ابویحی نورپوری کا ایک آڈیو پیغام وٹس ایپ گروپس میں نشر ھو رھا ھے جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ کورٹ میں نکاح نام کی کوئی چیز نہیں ھوتی بلکہ گھر سے بھاگے ہوئے جوڑے وہاں پہنچ کر تحفظ کی درخواست کرتے ہیں کہ ان کو تحفظ فراہم کیا جائے : ، فرماتے ہیں کہ جج نکاح نہیں پڑھاتا ھے بلکہ کونے کھدرے میں کوئی مولوی ہی بٹھایا ھوتا ھے جو جج کے کہنے پر نکاح پڑھا دیتا ھے اور یہ شرعاً جائز نہیں ہے ـ
لگتا ھے کہ کورٹ کچہری کے معاملات ابویحی صاحب نے اخبار میں ہی پڑھے ہیں ـ کورٹ میں وکیل ساتھ ھوتا ھے اور دو گواہاں کے سامنے جج کی موجودگی میں ھی نکاح پڑھایا جاتا ھے اور جج اس کی تصدیق کرتا ہے ـ اسی طرح جس طرح رجسٹرار نکاح کی تصدیق کرتا ہے ـ جب تک نکاح اور طلاق رجسٹر نہ ھو قانون کی نظر میں نہ نکاح ھوتا ھے اور نہ ہی طلاق ھوتی ہے !
رہ گئ شریعت کی بات تو سچی ہی نہیں پکی ٹھکی بات یہ ھے کہ نکاح میں مولوی کا کوئی کردار سرے سے ہی نہیں ہے ، دو گواہوں کی موجودگی میں حق مہر مقرر کر کے دو عاقل بالغ مرد و زن کا ایجاب و قبول کر لینا نکاح کہلاتا ھے ، خطبہ نکاح مستحب ہے ،، نکاح کی شرط نہیں ـ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ نے دوسرا نکاح کیا تو رسول اللہ ﷺ کو خبر تک نہ دی حالانکہ کتنی خوش قسمتی اور سعادت کی بات ھوتی کہ رسول اللہ ﷺ ان کا نکاح پڑھاتے مگر وہ عظیم ھستیاں تصنع سے پاک تھیں ، رسول اللہ ﷺ کے بعد ان کی طرف دیکھا تو انگلی پہ مہندی کے آثار دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ شادی کی ھے ، پوچھا کہاں سے کی ہے ،عرض کیا انصار کے یہاں سے ،، پوچھا کنواری ھے یا ثیبہ ( بیوہ یا طلاق یافتہ ) ؟ عرض کیا کہ ثیبہ ھے ،،
آپ اندازہ کر لیں کہ مدینے میں رھتے ہوئے پانچ نمازیں مسجدِ نبوی میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑھتے ھوئے رسول اللہ ﷺ تک کو زحمت نہیں دی گئ کہ وہ یہ نکاح پڑھائیں یا نکاح میں شرکت فرمائیں ،، پھر مولوی ابو یحی کی شرکت یا اس کا نکاح پڑھانا کیسے فرض ھو گیا ؟ قانون کے مطابق کسی بھی اتھارٹی کے سامنے یہانتک کہ ایک انگریز میجسٹریٹ کے سامنے دو گواھوں کی موجودگی میں بھی ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح ھو جاتا ھے ،،،
رہ گیا جنازہ تو اس کا حقدار مولوی سے زیادہ متوفی کا بیٹا ہے اگرچہ اس کی داڑھی نہ ھو اور وہ تھری پیس سوٹ میں ھو یا جینز اور شرٹ میں ھو ،مولوی سے زیادہ اس کا فرض بنتا ھے کہ وہ اپنے باپ کی نماز جنازہ پڑھائے ، اگر عربی دعا نہیں آتی تو چاروں تکبیروں کے درمیاں ثناء اور حمد اور درود کے بعد اپنی مادری زبان میں اللہ پاک سے اپنے والد کے لئے دعائے مغفرت کرے اوروالد کے حق میں اپنی کوتائیوں پر استغفار کرے ،بس جنازہ ھو جاتا ھے دعائے جنازہ میں جو خلوص اور دردِ دل درکار ہے وہ مولوی کی بجائے بیٹے میں اتم درجے میں پایا جاتا ھے ، جنازے کے لئے میانوالی کے بیل کی طرح سینگ چوپڑے ھوئے سجا سجایا مولوی ھر گز درکار نہیں ـ یہ تلخی اس وجہ سے تحریر میں آ جاتی ھے کہ ان لوگوں کو خناس ھے کہ ان کے بغیر نہ نکاح ھوتے ہیں اور نہ جنازے اور نہ ھی لوگ بخشے جاتے ہیں ،،