نبئ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عجیب و غریب شادیاں ـ

طریقۃ واردات ،،،
وکیل جب کارتوس برآمدگی کے گواہ کو گواھی پڑھاتے ھیں تو اس کو بڑی اچھی طرح سمجھاتے ھیں کہ اس نے یہ کہنا ھے کہ ” جناب اے ایس آئی صاحب نے فائر شدہ کارتوس موقع واردات سے اٹھائے اور ان کو سیل کیا اور محفوظ کر لیا ” یعنی آپ نے کارتوس سیل ھونا اپنے بیان میں کہنا ھے تو گواھی کارآمد ھونی ھے ورنہ گواھی مسترد ھو جائے گی ،، اگر گواہ اپنے بیان میں Seal کرانا بھول جائے تو ،، پھر ھم اس کو جرح کے دوران وھی کہنے کا طریقہ بتاتے ھیں کہ ، جب میں تم سے پوچھوں کہ تفتیشی نے تمہارے سامنے کارتوس اٹھائے تھے؟ تو تم نے میرے مینشن کیئے بغیر خود سے کہہ دینا ھے کہ ” جی جناب نہ صرف اٹھائے تھے بلکہ میرے سامنے سیل بھی کیئے تھے،، مگر جج بھی وکیل رہ کر آیا ھوتا ھے اسے معلوم ھے کہ اصل بیان الگ چیز ھے اور جرح الگ چیز ھے عدالت فیصلہ گواھی پر کرتی ھے ،،
حدیث بنانے والے جب ادھوری حدیث بنا کر پھنس جاتے ھیں اور اس کے نتیجے میں پیدا ھونے والے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تھے ، اسی حدیث کو اب کسی اور راوی اور موضوع کے نام پر دوسری جگہ بیان کرتے ھیں جس مین پچھلی حدیث کے Blanks کو Fill کرنے کی کوشش کرتے ھیں ، اس طرح ایک ھی بات تین چار یا دس پندرہ حدیثوں میں کچھ سے کچھ ھو جاتی ھے ،،،
نیز بعد والے جب ایک ھی موضوع پر 8 ، یا 10 حدیثیں دیکھ لیتے ھیں تو پریشان ھو کر کہتے ھیں کہ واقعہ اتنے طرق سے روایت ھو رھا ھے کہ تواتر کو پہنچ گیا لہذا کچھ ناں کچھ سچائی تو اس میں ضرور ھے یوں کسی بھی جھوٹ کو کچھ ناں کچھ کے نام سے فلوٹ کیا جا سکتا ھے
نبئ کریم ﷺ کی ساری شادیوں کا ایک دردناک بیک گراؤنڈ ھے اور ان میں سے ھر شادی کا ایک قصہ ھے جس مین ایک سلیم الفطرت انسان کا دل پکار پکار کر کہنے لگ جاتا ھے کہ کاش اللہ کے رسول ﷺ مداخلت کر کے اس خاتون سے شادی کر لیں ، اے کاش ،، اور الحمد للہ نبئ کریم ﷺ بالکل ایک سلیم الفطرت انسان کے ضمیر کی آواز کے مطابق عمل کرتے ھین ،، مگر نبئ کریم ﷺ کے وصال سے پہلے اور متصل پہلے مرض الوفات کے دوران ھی دو شادیاں اور ایک طلاق کچھ اس شان سے کرائی گئ ھے کہ سوائے یہ کہنے کے اور کوئی چارہ کار نہیں رھتا کہ منافقین نبئ کریم ﷺ کی وفات کے بعد وہ وار کرنے میں کامیاب ھو گئے جسے وہ آپ کی زندگی میں ھزار بار کوشش کر کے بھی نہیں کر سکے تھے ،،
