نہ ڈرو نہ غم کھاؤ

 
اے متقیوتم خواہ مخواہ نہ ڈرو نہ غم کھاؤ ، اللہ پاک تمہارا اجر نہ تو کم کرے گا اور نہ ھی تمہارے اجر میں سے کاٹ کر گنہگاروں کو عطا کرے گا –
( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا (الکہف-30)
بےشک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیئے ھم نیکی کرنے والے کا اجر ضائع نہیں کرتے-
اس نے گنہگار توبہ کرنے والوں کے لئے اپنے ھی خزانے اور اپنے ھی بہانے الگ کر رکھے ھیں –
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا -(الفرقان-70)-
یہ عذاب ان کو نہیں ھو گا جو توبہ کر لیں اور عمل درست کر لیں بلکہ اللہ حشر میں ان کے برے عملوں کو نیکیوں میں تبدیل کر لے گا اور اللہ تو ھے ھی بڑا بخشنے والا-
آپ کو خواہ مخواہ بخار چڑھنا شروع ھو جاتا ھے – جس کو اس نے بخشنا ھو گا ، رستہ بھی خود نکال لے گا –
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ھیں کہ اللہ پاک ایک بندے کو بخشنے لگے گا تو فرشتوں کو کہے گا کہ پہلے اس کے چھوٹۓ چھوٹۓ گناہ شمار کرو، ( بڑے بڑے ھم خود اس کے منہ سے نکلوائیں گے ) فرشتے چھوٹے چھوٹے گناہ شمار کرنا شروع کر دیں گے تو وہ بندہ بار بار مداخلت کر کے کہے گا کہ بس کرو جب میں تسلیم کر رھا ھوں کہ میں گنہگار ھوں تو فیصلہ کر دو یہ شمار کیسا ؟ گویا وہ اپنے بڑے بڑے گناہ سامنے آنے سے ڈر رھا ھو گا اور چاہ رھا ھو گا کہ ان چھوٹے گناھؤں پر ھی اس کی سزا کا تعین کر دیا جائے –
اس پر اللہ پاک فرشتوں سے کہے گا کہ اچھا ان گناھوں کے عوض اس کو نیکیاں تبدیل کر کے دے دو ، جس پر وہ بندہ پکار اٹھے گا کہ صبر کرو صبر کرو ابھی تو بڑے بڑے گناہ پیچھے پڑے ھیں – اس کی اس چالاکی پر اللہ پاک ھنس دے گا – یہ بات بیان کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ خوب ھنسے اور فرمایا کہ جس بات پر اللہ ھنسے گا بھلا میں اس پر کیوں نہ ھنسوِں –
انسان کی عظمت اس کی معصومیت میں نہیں ، اس سے زیادہ معصوم مخلوق فرشتوں کی صورت میں پہلے سے موجود تھی اور انہوں نے اسی طرف اللہ پاک کی توجہ مبذول کرائی تھی کہ انسان کی بھلا کیا ضرورت ھے ” و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک ” جبکہ ھم آپ کی تسبیح حمد و تقدیس کے ساتھ کرتے رھتے ھیں ” اللہ پاک نے ایک ھی جواب دیا تھا ، انی اعلم ما لا تعلمون ،، میں وہ جانتا ھوں جو تم نہیں جانتے ،،
اے متقیو ! واللہ تم وہ نہیں جانتے جو اللہ جانتا ھے ،،، انسان کی عظمت اس کی معصومیت میں نہیں ، بلکہ اس کے گِر کر اٹھنے میں ھے ، گناہ کے بعد توبہ کرنے میں ھے ، غلطی کے بعد ایڑیاں رگڑ کر رونے اور پچھتاوے سے سسکیاں بھرنے میں ھے ، اس وہ مزہ ھے کہ پروردگار فرشتوں کو بلا کر فخر کرتا ھے اور ان کو گواہ بنا کر فرماتا ھے کہ جب تک یہ مجھ سے توبہ کرتا رھے گا ، میں اس کو اسی طرح معاف کرتا رھونگا –
رہ گئ توبہ – جس کے کرنے اور پھر ٹوٹ جانے سے شرم آتی ھے – اگر اتنی آسان بات ھوتی تو ابلیس ھی توبہ کر لیتا ،، سچی توبہ کوئی خالہ جی کا گھر نہیں بندہ پھر سے مٹی بنتا ھے تو توبہ منہ سے نکلتی ھے – اس لئے فرماتا ھے کہ اگر اس توبہ کا مزہ نہ ھو اور توبہ کرنے والے نہ ھوں تو میں ان لوگوں کو ھلاک کر دوں اور ان لوگوں کو لے کر آؤں جن سے گناہ سر زد ھوں پھر وہ مجھ سے بن دیکھے ڈر جائیں اور مجھ سے توبہ کریں اور میں ان کو معاف کروں ،،
تم سمجھتے ھو کہ اللہ پاک جبرائیل کے کزن پیدا کرنے چلا تھا اور غلطی سے ھم جیسے انسان بن گئے ؟ ھم کسی مکینکل فالٹ کا نتیجہ ھیں ؟ ھر گز نہیں اللہ کی قسم ھمیں نہایت سوچ سمجھ کر احسن مخلوق بنایا گیا ھے ، آدم کا کمال معصومیت میں نہیں تھا ،، عصیان کے بعد اٹھ کھڑا ھونے میں تھا (و عصی آدم ربہ فغوی ثم اجتباہ ربہ و تاب علیہ و ھدی -( طہ 122-123)
خطا ابلیس کی بھی مثلِ آدم معاف ھو جاتی –
اگر کمبخت کہہ دیتا ،یہ مٹی کی مورت بڑی چیز ھے