دعا اور تقدیر ! کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ھیں

دعا اور تقدیر ! کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ھیں

October 7, 2013 at 9:34am

دعا اور تقــــــدیر ! کچھ لوگ یہ سوال اٹھاتے ھیں کہ دعا سے اللہ کے فیصلے کیسے تبدیل کرائے جا سکتے ھیں،،فیصلے تو وہ تبدیل کرتا ھے جو فیصلوں میں غلطی کرتا ھے،، اور اسے احساس دلایا جاتا ھے کہ آپ نے یہاں میرے ساتھ زیادتی کر دی ھے،یا آپ سے انجانے میں کچھ غلط ھو گیا ھے تو جناب میری درخواست یہ ھے کہ آپ اسے تبدیل کر دیں !! دعا اللہ پاک کا حکم ھے اور انسان کا فرض اور ضرورت ھے،، جس طرح نماز کا حکم مشروط نہیں ھے بلکہ نماز ھم نے ھر حال میں پڑھنی ھے ،چاھے ھم غریب ھوں، بیمار ھوں، بے اولاد ھوں، لولے لنگڑے ھوں، روزہ غیر مشروط حکم ھے،روزہ ھم نے ھر حال میں رکھنا ھے، اسی طرح دعا ایک مستقل عبادت ھے اور اس دعا کے نتیجے میں اگرچہ آپ کے گھر پر سونا چاندی نہ برسے،،یا اولاد نہ ھو ،یا بیماری دور نہ ھو تب بھی، دعا کرنا تو ھمارا فرض ھے،و قال ربکم ادعونی استجب لکم،، اور تمہارا رب کہتا ھے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا ھوں،، ان الذین یستکبرون عن عبادتی،، بےشک وہ لوگ جو میری عبادت سے استکبار کرتے ھیں،،یہاں دعا کو عبادت کہہ کر دعا نہ کرنے والے کو متکبر قرار دیا اور پھر آگے نتیجہ سنا دیا،،سیدخلون جہنم داخرین،،عنقریب جہنم میں داخل ھوں گے،،اس ایک ھی آیت میں اللہ پاک نے کسی چیز کو فرض کر دینے والے سارے اسلوب اختیار فرما لئے ھیں،، حکم،،اس پر عمل کی جزاء کی بشارت اور نہ کرنے پر جہنم کی وعید (المومن 60 ) یہ اللہ کا احسان ھے کہ اس نے کسی عبادت کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ کرو میں قبول کروں گا،، بلکہ اس کو اوپن رکھا کہ تم عبادت کرتے چلے جاؤ،، میں قبول کروں یا نہ کروں،، یہ میرا اختیار ھے،، اور فرمایا انما یتقبل اللہ من المتقین،،اللہ تو درحقیقت متقین سے ھی قبول فرماتا ھے،، سوائے دعا کے،، ایک تو اس میں نیک ھونے کی شرط کوئی نہیں رکھی بڑے سے بڑے گنہگار سے قبول کی جا سکتی ھے،، اسکی وجہ یہ ھے کہ اللہ پاک نہیں چاھتا کہ نیکوں کا ایک ایسا طبقہ یا مستقل ادارہ وجود میں آ جائے جو کرائے پر دستیاب ھو دعا کرانے کے لئے ( اس کے باوجود ھم ایک سے ایک بڑا مچھندر پالے بیٹھے ھیں) دوسرا اللہ پاک نے اس کی غیر مشروط قبولیت کا وعدہ فرمایا ھے،،،اس سے ایک تو امید دلانا مقصود ھے ،،اللہ گنہگار سے براہ راست رابطے یا انٹر ایکشن کا طلبگار ھے کسی وکیل کو درمیان میں نہین آنے دینا چاھتا،،وہ چاھتا ھے کہ گنہگار اسی بہانے سے بھی میرے در پہ آ جائے اور ھماری دعا سلام ھو جائے،، اس کے لئے فرمایا” یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ -ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا،، انہ ھو الغفور الرحیم- اے میرے وہ بندو ! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر بیٹھے ھو ،اللہ کی رحمت سے مایوس مت ھو جاؤ،وہ سارے گناہ معاف کر دے گا،وھی تو ھے بخشنے والا رحم کرنے والا ! یہ اصول اللہ قرآن حکیم مین بار بار دھرایا ھے کہ مصائب مشکلات اور تکلیفوں کا نزول انسان اور قوموں کو رب کے در پر لانے کے لئے کیا جاتا ھے اور یہ آخری موقع ھوتا ھے،تعلقات کی بحالی کا،،اگر مصائب میں مبتلا ھونے کے باوجود انسان رب کا در نہ دیکھے تو وہ روحانی طور پر لاعلاج قرار دے دیا جاتا ھے،،پھر اس پر ھر چیز کے دروازے کھول دیئے جاتے ھیں یہانتک کہ جب وہ خوب غافل ھو جاتا ھے اور بے فکر ھو جاتا ھے کہ اچانک کسی سخت گرفت مین پکر لیا جاتا ھے اور اس کا قصہ چکا دیا جاتا ھے؛واخذناھم بالبأسآءِ والضراء لعلھم یتضرعون،،اور ھم نے ان کو پکڑا تنگیوں اور تکلیفوں مین تا کہ وہ گڑگڑائیں،، فلوا لا اذ جاء ھم بأسنا تضرعوا ولکن قست قلوبھم،، پھر جب ان پر ھماری مصیبت آئی تو وہ گڑگرائے کیوں نہیں؟ مگر ان کے دل سخت ھو گئے تھے،، دعا کی قبولیت کے انداز !!! دعا کبھی تو فوری طور پر پوری ھو جاتی ھے،،کبھی تاخیر سے پوری ھوتی ھے اور کبھی پوری نہیں ھوتی،، جن کی تاخیر سے پوری ھوتی ھے، اللہ پاک چاھتا ھے کہ وہ اسی بہانے سہی مگر اس سے رابطے میں رھیں،، جن کی نہیں پوری نہیں ھوتی،، وہ ان کے نصیب نہیں ھوتی بلکہ کسی اور کے نصیب میں ھوتی ھے،ـ میں کسی کے دستِ طلب مٰں ھوں تو کسی کے حرف دعا میں ھوں ،میں نصیب ھوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ھے )مگر ایسی دعا کی استجابت کا طریقہ یہ ھے کہ وہ اللہ کے یہاں محفوظ کر لی جاتی ھے اور قیامت کے دن دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ اس کا اجر دیا جائے گا،،نبی کریمﷺ کے فرمان کے مطابق اس دن انسان کی جو دعائیں قبول ھو چکی ھوں گی وہ ان پر بھی حسرت کرے گا کہ کاش وہ بھی قبول نہ ھوتیں اور آج کے اجر میں شامل کر لی جاتیں ! دعا اللہ کے فیصلوں میں تقدیر کا حصہ ھوتی ھے یعنی یہ دعا کرے گا تو ھم یہ عطا کریں گے،،کچھ چیزوں کو فوری طور پر بن مانگے بھی دے دیا جاتا ھے،مگر کچھ کے لئے ایپلائی کرنا پڑتا ھے ، یہ اصول ھر ادارے میں ھوتا ھے،،کچھ کے لئے ایک خاص گریڈ درکار ھوتا ھے جب وہ بندہ اپنے صبر اور عاجزی و گریہ زاری سے جونہی اس گریڈ میں ترقی کرتا ھے ،،اللہ کے نظام مین اس گریڈ سے متعلق فیصلے فوری طور پر حرکت مین آ جاتے ھیں،، یعنی آپ کی ترقی جب اگلے گریڈ میں ھوئی تو آپ کو پہلے سے بڑا گھر، پہلے سے قیمتی کار،پہلے سے زیادہ تنخواہ پہلے سے طے شدہ ضوابط کے تحت ملی ھے،،تبدیل آپ کا گریڈ ھوا ھے کمپنی کا اصول نہیں،،یہ اصول اللہ نے سورہ کہف میں بیان فرمایا ھے،،جب نیک والدین کو ایک بیٹا دیا،پھر اسے بچپن میں مار دیا،،جب انہوں نے اس پر صبر کیا تو انکی ترقی اگلے درجے میں ھوئین جہاں ایک صالح بیٹا ان کے مقدر مین تھا،، اب کیا اللہ کو پیدا کرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ بچہ تو غلطی سے نیکوں کے گھر پیدا ھو گیا ھے ،، اسے تو کسی گنہگار کے گھر پیدا کرنا تھا پھر اللہ نے اپنی بیوروکریسی کا بندہ بھیجا جس نے موسی علیہ السلام کے سامنے اس کو مار دیا؟؟؟ دعا اور محبت ! جنہیں اللہ سے حقیقی محبت ھوتی ھے وہ ھمیشہ چھوٹے چھوٹے بہانے ڈھونڈتے ھیں رب کا دروازہ کھٹکھٹانے کے،،آپ نے کبھی غور فرمایا ھے جو بچہ جتنا آپ سے پیار کرتا ھے اور آپ کی توجہ چاھتا ھے،وہ اتنی ھی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر ھائے ددی ھائے ددی کرتا آپ سے پھونکیں مرواتا ھے ؟ میاں محمد فرماتے ھیں، جس گھر مین محبت داخل ھوتی ھے اس گھر کے گھڑے بھرے رھتے ھیں،،یعنی وہ لڑکی آدھا گھڑا گرا کر پھر بھرنے نکل کھڑی ھوتی ھے کہ شاید اسی بہانے محبوب کا دیدار ھو جائے ،، ھمیں جب لسی لینے کسی ایسے گھر بھیجا جاتا تھا،جہاں ھمارا محبوب ھوتا تھا تو ھم دعا کرتے جاتے تھے کہ پہلی دفعہ نہ ھی ملے بلکہ کہہ دیں کہ ابھی لسی” رِڑکی "ھی نہیں ھے، تا کہ اسی بہانے دو چار چکر لگ جائیں،، اللہ والوں کو قبول ھونے سے قبول نہ ھونے کی زیادہ خوشی ھوتی ھے،، نبی کریمﷺ کو اللہ نے فرمایا ” اگر تم کہو تو احد کو سونا بنا دوں تم خرچ کرو اور کم بھی نہ ھو،،مگر آپﷺ تڑپ گئے اور فرمایا اللہ ایسے نہیں تو ایسے کر مجھے ایک وقت دے تا کہ میں تیرا شکر ادا کروں،، اور ایک وقت بھوکا رکھ کہ میں تجھ سے سوال کروں،، دعا کرنا عاجزی کرنا ، اپنی بے کسی و بے بسی کا اظہار کرنا ھے اور اللہ کو انسان سے یہی ادا مطلوب ھے،،بے نیازی صرف اسی ذاتِ بےھمتا کو زیب دیتی ھے،،

