سوال و جواب

عامر قریشی صاحب کا سوال ،،
محترم قاری صاحب آپ کی شفقت و محبت کیئے تہہ دل سے مشکور ہوں اور اللہ تعالٰی کے سوفٹ امیج کے لئے آپ کی کوششوں کا معترف بھی عرضداشت یہ ہے کہ میں اپنی مختصر سی زندگی میں ہزار ہا کوششوں کہ باوجود ایسی کوئی ماں نہیں ڈھونڈ سکا جو اپنے نافرمان بچوں کو آگ میں جلاتی ہوں یا اپنی فرمانبردار بچوں کو حکم دیتی ہو کہ اپنے ان بھائیوں کو قتل کرو جو میرا حکم نہیں مانتے، جب میرے پاس آو گے تو تمہیں انعام بھی دوں گی۔
الجواب !
اس مسئلے کو یوں دیکھتے ھیں کہ ایک ماں ھے جس کے چند بچے ھیں ، ان میں سے ایک بیٹا دوسرے پر زیادتی کرتا ھے ،، جسمانی یا مالی ،،،
جسمانی زیادتی کا صلہ والدہ کی محبت یوں دیتی ھے کہ جوتی اٹھا لیتی ھے اور زیادتی کرنے والے کو سزا دیتی ھے اور ساتھ مظلوم بچے کو یہ بھی کہتی ھے کہ اگر آئندہ بھی یہ تمہارے ساتھ زیادتی کرے تو مجھے شکایت کرنی ھے ،،، خود بدلہ نہیں لینا کیونکہ تمہارے بدلہ لینے میں زیادتی ھو سکتی ھے ، کیونکہ تم اس وقت نفرت کی ڈائنامکس کے تابع ھو گے جو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی ھے ،،جبکہ میں جب سزا دونگی تو محبت کا عنصر موجود ھو گا جو عدل پر قائم رکھے گا ،، مثلاً ایک بھائی نے دوسرے کو چانٹا مارا ،، مظلوم کے پاس ڈنڈا یا پتھر پڑا ھوا تھا اس نے وھی اٹھا کر دے مارا اور ظالم بھائی کا دانت یا ناک توڑ کر رکھ دی ،، اور مظلوم سے ظالم بن گیا ،، اب ماں آتی ھے اور پہل کرنے والے ظالم کو خون میں لت پت دیکھتی ھے ،، وہ دوسرے کو پکڑ لیتی ھے اور وہ شور کرتا ھے کہ امی ،امی پہلے اس نے مارا تھا ،،مگر اس نے بدلہ لے کر ماں کے لئے کچھ چھوڑا ھی نہیں تھا ، اور خود زیادتی کر کے ماں کے عتاب کا دروازہ کھول لیا ،، ایسی مار عامر قریشی بھائی نے زندگی میں کئ بار ماں کے ھاتھ سے کھائی ھو گی اور اس کی محبت کا یہ والا مزہ بھی چکھا ھو گا ،،،،،،،،،،،
زیادتی کا دوسرا کیس مالی معاملے سے تعلق رکھتا ھے ،، مثلاً وہ بھائی کا کھلونا اٹھا لیتا ھے ،، اس صورت میں ماں اسے دلاسہ دیتی ھے کہ میں تمہیں اس سے بہتر اور قیمتی لے کر دونگی ،، 50 روپے کے کھلونے کے عوض وہ اسے 500 کا کھلونا لے دیتی ھے ،، یوں اپنی محبت کی تسکین بھی کرتی ھے ، ظالم بچے کو پچھتاوے میں مبتلا بھی کر دیتی ھے کہ نہ تم اسے 50 والے سے محروم کرتے اور نہ وہ 500 کے کھلونے کا مالک بنتا ،، اور مظلوم کو انعام بھی دیتی ھے کہ معاملے کو مجھ پر چھوڑ کر تم فائدے میں رھے ، اگر خود لڑ بھڑ کر لینے کی کوشش کرتے تو شاید یہ 50 والا بھی خود تمہارے ھاتھ سے ھی ٹوٹ جاتا اور تم محرومی کے سزاوار ٹھہرتے ،، اس قسم کے واقعات بھی عامر قریشی صاحب کی زندگی میں بھی گزرے ھونگے – اسی قسم کے معاملات آخرت میں بھی ھونگے ،، کئ لوگوں کو عوض دے دیا جائے گا اور ظالم و مظلوم دونوں جنت میں چلے جائیں گے کیونکہ مظلوم نے عوض مل جانے پہ اپنے بھائی کو معاف کر دیا ھو گا ،، اصل چیز یہ ھے کہ مظلوم کو مطمئن کیا جائے گا ،،،،،،،،
اب آیئے آگ سے جلانے کی طرف !
دنیا میں ماں اگر بچے کو جلا دے تو وہ مر جائے گا ،،،،،،،، مگر اللہ پاک کے لئے زندہ اور مردہ برابر ھیں ،، جب ھم ابھی پیدا بھی نہیں تھے تب بھی اللہ پاک کے لئے ھم اسی طرح موجود تھے جس طرح لوگوں کے لئے پیدا ھونے کے بعد موجود ھوئے ،، اور مرنے کے بعد لوگوں کے لئے مرتے ھیں ، اللہ کے لئے نہیں مرتے ،اللہ کے علم میں ماضی حال اور مستقبل نہیں ھر وقت حال ھی حال ھے ،، ماں اگر جلائے گی تو بچہ مر جائے گا ، رب جب جلائے گا تو مرے گا نہیں ،، یہ ایسے ھی ھے جیسے ماں بچے کو چوری سے روکنے کے لئے اس کے ھاتھ کو ماچس کی تیلی سے جلائے ،، یا چوری کر کے کسی چیز کو کھانے کی پاداش میں اس کے منہ میں مرچ ڈالے ،، یہ کام بھی میرے حسنِ ظن کے مطابق عامر قریشی صاحب کے ساتھ گزرے ھونگے ،، اس لئے وہ سزا اللہ کے عدل کے مطابق ھو گی ، اسی لئے کوئی شخص اللہ پر ظلم و زیادتی کا الزام نہیں لگائے گا یہانتک کہ ابلیس بھی ،،،،،، قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ جھنمیوں کے ڈائیلاگ کوٹ کیئے گئے ھیں جہاں وہ ایک دوسرے کو تو الزام دیتے ھیں مگر کوئی ایک بھی اللہ کے عدل پر انگلی نہیں اٹھاتا ،، اور نہ اللہ کو الزام دیتا ھے ،یا اللہ کی محبت پر سوال اٹھاتا ھے ،،
آخرت میں کوئی بھی کافر نہیں ھو گا ،، جو بھی سزا بھگتے گا دنیا کے کفر کی سزا بھگتے گا ،آخرت میں اللہ اور فرشتوں اور دیگر احوال کو آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان کی کوئی ویلیو نہیں رھے گی اور نہ وہ قبول کیا جائے گا ،، ایمان کی اھمیت بغیر دیکھے ایمان لانے کی حد تک ھے ،،
اور کہتے ھیں کہ یہ فیصلہ فائینل کب ھو گا یعنی حقیقت کو کب سامنے لایا جائے گا ؟
کہہ دیجئے کہ ” راز کھل جانے والے دن ” کافروں کا ایمان ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی – الم السجدہ
{ويقولون متى هذا الفتح إن كنتم صادقين- قُلْ يَوْم الْفَتْح لَا يَنْفَع الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانهمْ ولا ھم یُنظرون