ایک سوال کے جواب میں

قاری صاحب آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا ھے – میں اور میرا شوھر حج پہ جانا چاھتے ھیں مگر مسئلہ یہ درپیش ھے کہ میرا شوھر بینک میں کام کرتا ھے جس کی وجہ سے ھم اپنے پیسے سے حج نہیں کر سکتے کیونکہ حرام پیسے سے حج کرتے ھوئے ڈر لگتا ھے ،، اگر میں اپنی بہن سے پیسہ ادھار لے کر حج کر لوں اور اپنے والے پیسے بہن کو دے دیں تو کیا ھمارا حج ھو جائے گا ؟
الجواب !
پہلی بات یہ ھے کہ آپ کا پیسہ حلال کا ھے لہذا اس سے حج کرنے میں کوئی قباحت نہیں ھے ،،
دوسری بات یہ ھے کہ آپ کو جو حیلہ سکھایا گیا ھے اس کی مثال اسے ھی ھے کہ ایک چور کسی سے ادھار لے کر اپنی چوری کا پیسہ اس آدمی کو دے کر سمجھے کہ اس کی کمائی حلال ھو گئ ھے ،،
جب اضطرار کی کیفیت ھوتی ھے تو سب کو برابر کی سہولت ملتی ھے چاھے وہ عالم ھو یا جاھل ،، مثلاً جب بارش برستی ھے تو سڑک کے پانی کی چھینٹیں ھر خواص و عوام کے لئے پاک ھوتی ھیں کیونکہ ان سے بچنا محال ھوتا ھے ،ھمارے یہاں اسلام کی دو قسمیں ھیں ایک خواص کے لئے اور دوسری قسم عوام کے لئے ،، خواص والا اسلام کافی نرم ھے اور یہ صرف علماء کے لئے ھے انہیں بڑی اچھی طرح معلوم ھے کہ کہاں کس جگہ سہولت کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ھے ،مگر وہ یہ بات عوام کو نہیں بتاتے اس لئے عوام والا اسلام کافی باٹا ٹائپ ھے جس میں کوئی لچک نہیں ،، ایک عالم دوست سے پوچھا کہ حضرت یہ آپ عوام کو سہولت کیوں نہیں دیتے ؟ کہنے لگے سہولتوں کی تبلیغ نہیں کی جاتی بلکہ اسے افراد پر چھوڑ دیا جاتا ھے کیونکہ لوگ اپنی حالت سے خود بخوبی آگاہ ھوتے ھیں اگر چاھئیں تو خود ان سے فائدہ اٹھا لیں یا کسی عالم سے پوچھ کر فائدہ اٹھا لیں ،کھلے عام سہولتوں کی تبلیغ سے بعض غیر مضطر بھی بہتی گنگا میں ھاتھ دھو لیں گے جس کا وبال ان سہولتوں کی تبلیغ کرنے والے کو برداشت کرنا ھو گا ،، یہ بالکل ایک غلط منطق ھے یہ ایسے ھی ھے جیسے ایک صاحب روز اپنی بیوی کو نماز نہ پڑھنے پہ پھینٹی لگاتے تھے مگر خود نماز نہیں پڑھتے تھے ،، بیوی روز شکایت کرتی آخر مجبور ھو کر اسے فون کر کے سمجھایا کہ بھائی اپنے عمل سے اس کو ترغیب دو ، جب تم خود نہیں پڑھتے تو اس کو مارتے کیوں ھو ؟ فرمانے لگے کہ میرے نماز نہ پڑھنے کا وبال میری ذات تک ھے اس کے بدلے میں بیوی کو نہیں پوچھا جائے گا ،، جبکہ اس کے نماز نہ پڑھنے پر مجھے بھی پھینٹی لگے گی ، وہ والی پھینٹی میں اسے بدلے میں یہیں لگا لیتا ھوں ،،
