تاریخ اور تصویر

تصویر اور تاریخِ اسلامی –
ھم نے قرآنِ حکیم سے ثابت کیا تھا کہ تصویر وھی قابلِ مذمت ھے جو عبادت یا فحاشی کی ترویج کے لئے ھو، ایک تماثیل وہ تھیں جو سلیمان علیہ السلام شوق سے بنوایا کرتے تھے جس کا رب نے احسان جتلایا ھے – اور ایک تماثیل وہ تھیں جن کے سامنے ابراھیم علیہ السلام کی قوم اعتکاف کیئے بیٹھی تھی کہ انہوں نے سوال کیا کہ ما ھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون ؟ اعتکاف بتوں کے سامنے ھی کیا جاتا تھا ،قرآن میں جنگل میں اپنے بتوں یا شیوخ کی مورتیوں کے سامنے آنکھیں موندھے لوگوں کے لئے بھی لفظ اعتکاف استعمال ھوا ھے ” (وَجَاوَزْنَا بِبَنِى إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَى قَوْم يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَام لَّهُمْ ) الاعراف – اور بت خانوں اور گھروں میں بتوں کے سامنے دھونی رمائے لوگوں کے لئے بھی استعمال ھوا ھے جیسا کہ ابراھیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا ،، ما ھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون”، سامری کے بچھڑے کو خدا بنا کر بیٹھے لوگوں نے جو وقت وقف کر رکھا تھا اس کو بھی اعتکاف ھی کہا گیا ھے ” { قالوا لن نبرح عليه عاكفين حتى يرجع إلينا موسى- طہ } ھم نے قرآن سے ثابت کیا ھے اسرائیلیات سے نہیں – اب ھم حدیث ،سنت اور دورِ صحابہؓ اور تابعین سے مورتی کا جواز ثابت کرنے لگے ھیں ، اور اس مضمون کا سابقہ مضمون کا حصہ بنا دیا جائے گا –
علامہ شھاب الدین آلوسی نے لکھا ھے کہ ” ھدایہ میں المکی المتوفی 1045م نے اس آیت کی تفسیر میں تصویر سازی کو جائز قرار دیا ھے اسی طرح ابن الفرس المتوفی 1203م نے بھی جواز کو تسلیم کیا ھے ،نیز دیگر کئ لوگوں نے اس آیت سے تصویر کے جواز کا فتوی دیا ھے ،( روح المعانی طبع منیر الدمشقی القاہرہ)
قرطبی 1273م نے بھی ابن الفرس اور عطیہ کے حوالے سے اس آیت سے تصویر سازی کا جواز ثابت کیا ھے مزید اضافہ کیا ھے کہ ان سے بہت پہلے نحاس نے بھی اس کو جائز قرار دیا ھے ،، اس کے بعد آلوسی حدیث کا ذکر کر کے اس کا نسخ ثابت کرتے ھیں جبکہ قرآن کا نسخ حدیث سے نہیں خود قرآن سے مطلوب ھے – ان احادیث کا شانِ نزول جب بیان ھو گا تو آپ جان لیں گے کہ احادیث کو موقع سے ھٹا کر کس طرح اندھا دھند استعمال کر کے شریعت بنائی جاتی ھے – امام نووی کے جواب میں ابن حجر نے ان اصحاب کے نام بھی درج کر دیئے ھیں جو اس آیت کے ضمن میں تصویر سازی کے جواز کے قائل تھے ، مثلاً حضرت عائشہؓ۔ حضرت معاویہؓ ،حضرت عروہ ابن زبیرؓ ،حضرت مصعبؓ ابن زبیر، حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ،قاسم بن محمد ابن ابوبکرؓ- بخاری شریف کے مطابق تو خود رسول اللہ ﷺ کے حجرے میں بت موجود تھے ،حضرت عائشہؓ گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں اور رسول اللہ ﷺ اور لڑکیوں کو بھی بلا لیا کرتے تھے کہ وہ عائشہؓ کے ساتھ کھیلیں ، ان کھلونوں میں ایک گھوڑا بھی تھا جس کے پر تھے ، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ عائشہؓ یہ کیا ھے ؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ گھوڑا ،، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بھلا گھوڑوں کے پر بھی ھوتے ھیں ؟ اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ کیا سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر نہیں تھے ؟ جس پر رسول اللہ ﷺ کھلکھلا کر ھنس دیئے ،،( اگرچہ ھم اس حدیث کو نہیں مانتے کیونکہ وہ حضرت عائشہؓ کے گڑیاں کھیلنے کی عمر نہیں تھی بلکہ آپؓ نے مکہ مکرمہ میں 19ویں نمبر پر اسلام قبول کیا اور توحید کی تبلیغ میں اس قدر سر گرم تھیں کہ مطعم ابن عدی کی بیوی کو خدشہ لاحق ھو گیا کہ یہ ھمارے بیٹے کو بھی بے دین کر لے گی جس پر اس نے رشتہ توڑ دیا جس کے بعد نبئ کریم ﷺ سے آپؓ کی نسبت طے کی گئ )
امام جاحظ متوفی 869م فرماتے ھیں کہ اگر محدثین حدیث کو روایت کرتے وقت اس کی علت اور شانِ ورود بھی ساتھ لکھتے تو اس امت کی الجھنیں بہت کم ھوتیں کیونکہ اس طرح مسئلے کی حیثیت کا تعین ھو سکتا تھا مگر آپ کو روایات بغیر کسی علت کے ملیں گی ، ان حضرات نے الفاظ پہ تو نظر رکھی مگر سبب کو بیان کرنے سے جان بوجھ کر تغافل برتا اور احادیث کو وجہِ حدیث کے بغیر روایت کیا ( خلاصہ کتاب الحیوان )
اس اصول کو سامنے رکھئے توجو بات واضح ھوتی ھے وہ یہ ھے کہ تصویرسازی کی مذمت کی جتنی حدیثیں ھیں وہ اصل میں ایک ھی موقعے پر فرمائی گئ ایک ھی حدیث ھے جس کو محدثین نے پہلے کاٹ کر اسکریپ کی شکل دی پھر اس کو اپنے فہم سے مختلف ابواب میں ٹانک دیا وہ موقع کیا تھا وہ بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زبان مبارک سے سن لیجئے جس کو بخاری و مسلم نے بھی روایت کیا ھے –
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ اور ام المومنین ام حبیبہؓ چونکہ ھجرت کے دوران حبشہ رہ کر آئی تھیں اور انہوں نے وھاں کلیسوں میں حضرت مریم اور حضرت عیسی کی تصاویر یا Statue دیکھے تھے ، نبئ کریم ﷺ کی مرض الوفات میں یہ جب عیادت کو حاضر ھوئیں تو نبئ کریم ﷺ کے سامنے اس کلیسا اور اس میں لگی تصویروں کا ذکر کیا ،( اشارہ یہ مقصود تھا کہ اگر ھم بھی اس طرح کا کوئی اھتمام آپکی تصویر کا کر لیں تو کیا حرج ھے ؟ ) نبئ کریم ﷺ اس اشارے کو سمجھ گئے اور شدید بخار کے باوجود اپنا سر مبارک اٹھایا اور گویا ھوئے کہ نصاری کا جب کو بزرگ فوت ھوتا تو وہ اس کی قبر پر معبد تعمیر کرتے اور اس کی تصاویر اس میں ٹانک دیتے اور ان کو سجدہ کرتے ، یہ لوگ اللہ کی شریر ترین مخلوق ھیں –
((
رقم الحديث: 778
(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا السَّرَّاجُ ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ حَمَّادٍ الْوَرَّاقُ ، ثنا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : ذَكَرَتْ أُمُّ سَلَمَةَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ كَنِيسَةً رَأَتْهَا فِي أَرْضِ الْحَبَشَةِ ، يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ ، وَذَكَرَتْ لَهُ مَا رَأَتْ فِيهَا مِنَ الصُّوَرِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ : ” أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا ، وَصَوَّرُوا فِيهَا تِلْكَ الصُّوَرَ ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ ”