ما بین السطور کا برزخ !

ما بین السطور کا برزخ !

September 26, 2013 at 2:43pm

آپ تمام حضرات نے کوئی فلم تو دیکھی ھو گی ؟ چلیں علماء کے ڈر سے جملہ کچھ یوں کر دیتے ھیں کہ آپ میں سے اکثر لوگوں نے فلم ضرور دیکھی ھو گی،، اس میں جو ھم سب کا مشترکہ دشمن ” ولن ” نام کا جو کردار ھوتا ھے ،اس کی شکل پر کتنی لعنت محسوس ھوتی ھے؟ مگر وھی شخص جب اگلی فلم میں اچھے رول میں آتا ھے تو اس کے چہرے پر کتنا نور نظر آتا ھے؟ یہ لعنت اور نور ،خود انسان کے اپنے اندر ھوتا ھے اور انسان کی فوٹو شاپ اتنی ایڈوانس ھے کہ قیامت تک انسان ایسی کوئک اور ایکوریٹ فوٹو شاپ نہیں بنا سکتا،کیونکہ اللہ احسن الخالقین ھے،، تو جناب جس سے ھم پیار کرتے ھیں نور خود اس کے چہرے پر ڈال لیتے ھیں اور جس سے نفرت کرتے ھیں ،لعنت بھی اپنے سٹور میں بے حساب ھے اور بے حساب ھی ڈال لیتے ھیں،، ھم اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ عالم کے ساتھ بھی یہی نور اور لعنت کا کھیل کھیلتے ھیں،، کچھ لوگوں کو گمراھی کی بیماری ھوتی ھے،یہ ایک نفسیاتی بیماری ھے، درزی جب کسی سے ملتا ھے تو اس کی نظر فوراً اس کے گلے ،کالر، جیب اور کف کی طرف اٹھتی ھے کہ کیسے بنے ھیں،، انجینئر جب کسی مسجد میں گھستا ھے تو اس کی نطر مولوی صاحب کی بجائے، ستونوں ، کھڑکیوں اور چھت کو دیکھتی ھے،، عورت ماتم پر بھی جائے تو عورتوں کے کپڑے اور زیور ھی نوٹ کرتی ھے،،گمراہ جب بھی کوئی کتاب پڑھتا ھے تو اس میں گمراھی ھی ڈھونڈتا ھے، اور اگر کوئی چیز مل جائے تو فوراً نعرہ بلند کرتا ھے،، صفحہ نمبر 153 پر مابین السطور گمراھی لیٹی ھوئی تھی اور میں نے پکڑ لیا،، سوال یہ ھے کہ اس سے پہلے جو 152 صفحے ھدایت تھی وہ آپ کو نہ نظر آئی اور نہ آپ نے اس کو مانا،، آپ کا صرف صفحہ نمبر 152 پر گمراھی کا ذکر کرنا ھی بتاتا ھے کہ پیچھے سب ٹھیک تھا،، ٹیچر جب دس جملوں میں سے ایک جملے کو سرخ پین سے کراس لگاتا ھے تو اس کا مطلب یہی ھوتا ھے کہ باقی 9 ٹھیک ھیں،، ایسے افراد جب کسی انسان کو بھی ملتے ھیں تو گفتگو سے زیادہ دھیان اس بندے کی وضع قطع پر دیتے ھیں تا کہ اس کی گمراھی کا کوئی ثبوت پا سکیں ! کاش آپ ھدایت کی تلاش میں اس کتاب کو پڑھتے تو اللہ پاک اپنے وعدے کے مطابق آپ کا ھاتھ پکڑتے” والذین جاھدوا فینا لنھدینَۜھم سُبُلَنا ” ان کا حال  ان کفار کا سا ھے جو کہتے تھے اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنا بعذابٍ الیم( الانفال)  ائے اللہ اگر یہ نبی سچا ھے تو ھمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا یا ھمیں دردناک عذاب دے دے،، حالانکہ کہنا یہ چاھیئے تھا کہ اے اللہ اگر یہ نبی سچا ھے تو ھمیں ھدایت دے،،مگر وہ تھے ھی گمراھی کے متلاشی ! یہ مابین السطور بھی بہت خطرناک جگہ ھے،، یہاں کافر دفنا کر مسلمان نکال سکتے ھو اور مسلمان کو دفناؤ تو کافر بنا کر نکال لو،، روایت ھے کہ جن دنوں مولانا ابوالاعلی سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف فتوؤں کی مہم چل رھی تھی، کسی مصیبت کے مارے شخص نے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میں سے ایک اقتباس پر دیوبند سے فتوی طلب کیا،، مفتی صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ – اسے مولانا مودودی کی تحریر سمجھ کر مابین السطور سے سے ایک کافر مودودی نکال لیا ،،اور فتوی دے دیا کہ اس تحریر کے مابین السطور سے کفر چھلکا پڑ رھا ھے ،، فتوی چھپ گیا تو مستفتی نے خط لکھا کہ حضرت یہ تو اپنے مولانا قاسم نانوتوی صاحب کی تحریر ھے، میں نے تو وضاحت طلب کی تھی ! اب مفتی پر جو جان کنی کا عالم طاری ھوا وہ عورت پر دردِ زہ میں کیا طاری ھو گا،، کہ اب مفتی صاحب کو ایک کافر کی جگہ چھ فٹ کا جوان مومن مولانا قاسم نانوتوی جننا تھا،، سو انہوں نے اسی ما بین السطور کی سمادھی سے کہ جہاں سید مودودی کا کریا کرم کیا تھا،، ایک مسلمان قاسم نانوتوی نکال دکھایا ! مگر اس دوران انہوں کتنا تھوک چاٹا ھو گا یہ وھی جانتے ھیں ! صفحہ نمبر 150 تا 153 جو گمراھی پکڑی گئی ھے وہ بھی "ما بین السطور "وہ یہ ھے کہ ” مطعون ” عالم بائبل کے حوالے دیتا ھے جس سے ثابت ھوتا ھے کہ وہ قرآن کی نسبت بائبل پر زیادہ اعتماد کرتا ھے ! کاش یہ لوگ عالم ھونے کے ساتھ خدا خوف بھی ھوتے،،یہ تو سمجھتے ھیں کہ اللہ بھی ان کے مسلک سے تعلق رکھتا ھے اور حشر کے فیصلے مسلک کی بنیاد پر ھوں گے اور ان کے حق میں ھوں گے ! کیا یہ لوگ قرآن نہیں پڑھتے، یا پڑھتے ھیں مگر یہود کی طرح اپنے خلاف بات پر انگلی رکھ لیتے ھیں،، کیا قرآن حکیم میں اللہ پاک نے جگہ جگہ تورات اور انجیل سے نبیﷺ کی صداقت پر استدلال نہیں کیا؟ سورہ الفتح کے آخر میں نبیﷺ اور صحابہؓ کی صداقت اور عظمت پر تورات اور انجیل سے استدلال نہیں کیا ؟ جس کو مولوی لہک لہک کر منبر پر پڑھتے ھیں مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں جاتا” ذلک مثلھم فی التوراۃ،، و مثلھم فی الانجیل ” الفتح 29 اللہ پاک نے فرمایا ھے،، وانہ لفی زبر الاولین،، او لم یکن لھم آیۃً ان یعلمہ علمآء بنی اسرائیل( الشعراء 196-197 ) اور اس نبی ﷺ کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی ھے اور کیا یہ ان کے لئے نشانی نہیں ھے کہ ان کو بنی اسرائیل کے علماء بھی پہچانتے ھیں ؟ پھر یہ جو آیت ھم آج کل اپنے علماء کے بارے میں کوٹ کرتے ھیں یہ قرآن میں اصلاً یہود کے علماء کے بارے میں نازل ھوئی ھے ” فاسئلوا اھل الذکر ،ان کنتم لا تعلمون،(،الانبیاء 7 ) اور النحل 143 )اگر تمہیں معلوم نہیں ھے تو اھل کتاب سے پوچھ لو،،یہاں ذکر والے کتاب والے ھیں،، ایک جگہ فرمایا ائے نبی اگر آپ کو شک ھے اس میں جو آپ پر نازل کیا گیا ھے تو پوچھیں ان سے جو آپ سے پہلے کتاب پ
ڑھ رھے ھیں،فان کنت فی شکٍ مما انزلنا الیک فسئل الذین یقرءون الکتاب من قبلک( یونس 94 )سورہ الاحقاف آیت نمبر 10 میں فرمایا،، قل اَرئیتم ان کان من عند اللہ و کفرتم بہ و شہد شاھدٓ من بنی اسرائیل علی مثلہ فآمن واستکبرتم– قل کہا تم دیکھتے نہیں ( غور نہیں کرتے ) کہ اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے ھوئ اور تم نے اس کا انکار کر دیا جبکہ بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اس جیسی پر ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کی روش اختیار کی،،یہاں ابوبکر صدیق کے ایمان سے استدلال کی بجائے انہی یہود میں سے ایک ایمان لانے والے سے دلیل لائی جا رھی ھے،، غامدی صاحب جب بائبل سے دلیل دیتے ھیں تو اس کا مقصد یہ ھوتا ھے کہ ھم یہ بات اپنے مذھب کے فطری تعصب کی بنیاد پر نہیں کہہ رھے بلکہ تمہاری اپنی کتاب یہی کہہ رھی ھے،، یہی طریقہ ایک معلم و مناظر کا ھوتا ھے،، یہی طریقہ ڈاکٹر زاکر نائیک بھی استعمال فرماتے ھیں اور یہی فتوی ان پر بھی لگایا جاتا ھے !