اب تو یہ ضرب المثل بن گئ ھے کہ اگر سود کو حلال کرنا ھے تو اپنے ادارے کے بورڈ آف گورنرز میں کوئی عالم بٹھا دیجئے- بورڈ لگتے ھی سب اسلامی ھو جائے گا ،،
جاپان میں مسجد حرا کے پڑوس میں ایک حلال فوڈ کی دکان تھی اس میں بکنے والی مرغی اور دوسری دکان میں بکنے والی مرغی ایک ھی کمپنی کی ذبح کردہ تھی ،اسٹکر کی تحریر میں ایک کومے کا بھی فرق نہیں تھا ، مگر صرف حلال فوڈ کا بورڈ ھونے کی وجہ سے وہ حلال تھی اور دوسری دکان کی نسبت دگنی قیمت پہ فروخت ھو رھی تھی ، اسلامی بینک بھی سارے کریڈٹ کارڈ اور لون سے لے کر دیگر سارےکام وھی کرتے ھیں جو دوسرے بینک کرتے ھیں ،مگر اسلامی نام ھونے کی وجہ سے ذرا مہنگے کرتے ھیں ، کریڈٹ کارڈ دیگر بینکوں کے ضابطے کے مطابق آپ خرچ کریں اور وقت پہ رقم واپس کری دیں اور اپنی گرانٹ کردہ حد کے اندر رھیں تو کوئی ایکسٹرا چارجز نہیں ھیں ،مگر اسلامی کریڈٹ کارڈ میں آپ پیسہ نہ بھی خرچیں بس جیب میں کارڈ رکھیں تب بھی چارجز لیتے ھیں اور پہلی سروس فیس میں زیادہ لیتے ھیں ،، اس لئے کہ نام اسلامی ھے ،جبکہ حقیقت یہی ھے کہ باھر صرف بورڈ اسلامی ھے اور اندر بھاری معاوضے پر چند علماء بٹھائے ھوئے ھیں ،، جو سود کو ھنیئاً مریئاً کھا رھے ھیں کیونکہ جانتے ھیں کہ وہ اضطرار سے دو چار ھیں ،، اسلامی بیکوں میں بھی اکاؤنٹ کے ساتھ اب Iban کا لاحقہ بتاتا ھے کہ یہ بھی انٹرنیشنل سسٹم کا حصہ ھیں اور انٹرنیشنل سسٹم سود پر ھی مبنی ھے ، اگر وہ سود ھے تو یقین کریں پھر اسلامی بینک بھی سود میں ملوث ھیں اور اگر اسلامی بینکاری سود نہیں تو پھر کوئی بینک بھی سودی بینک نہیں ھے ، یہ صرف مغالطے ھیں ،جس طرح حکیم لسوڑے کی چٹنی کو ” لعوق سپستاں ” کہہ کر جعلی عکس ڈالتے ھیں ،، اسی طرح مضاربے وغیرہ سارے حقیقت میں ڈربے ھیں جس میں پیسے والی مرغیاں پھنسائی جاتی ھیں اور ھندسوں کی افیم کھلائی جاتی ھے ،، اور لوگوں کو اس سوال کرنے والی بہن کی طرح چربی گلا کر گھی بنانے پہ مجبور کرتے ھیں ،، یہ اصطلاح یہود نے ایجاد کی تھی ،جب اللہ پاک نے ان پر جانوروں کی چربی حرام کر دی تو انہوں نے چربی کا گھی بنا لیا تھا اور کہتے تھے چربی حرام تھی گھی تو اللہ نے حرام نہیں کیا تھا –
اضطرار کیا ھے ؟ کہاں پایا جاتا ھے ؟
اضطرار کی حالت مجبوری کی حالت ھوتی ھے ! جس میں حالات آپ کو آپکی مرضی کے خلاف مخالف سمت میں گھسیٹتے چلے جاتے ھیں جس طرح ھوا کسی چیز کو اپنی مرضی کی سمت اڑائے چلی جاتی ھے ! مضطر اصل میں حالات کے ھاتھوں یرغمال ھوتا ھے اور وھی کرنے پر مجبورھوتا ھے جو اس سے یرغمال بنانے والا طلب کرتا ھے !
