خلیفہ چننے کا ماضی اور حال کا طریقہ کار

اللہ پاک کو انسان پر اعتماد ھے ، انسان کی عقل پہ فخر ھے وہ اسے عقل استعمال کرنے کی دعوت دیتا ھے اور عقل استعمال نہ کرنے پہ تعجب کا اظہار فرماتا ھے ! افلا تعقلون ؟ یہ عقل کس لئے رکھ چھوڑی ھے ؟ کب استعمال کرو گے ؟ لعلکم تعقلون ،، میں نے تو اس لئے پیدا کی تھی تا کہ تم عقل استعمال کرو ،، اس کے سارے فنکشن نام لے لے کر گنوائے !
لعلکم تذکرون !
لعلھم یتذکروں !
لعلکم تتفکرون !
افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوبٍ اقفالھا ،، یہ قرآن پہ تدبر نہیں کرتے یا دل لاک ھیں ( اور پاس ورڈ بھول گئے ھیں )
شریعت اور حلت و حرمت میں اللہ پاک نے کم سے کم مداخلت کی ھے اور انسانی فطرت و شعور پہ زیادہ سے زیادہ اعتماد کیا ھے ،، باپ اولاد پہ اعتبار نہیں کرے گا تو لوگ کیسے کریں گے ،، خالق اپنی تخلیق پہ اعتماد نہیں کرے گا تو ،، خود اپنی صنعت پہ انگلی اٹھانے کا موقع فراھم کرے گا !
سب سے اھم معاملہ خلافتِ ارضی کا ھے !
اللہ پاک نے صرف ایک اصول دیا ھے کہ ” امرھم شوری بینھم ” ان کے امور باھمی مشورے سے طے ھوتے ھیں،، وحی کی سہولت میسر ھونے کے باوجود نبیﷺ کو پابند کیا ھے کہ وہ اپنے صحابہؓ سے مشورہ کر کے چلیں،، مشورے کے نتیجے میں نقصان ھو گیا تو بھی دوبارہ تاکید فرمائی کہ اگرچہ ان سے غلطی ھو گئ ھے فاعف عنھم واستغفر لھم و شاورھم فی الامر ،، آپ ان سے درگزر فرمائیے ،، ان کے لئے اللہ سے مغفرت مانگئے اور ان سے مشورہ کرتے رھئے !
یہی وجہ ھے کہ نبی پاک ﷺ نے اپنا خلیفہ کسی کو مقرر نہیں فرمایا ،، آج تک ھمیشہ نبی سے نبی ٹیک اوور کرتے آئے تھے ،،پہلا موقع تھا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں تھا ،، آپ نے اجتماعی معاملے کو اجتماعیت کے سپرد کر دیا ! انتقال اقتدار یا امیر کو چننے کا کوئی شرعی طریقہ مقرر نہیں ھے اور ھر طریقہ شریعت کے لئے اوپن ھے ،، جس طریقے سے بھی لوگ اپنا مشورہ دے سکتے ھیں وہ دستیاب طریقے سے دیں شریعت اس کو قبول کرتی ھے !
جس ھنگامی طریقے سے پہلے خلیفہ کا انتخاب ھوا ،، وہ کوئی آئیڈیل طریقہ نہیں تھا ،، اگرچہ اس کے نتیجے میں نبیوں کے بعد انسانیت کا سب سے بہترین انسان چنا گیا ،مگر یہ سوال اپنی جگہ ھے کہ کیا اس طریقے کو حتمی اور شرعی طریقہ کہا جائے گا ؟
اگر وہ حتمی اور آئیڈیل طریقہ تھا تو پھر خود ابوبکر صدیقؓ نے اس طریقے کو تبدیل کیوں کیا اور ایک بندے کو نامزد کر کے ان کے لئے بیعت لی ،، یہ صدارتی انتخاب کا طریقہ ھے ! گویا خود ابوبکر صدیقؓ نے سقیفہ بنو سعدہ کے طریقے کو ھنگامی تسلیم کر لیا آئیڈیل نہیں ،،
آگے چلنے سے پہلے ذرا سقیفہ بنو سعدہ کی کارروائی پہ ایک طائرانہ نظر ڈالتے چلئے ،، سب سے پہلے انصار کو جواب دیا گیا کہ ” الائمۃ من قریش ” امام تو قریش میں سے ھو گا ،،کوئی نیک اور متقی ھوتا ھے تو ھوتا رھے ، آسمانوں پہ اڑتا ھے تو اڑتا رھے ،، مگر حکومت کی بات نہ کرے،، حکومت صرف قریشی کرے گا !
