اللہ پر ایمان اور توکل

 
یاد رکھیں یہ وظیفے اللہ پاک کو کبھی بھی کچھ دینے پر مجبور نہیں کر سکتے – اللہ پاک سے لینے کا بہترین وظیفہ دعا ھے جو نبیوں کو بھی سکھایا گیا ھے ، سورہ الانبیاء ، سورہ مریم ، اور سورہ یوسف پڑھ کر دیکھیں – حضرت زکریا ، حضرت یعقوب ، حضرت ابراھیم ، حضرت ایوب علیھم و علی نبینا الصلوۃ والسلام کے عرصہ دعا کو دیکھیں اور پھر دھائیوں پر محیط عرصے کے بعد قبولیت پر ان کے شکر اور حمد کے ترانے دیکھیں ،، (( الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذی وَھَبَ لی عَلَی الْکِبَرِ إِسْماعیلَ وَ إِسْحاقَ إِنَّ رَبِّی لَسَمیعُ الدُّعاء ۔ ابراھیم۔39-
دوسری چیز اللہ پر توکل ھے اور فوراً مل جائے تو توکل آسان ھے ، جبکہ اصل امتحان یہ ھے کہ دعاؤں کے باوجود بھی نہ ملے تب بھی اس توکل میں کوئی تزلزل نہ آئے – اور مدتوں بعد بھی ملے تو کوئی گلہ نہ کیا جائے بلکہ شکر کیا جائے – انبیاء کی دعاؤں کو سب سے زیادہ تاخیر کے ساتھ قبول کیا گیا ھے تا کہ کوئی دعاؤں کی عدم استجابت کو اللہ سے دوری اور گناہ کا سبب نہ سمجھ لے – اللہ نے تو ابلیس کی بھی سن لی جب اس نے رب کہہ کر پکارا –
کوئی یہ کہہ سکتا ھے کہ دعا سے بھی تو اللہ کو کچھ دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ، بالکل درست بات ھے کہ منگتا اپنی پکار سے کسی آدمی کو بھی مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ واقعی اس کو دے ھی دے اور دے بھی تو جتنا وہ مانگ رھا ھے ویسا ھی دے دے ، اللہ تو ھے ھی اللہ ،مگر دعا ایک مستقل عبادت ھے اور فرض ھے نماز بلکہ تمام فرائض کا عطر اور خلاصہ دعا ھی ھے ، الدعاءُ ھو العبادہ ،، اور الدعاء مخ العبادہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ھے ، پھر دعا کی قبولیت کا وعدہ اللہ پاک نے دعا کے حکم کے ساتھ ھی کر دیا ھے ، قال ربکم ادعونی استجب لکم ،، تم مجھ سے دعا مانگو میں اس کو قبول کرونگا – اور دعا نہ مانگنے والے کو متکبر کہہ کر جھنم کی وعید سنا دی ھے ،
اگر اللہ پاک اپنی حکمت سے اس دعا کو دنیا میں حقیقت کا روپ نہیں دیتا تو اس کو محفوظ کر لیتا ھے ، اور یہ ایک ایسا عمل ھے کہ جس کی کٹوتی نہیں ھوتی ،جبکہ باقی اعمال دعوےداروں میں تقسیم ھو جائیں گے اور بندہ کنگھال ھو جائے گا، اس وقت اللہ پاک اس موحد کی دعاؤں کی فائل منگوائے گا ، اور جن دعاؤں کا نتیجہ دنیا میں نہیں نکالا تھا ان کی قیمت اپنی مرضی سے ویسی لگائے گا کہ دعوے داروں کے قرض بھی اتر جائیں گے اور جنت کا کوٹا بھی نکل آئے گا – دعا دنیا ایمان کا قلعہ اور آخرت میں مومن کا خزانہ ھے ،، جبکہ قسم قسم کے وظیفے اور ان کے ساتھ یقینی دعوے کہ اتنے دن میں کام ھو جائے گا ، نعوذ باللہ من ذالک اللہ کو اپنا موکل سمجھنا ھے کہ جس سے لازمی کام کروانے کا دعوی کیا جاتا ھے،،
جو دوست کہتے ھیں کہ کاش آپ عبقری صاحب سے مل لیتے تو شاید ان کے وظیفوں پر اعتراض نہ کرتے – ان سے گزارش ھے کہ میں نے جب سے قرآن کو پکڑا ھے اور اللہ کو پہچانا ھے ، تب سے کسی شخصیت سے مرعوب نہیں ھوا – میرے گھر 11 سال تک بچے پیدا ھوتے اور مرتے رھے ھم دونوں میاں بیوی اس کو رب کی رضا سمجھ کر جھولی میں ڈالتے رھے ، ختم نبوت کے سلسلے میں 10 جید علماء کا وفد جب امارات آیا تو ختم نبوت امارات کا عہدیدار ھونے کی نسبت سے ان کی میزبانی کا شرف بھی ھمیں نصیب ھوا ، وفد میں مولانا محمد یوسف لدھایانوی شھید اور مولانا خان محمد کندیاں شریف والے بھی شامل تھے ، تقریبا 3 ہفتے کا دورہ تھا ، مولانا خان محمد قدس اللہ سرہ کو ھمارے دوست محمد رفیق صابری مرحوم نے اس حوالے سے آگاہ کیا تو انہوں نے ایک تعویز دیا ، جس کو میں نے استعمال کرنے سے انکار کر دیا ،، مولانا کہنے لگے قاری صاحب ھم لوگ مشرک نہیں ھیں ، اس میں کوئی ایسی چیز نہین جو ناجائز ھو –
عرض کیا کہ حضرت میری 11 سال کی تپسیا کا کیا ھو گا ؟ میں نے جب اللہ پر توکل کیا ھے تو میرا ضمیر نہیں چاھتا کہ اب اس سے معاملہ لے کر کسی دوسرے وکیل کو سونپ دوں ، جو خدا زمین آسمان کو تھامے ھوئے ھے وہ میرے کلو دو کلو بچے کو نہیں سنبھال سکتا تا آنکہ میں اس کو تعویز کی مدد بہم نہ پہنچاؤں ؟ ـ اللہ نے انعام یہ دیا کہ اسی سال میرا پہلا بچہ زندہ بچ گیا قاسم حنیف بچ گیا جو آج حافظ قرآن اور ایم بی بی ایس ڈاکٹر ھے،، خدانخواستہ اگر میں وہ تعویز استعمال کر لیتا تو ایمان بن جاتا کہ یہ بچہ اس تعویز کی وجہ سے بچ گیا ھے اور نیز یہ کہ پچھتاوہ ساری زندگی پیچھا نہ چھوڑتا کہ اگر پہلے تعویز کر لیتا تو پہلے 6 بچے میں زندہ بچ جاتے ،، قاسم کے بعد پھر 4 بچے اسی طرح ھوئے اور پھر ابراھیم حنیف زندہ بچ گیا ، پھر 3 اسی طرح ھوئے اور بیٹی زندہ بچ گئ ،، مصائب و مشکلات ایمان اور توکل کا امتحان ھیں ،، وہ نؤمن بک و نتوکلُ علیک ” کا عہد ھم ھر روز وتر کی دعائے قنوت میں کرتے ھیں کہ اے اللہ ھم تجھ پر ایمان رکھتے ھیں اور اس کا ثبوت یہ ھے کہ ھم تجھ پر توکل رکھتے ھیں ، جہاں توکل نہیں وھاں ایمان نہیں – رہ گئ علاج کی سنت تو ھر مہنگا سستا علاج کر دیکھا تھا ،جرمنی ،فرانس اور لندن تک ڈاکٹروں اور لیبارٹریز سے رابطہ کیا ، مہنگی سے مہنگی دوائی کھائی ھے – قاسم کے بعد تو ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا کہ اس کا علاج ممکن نہیں ھے مگر اللہ نے اپنا کرم جاری رکھا-