اللہ پاک نے حرام چیزوں کی ایک فہرست دینے کے بعد جس میں خنزیر کا گوشت بھی ھے !
آخر میں فرمایا ” سوائے اس کے کہ جس کے لئے تم مجبور ھو جاؤ ” الا ما اضطررتم الیہ ”
اس میں شرط یہ رکھی گئ کہ نیت اللہ کے قانون سے بغاوت کی نہ ھو ،، رغبت سے نہیں کراھت سے کیا جائے ،، اور جتنا ضرورت ھو بس اُتنے پر ھی اکتفا کیا جائے،، اور اسے عادت نہ بنا لیا جائے ! بلکہ اس سے نکلنے کی سبیل سوچتے رھنا چاھئے !
ان شرائط کے ساتھ مضطر پر کوئی گناہ نہیں !
اس کی سب سے بڑی دو مثالیں ھیں !
کلمہ کفر اور حالتِ اضطرار !
سورہ النحل کی آیت 106 میں حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کے واقعے کے پس منظر میں کلمہ کفر کی اجازت دے رھا ھے، اس شرط پر کہ دل ایمان پر مطمئن ھو ،مگر زبان کلمہ کفر کہنے پر مجبور ھو ! جناب عمارؓ بن یاسرؓ کو مشرکین مکہ ان کے والد اور والدہ سمیہؓ کو وحشیانہ طریقے سے شہید کرنے کے بعد اٹھا لے گئے اور انہیں پانی میں طویل غوطے دیئے ،جن سے ان کی عقل مختل ھو گئ ،، وہ ان سے مطالبہ کر رھے تھے کہ وہ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کریں ! کافی دیر کی مزاحمت کے بعد حضرت عمارؓ نے نبی کریمﷺ کے بارے میں ان کے مطلوبہ جملے بول دیئے ، جس پر انہوں نے انہیں چھوڑ دیا اور عمارؓ سیدھے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ھوئے اور سارا ماجرا بیان کیا ! اس پر اللہ تعالی نے فرمایا ” جس نے کفر کیا اللہ کے ساتھ ایمان لانے کے بعد ” سوائے اس کے کہ جس کو مجبور کر دیا جائے لیکن اس کا دل ایمان پر مطمئن ھو ” ( النحل 106 )
بدکاری اور اضطرار !
غلاموں سے کام کروانا آقـاؤں کا بزنس تھا ! مگر کچھ لوگوں نے ایکسٹرا لونڈیاں خرید کر ان سے پیشہ کرانا شروع کر دیا اور اس کو جائز بھی سمجھنا شروع کر دیا ! اس پر اللہ پاک نے انہیں حکم دیا کہ وہ کنیزوں سے پیشہ کرانا بند کر دیں اور اگر کسی لونڈی کو اس کام کے لئے مجبور کیا گیا تو اللہ پاک ان کی مجبوری کو دیکھتے ھوئے ان لونڈیوں کے ساتھ تو شفقت اور بخشش کا معاملہ کرے گا ،، مگر اس بدکاری کا وبال ان کو مجبور کرنے والوں کو بھگتنا ھو گا ( النور 33 )
اضطرار جس طرح افراد کا ھوتا ھے اسی طرح قوموں کا بھی ھوتا ھے !
اس وقت ھم جس سب سے بڑے اضطرار سے گزر رھے ھیں اس کا نام سود ھے ! ایک طرف اس کی تباہ کاریاں ھیں تو دوسری طرف اس کی گرفت کا شکنجہ ھے !
