اسلام ، اسلامی نظام اور ھمارا تصورِ اسلام

اسلام پوری کائنات کا دین ھے!
افغیر دین اللہ یبغون ولہ اسلم من فی السمٰوٰتِ والارض ( آلعمران )
کیا پھر یہ اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ھیں جبکہ آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ھے سب مسلمان ھیں !
گویا مسلمانوں میں مسلمان بن کر رھو گے تو ھر محاذ پر امن ھی امن اور سلامتی ھی سلامتی ھو گی ! بندے اور اللہ کے درمیان بھی امن ھو گا،، بندے اور بندے کے درمیان بھی امن ھو گا اور بندے اور کائنات کے درمیان بھی جنگ بند ھو جائے گی !!
انبیاء کی محںت کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ایک طبقہ دین پر چلنا چاھتا ھے ، اس طبقے کے اسلام پر چلنے میں قوانین ممد و معاون ھوتے ھیں،، نہ کہ نبی والا کام قوانین کرتے ھیں کہ لوگوں کو دین پر چلنے پر آمادہ کر دیں ! نبی کریم ﷺ کے زمانے میں کسی قسم کے ریاستی قوانین،، پولیس جیل اور عدالتیں نہیں تھیں،، یہ بعد کی ضرورت تھیں ! اب ھمارے کرنے کا کام تو یہ ھے کہ ھر مسجد محنت کرے اور لوگوں کو دین پر چلنے پر آمادہ کرے ،اور جب لوگ چلنا چاھیں تو ان کی مدد کے لئے قانون سازی کی جائے،، مگر ھم دوسرا رستہ اختیار کرنا چاھتے ھیں کہ تلوار اور ڈنڈے کے زور پر لوگوں کو دین پر چلایا جائے، اس کے نتیجے میں دین کے ساتھ لوگوں کا تقدس کا رشتہ اور قلبی تعلق ٹوٹ جاتا ھے،، ھمارے زمانے کے والدین اگرچہ اسلام اسلام بہت کم کرتے تھے مگر ھماری نسبت اللہ سے زیادہ ڈرتے تھے،، ملاوٹ خال خال تھی، قتل کبھی کبھار سننے میں آتا تھا اور جھوٹا قران اٹھانا تو لوگ قیامت سمجھتے تھے،، مگر آج علم تو زیادہ ھو گیا ھے، اسلام کے نعرے بھی زیادہ ھو گئے ھیں مگر لوگ اللہ اور آخرت سے بے خوف ھو گئے ھیں !
جب جرائم مستثنیات میں ھوتے ھیں کہ سو میں سے ایک بندہ مجرم ھو تو قانون مددگار ثابت ھوتا ھے کہ اس ایک کا ھاتھ کاٹ کر باقی نناوے کی عبرت کا سامان کیا جائے،لیکن جب سو میں سے 99 چور ھو جائیں تو پھر قانون کا نفاذ روکنا پڑ جاتا ھے کیونکہ اسلام دنیا میں ٹُنڈے بندے پیدا کرنے نہیں آیا ! اور نہ ھی ایک ھاتھ والوں کا دین کہلانا پسند کرتا ھے،ایک وقت تھا اسلام ایک زور و شور سے بہتا سیلِ رواں تھا،،بندے بندے میں تھا اور ھر گھر اور گلی میں تھا،امیر اور غریب میں تھا، حاکم میں بھی تھا اور لوھار میں بھی تھا، الغرض اسلام ایک رویئے کا نام ھے جو ماحول بناتا ھے، سلامتی والا ماحول جو کسی کی دل آزاری نہیں کرتا ،جو کہتا ھے چلتے وقت تیر کو بھی نوک والی طرف سے پکڑو تا کہ کسی کو زخم نہ لگے ،، جو اپنے سے زیادہ دوسرے کے آرام کو ترجیح دیتا ھے،، وسعت نظر اور قوتِ برداشت کا نام اسلام تھا ! صحابہؓ کے درمیان کبھی بھی مذھبی اختلاف نہیں ھوا، وہ اختلاف جو آپس میں الفت کی فضا کو خراب کرے اور نفرت کی فصل اگائے،، ان سے جب بھی پوچھا جاتا اسلام کیا ھے تو وہ یہی جواب دیتے تھے کہ ؟ ھوا کیا ھے ؟؟ جس طرح ھوا ھر جگہ نظر آتی ھے آپ مسجد ،دکان ،کھیت ،عدالت جس جگہ جاؤ گے اسلام کو ھی پاؤ گے ! صحابہؓ میں جو اختلافات ھوئے وہ سیاسی نوعیت کے تھے، دینی اختلافات نہیں تھے، ان سب کی اذانیں ،نمازیں اور کلمے سب کچھ ایک تھا،سب ایک ھی مسجد میں ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے،، حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی تینوں خلفاء کے پیچھے یہی نماز پڑھتے رھے ھیں اور یہی کلمہ اور اذان سنتے اور دیتے رھے ھیں،، نہ تو ان کا کوئی الگ امام بارگاہ تھی اور نہ اذان میں علیٓ ولی اللہ تھا اور نہ وصی رسول اللہ تھا اور نہ خلیفہ بلا فصل تھا ،، الغرض اسلام باھر سے نہیں آتا، اسلام اندر سے پھوٹتا ھے،، آج اندر سے نفرتوں کے لاوے پھوٹتے ھیں،، اور تفرقے کے ناسور کی پیپ بہتی ھے،، سلفیوں کی اذان صرف سلفیوں کو بلاتی ھے اور حنفیوں کی مسجد میں حنفیوں کے لیئے پکار لگتی ھے، بریلوی کا بلاوا صرف ھری پگڑی والوں کے لئے ھوتا ھے تو دیوبندی کی مسجد سے سفید پگڑی والے کو بلایا جاتا ھے،، کسی دوسرے برانڈ کا داخلہ سختی سے منع ھے !
راوی جب بھر کر بہتا تھا تو پانی کی برابر سطح کے نیچے کے کھڈے اور اونچ نیچ کسی کو نظر نہیں آتی تھی،، سب کو پانی کی برابر سطح ھی نظر آتی ھے، تا آنکہ راوی سوکھ جاتا ھے اور اس کی تہہ کے گڑھے ننگے ھو جاتے ھیں اور اپنی اپنی وسعت کے مطابق پانی روک کر کھڑے ھو جاتے ھیں،، ایک تو پانی کی روانی اور تازہ پانی کی آمد رکنے سے اس میں پھپھوندی لگ گئ،، دوسرا ستم یہ ھوا کہ وہ پھپھوندی زدہ گڑھے راوی کا تعارف بن گئے،جس سے پوچھو کہ راوی کدھر ھے تو وہ ان متعفن گڑھوں کی طرف اشارہ کر دیتا ھے، اور ان گڑھوں کے مینڈک بھی دوسرے مینڈکوں کو فخر سے بتاتے ھیں کہ وہ راوی میں رھتے ھیں !
یہی حال اسلام کا حال ھے ! ایک وہ زمانہ تھا کہ !
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ھمارا !
مگر اب جس مسجد میں جائیں وہ اسلام کے بارے میں بتاتے ھیں کہ اصلی تے وڈا اسلام ھمارے والا ھے،، دوسری مسجد میں جائیں تو وہ کلمہ دوبارہ پڑھاتے ھیں کہ وھاں تو جعلی اسلام تھا،، ھر مسجد کے تالاب کا مینڈک بتاتا ھے کہ ھم اسلام میں رھتے ھیں ،،جنہوں نے وسعت نظر انجوائے کیا ھی نہیں وہ وسعتِ نظر ڈیلور کیا کریں گے ! اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ھے کہ اپنے اپنے اسلام پر چلنے کی تو سب کو آزادی ھے، اور اپنے اپنے فرقے کی توصیف و مدح کے لئے بھی اسپیکر دستیاب ھیں ،، مگر جب اسلام کے نفاذ کی بیل منڈھے چڑھے گی تو سوال پیدا ھو گا کہ کونسا اسلام نافذ کیا جائے گا؟ حنفی ، سلفی ، شیعہ، بریلوی ، دیوبندی ،، کیا یہ عقل و منطق کا تقاضا نہیں کہ یہ سارے ایک جگہ مل کر سب سے پہلے یہ ھی طے کر لیں کہ جو اسلام نافذ کیا جائے گا ، اس کی شکل و صورت کیا ھو گی؟؟ اگر جنگ کے ذریعے فیصلہ کرنا ھے تو بھی طے کر لیں جو جیت جائے گا ، اس کا نافذ ھو جائے گا !
میں نے اپنے فارغ التحصیل عالم بھانجے سے پوچھا کہ جب تمہاری امی اور بیوی میں جنگ ھو گی تو کس کا ساتھ دو گے ؟ اس نے بڑی روانی سے کہا کہ "جِہــڑی جِت گئ ”
بس جس کا اسلام جیت گیا وہ نافذ ھو جائے گا !