میرا خدا گواہ ھے مجھے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے نہ کوئی عداوت ھے اور نہ مجھے ان کی نیت پر کوئی شک و شبہ ھے اور نہ میں ان کی مساعی کا منکر ھوں ،، مجھے ان پر ترس آتا ھے کہ کس طرح ایک سیدھے سادے بندے کو نشانہ بنایا گیا ھے،، جب امام بخاری حدیث کے میدان میں تشریف لائے تو میدانِ تزویر سج چکا تھا ،، ثقہ و غیر ثقہ طے ھو چکے تھے اور منافقین کی ٹولی اپنے بندے ٹھیک مورچوں پر بٹھانے میں کامیاب ھو چکے تھے ،، امام بخاری مجبور تھے کہ وہ سابقہ لوگوں کے ثقہ کو ثقہ مانیں ،، امام بخاریؒ نے اصول بنایا تھا کہ جب تک راوی کی اپنے شیخ سے ملاقات ثابت نہ ھو تب تک اس کی روایت نہیں لینی ،، یعنی مرسل روایت نہیں لینی ،مگر محدثین میں اس پر اتفاق ھونے کے باوجود کہ ابن شھاب زھری کی حضرت عروہ ابن زبیرؓ سے ملاقات ثابت نہیں ، وہ ان کی بیسیوں مرسل راویتیں اپنی کتاب میں لینے پر مجبور ھو گئے یہاں تک کہ اتنی کچی بات کہ ’’ ہم تک خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ خودکشی کے لئے بار بار پہاڑ پر چڑھ جایا کرتے تھے‘‘ امام صاحب نے اپنے رسول ﷺ پر اتنا بڑا بہتان مجرد زہری کے کہنے پر لگا دیا کیونکہ زھری کی علمی دھاک مسلم ھو چکی تھی ،،، جبکہ جس کے دل میں خودکشی کا خیال تک آ جائے اسے کبھی رسول نہیں مانا جا سکتا کیونکہ یہ ایسے مرض کی علامت ہے جس میں آوازیں اور خیالی شخصیات نظر آنا ثابت ہے ،،
امام مسلم نے تو اصول ھی یہ بنایا تھا کہ بندہ ھم عصر ھونا چاھئے تو ھم اس کی راویت اس گمان پر لے لیں گے کہ ملاقات ھوئی ھو گی ،، اس وقت جو 20 کروڑ پاکستانی ھیں جو کہ پرویز مشرف کے ھم عصر ھیں وہ دعوی کر سکتے ھیں کہ ان کی پرویز مشرف سے ملاقات ھوئی تھی اور اس نے یہ یہ راز ان کے سامنے اگلے تھے اور کارگل کی ساری اسٹریٹیجی ان کو کھول کر سمجھائی تھی اور شھید ھونے والے پاکستانیوں کے نام بھی بتائے تھے ،کم ازکم پنڈی اسلام آباد کے لوگ تو 100 فیصد یقین کے ساتھ یہ دعوی کر سکتے ھیں کیونکہ وہ ایک ھی شھر میں رھے ھیں ،،،،،،،
نبئ کریم ﷺ کے وصال سے متصل پہلے نازل ھونے والی سورت توبہ کی آیت ۱۰۱میں منافقین کی چالیں دشمنیاں اور نبئ پاکﷺ کو شھید کرنے کی کوشش ، استھزاء ، نبئ کو صرف ” اذن ” کہہ کر پکارنا کہ صرف کان ھی کان ھیں ان کے درمیان عقل نام کی چیز نہیں معاذاللہ ثمہ معاذاللہ ،، مسلمانوں کی غربت کا مذاق اڑانا ،، پھر اچانک نبئ کریم ﷺ کے وصال کے ساتھ ھی منافقین کے تذکرے یوں غائب ھوئے گویا منافقین کو زمین کھا گئ یا آسمان کھا گیا ،، ،، حقیقت یہ ھے کہ یہ منافقین اس قدر ماھر تھے کہ ان کو عام مسلمان تو دور کی بات خود نبئ کریم ﷺ نہیں پہچان سکتے تھے ، اللہ پاک نے بیان کیا ھے کہ مدینے کے اندر اور مدینے کے باھر اعراب نفاق سے بھرے پڑے ھیں ” مردوا علی النفاق ، لا تعلمھم ،نحن نعلمھم ،، ” یہ لوگ نفاق کے ماھر ھو چکے ھیں آپ بھی ان کو نہیں پہچان سکتے ھم ھی ان کو جانتے ھین ” چنانچہ جو لوگ نبی کریم ﷺ کو کامیابی سے دھوکا دے لیتے تھے وہ اگر امام بخاری کے لئے ایسا دام ھمرنگ زمیں بچھا گئے اور امام بخاری ان سے دھوکا کھا گئے تو اس مین تعجب کی کیا بات ھے ؟ کیا امام بخاری نبئ کریم ﷺ سے زیادہ صاحب بصیرت اور عرب کلچر سے واقف تھے ؟؟ ایک سیدھا سادا دیہاتی پہاڑوں سے اتر کر آتا ھے اور لوگوں کی نمازیں روزے دیکھ کر دھوکہ کھا جاتا ھے تو کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ ان کو تو بنے بنائے تقوے کے بت پکڑائے گئے ھیں کہ فلاں ثقہ ھے اور فلاں امیر المومنین فی الحدیث ھے ،،
خیر نبئ کریم ﷺ کو پتہ تھا کہ آپ ﷺ کی وفات بالکل قریب ھے – جو ھستی میدانِ عرفات میں یہ اعلان کر کے آئی تھی کہ ” لوگو میری باتیں غور سے سننا اور میرے عمل کو غور سے دیکھنا ،مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو کہ اس کے بعد میں نے اور تم نے اس میدان میں کبھی نہیں ملنا ، اس کے بعد پورا حج ، رمء جمار ، طوافِ کعبہ ،صفا اور مروہ سب کچھ اونٹںی پر ھی کیا تا کہ امت ایک دو لوگوں سے نہ سنے سارا مجمع مجھے حج کرتے ھوئے ، حجر اسود کو چوم کر طواف شروع کرتے اور باقی چھ چکروں میں صرف اشارے سے استلام کرتے ھوئے دیکھ لے ،، رسول اللہ ﷺ چاھتے تو 7 کے 7 چکروں میں حجرِ اسود کو چوم سکتے تھے مگر جانتے تھے کہ پھر امت میں 7 چکروں میں حجرِ اسود کو چوم کر طواف کر فرض سمجھ لیا جائے گا اور امت کچل جائے گی ،، جس نبی ﷺ نے بیٹی کو بھی بتا دیا کہ میرے وصال کے بعد سب سے پہلے تم مجھے آ کر ملو گی ، جس نبی ﷺ نے ازواج کو بتا دیا کہ تم میں لمبے ھاتھ والی سب سے پہلے آ کر مجھے ملے گی ، ازاوجؓ ھاتھ ملا ملا کر ناپتی رھیں مگر پتہ چلا لمبے ھاتھ سے مراد زیادہ صدقہ خیرات کرنے والی مراد تھی ،، وہ نبیﷺ جس پر مرض الوفات نے پنجے جما لیئے ھیں اور کندھوں کا سہارا لے کر نماز کے لئے جاتے ھیں ،،یہ انہی کی دو شادیاں اور ایک طلاق ایک ھی دن اور چند گھنٹوں کے اندر ھوتی ھیں ، اور کس طرح ھوتی ھیں ،اللہ کی قسم میرے پاس الفاظ ختم ھو گئے ھیں اس کو بیان کرنے کے لئے ،، اللہ کے بندو ،یہ کیچڑ کس نبی ﷺ پر اچھالا گیا ھے ؟ جس پر زندگی بھر اور پھر پوری دعوت اور نزولِ قرآن کے دوران کافروں کے ھر خسیس حملے کے جواب میں اللہ نے اپنے نبی ﷺ کے کردار پر حرف نہیں آنے دیا ،،کافروں نے استھزاء کیا تو اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نبی ﷺ تم بھی تمسخر اڑا لو ،، فرمایا ” ویسخرون من الذین آمنوا ،،سخرا للہ منھم ،، اللہ ان سے تمسخر کرتا ھے ( رسول ﷺ نہیں ) یخادعون اللہ والذین آمنوا ،، یہ اللہ کو اور مومنوں کو دھوکہ دیتے ھیں تو جواب میں فرمایا ” اللہ خادعھم ” اللہ ان کو دھوکا دیتا ھے ( رسول ان کو دھوکا نہیں دیتا ) تباً لک جب کہا ابولہب نے تو اللہ نے فرمایا تبت یدا ابی