ماسٹرز آر مونسٹرز کا مطلب ہی یہ ہے کہ بڑی بڑی شخصیات ہی دین میں تبدیلیاں کرتی اور نئے نئے رستے نکالتی ہیں اور انہی سے خبردار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کوئی بھی بڑا نہیں،ان پر گہری اور کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے،جس طرح ایجنسیاں اپنے سائنسدانوں پر رکھتی ہیں کہ کہیں دشمنوں کے ایجنٹ نہ بن جائیں۔ عیسائیت کا نیا ایڈیشن کسی شرابی کبابی فاسق نے نہیں دیا بلکہ سینٹ پال نے اس کو کیا سے کیا بنا کر رکھ دیا،عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہی پالیسی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا تھا کہ لوگو میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر چوک اور گلی میں لوگ کھڑے حدیثیں سنا رہے ہیں ،بس انہی حدیثوں پر اکتفاء کرو جو عمر ابن خطاب کے زمانے تک منظر عام پر آ گئ تھیں کیونکہ وہ روایتوں پر کڑی نظر رکھتے تھے ۔ آپ دیکھ لیں کہ بخاری میں مذکور روایات ڈیڑھ سو سال بعد منظرِ عام پر آئی ہیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہونا۔چھ سال کی بچی سے شادی کرنا،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا گڑیوں سے کھیلنا۔یہ سب ایک سو ستر ھجری میں سامنے آیا جب اس کی تردید و تائید کرنے والا کوئی نفس موجود ہی نہیں تھا۔سوائے قرآن کے کوئی کسوٹی بھی نہیں تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پاک رکھنے کا میزان بنتی مگر ان محدثین نے ہر راوی کو جبرائیل بنا کر رکھ دیا اور عقائد و ایمانیات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا۔