گویا ” انۜ اکرمکم عنداللہ اتقاکم ” کا تعلق آخرت کے ساتھ ھے ، کہ قیامت کے دن اللہ کے قریب وہ ھو گا جو زیادہ تقوے والا ھو گا ،، اس آیت کا تعلق آخرت کے درجات کے ساتھ حاکم کے لئے تقوی شرط نہیں ، صلاحیت شرط ھے ! خود حدیث میں کہا گیا کہ ” لا فضل لعربي على عجمي ولا لأبيض على أسود إلا بالتقوى: مگر یہ عوام کے لئے ھے ،، اس حدیث کو ابھی تین ماہ نہیں گزرے تھے کہ ،، الائمۃ من قریش نے اس کی تفسیر کر دی کہ اس کا تعلق حاکم کے ساتھ نہیں بلکہ عوام کے ساتھ ھے ،، اور اس سے مراد بھی آخرت کے درجات ھیں، دنیا میں صلاحیت دیکھی جائے گی ،، ھو سکتا ھے کہ ایس ایس پی آفس کے باھر بیٹھا چپڑاسی تقوے کے لحاظ سے آسمان پہ بیٹھا ھو ، مگر وہ ایس ایس پی نہ بن سکتا ھے اور نہ ایس پی والا کام کر سکتا ھے !
رہ گئے بنو ھاشم تو وہ سرے سے اس کاروائی کا حصہ ھی نہیں تھے ،نہ کوئی بڑا نہ چھوٹا ،، مگر انہوں نے صورتحال کو قبول کر لیا تھا ،، خلافت کے بعد اٹھنے والی شورش نے ثابت کر دیا کہ ” الائمۃ من قریش ” ایک جاندار اور عملی اصول تھا ،،مسلمان آئینی دیوار کی طرح خلافت کی پشت پر کھڑے رھے اور بہت سارے قبیلوں نے قریش کی حکومت کو صدیوں پرانے بیت اللہ کے متولی کے پسِ منظر کی وجہ سے قبول کیا ،، اگر امامت قریش کی بجائے انصار کے ھاتھ میں ھوتی تو خود بنو خزرج اور بنو اوس کی بھی گارنٹی نہیں تھی کہ وہ یکجا رہ پائیں گے ،،
الغرض ابوبکر صدیقؓ کے اپنا خلیفہ یا قائم مقام اپنی زندگی میں مقرر کر کے سقیفہ والی بات کو ماضی کے مخزن میں پھینک دیا ،، پھر عمر فاروقؓ نے اس میں مزید تبدیلی کی ،،اور یوں خلافت کے طریقہ انتخاب میں تنوع کا سلسلہ جاری رھا ،،گویا ایک طریقہ مقدس قرار نہیں دیا گیا ،، عمر فاروقؓ نے عشرہ مبشرہ میں سے بقیہ 6 افراد کا پینل بنا دیا جن میں سے ایک کو خلیفہ چننا تھا ،، اور چن لیا گیا ،، اب اگر کوئی 600 کی پارلیمنٹ میں سے چننا چاھتا ھے تو اس کے لئے بھی شریعت میں گنجائش موجود ھے ، اب لوگ سوال کریں گے کہ 600 چوروں میں سے کسی کو بنائیں گے ؟ جی نہیں آپ ٹائم مشین ایجاد کیجئے اور پیچھے جا کر صحابہ یا تابعین کے دور میں سے کوئی 370 بندے لے آیئے !! عقل کی بات ھے کہ جو دستیاب ھیں مشورہ بھی انہیں سے ھو گا اور انتخاب بھی انہیں میں سے ھو گا !