قرآنِ حکیم اور اس کے مخاطب

گمراھیوں کی مختلف قسمیں ھیں اور قرآن حکیم میں ان سب کی تفصیل بھی موجود ھے اور ان کا علاج و جواب بھی موجود ھے ، اور قرآن حکیم کو محفوظ رکھنے کی وجہ بھی یہی ھے کیونکہ قرآن ایمانیات کی کتاب ھے ،، کوئی نئ گمراھی دریافت نہیں کی جا سکتی کہ جس کے جواب کے لئے نئے رسول اور نئ کتاب کی ضرورت ھو ، ملحد ھوں یا دھریئے ھوں یا خدا کے منکر ھوں یا مذھب کے منکر (Agnostic ) ھوں ، سب کی بیماری ، اس بیماری کا سبب اور اس کا علاج کتاب اللہ میں مذکور ھے ، ان کا سوال سابقہ گمراھوں کے سوال کی نقل ھو گی یا اسی کی کوئی قسم ھو گی ،،
قرآن نے ستارہ پرستوں کا ذکر کیا ھے اور ان کا علاج بتایا ھے ، ابراھیم علیہ السلام اس کے ماھر تھے ،، اللہ کے پیاروں کے بت بنا کر ان کی ٹہل سیوا کر کے ان سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کا ذکر کیا اور پھر ابراھیم علیہ السلام کے ھاتھوں اس کی سرجری بھی کروائی ،، فرعون نے موسی علیہ السلام سے بڑے فلسفیانہ سوال کیئے اور اس سے زیادہ لاجیکل جواب بھی سنے ،، نبئ کریم ﷺ کے زمانے میں بھی خدا کے منکربھی موجود تھے ، خدا کے اقراری مگر مذھب کے منکر بھی تھے ، مشرک بھی موجود تھے مگر مشرک کہلانے پر مائنڈ کر جاتے تھے ، اسی طرح ھم جنس پرست بھی موجود تھے ، الغرض گمراھی کی ساری قسمیں جو آج پائی جاتی ھیں وہ سب موجود تھیں ،،
الحاد کا جنگل اور انسانوں کی قسمیں ،،
انبیاء کی دعوت کے بعد اللہ پاک انسانوں کے رویوں کی بنیاد پر طے کرتا ھے کہ کون انسانیت کے مقام سے گر گیا ھے اور گرنے کے بعد حیوانات کی کس قسم کے مشابہ ھو گیا ھے ،، کسی کے بارے میں وہ اپنے نبی ﷺ کو خبر دیتا ھے کہ ” اولئک کاالانعام ،، یہ فطرتاً چوپائے بن چکے ھیں ،، الذی ینعق بما لا یسمع الا دعا و نداء ،، جو آواز تو سنتا ھے مگر اس کا مدعا سمجھنے سے قاصر ھوتا ھے ،، کسی کے بارے میں اعلان کرتا ھے کہ یہ گدھے کی قسم سے مشابہ ھے جو بس بوجھ اٹھائے پھرتا ھے ،مگر اس کی نوعیت سے آگاہ نہیں ھوتا ،، کمثل الحمار یحمل اسفاراً ،،، کسی کے بارے میں فیصلہ دیتا ھے کہ یہ تو درندوں کی قسم میں شامل ھو گیا ھے ،، فمثلہ کمثل الکلب ،، یہاں لالچ کا ذکر کیا کہ لالچ میں یہ کتے سے مشابہ ھو گیا ،،
الغرض جہاں بھی حیوانات کا نام لیا ھے بطور گالی نہیں لیا بلکہ ان انسانوں کی فطرت بیان کی ھے ،،
آج بھی سوال کرنے والے کے سوال کی نوعیت بتا دیتی ھے کہ یہ کس کیٹیگری سے تعلق رکھتا ھے