جاء الحق و زھق الباطل

الحمد للہ میری مساعی رنگ لا رھی ھیں اور اس کا اثر ھمارے ملحد دوستوں پہ صاف دیکھا جا سکتا ھے – اصول یہ ھے کہ جب تک آپ جھوٹ کو جھوٹ نہیں کہیں گے ، یقین جانیں آپ کا سچ کو سچ کہنا بھی مشکوک رھے گا اور لوگ آپ پر اعتبار نہیں کریں گے ، ھم جب سامنے کی چیز کو بھی تقدس کے زیرِ اثر جھٹلا دیتے ھیں تو بہت سارے لوگوں میں اپنا اعتبار کھو دیتے ھیں ،، میں یہاں علماء و صلحاء کے لئے نہیں بیٹھا بلکہ امتِ مسلمہ کی کوئی ھوئی بھیڑوں کے لئے بیٹھا ھوں ، اللہ کا شکر ھے میرے جھوٹ کو جھوٹ کہنے نے میرے سچ کا اعتبار واضح کرنا شروع کر دیا ھے ،، میرے ان باکس میں 10 میں سے 8 مسیج ان دوستوں کے ھوتے ھیں جو کل تک ملحدین کے پیجز پہ دھکے کھاتے پھرتے تھے مگر کسی مولوی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھے ، وہ ملحدین کا کچا پکا کھلایا ھوا نگل رھے تھے ،،،،،،، اور آج ان کو سمجھ آنا شروع ھو گئ ھے کہ اسلام الگ چیز ھے اور کے ساتھ اضافی نسبتیں الگ چیز ھیں ،،،،،،،،،،
ملحدین بڑے Systematic انداز میں کام کرتے ھیں ، اندھے کی لاٹھی نہیں گھماتے ، ان میں باھم مشورے ھوتے ھیں اھداف طے ھوتے ھیں ، ان کا تجزیہ کیا جاتا ھے ،، معاشرے میں ایک خاص روش ھوتی تھی اور اب بھی ھے کہ جو لڑکی پھنسے نہ ،، اس کو آگے پیچھے بدنام کرنا شروع کر دو کہ اس کا میرے ساتھ معاشقہ چل رھا ھے ، یہانتک کہ وہ اس قدر بدنام ھو جائے کہ نہ صرف محلے والے بلکہ خود اس کے گھر والے بھی اس کے بارے میں بدگمان ھو جائیں ،، جب نوبت یہاں پہنچے گی تو پھر جس عزت کی حفاظت وہ کرتی پھرتی تھی ،جب دیکھے گی کہ وھی باقی نہیں رھی لوگ تو لوگ خود ماں باپ بھی میرے کردار کے بارے میں مشکوک ھو گئے ھیں تو پھر اگلا مرحلہ ” نام بدنام تو ویسے بھی ایسے بھی سہی ” کے مصداق ایک Easy Prey یا سوفٹ ٹارگٹ بن جاتی ھے – یہی پالیسی ملحدین نے اختیار کی ھے ،، مولوی استرے نے اعلان کیا ھے کہ قاری حنیف ابوظہبی کی مسجد کے امام ھیں اور اب ان کی آنکھیں کھل گئ ھیں
سوال یہ ھے کہ آج تک کسی ملحد پیج نے اپنے کسی ملحد ساتھی کا ایڈریس شیئر کیا ھے ؟ کہ فلاں حجام جو قصہ خوانی بازار میں دکان کرتا ھے ، وہ ملحد ھو گیا ھے ؟؟ یہ گھٹیا حرکتیں ھیں اور اس چوٹ کا اثر بول رھا ھے جو انہیں میرے ھاتھوں پہنچی ھے کہ لوگ کسی مولوی کی بات پر بھی اعتبار کرنا شروع ھو گئے ھیں ،،
یہ بالکل سوچی سمجھی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئ حرکت ھے ،، پہل نظامی صاحب نے کی ھے اور مولوی استرے نے اس کی کاپی کی ھے اور غلام رسول سے بھی جلد ایسا ھی کرنے کی توقع ھے ،، مگر اس کا ماحصل کیا ھے ؟ رسوائی اور جنگ ھنسائی ،، میزبان دروازہ نہیں کھول رھے اور مہمان باھر کھڑے مشورے کر رھے ھیں کہ ھم دو دو ھو کر سو جائیں گے ،،،،،،،،،،،،،،
قد مكروا مكرهم وعند الله مكرهم وإن كان مكرهم لتزول منه الجبال( ابراھیم 46)
انہوں نے اپنی چال چل لی اور ان کی چال کا علاج اللہ کے پاس ھے ، اگرچہ ان کی چال پر پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیتے ھیں ،،،،،،،،،،،