لھبٍ و تب ،، ٹوٹیں ھاتھ ابولہب کے اور ٹوٹ گئے ،،میرے نبی ﷺ کے کیوں ٹوٹیں ،، یہ نہیں کہا کہ اے نبی ﷺ آپ بھی گالی دے لو ،، آپ بھی بدعا دے لو ،، آپ بھی ان کو دم کٹا اور بے نسل کہہ لے ،،خود فرمایا ” ان شانئک ھو الابتر” آپ دشمن ھی دم کٹا اور بے نسل ھے کہ اس کا نام لیوا کوئی نہیں ھو گا ، پورے قرآن میں دیکھ لو اللہ پاک نبی پاک ﷺ کے اخلاق کی قسمیں کھاتا ھے ، گالی کا جواب خود دیتا ھے ، بد دعا کا جواب خود دیتا ھے ،، مگر نبی ﷺ کے دامن پر گالی اور بد دعا کا دھبہ نہیں لگنے دیتا کیونکہ یہ کردار ،یہ سیرت ،یہ ھستی قیامت تک اس انسانیت پر اللہ کی حجت اور دعوت و تبلیغ کا محور ھے ،،،
حضرت عیسی علیہ السلام نے چور کو رنگے ھاتھوں پکڑ لیا ،، اس نے اللہ کی قسم کھا لی ،، آپ نے فرمایا میں ایمان لایا اپنے اللہ پر اور جھٹلاتا ھوں اپنی آنکھوں کو ،،، اللہ کا نام سامنے آ جانے پر یہ نہیں کہا کہ اللہ کو رھنے دو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے ،، اللہ کے بندو حضرت عیسی علیہ السلام اپنی آنکھوں کو جھٹلا دیتے ھیں ، یہ کیسا ایمان بالرسالت ھے کہ ھر عیب تمہارے رسولﷺ میں سے برآمد کیا جا رھا ھے اور آپ آمنا و صدقنا کہتے چلے جا رھے ھیں اس لئے کہ راوی طاقتور ھیں ،راوی قابلِ بھروسہ ھیں،، میرے لئے میرے نبی ﷺ اور نبی ﷺ کے کردار وسیرت پر میرا ایمان خدا کے بعد سب زیادہ بھروسے کی چیز ھے ،،میں اپنے سے زیادہ کسی ثقاوت کا پابند نہیں ،، رہ گئے راوی تو ان کی تفصیل بھی آنے کو ھے کہ کس طرح خاندان اور نسل تک تبدیل کی گئ علاقہ اور رھائش تک جعلی بنا کر ثقہ ترین راوی تیار کیا گیا جس نے اسلام کو ویسا ھی نقصان پہنچایا جیسا سینٹ پال نے عیسائیت کو پہنچایا تھا ،
ذرا یہ بیان پڑھئے ،،،
( ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا ، فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَاءَهَا ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مُنَكِّسَةٌ رَأْسَهَا ، فَلَمَّا كَلَّمَهَا النَّبِيُ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ. فَقَالَ : قَدْ أَعَذْتُكِ مِنِّى . فَقَالُوا لَهَا : أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ . قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ لِيَخْطُبَكِ . قَالَتْ : كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ . فَأَقْبَلَ النَّبي صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ حَتَّى جَلَسَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ ، ثُمَّ قَالَ : اسْقِنَا يَا سَهْلُ . فَخَرَجْتُ لَهُمْ بِهَذَا الْقَدَحِ فَأَسْقَيْتُهُمْ فِيهِ ، فَأَخْرَجَ لَنَا سَهْلٌ ذَلِكَ الْقَدَحَ فَشَرِبْنَا مِنْهُ . قَالَ : ثُمَّ اسْتَوْهَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَعْدَ ذَلِكَ فَوَهَبَهُ لَهُ )