اللھم اھدنا فیمن ھدیت

گھریلو زندگی سے متعلق ھمارا افسوسناک رویہ

گھریلو زندگی سے متعلق ھمارا افسوسناک رویہ

October 7, 2013 at 9:55am

ساتھیو! میرے دوستو !کھبی غور فرمایا ھے۔۔۔کہ ھم جب نبی کریمﷺ کی گھریلو زندگی کا ذکر کرتے ھیں تو بڑا منہ پھٹ انداز اختیار کرتے ھیں،،آپ کی چھوٹی چھوٹی گھریلو خدمات کا ذکر تفصیل سے کرتے ھیں،،گویا حضور ﷺصرف یہ ھی کام کرنے تشریف لائے تھے،،ھمارا یعنی مولوی حضرات کا موقف یا یہ ھوتا ھے کہ چونکہ جناب رسالت مآبﷺ انسانی زندگی کے ھر شعبے کے مقتدا اور نمونہ ھیں ،،چنانچہ ھم کو ان باتوں کا حوالہ دینا پڑتا ھے،،تا کہ مرد کی چاردیواری کی زندگی کو دین کے دائرے میں لایا جا سکے،،،،،،،، مگر میرے بھائیو !! یہ بات جتنی بھی اچھی اور خوبصورت ھو،،عملی طور پر ھم مولویوں سمیت سارے مردانہ کلچر کا شکار ھین،،اور دین کی بھی مردانہ تشریح کرتے ھیں،،،،تفصیل اس اجمال کی یہ ھے،،کہ جن گھریلو کاموں کو ھم نبی ﷺ کی نسبت دے کر بر سرِ ممبر بڑے فخر سے بیان کرتے ھیں،،ان کاموں کی نسبت اپنی طرف کرتے ھوئے شرماتے ھیں،اور کوشش کرتے ھیں کہ گھر سے باھر کسی کو پتہ نہ چلے اور ھم زن مرید مشہور نہ ھو جائیں،،،جو کام نبیﷺ کے لئے باعث فخر ھیں،،وہ ھمارے لئے باعث شرم کیوں ھیں؟؟،،کیا ھماری عزت نبی کی عزت سے زیادہ ھے،،اور اس ڈبل اسٹینڈرڈ کے ساتھ نبی ﷺ کے واقعات بیان کرنا توھین نہیں ھے؟،،یا تو اس کو سنت سمجھ کر فخر سے اتباع کرو اور فخر سے بیان کرو کہ،،یار ابھی ابھی برتن دھو کر آیا ھوں،،،فون آ جائے اٹھانے میں دیر ھو جائے ، تو کہنا سیکھو،،سوری یار وہ ھاتھوں کو لیکس ھوا تھا،،برتن دھو رھا تھا،،،،سوری یار وہ مشین کی آواز میں بیل سنائی نہین دی،،کپڑے دھو رھا تھا،،،،صحن میں برش مار رھا تھا ! کہہ سکتے ھیں؟،،،نہیں ناں؟ کیوں کہ یہ ھمارا کلچر ھے کہ مرد گھریلو کام نہیں کرتا،،،،،اس کا نام ھے مردانہ کلچر،،ھم دین کی تشریح بھی اسی نفسیات کے تحت کرتے ھیں،کہ گھریلو کام عورت کی ذمہ داری اور خوبی ھے،،جبکہ مرد کا عیب ھے(پھر نبی کا عیب کیوں گنواتے ھو ؟) دین میں ایسا کچھ بھی نہیں ھے،،عورت کی صرف ایک ذمہ داری ھے وہ مرد کی مدد کرے اسکے سکون کا باعث بنے اولاد کی اچھی تربیت کرے،نفل نماز اور نفل روزہ بھی مرد کا موڈ پوچھ کر رکھے ،اور بس،،،،مرد کھانا خود پکائے،،یا ھوٹل سے لائے،،یا عورت مہربانی کر کے اس کا ہاتھ بٹائے اور روٹی سالن بنا دے،، اس تعاون کے نتیجے میں عورت مزید پیار ،زیادہ نرمی،بہترین حسن سلوک اور کسی تحفے کی حقدار ھے  اور برادری میں تعریف کے لائق ھے،،نہ کہ گالی گلوچ،مار پیٹ اور طنز و تشنیع کی حقدار ھے، کیا کسی نے کبھی دین کی روشنی میں آپ کو بتایا ھے کہ عورت گھر کا جو کام کرتی ھے وہ اس کے کنٹریکٹ میں شامل نہیں ھے،،،؟ نہیں بتایا ناں،،اسی وجہ سے کھانا لیٹ ھونے پر شوھر بیوی کو اور بھائی بہن کو قتل کر دیتا ھے،،اس کو کہتے ھیں مردانہ اجارہ داری،،،،اللہ کے لئے اس نعمت کی قدر کریں،،اللہ نے اس کو انسان بنانے کے لئے چنا ھے،،اس کو عزت اور رفعت دیں گے تو باعزت نسلیں تیار ھونگی،،،،،،آپ سوچئے،،میں برتن دھونے جا رھا ھوں ،،آج مہمان آئے ھوئے تھے۔۔پورا سنک بھرا ھوا ھے،،،،اللہ حافظ