اب اسی موقعے پر کہے گئے وہ الفاظ بھی واپس اس حدیث کے ساتھ جوڑ دیجئے کہ ؎
"لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد- میری قبر کو سجدہ گاہ مت بنا لینا اللہ نے یہود و نصاری پر اسی وجہ سے لعنت کی ھے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا –
صحابہؓ رضوان اللہ علیہم تو ان اقوالِ مبارکہ کی علت سے واقف تھے لہذا انہوں نے اپنے نبیﷺ کی نہ تو تصویریں بنائیں ، نہ مجسمے بنائے اور نہ ان کو قبرپر یا حجرے میں آویزاں کیا – مگر تصاویر کو بعد والوں کی طرح مطلق حرام قرار نہ دیا بلکہ ان کو گھروں میں استعمال بھی کرتے رھے –
امام بخاری ابوالضحی مسلم بن صبیح کے حوالے سے لکھتے ھیں کہ میں اور مسروق بن اجدع یسار بن نمیر کے گھر فروکش تھے کہ کہ مسروق کی نظر گھر میں زینت کے لئے رکھی گئ تصویروں پر پڑی تو انہوں نے عبداللہ ابن مسعودؓ کی زبانی نبئ کریم ﷺ کا قول نقل کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن مصوروں کو شدید ترین عذاب ھو گا – ( کتاب اللباس) اب یہ عذاب کیوں ھو گا اس کی علت امام بخاری کھا گئے ھیں ، یہ وھی وجہ ھے کہ جن مصوروں نے عبادت والی تصاویر بنائیں اور جن لوگوں نے ان تصاویر یا مجسموں کی عبادت کی جو کہ حبشہ والے کنیسا میں ٹانکی گئ تھیں ان سب کو شدید ترین عذاب ھو گا – امام صاحب اس حدیث کو کتاب اللباس میں لا کر یہ تسلیم کرتے ھیں کہ یہ زیب و زینت کی چیز ھے ، جبکہ زیب و زینت کی چیز کی حرمت بلا سبب نہیں ھو سکتی کیونکہ اللہ پاک واضح طور پر یہ سوال اٹھایا ھے کہ ” قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیباتِ من الرزق؟ ) اس طور پر زینت کی ھر شے چاھے وہ کوئی تصویر ھو یا مجسمہ ھو یا درخت اور بیل بوٹے ھوں جونہی تقدس اور عبادت کے طور پر ھونگے حرام قرار پا جائیں گے مگر جب تک زینت کے لئے ھونگے تب تک جائز ھونگے –
حافظ ابن حجر بخاری کی حدیث کو مسلم کی حدیث کے ساتھ مکمل کرتے ھوئے لکھتے ھیں کہ مسلم ابن صبیح کہتا ھے کہ میں اور مسروق بن اجدع ایک گھر یعنی یسار بن نمیر کے گھر گئے جہاں تصویریں آویزاں تھیں ،مسروق نے کہا کہ یہ کسری کی تصویریں لگتی ھیں ،میں نے کہا کہ نہیں یہ حضرت مریم اور عیسی علیھما السلام کی تصویریں ھیں – اس حدیث کو مکمل کرنے کے بعد ابن حجر فرماتے ھیں کہ بظاھر یہ معلوم ھوتا ھے کہ یہ تصویریں کسی نصرانی مصور کی بنائی ھوئی تھیں کیونکہ وھی حضرت عیسی اور مریم کی تصاویر بنایا کرتے تھے – ( فتح الباری طبع بولاق جلد 10 /321) یوں واضح ھوا کہ المصورون کا "ال” الف لام عہد کا ھے یعنی وھی مصور جو پوجا کی تصویریں بناتے ھیں –
امام خطابی ،امام ابن جریر طبری اور حنفی علامہ بدر الدین عینی اسی بات کے قائل ھیں کہ یہ عذاب انہی مصوروں کو ھو گا جو عبادت کی مورتیاں اور تصویریں بناتے تھے ( عمدۃ القاریطبع عامرہ-جلد 10 /313)
حضرت عروہ ابن زبیر اور تصاویر-
ھشام اپنے والد عروہ ابن زبیرؓ کے بارے میں لکھتے ھیں کہ ” ان عروہ کان یلبس الطیلسان المزوربالدیباج فیہ وجوہ الرجال و ھو محرم لا یزر علیہ – عروہ ھمیشہ ریشمی بٹنوں والا ایسا جبہ پہنتے تھے جس پر مرد کے چہرے کا پرنٹ ھوتا تھا اور وہ حالت احرام میں اس کے بٹن بند نہیں کرتے تھے (ابن سعد طبع بیروت 1857۔جلد 5 /180)