سود کے بارے میں حکم شروع سے ھی افراد کو دیا گیا ھے اس لئے کہ اس زمانے میں کوئی سودی ادارہ موجود نہیں تھا اور نہ ھی صدیوں تک قائم ھوا ،، افراد کو ھی مخاطب کیا جاتا رھا کہ وہ اس لعنت سے بچیں،، چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں،، اسراف و تبذیر سے پرھیز کریں ! خواھشات کے عفریت کا نشانہ نہ بنیں ! لوگوں کو ترغیب دی گئ کہ وہ قرضِ حسنہ دیں اور اس قسم کے قرض کے فضائل بیان کیئے گئے، دوسری جانب ایمان والوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی حقیقی ضرورت سے زیادہ مال دوسروں کی مدد کے لئے استعمال کریں ! عمر فاروقؓ نے پبلک الاؤنس مقرر کر دیا تھا یوں لوگ کم از کم اپنی بنیادی ضرورتوں کے بارے میں بے فکر ھو گئے !
موجودہ صورتحال یہ ھے کہ سودی ادارے ایک بین الاقوامی عفریت بن چکا ھے جس کے سامنے سپر پاورز بھی ایک بھیگی بلی کی حیثیت رکھتی ھیں ،، ھم تو پیتے ھی نہیں بلکہ کھاتے بھی سود پر قرض لیا ھوا ھیں ،، اور اربوں ڈالرز کے مقروض ھیں،جس کے سود کی ادائیگی بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے مطابق ھمیں ھر حال میں کرنی ھے ! اور جس سے انکار کا مطلب اجتماعی خودکشی کے سوا کچھ نہیں ! جو ھم ھاتھوں اور جھولیوں میں نوٹ بھرے پھرتے ھیں ،،یہ صرف ایک گھنٹے کے اندر کاغذ کے بے مصرف ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں رھتے ،، جونہی ھم اپنے کیئے گئے معاھدوں سے منکر ھوں گے ،ھمیں ان پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں ھمارے ساتھ تجارت ممنوع ،، جہازوں کی آمد و رفت ممنوع ،،یہانتک کہ حاجیوں کی فلائٹس بھی نہیں اڑ سکیں گی ،، کوئی بینک ھمارے کریڈٹس قبول نہیں کرے گا،، ھم پیناڈول کی ایک گولی کے لئے بھی مواد باھر سے امپورٹ کرتے ھیں اور وہ بھی ڈالرز میں ،،ھماری ساری پروڈکٹس اسی قسم کے درآمد کردہ پیٹنٹ مواد کی بنیاد پر بن رھی ھیں ! یہانتک کہ تیل صاف کرنے اور کھاد بنانے والے کیمیکلز بھی ! گویا پورا ملک انارکی کا شکار ھو جائے گا،، روپے کوئی قبول کرے گا نہیں اور عوام جان بچانے کے لئے ذخیرے اور دکانیں لوٹنے پر مجبور ھو جائیں گے ! یہ خانہ جنگی اور گینگ وار کی ابتدا ھو گی ،،
وہ ممالک جو کسی کے ایک ڈالر کے بھی مقروض نہیں تھے اور جن کی ایک دن کی کمائی ھمارے پانچ سال کے بجٹ سے زیادہ ھے وہ بھی تیل کے عوض ڈالرز کی بجائے گندم اور پیاز خریدنے پر مجبور ھو گئے اور آخر کار چار پانچ سال کی پابندیوں کے بعد سو جوتوں کے ساتھ سو گنڈے بھی کھانے پر مجبور ھو گئے ! اس میں لیبیا ،عراق ،اور ایران کا ایٹمی کارڈ سب شامل ھیں،، جب لیبیا اور عراق بین الاقوامی پابندیوں کا شکار تھے تو ان کی ائیر لائنز کو کسی ملک مین اترنے کی اجازت نہیں تھی،، سعودیہ ان کی حج فلائیٹس کو بھی اپنی حدود میں داخل نہیں ھونے دے رھا تھا اور لیبیا کے حاجی ھفتوں بسوں پر سفر کر کے سعودیہ پہنچتے تھے،، اور معاملہ بھی صرف ایک جہاز کا تھا !