ساتواں دروازہ اور مجبور شہــزادہ

مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو کبھی دادی دادا نے اس قسم کی کہانیاں سنائی ھیں کہ نہیں ،مگر ھمیں اس قسم کی بہت سی کہانیوں سے پالا پڑا ھے جن میں بادشاہ اور ملکہ پہلے تو شہزادے کو کہیں آگے پیچھے جانے ھی نہیں دیتے کہ کسی مصیبت میں مبتلا نہ ھو جائے،مگر جب … Read more

برسات میں جلتے گھر !

برسات میں جلتے گھر !

November 13, 2013 at 12:17pm

ھم صدیوں سے ایسے ایسے تصورات پالے بیٹھے ھیں جنہوں نے آج بھی ھماری سماجی زندگی جہنم بنا رکھی ھے،، جو جتنا دیندار ھے وہ اسی قدر بے سکون ھے، وہ اس بے سکونی کا علاج ٹھیک اسی بیماری سے کرتا ھے جس کی وجہ سے بے سکون ھے،نتیجہ مزید بے سکونی، جسے وہ دوا سمجھ رھا ھے وہ اصل میں داء ھے،،، میں پہلے اس موضوع پر لکھ چکا ھوں -اس کے بارے میں مرد وزن کی کوئی تخصیص نہیں اگرچہ اس سے بربادی زیادہ تر خواتین کی ھوتی ھے،،اس میں پڑھے لکھے یا جاھل ان پڑھ کی بھی کوئی تخصیص نہیں،، میرے پاس اسپیشلسٹ مرد اور لیڈی ڈاکٹرز کے کیسز بھی آتے ھیں اور کثرت سے آتے ھیں،، امیر اور غریب کی تخصیص بھی نہیں، امریکن اور یورپین ممالک سے بھی کثرت سے ایسی مثالیں سامنے آتی ھیں،مثلا صرف پچھلے سال مجھے امریکن ڈاکٹرز جوڑے جس میں میاں بیوی دونوں ھی ڈاکٹرز ھوتے ھیں ان سے واسطہ پڑا،مگر بیماری یہی دیکھی کہ اگر بیوی مذھب کی طرف راغب ھوئی ھے تو گھر گرھستی کو عیب سمجھتی ھے،،شوھر کے حقوق سے لاپرواہ ھو گئ ھے،اپنی ذات کو بھی بھول گئ ھے، نہ میک اپ نہ کپڑوں کا خیال ،نہ ھنسی مذاق ،بس ھر وقت سوچوں میں ڈوبی کہ مرنا ھے، ھائے مرنا ھے،، کدھر جاؤں گی میرا کیا بنے گا؟؟؟،،پورا گھر موت کے سناٹے میں ڈوبا ھے یا وظائف کی سرگوشیاں ھر کمرے میں ایک مصلی بچھا ھے جس پر تسبیح اور اذکار کی کتاب رکھی ھے زیادہ سے زیادہ نوافل،وظائف ،منزلیں پڑھ پڑھ کے اپنی حقیقی منزل کھو بیٹھی ھے، اور پوچھنے پھر یہی آتی ھے کہ اگر کوئی کسر رہ گئ ھے تو وہ قاری حنیف کے وظیفے سے پوری کی جائے،، میرا مشورہ ان کو یہی ھوتا ھے کہ سارے وظیفے اور منزلیں چھوڑو،، صرف نماز اور فرض روزوں کا اھتمام کرو اور اپنے شوھر کے اردگرد رھا کرو یہ مٹی کا مادھو بڑی چیز ھے،تیری جنت اس کی خوشی میں ھے،، نبی کریم ﷺ کا ارشادِ مبارک ھے،جو عورت عصمت کی حفاظت کرتی ھے ،فرائض کا اھتمام کرتی ھے اور اپنے شوھر کو خوش رکھتی ھے، وہ اگر اس حال میں مر جائے کہ اس کا شوھر اس سے خوش ھو تو اسے کہا جائے گا جنت کے جس دروازے سے چاھے جنت میں چلی جائے ! مگر میرا یہ کہنا کوئی خاص فرق اس لئے نہیں ڈالتا کہ اس کا تعلق عمل کے ساتھ ھے اور عمل کا تعلق اس سافٹ وئیر کے ساتھ ھے جو ھمارے دل و دماغ میں انسٹال ھے ! وہ خطرناک سافٹ ویئر نیک بندے یا ولی اللہ کا تصور ھے،، ھم جس مذھب سے بدل کر نئے مذھب میں آئے ھیں، افسوس یہ ھے کہ یہاں بھی ایک مذھبی اور خدا ترس شخص کے بارے میں تصور سو فیصد وھی ھے ،، کسی بھی ڈرامے یا فلم میں آپ دیکھ لیں ھندو سادھو اور ھمارے فلمی ولی اللہ میں ایک منکے کا بھی فرق نہیں ھو گا،، کٹے پھٹے کپڑے،،سر اور داڑھی کے بے ھنگم بڑھے ھوئے بال، ھاتھ مین کشکول ،گلے میں مالاؤں کی لمبی قطار ھاتھ رنگ برنگے پتھروں والی انگوٹھیوں سے مزین ،، الغرض جو ھمارے اجداد نے ھندو ازم میں نیک انسان کا روپ دیکھا تھا وھی اسلام میں بھی تخلیق کر لیا،، عورت جب نیک ھوئی یا اسے نیکی کا دورہ پڑا تو اسے اپنی