یہ بخاری شریف کی حدیث ھے جو کتاب الاشربہ میں درج ھے کہ جس میں پانی پینے اور پیالے کا ذکر ھے ،،
نبئ کریم ﷺ کی مجلس میں نبئ کریم ﷺ سے عرب کی ایک عورت ( کے حسن و جمال ) کا ذکر کیا گیا ، تو آپ نے ابا اسید الساعدی کو حکم دیا کہ اس کو لانے کے لئے بندہ بھیجو ،،، تو انہوں نے بندہ بھیج دیا ،، تو وہ عورت آ گئ اور بنی ساعدہ کے قلعوں میں اتاری گئ – چنانچہ نبی کریم ﷺ اس سے ملاقات کے لئے نکلے یہانتک کہ اس کے پاس آئے اور اس والے کمرے میں داخل ھو گئے ، دیکھا کہ ایک عورت سر نیچے کیئے بیٹھی ھے ، جب نبئ کریم ﷺ نے اس سے بات شروع کی تو اس نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ چاھتی ھوں آپ سے – اس پر آپ نے فرمایا کہ تمہیں مجھ سے اللہ کی پناہ مل گئ اور وھاں سے نکل آئے ،جب حضورﷺ نکل آئے تو لوگوں نے اس کو بولا کہ تمہیں پتہ ھے یہ کون تھے ؟ یہ رسول اللہ تھے جو تم سے شادی کرنے آئے تھے ،، اس نے کہا کہ میں اس معاملے میں بدبخت ھی ھوں ، اس کے بعد آپ آ کر ساتھیوں سمیت سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ھوئے اور فرمایا کہ اے سھل مجھے کچھ پینے کو دو تو میں ان کے لئے یہ پیالہ نکال کر لایا ،جس میں آپ ﷺ کو پانی پلایا ،سھل نے وہ پیالا نکال کر دکھایا تو ھم سب نے اس میں پانی پیا ،پھر عمر بن عبدالعزیز نے آپ ﷺ سے وہ پیالہ مانگ لیا اور آپ نے اس کو ھبہ کر دیا ،،
1- سب سے پہلے اس بات کا تصور کریں کہ نبئ کریم ﷺ کی مجلس میں لوگوں کی بہو بیٹیوں کے حسن کے چرچے ھوتے ھونگے ؟
2- پھر یہ چرچا سنتے ھی نبئ کریم ﷺ بندے کی ڈیوٹی لگاتے ھیں کہ منگوا لو اسے ،،، ؟ کہیں نکاح کا ذکر ھے ؟ کہیں اس کے ولی سے بات چلانے کا ذکر ھے ؟ اس کو تو یہ تک پتہ نہیں کہ اس کے عجلہ عروسی میں آیا کون ھے ،، ؟ نکاح تو ابھی ھونا تھا ابھی تو وہ صرف منگوائی گئ ھے ،، کمرے میں جا کر نکاح کی شرائط طے ھوتی ھیں ،، اسی واقعے کی اب مزید تفصیلات دیکھئے ،،
3- ( خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى انْطَلَقْنَا إِلَى حَائِطٍ يُقَالُ لَهُ الشَّوْطُ ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى حَائِطَيْنِ ، فَجَلَسْنَا بَيْنَهُمَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : اجْلِسُوا هَا هُنَا . وَدَخَلَ وَقَدْ أُتِىَ بِالْجَوْنِيَّةِ ، فَأُنْزِلَتْ فِي بَيْتٍ فِي نَخْلٍ فِي بَيْتٍ أُمَيْمَةُ بِنْتُ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِيلَ ، وَمَعَهَا دَايَتُهَا حَاضِنَةٌ لَهَا ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي .
4- قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
یہ بھی بخاری کی روایت ھے کہ ھم نبئ کریم ﷺ کے ساتھ نکلے یہانتک کہ ایک حویلی کے پاس رکے جسے الشوط کہتے تھے جب ھم دو دیواروں کے بیچ پہنچے تو رسول اللہﷺ سمیت سب ان کے درمیان بیٹھ گئے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے کہا تم لوگ یہاں بیٹھو اور جونیہ کے یہاں داخل ھو گئے ، وہ امیمہ بنت النعمان بن شراحیل کے باغ میں اتاری گئ تھی اس کے ساتھ اس کی دایہ تھی ( واضح رھے کہ اس حدیث میں جونیہ عورت الگ ھے مدینے کے باھر سے بلائی گئ ھے اور امیمہ بنت شراحیل کے گھر اس کی بارات اتاری گئ ھے ،جس میں ابھی اس کا نکاح بھی نہیں ھوا ،مگر تھوڑی دیر بعد آپ دیکھیں گے کہ یہ جونیہ شونیہ کوئی نہیں تھی اسی امیمہ بنت شراحیل کو ھی دلہن ثابت کیا جائے گا ،لہذا وہ قصہ کہ عرب کی کسی عورت کے حسن و جمال کا چرچا ھوا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کو لانے کے لئے بندہ بھیجو خود بخود ایک جھوٹ ثابت ھو گا )
جب نبئ کریم ﷺ اس کے حجرے میں داخل ھوئے تو کہا کہ اپنا آپ مجھے ھبہ کرو دو ،، اس نے کہا بھلا کوئی ملکہ کسی عام آدمی ” السوقہ ” کو اپنا آپ ھبہ کرتی ھے ؟ پس آپ ﷺ نے اس کی وحشت دور کرنے کے لئے ھاتھ اس پر رکھا ھی تھا کہ اس نے کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاھتی ھوں ، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے اس کی پناہ لے لی ھے جس کی پناہ دی جاتی ھے ، پھر ھماری طرف نکلے اور کہا کہ اے ابا اسیدؓ اس کو جوڑا کپڑوں کا دے کر اس کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ ،،
اتنا اھم قصہ ھو اور فاروقیؓ اور صدیقیؓ خاندان منافقوں کے وار سے بچ جائے ،،
کہا گیا کہ جناب اس بیچاری کو تو حفصہؓ اور عائشہؓ نے پٹی پڑھائی تھی اور غلط راہ پر لگایا تھا ، ان دونوں میں سے ایک اس کو مہندی لگا رھی تھی اور دوسری اس کے بال بنا رھی تھی اور اس کو کہہ رھی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ ایسی عورت کو بالکل پسند نہیں کرتے جو فوراً اپنا آپ سونپ دے، بلکہ نخرے کرنے والی کو پسند کرتے ھیں لہذا جب وہ تمہارے پاس آئیں تو کہنا اعوذ باللہ منک ،،، یہ جملہ رسول اللہ ﷺ کو بہت پسند ھے ،لہذا وہ بیچاری ان دونوں کے بہکاوے میں آ گئ اور کہہ بیٹھی ،بعد میں جب رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں بتایا گیا کہ اس عورت نے آپ کی بے عزتی حفصہؓ اور عائشہؓ کے پٹی پڑھانے کی وجہ سے کی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” یہ دونوں یوسف والی عورتیں ھیں ” کونسی ذرا قرآن سے پوچھ لیجئے ” فلما سمعت بمکرھن ” جب زلیخا نے ان کے مکر کے بارے میں سنا ،، یوسف بادشاہ کو کہتے ھیں ” ان ربی بکیدھن علیم ” میرا رب ان کی چال سے بخوبی واقف ھے ،،، اس کا نام ھے تبرہ ،، اے ایمان والو ،، جنید جمشید کے ایک جملے پر توھین کے فتوے دینے والو تمہاری کتابوں میں ازواج النبیﷺ ، ابوبکرؓ و عمرؓ کی بیٹیوں اور امت کی ماؤں کو مکار اور چالباز کہا جا رھا اور کیسی سیاسی تلمیح کے ساتھ کہ تمہیں ذرا بھی کڑوا نہیں لگا ” انھن صواحب یوسف )
ابھی آگے مزید بہت کچھ باقی ھے مگر جو باقی ھے وہ اسی واقعے کے بطن سے نکلا ھے جب اس کی ماں ھی ثابت نہیں ھو گی تو بیٹی کا وجود خود بخود ھوا ھو جائے گا ،،
پہلے جو عبارت امہات المومنینؓ کے بارے میں لکھی ھے اس کا عربی متن ملاھظہ فرما لیجئے ،،