حافظ ابن حجر مزید لکھتے ھیں کہ ( انہ کان یتکئ علی المرافق فیھا التماثیل الطیر والرجال-فتح الباری طبع بولاق جلد 10 /327)
عروہ ایسے گاؤ تکیوں کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا کرتے جن پر پرندوں اور انسانوں کی تصاویر پرنٹ ھوتی تھیں،، یہ عروہؓ صدیق اکبرؓ کے نواسے ، حضرت اسماءؓ کے نورِ نظر ، حضرت زبیرؓ کے فرزند، حضرت عائشہؓ کے بھانجے اور فقہاءِ مدینہ میں سے تھے –
جناب شرف الدین نووی نے لکھا ھے کہ اسلاف میں سے جو لوگ تصویر کے جواز کے قائل تھے ان کا مسلک باطل تھا ، جس پر علامہ ابن حجر عسقلانی بھڑک اٹھے حالانکہ دونوں ایک مذھب سے تعلق رکھتے تھے ، علامہ امام نووی کے جواب میں لکھتے ھیں کہ ” سلف کے اس مسلک کی یعنی تصویر کے جواز کی ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ وضاحت کر دی ھے کہ ابن عون جب صدیق اکبرؓ کے پوتے قاسم بن محمد کے گھر گئے تو ان کی مچھر دانی کو دیکھا جو گھر کے کونے میں رکھی تھی کہ اس پر عنقا یعنی خیالی پرندے اور دریائی کتوں القندس کی تصاویر پرنٹ تھیں ، اسلاف کے اس عمل کی موجودگی میں اس کو باطل کہنا محل نظر ھے – اس لئے کہ انہوں نے تصاویر کی مذھبی حیثیت کو حرام جانتے ھوئے عام تصاویر کو مباح سمجھا ( فتح الباری- 10 /326)
حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ میں نے حجرے کے سامنے کی دیوار پر تصاویر والا کپڑا لٹکایا ھوا تھا جو اندر داخل ھوتے ھی سامنے پڑتا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے کہا کہ ” حولی ھذا فانی کلما رأیتہ ذکرت الدنیا – اس کو کسی اور طرف کر دو یا ہٹا دو جب بھی میں اس کو دیکھتا ھوں مجھے دنیا یاد آ جاتی ھے – کلما رأیتہ ،، جب بھی میں دیکھتا ھوں کے الفاظ سے ظاھر ھوتا ھے کہ وہ پردہ مسلسل لٹکا ھوا تھا اور کئ بار کے تجربے کے بعد رسول اللہ نے ملاحظہ فرمایا کہ میری چشم تصور دنیا کے نظارے سے بھر جاتی – گویا اس کی تحویل حرمت کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ دل کو دنیا کی طرف مائل نہیں ھونے دیتے تھے ، اس طرح تو آپ نے حضرت فاطمہؓ کے گلے میں پڑا سونے کا نیکلس یا ہار بھی اتروا دیا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی بیٹی کے گلے میں دوزخ کا زیور اچھا نہیں لگتا – مگر اس صحیح حدیث کی بنیاد پر کوئی بھی سونے کو عورت کے لئے حرام قرار نہیں دیتا – یہ رسول اللہ ﷺ کی احتیاط تھی چونکہ میں بیت المال کا امین ھوں لہذا کوئی اس گمان کو نہ پال لے کہ محمدﷺ اپنے متعلقین کو سونے چاندی سے نوازتا ھے – اور جھنم کے زیور سے اشارہ سورہ توبہ کی اس آیت کی جانب تھا جس میں سونے کو گرم کر کے مہر بنا کر داغنے کا ذکر ھے –
امیر المومنین عبداللہ بن زبیرؓ نے کہ جن کی خلافت علی منہاج النبوۃ تھی اپنے بھائی مصعب ابن زبیرؓ کو عراق کا گورنر بنا کر بھیجا جس نے مختار الثقفی کو قتل کرکے اس علاقے کو عبداللہ ابن زبیرکی خلافت میں شامل کر لیا ، اس کے بعد مشورہ کر کے اموی سکے کو منسوخ کر دیا کہ جس پر حضرت امیر معاویہؓ کی تصویر بنی ھوئی تھی جس میں آپ کھڑے تھے اور گلے میں تلوار لٹکی ھوئی تھی ، یہ اسلامی تاریخ کا پہلا سکہ تھا اس سے پہلے قیصر کے درھم ودینار ھی رائج تھے جن پر قیصر کی تصویر تھی ،، صحابہؓ سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت مصعب ابن زبیر نے جو سکہ ڈھالا اس کی ایک طرف ان کی تصویر تھی جس میں وہ تلوار گلے میں لٹکائے کھڑے تھے -( فتوح البلدن، البلاذری-907، ابن خلدون طبع پیرس 1858 جلد اول )
حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے غزوہ موتہ میں ایک کافر سے ایک انگشتری بطور مال غنیمت چھینی جو نبئ کریم ﷺ کو دے دی ، رسول اللہ ﷺ نے اس کو محفوظ فرما لیا اور جب مال غنیمت تقسیم فرمایا تو وہ انگشتری حضرت عقیلؓ کو عطا کر دی اس انگشتری پر مورتی گندھی ھوئی تھیں ، حضرت عقیلؓ جب تک زندہ رھے اس انگشتری کو سفر وحضر میں پہنے رھے یعنی نماز تک میں اسے جدا نہ کیا ،،اس روایت کے راوی قیس ابن ربیعؓ الاسدی فرماتے ھیں کہ میں وہ خوس قسمت ھوں کہ جسے وہ نبوی انگشتری دیکھنا نصیب ھوا – ( سیر اعلام النبلاء للذھبی طبع دار المعارف مصر- 1 /159) ابن سعد طبع بیروت- 4 /43 )) یہ انگشتری 9 ھجری لے کر 166 سال تک خاندان نبوت میں رھی –
مصنف عبدالرزاق نے بیان کیا ھے کہ عبداللہ بن محمد بن عقیل نے یہ انگوٹھی معمرکو دکھائی جس پر شیر کی شبیہہ کندہ تھی اور جس کو نبئ کریم ﷺ نے پہنے رکھا تھا یہاں تک کہ اس کو واپس عقیلؓ کو دے دیا – اھلحدیث کے سرخیل امام معمر کہتے ھیں کہ اس انگوٹھی کو ھمارے دوستوں نے دھو کر بطور تبرک اس کا پانی پیا ( فتح الباری 10/ 327)
ابن عباس اور تصویر-
امام احمد ابن حنبل روایت کرتے ھیں کہ مسور ابن مخرمہ ابن عباسؓ کی عیادت کو گئے تو ابن عباسؓ ریشم کی چادر اوڑھے تصویروں والی انگھیٹی سے ہاتھ سینک رھے تھے ، مَسوَر نے عرض کیا کہ اے ابن عباسؓ یہ کیا ھے ؟ ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ ان چیزوں کی ممانعت رسول اللہ ﷺ نے تکبر و فخر کی علت کی وجہ سے کی تھی اور الحمد للہ عباس کے خاندان کا دامن ا ان رذیل خصلتوں سے پاک ھے -( مسند احمد دارالمعارف مصر- جلد 5/ 104 حدیث نمبر3307) ایک اور جگہ انگیٹھی پر تصویروں کا جواب بطور تفنن دیتے ھوئے ابن عباس نے فرمایا کہ مسور بھائی تم دیکھ تو رھے ھو کہ ھم نے ان تصویروں انجام کیا کر رکھا ھے یعنی ان کو آگ میں جھونک رکھا ھے ( مسند احمد جلد 4/ 336 حدیث 2934 )
واضح رھے کہ ابن عباسؓ اور مسورابن مخرمہ ھر دو حضرات فقہاء میں سے ھیں –
کاتبِ وحی کی تصویر –
علامہ مقریزی 1441ء اپنی تحقیقی کتاب میں لکھتے ھیں کہ ؎
(( ان معاویۃ بن ابی سفیان ضرب دنانیرعلیہا تمثالہ متقلدا سیفاً ))
اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دینار معاویہ بن ابی سفیان نے ڈالے جن کے ایک طرف ان کی تصویر ڈالی گئ جس میں وہ تلوار حمائل کیئے ھوئے تھے -( الشذور العقود طبع مصر- ص-6
ظاھر ھے صحابہ اور تابعین نے صدیوں تک ان تصویری دیناروں کو نماز اور احرام و حج و عمرہ ،طواف اور صفا مروہ میں ساتھ ھی رکھا ھو گا جیسے آج کل سعودی بادشاہ کے ریال اور دینار ساتھ رکھتے ھیں –
امام مکحول متوفی 440ھ نے لکھا ھے کہ نبئ کریم ﷺ کی ڈھال پر مینڈھے کے سر کا نقش کندہ تھا ( ابن سعد -طبع بیروت جلد 1)