ازدواجی زندگی پر پچھتاوہ آیا کہ وہ کس گــند میں پڑ گئ ھے،، ھر بار ازدواجی عمل سے گزرنا اس کے احساسِ جرم میں اضافہ کر دیتا ھے،جس کا مداوہ وہ نوافل کی زیادتی اور وظائف کی کثرت سے کرتی ھے،، جس کے نتیجے میں شوھر کے دل میں مذھب کے بارے میں ایک ری ایکشن پیدا ھونا شروع ھو جاتا ھے جو اس سے اس کی بیوی چھینے لئے جا رھا ھے وہ اسے دین نہیں بلکہ جن سمجھتا ھے جو اس کی بیوی کو چڑھ گیا ھے،، بیوی کا رویہ سرد مہری میں تبدیل ھوتا جاتا ھے،، وہ ھنستی نہیں کہ اس کی ھنسی کہیں شوھر کے جنسی جذبے کو ایکٹیویٹ نہ کر دے،، وہ شوھر کو دور رکھنے کے لئے نماز لمبی کر دیتی ھے کہ شوھر سو جائے،، وہ دن کو روزہ رکھتی ھے کہ شوھر مجبور نہ کر سکے،، اور شوھر پر یہ ستم کرنے کے بعد وہ یہ توقع بھی رکھتی ھے کہ شوھر اس کے پاؤن دھو کر بھی پیئے کیونکہ وہ رابعہ بصری بن گئی ھے،جبکہ شوھر اس سے اور اسکی دینداری سے نفرت کرتا ھے، بچے بھی گھر کے افسردہ ماحول سے متأثر ھوتے ھیں،، چند سال میں وہ گھرانہ بکھر کر رہ جاتا ھے،، طلاق ھو جاتی ھے یا شوھر دوسری شادی کر لیتا ھے،،کیونکہ اسے ھنسنے کھیلنے والی بیوی چاھئے مائی طوطی نہیں چاھئے،، ایسی ضرورت سے زیادہ نیک عورت کا شوھر کسی بھی عورت کی صرف ایک مسکراھٹ کی مار ھوتا ھے،،اسے خوبصورتی سے بھی کوئی خاص تعلق نہیں ھوتا،،عموماخوبصورتی پہلی شادی میں اھم فیکٹر ھوتی ھے،،دوسری شادی میں دیگر عوامل کو اھمیت اور اولیت حاصل ھوتی ھے،،عام طور پر دوسری عورت پہلی عورت سے کم خوبصورت ھوتی ھے ،،اور ساری عورتیں تبصرے کرتی پھرتی ھیں،ھائے یہ کیا؟، اتنی خوبصورت بیوی کے ھوتے ھوئے یہ دوسری چڑیل کیوں لے آیا ھے،، جوتا جس کو چبھتا ھے اسی کو پتہ ھوتا ھے کہ خوبصورتی کہاں کاٹ رھی ھے،، پہلی بیوی بھی اب کہتی پھرتی ھے مجھ میں کیا کمی تھی،، نیک پاک خوبصورت اللہ سے ڈرنے والی چھوڑ کر دوسری کیوں لے آیا ھے،؟؟ انسان ایک وقت صرف ماں کے خون پر جیتا ھے،اس کا اپنا منہ بند ھوتا ھے،،پھر ماں کے دودھ پر،، پھر نرم غذا پر،، پھر ٹھوس غذا پر،،، اسی طرح جوں جوں انسان سماج میں بڑا ھوتا ھے،، ذمہ داریاں بھی نرم سے ٹھوس ھوتی جاتی ھیں،، عورت کا گھر گرھستی کرنا دین کا تقاضہ اور اللہ کی طرف سے ڈالی گئ ذمہ داری ھے،، کوئی بے دینی نہیں کہ جس پر پچھتایا جائے،، اور ڈیپریشن کا شکار ھوا جائے،، ازدواجی تعلق کوئی گناہ نہیں دینی فرائض میں سے اھم فریضہ ھے،، اس کا اجر نوافل سے بڑھ کر ھے،عورت نفل ن
ماز اور نفلی روزہ شوھر کا موڈ پوچھ کر رکھ سکتی ھے،، اگر اس کا پروگرام کوئی اور ھے تو باقی سارے پروگرام منسوخ،، اس عورت پر اللہ اور اس کے رسول اور فرشتوں کی لعنت ھوتی ھے جو ضرورت کے وقت شوھر کو بلا شرعی عذر ” انکار "کر  دے،،، جمعے کے دن اس بات کا خصوصی حکم دیا گیا ھے کہ جنسی طور پر دونوں میاں بیوی مطمئن ھوں،، من غسل واغتسل ،، کا اشارہ اسی طرف کیا گیا ھے،، بچوں اور شوھر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے عورت کو جمعہ اور جماعت سے چھٹی دی گئ ھے،، اس کا تنور پر روٹیاں پکانا ،، اس کا جمعہ ھے، اپنی ظہر پڑھ لے،، بہت ساری صحابیات نے نبی کریم ﷺ کے خطبے کو تندور پر روٹیاں پکاتے سنا اور سورتیں یاد کیں،، اس لیئے میری اس بیٹی سے گزارش ھے جس نے سوال بھیجا ھے کہ وہ اپنے ڈیپریشن سے نکلے، گھریلو ذمہ داریوں کو خدا سے دوری نہ سمجھے اور اس کا حل وظیفوں میں نہ ڈھونڈے،، اس کا علاج اس کے اپنے بچوں میں ھے،، ان