رواها ابن سعد أيضا في "الطبقات” (8م145) قال : أخبرنا هشام بن محمد بن السائب ، عن أبيه ، عن أبي صالح ، عن بن عباس قال : ( تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أسماء بنت النعمان ، وكانت من أجمل أهل زمانها وأشبهم ، قال فلما جعل رسول الله يتزوج الغرائب قالت عائشة : قد وضع يده في الغرائب يوشكن أن يصرفن وجهه عنا . وكان خطبها حين وفدت كندة عليه إلى أبيها ، فلما رآها نساء النبي صلى الله عليه وسلم حسدنها ، فقلن لها : إن أردت أن تحظي عنده فتعوذي بالله منه إذا دخل عليك . فلما دخل وألقى الستر مد يده إليها ، فقالت : أعوذ بالله منك . فقال: أمن عائذ الله ! الحقي بأهلك )
وروى أيضا قال : أخبرنا هشام بن محمد ، حدثني ابن الغسيل ، عن حمزة بن أبي أسيد الساعدي ، عن أبيه – وكان بدريا – قال : ( تزوج رسول الله أسماء بنت النعمان الجونية ، فأرسلني فجئت بها ، فقالت حفصة لعائشة أو عائشة لحفصة : اخضبيها أنت وأنا أمشطها ، ففعلن ، ثم قالت لها إحداهما : إن النبي، صلى الله عليه وسلم يعجبه من المرأة إذا دخلت عليه أن تقول أعوذ بالله منك . فلما دخلت عليه وأغلق الباب وأرخى الستر مد يده إليها فقالت : أعوذ بالله منك . فتال بكمه على وجهه فاستتر به وقال : عذت معاذا ، ثلاث مرات . قال أبو أسيد ثم خرج علي فقال : يا أبا أسيد ألحقها بأهلها ومتعها برازقيتين ، يعني كرباستين ، فكانت تقول : دعوني الشقية )
يرويها ابن سعد في الطبقات (8/144) بسنده عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى قال: (الجونية استعاذت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وقيل لها : هو أحظى لك عنده . ولم تستعذ منه امرأة غيرها ، وإنما خدعت لما رؤي من جمالها وهيئتها ، ولقد ذكر لرسول الله من حملها على ما قالت لرسول الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنهن صواحب يوسف ).
یہ عورت کون تھی ، اس کے بارے میں سات اقوال ھیں اور زیادہ تر کے نزدیک یہ امیمہ بنت شرحبیل خود تھی جس کے باغ میں اس نام نہاد بادشاہ کی بیٹی کو اتارا گیا تھا جس کے جمال کے قصے نے نبئ کریم ﷺ کو اسے بلانے پر آمادہ کیا تھا ،،نہ کوئی ایسی عورت تھی نہ کوئی قصہ مجلس میں بیان ھوا ، نہ وہ لائی گئ اور نہ نبئ کریم ﷺ اس کے پاس گئے اور نہ اس نے وہ توھین آمیز جملہ کہا کہ ” کوئی ملکہ کسی بازاری یا ” لے مین ” یا عام آدمی کو اپنا آپ کیونکر سونپ سکتی ھے ،، جب امیمہ خود مدینے کی تھی تو رسول اللہ ﷺ سارے مدینے کو جانتے تھے،، عرب کی ایک عورت کا ذکر ھوا والی بات سب جھوٹ ثابت ھو گئ ، اور امیمہ والی بات بھی جھوٹ ثابت ھو گئ کیونکہ وھی میزبان اور وھی دلہن ،، ؟ الجبرے کے کراس نے آمنے سامنے کے دونوں واقعات کو جھوٹ ثابت کر دیا ،، امام بخاری اس کو لائے تھے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ طلاق آمنے سامنے بھی دی جا سکتی ھے اور دو کپڑوں میں عورت کو رخصت بھی کیا جا سکتا ھے،مگر جب وہ نکاح ھی جونیہ سے ثابت نہیں ھوا ، تو طلاق کیسے ثابت ھو گئ ؟ وہ کیسا بادشاہ تھا جس نے بیٹی کو یہ بتائے بغیر اونٹ پر لاد کر بھیج دیا کہ اس کا نکاح کس کے ساتھ ھو رھا ھے ، اور بیٹی سے جو حشر منافقین نے رسول اللہ ﷺ کا کروایا اور ھم جس کا ھر سال دورہ کرتے ھیں وہ سب کے سامنے ھے ؟