آج کوئی چیز بینکنگ ذرائع کے علاوہ نہ درآمد کی جا سکتی ھے اور نہ برآمد ! اسلامی بینکگ صرف اتنی ساری اسلامی ھے جتنا فاصلہ آپ کے واش بیسن کے پانی کو کموڈ کے پانی میں ملنے تک طے کرنا پڑتا ھے ! یعنی کوئی میٹر ڈیڑھ میٹر،، سارے بینک چاھے وہ اسلامی ھوں یا غیر اسلامی اپنی دن بھر کی کمائی شام کو سینٹرل بینک میں مارک اپ پر جمع کراتے ھیں ،، ملک کا سینٹرل بینک یہ ساری کمائی سیٹی بینک میں مارک اپ پر جمع کرا دیتا ھے ،، یوں اگلے دن 9 بجے وھاں سے ملنے والا سود بقدرِ جُثہ اسلامی اور غیر اسلامی بینکوں کو چھٹانک چھٹانک اور تولہ تولہ دے دیا جاتا ھے،، امارات میں جہاں اسلامی بینکوں کے پاس ڈھیر سارا سرمایہ ھے اور دنیا بھر کا بینکنگ ٹیلنٹ ان کے ھاتھ بِکا ھوا ھے،، آپ کو تعجب ھو گا کہ یہاں کے اسلامی بینکوں اور اسلامی تکافل کے اداروں میں 70٪ اسٹاف ھندو ھے،، اپنے مفتی دوست سے جو تکافل کے ایک اسلامی ادارے میں مفتی ھیں اور 20 ھزار درھم تنخواہ لے رھے ھیں ،، انہوں نے جب مجھے حقائق سے آگاہ کیا تو میں نے ان سے سوال کیا کہ اسلامی اداروں میں ھندوؤں کا وجود کیونکر ممکن ھوا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مسلمانوں میں تکافل کا تجربہ نہیں ھے،، پوچھا تجربہ کیوں نہیں ھے ؟ انہوں ساتھ بیٹھے ھوئے میرے استاد مفتی ،،، صاحب کی طرف دیکھا جو کہ کافی متشدد ھیں اور مسکرا کر جواب دیا ھمارے فتوؤں کی وجہ سے مسلمان اس فیلڈ میں کام نہیں کرتے اس طرح ھم ھندؤں کے رحم وکرم پر ھیں،، حالانکہ مفتی صاحب نےسر سے پاؤں تک جو لباس اور جوتے پہنے ھوئے تھے وہ سودی فیکٹریوں میں ھی بنے ھوئے تھے،، مسجد کے امام کا مصلی، مسجد کی صفیں تسبیح کے دانے اور دھاگہ،منبر کی لکڑی اور پالش ، لاؤڈ اسپیکر اور ایمپلی فائر ،مسجد کی لائٹیں اور ڈیکوریشن کا سامان ،، حمام کے لوٹے اور ٹونٹیاں ،، جن ٹائلوں سے مسجد اور مینار چم چم کر رھے ھیں وہ سب سودی فیکٹریوں کا کمال ھے،، کوئی امام نہیں کہتا کہ وہ سودی کارپٹ پہ نماز پڑھنے کی بجائے ریت اور کنکریوں پر نماز پڑھ لے گا۔ آخر نبیﷺ نے بھی تو مٹی پر نماز پڑھ کر ماتھا خاک آلود کیا ھے،مسجد نبوی میں پہلا دیا حضرت تمیم داریؓ نے 9 ھجری میں جلایا تھا ،، ورنہ اندھیرا ھوتا تھا،، الغرض مفتی تقی صاحب کی جامعہ دارالعلوم ھو یا مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی جامعہ فاروقیہ ،، جامعہ بنوری ٹاؤن ھو یا جامعہ بنوریہ ،،ساری گیٹ سے لے کر مہتمم کے دفتر تک اور حمام سے لے کر مطبخ کی مشینوں تک ، سب سود سے لَـتھڑی ھوئی ھیں !
یہ ھے وہ اضطرار جس سے کوئی محفوظ نہیں ھے !