سے ترشی سے پیش نہ آئے ،، وہ اس کی ذمہ داری ھیں جن کے بارے میں اس سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا،، دل میں زنگ نہین لگا بلکہ شک کا مرض لگ گیا،، اللہ کا ذکر نماز کی صورت میں ظاھر میں موجود ھے،، اور دل میں وہ کام کاج کرتے ٹی وی چینل کے ٹِکر کی صورت وہ ھر وقت چلتا رھتا ھے،، جہاں کمی ھے اسے پورا کرو،،نوافل کی کثرت اس کمی کو پورا نہیں کر سکتی،،تمہارے یہ ھنسنے کھیلنے کے دن ھیں،،اس ھنسی سے اللہ خوش ھوتا ھے،ناراض نہیں ھوتا،،! اب آیئے مرد حضرات کی طرف،، یہ عموماً جب نیک ھوتے ھیں یا دورہ پڑتا ھے تو بستر لے کر گھر سے غائب ھو جاتے ھیں،، اس تصور سے کہ وہ دنیا مین پھنس گئے ھیں لہذا وہ گھر سے فرار کو دنیا سے فرار سمجھتے ھیں،، 3 دن اللہ کے لئے زکوۃ کے طور پر نکالتے ھیں،، باقی 27 دن احساسِ جرم مین گزارتے ھیں کہ وہ دنیا کے گند میں ملوث ھیں،،جو جتنا گھر والوں سے بھاگا رھتا ھے وہ اتنا بڑا بزرگ ھوتا ھے، اور اکابر مین گنا جاتا ھے،، ان کے گھر والے انتقاماً دین سے دور ھوتے چلے جاتے ھیں ،،اولاد برباد ھو جاتی ھے اور بیوی سرکش،، جس چیز کو ان کی ذمہ داری میں دیا گیا تھا وہ اس سے فرار اختیار کر کے نکل بھاگے ھیں،، بیوی ادھر کروٹیں بدل رھی ھے اور وہ پارا چنار کے کسی بوڑھے کے پہلو میں سوئے دین کی خدمت کر رھے ھوتے ھیں،، گھر میں بیوی شوگر کی مریض ھے،، بچہ پیدا ھونے والا ھے،، شوگر 400 سے اوپر ھے،، مگر وہ اسے چھوڑ کر چار ماہ لگانے گئے ھوئے ھیں کہ پیچھے فرشتے خیال رکھیں گے،، بچہ اٹھوایا تو انہوں نے تھا ،مگر اب ڈیلوری کے لئے فرشتے آئیں گے،، بیوی رات کو شوگر کی زیادتی کی وجہ سے کومے میں چلی گئ،، صبح بچوں کو پتہ چلا،، پڑوسیوں کو بلایا گیا،،غیروں نے حاملہ عورت کو گھسیٹ گھساٹ کے گاڑی میں ڈالا،، اسپتال پہنچایا،، بچہ ضائع ھو گیا عورت پورے دو ماہ کومے میں رھی،، اور خدا خدا کر کے ھوش آیا تو بھی بعض اعضاء سے معذور ھو گئ،،یہ میرے پڑوس کا واقعہ ھے،، اب اس کے نتیجے میں ان کی ساری اولاد قابو سے نکل گئ ھے،، اسی قسم کے ڈھیر سارے معاملات گنوائے جا سکتے ھیں،،یہاں سے نام لکھوایا ھے،،والدہ بیمار ھے گھر نہیں گئے کہ یہ وقت امانت ھے میں خیانت نہیں کر سکتا،، والدہ کو ایئر پورٹ ھی لایا گیا،،والدہ سے ملاقات کی ھے،سسکتی والدہ کی حالت بھی دیکھی ھے مگر اسے اسی حالت میں  چھوڑ آگے روانہ ھو گئے،، والدہ دوسرے دن فوت ھو گئ،، موبائل کا زمانہ نہیں تھا،، یہ صاحب اللہ کو راضی کرتے رھے !! حالانکہ رسول اللہ نے غزوہ تبوک جیسے نازک موقعے پر بھی جہاد کے لئے آنے والے جوان سے پوچھا تھا کہ کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ھے،اس نے کہا تھا کہ جی دونوں ھیں،،پھر پوچھا ” ان کی رضامندی لی ھے؟ جواب دیا ان کو روتا ھوا چھوڑ آیا ھوں! آپﷺ نے فرمایا جا اب جا کر انہیں ھنسا جس طرح انہیں رلایا ھےیہ ھے حقیقی اسلام جو سب سے پہلے گھریلو ذمہ داریوں سے شروع ھوتا ھے،، مروجہ تبلیغ ایک مخصوص علاقے کے ماحول اور مسائل کو لے کر اجتہادی طور پر شروع کی گئ،،مگر یہی نبیوں کا طریقہ بن گئ حالانکہ یہ خود ھمارے نبیﷺ کا طریقہ بھی نہیں ھے،،  یہ ھے وہ مقام جہاں حقوق العباد کی خلاف ورزی خود گھر سے شروع ھوئی ھے،، یہ تصور ھی سرے سے غلط ھے کہ گھر داری کوئی گناہ اور دنیا داری ھے،،بلکہ یہ عین دینداری ھے ! جب تک ھم اپنے تصورات( کانسیپٹس) درست نہیں کریں گے یہ تباھی و بربادی چلتی رھے گی