اختلف العلماء في اسم هذه المرأة على أقوال سبعة ، ولكن الراجح منها عند أكثرهم هو : ” أميمة بنت النعمان بن شراحيل المدنیہ” كما تصرح رواية حديث أبي أسيد . وقيل اسمها أسماء
اگلی حدیث کے مطابق نبئ کریم ﷺ جب اس جونیہ عورت کے پاس سے نکلے تو بڑے غصے اور افسوس کی کیفیت مین تھے کہ باھر ایک اور صاحب سے ٹکراؤ ھوا جس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ھوں میرے پاس اسے سے زیادہ صاحب نسب و جمال عورت ھے ، حضورﷺ نے پوچھا کہ وہ کون ھے ؟ اس نے کہا کہ میری بہن ھے ،، آپﷺ نے فرمایا کہ ” میں نے اس سے نکاح کیا ” اشعث اپنی بہن کو لانے یمن چلا گیا اور رسول اللہ ﷺ کا مرض زور کر گیا ، اور آپ کی رحلت ھو گئ ،، اشعث اور اس کی بہن ابھی رستے میں ھی تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے انتقال کی خبر ان کو ملی جس پر بہن اور بھائی دنوں مرتد ھو کر واپس چلے گئے، یوں ایک ام المومنین قتیلہ رخصتی سے پہلے مرتد ھو گئ ، جب میں جب فتنہ ارتداد ٹھنڈا ھوا تو اس نے ایک اور شخص سے شادی کر لی ، جبکہ دوسری روایت میں عکرمؓہ بن ابی جھل سے شادی کر لی ،جس پر ابوبکر صدیقؓ نے عکرمہ کو حد لگانے کی فیصلہ کر لیا کیونکہ ام المومنین سے شادی کبیرہ گناہ اور ماں سے شادی کے مترادف تھا مگر عمرؓ نے سمجھایا کہ نہ تو اس کی رخصتی عمل میں آئی تھی اور نہ اس کو پردہ کرایا گیا تھا لہذا ام المومنین والی حرمت اس پر لاگو نہیں ھوتی ،، مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ پہلا واقعہ بھی سرے سے جھوٹ کا پلندہ اور نبئ کریمﷺ کے کردار پر منافقین کا کڑا وار ھے اور دوسرا خود بخود جھوٹ ثابت ھو جاتا ھے کیونکہ جب امیمہ مدینے کی ھی ھے تو وہ حضور ﷺ سے واقف کیوں نہیں تھی ؟ پوری اسٹوری کا اضطراب ،اور چکر در چکر بتاتا ھے کہ راویوں سے بات سنبھالی نہیں جا رھی ، لہذا اس کا بہتر علاج ان دو شادیوں کا اعتراف نہیں بلکہ درود شریف ھے ، ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی ، یا ایھا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیماً ، حضرت زینب بنت جحشؓ والے اسیکنڈل کے بعد یہی حکم اللہ نے دیا تھا کہ جب بھی اس قسم کا کوئی واقعہ سنو تو میرے نبی ﷺ پر درود پڑھا کرو اور اپنا آپ مکمل طور پر ان کو سونپ دو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے ھر وقت اس نبئ کی تعریفیں کرتے رھتے ھیں ،،
ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں
جب اسماء بنت نعمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ہوں میں آپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون؟ اس نے کہا میری بہن قتیلہ!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آگے بڑھے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو یہ دونوں بہن بھائی مرتد ہوگئے۔ پھر قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اور پھر عکرمہ بن ابی جھل نے اس سے نکاح کیا۔
آگے لکھتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو قبیلہ کندہ کی ایک عورت قتیلہ کے مالک ہوئے تھے لیکن وہ اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہوگئی تھی پھر بعد میں اس سے عکرمہ نے نکاح کرلیا یہ بات حضرت صدیقؓ کو گراں گزری لیکن حضرت عمرؓ نے انہیں کہا کہ یہ عورت امہات میں سے نہیں ہے نہ آپ نے اس کو اختیار دیا نہ ہی اس کو پردہ کرایا اور اللہ تعالی نے آپ کو اس سے بری کردیا ہے کیوں کہ وہ مرتد ہوگئی ہے اپنی قوم کے ساتھ ۔