پھر صرف حکومت اپنے اضطرار کے لئے مجرم کیوں ھے ؟
اھل محراب و منبر اپنے 3000 طلباء کے لئے مضطر ھو گئے حکومت کو 20 کروڑ کو پالنا ھے !
مسئلے کا حل بین الاقوامی ھے ،سود کے بوجھ تلے دبی ھوئی انسانیت ایک دن بغاوت کرے گی ،تمام ممالک ڈیفالٹ کر جائیں گے ،صرف امریکہ کے ڈیفالٹ کرنے کی دیر ھے ،یہ معاملہ صدیوں نہیں بس دہایوں کا رہ گیا ھے ،پچھلے سال اگر کانگرس ایک بل پاس نہ کرتی تو امریکہ نے ھفتے میں ڈیفالٹ کر جانا تھا ، ان کے طے کردہ سودی قرضوں کی حد ختم ھو چکی ھے وہ اپنی حد سے زیادہ قرض لے چکے ھیں اور اب ھر سال انہیں کانگرس سے بل پاس کرا کر قرض لینا ھو گا ،جس سال یہ قرض نہ لیا جا سکا امریکہ ڈیفالٹ کر جائے گا ، ڈالر ٹکے بھاؤ بکے گا ، وہ دن دنیا کی سود سے ازادی کا دن ھو گا ،امریکی ڈیفالٹ کے 48 گھنٹے کے اندر تمام ممالک کی اسٹاک ماریکیٹیں زمین پر آ گریں گی اور ان کی کرنسی مٹی بن جائے گی وہ مجبور ھونگے کہ اسلامک بینکنگ شروع کریں کیونکہ وہ حقائق پہ چلتی ھے ،افواھیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اس دن کوئی کسی پر پابندیاں لگانے کے قابل نہیں ھو گا !
میری نگاہ میں جیسا کہ میں لکھ چکا ھوں کہ سارا بینکنگ سسٹم سود پر مبنی ھے ،، کوئی اسلامی وامی نہیں ھے ،اسلامی بینکنگ کے نام پر امت مسلمہ کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ کیا جا رھا ھے ،، اس صورتحال پر اضطرار کی شق ھی لاگو ھوتی ھے اور وہ سارے سسٹم پہ لاگو ھوتی ھے ،، اس اضطرار کی موجودگی میں سارے بیکنگ سسٹم کے ساتھ ڈیلنگ اور لین دین درست ھے ،، جب تک کہ آپ اس کا متبادل نظام فراھم نہیں کر دیتے ،، سارے بینکوں میں کام کرنا جائز ھے ،، ورنہ اسلامی بینکوں سمیت سب میں کام کرنا ناجائز ھے ، اسلامی بیکنگ ونڈوز سوائے خنزیر کے مختلف پارٹس کے سوا کچھ نہیں ،، شریعت میں یہی اصول ھے جب تک طلاق کا شرعی طریقہ نہیں بتایا گیا تھا پرانے طریقے کی ھی طلاق ھوتی تھی ،، نکاح پرانے زمانے کے ھی لاگو ھوتے تھے ،، جب تک آپ کے پاس متبادل نہیں ھے ، آپ حالتِ اضطرار میں ھیں اور اس حالت میں کسی پر حلال اور حرام کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ،، یا سارے حلال ھیں یا سارے حرام ھیں ،، میرا پؤائنٹ یہ ھے کہ علماء کیون لوگوں کی روزی کو حرام قرار دیتے ھیں ؟ اگر یہ بینک لوگوں اور اداروں اور حکومتوں کی مجبوری ھے تو پھر بینکنگ سسٹم میں انسان نام کی مخلوق کا پایا جانا بھی مجبوری ھے ،، اب اگر مسلمان نہیں کریں گے تو غیر مسلم یہی کام کریں گے ،، تو مسلم معیشت کو غیر مسلموں کے ھاتھ میں یرغمال کیونکر بنایا جا سکتا ھے