا تاخیر سے قبول ھوتی ھے وہ اپنے گناھوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رھتا ھے کہ کس گناہ کی وجہ سے میں نے رب جیسی کریم ھستی کو ناراض کر دیا ، اس دوران وہ جتنے گناھوں کو یاد کرتا جاتا ھے اللہ پاک ان کو معاف کرتا جاتا ھے – حدیث میں ھے کہ اللہ پاک جس بندے سے پیار کرتا ھے اس کی دعا کی قبولیت میں تاخیر کرتا ھے ، فرشتوں سے فرماتا ھے کہ ابھی صبر کرو ،مجھے اپنے بندےکی اواز سننے دو ، اسے مجھ سے سرگوشیاں کرنے دو ،، جبکہ جن سے نفرت کرتا ھے ان کی دعا کو جلد قبول کر کے فرشتوں کو حکم دیتا ھے کہ اس کی حاجت بن مانگے پوری کر دیا کرو ،، میں اس کی آواز سننا نہین چاھتا