یادوں کی بارات

October 6, 2013 at 9:03am

اپنے یہاں رواج تھا کہ دولہے کو صحن میں چوکی پر بٹھاتے ھیں اور سلامی شروع ھوتی ھے،، تیل شیل ملا جاتا ھے،،وٹنا ملا جاتا ھے،اس زمانے میں شیمپو جیسی نحوست ابھی ایجاد نہیں ھوئی تھی،، اس کے بعد ماشکی چھت کے اوپر سے پانی دولہا پر گراتا ھے اور دولہا جو کپڑے پہن کر بھی ننگا ھوتا ھے، آخر میں پانی ھتھیلیوں میں بھر کر اپنے چاروں طرف کھڑے لوگوں پر پھینکتا ھے تا کہ اللہ پاک انہیں بھی اس پانی کی برکت سے جلد دلہن نصیب کرے – اپنے اندر تجسس چونکہ بچپن سے وافر مقدار میں موجود تھا ،لہذا اپنی کوشش ھوتی تھی کہ دولہا کے قریب کھڑا ھوا جائے نتیجتاً پانی میں بھیگ بھیگ جاتے،، اور جزاء یوں ملی کہ ساڑھے سترہ سال کی عمر میں ھم بھی مشک کے نیچے بیٹھے ھوئے تھے،، گویا محمد بن قاسم کی عمر میں ھمیں بھی جرنیل بنا دیا گیا،، پانی ھم نے بھی پھینکا ،مگر زیادہ تر شادی شدہ لوگوں پر پڑا اور وہ دوسری شادی کو چل دیئے،، اب عورتیں ھم کو گھور گھور کر دیکھا کرتیں اور ھم احساسِ ندامت سے اکبر الہ آبادی کی طرح زمین میں گڑ جاتے – اس کے بعد ھم مولوی ھو گئے اور الحمد للہ کسی اور کو چوکی نہیں چڑھنے دیا،،بلکہ سیدھا پکڑ کے حمام پر لے جاتے اور دولہا بنا کے لے آتے،، جس شادی میں گانا بجانا ھوتا ھم وھاں اسی طرح فساد مچا دیتے جیسے جنازے کے بعد دعا پر مولانا حضرات مناظرہ شروع کر دیتے ھیں اور اس طرح میت کے لواحقین کی پریشانی میں اضافے کا سبب بنتے ھیں،، آئستہ آئستہ رشتہ داروں نے ھمیں شادی پر بلانے سے ھی توبہ کر لی،،انہیں سب سے بڑا اور ٹھوس اعتراض یہ تھا کہ اپنی شادی پہ سب کچھ کر کے،، جب ھمارے بچوں کی شادیاں شروع ھوئی ھیں تو تم کو اسلام چڑھ گیا ھے ؟ ھمیں ایک نئی نسل کی گھوڑی پر بٹھایا گیا جو تھی تو گھوڑی مگر گدھی سے بھی چھوٹے سائز کی تھی،ایسی گھوڑی ھم نے پرایم منسٹر ھاؤس میں بعد میں دیکھی تھی،، ھمیں پیسوں کے ھار بھی پہنائے گئے،، بلکہ سہرے اور ھاروں کے پیچھے ھمارا چہرہ دیکھنے کے لئے پیسے دینے پرتے تھے،جس کو سلامی کہتے ھیں،، برات پورے گاؤں میں پھری اور گاؤں کے بچے میری گھوڑی کے دونوں جانب سے میرے گھٹنوں پر ھاتھ رکھے میرے ساتھ ساتھ رھے،، میں حیران تھا کہ میرے دبئ جانے کے بعد اس گاؤں کے بچے کتنے مؤدب اور مودت و محبت سے مزیں ھو گئے ھیں،، بچے بھی اتنے تھے کہ وہ بچوں کی بارات لگتی تھی، سوچا تھا دادا جی کے گھر بارات اترے گی تو ان سے بچوں کے اس سلوک کی وجہ پوچھوں گا،، مگر جب بارات اتری اور ھم گھوڑی سے اترے تو وجہ خود ھی پتہ چل گئی،، ھاروں کے ساتھ صرف اتنی جگہ روپے باقی رہ گئے تھے جو ھمارے گریبان کے پاس تھے،، باقی نیچے سے سارے نوٹ بچے اتار کر لے گئے تھے !!

میرے والد مرحوم اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی خطاؤں سے در گزر فرمائے بہت ھی درویش منش انسان تھے، وہ والد کم اور دوست زیادہ تھے، میں نے اس قسم کے والد نہ تو کتابوں میں پڑھے ھیں نہ عملی زندگی میں دیکھے ھیں،،ھر لحاظ سے پرفیکٹ،،ان کی شادی میری شادی کے بعد یعنی میرے ولیمے پر ھوئی تھی، اور وہ الاقربُ فالاقرب کے اصول کے تحت چوکی کے پانی کا پہلا شکار بنے ، وہ ویسے بھی کفایت شعار تھے بچوں کے عقیقے پر بھانجیوں اور بھتیجیوں کی بارات بھگتا دیتے تھے،،سو میرے ولیمے پر اپنی بارات بھگتا لی،، پوری زندگی میں انہوں نے ایک دفعہ ھی میری پٹائی کی ھے،جبکہ والدہ صاحبہ کبھی ناغہ نہیں کرتی تھیں،،ھمیں اللہ پاک نے نہ صرف دائیں ھاتھ کی جگہ بائیاں نصیب فرمایا ھے بلکہ ابا کی جگہ امی پکڑا دی ھے ،، والد صاحب کی مار کا سبب بھی ھم خود بنے انہوں نے تو صرف کان پکڑائے تھے،، پھر تایا کو اشارہ کیا کہ تم چھڑوا دو،،تایا کان چھڑواتے اور ھم ٹھیک اسی جگہ جا کر پھر پکڑ لیتے ،والد صاحب کو بہت غصہ آیا کہ اس کی انا میری انا کی بھی ماں بن گئی ھے،، بھر انہوں نے شاھد حیات والا اپریشن شروع کیا ، اب ھم آگے آگے تھے اور والد صاحب پیچھے پیچھے ! اس ایکشن کی وجہ یہ ھوئی کہ ھم مٹی بہت رغبت سے کھایا کرتے تھے جبکہ ھمیں اس نشے پر لگانے والی وہ خواتین تھیں جو ھمیں مٹی خریدنے اپنے شوھروں سے چوری بھیجا کرتی تھیں، ھماری معصوم شکل و صورت کو کہاں کہاں ایکسپلائٹ نہیں کیا گیا،، اللہ معاف کرے خواتین کو شاہ کمال کے مزار پر بچے لینے ھم ھی ساتھ لے کر جایا کرتے،اور دعا قبول ھونے کے بعد بچہ بنانے کے لئے مٹی بھی ھم کو ھی خرید کر لانی پڑتی قرآن میں جو لکھا ھے کہ ھم نے انسان کو کھنھکناتی مٹی سے بنایا ھے تو وہ ھمارے گاؤں میں اسی طرح مٹی سے بچے بنایا کرتی تھیں،، پھر کہیں سے سنا کہ مٹی کھانے سے پیٹ بڑا ھوتا ھے تو ایک خالہ کو ھم نے ٹوک بھی دیا کہ ماسی خدا کا خوف کرو پہلے ھی پیٹ پھٹنے والا ھوا ھے اوپر سے روز کی آدھ کلو مٹی کھا جاتی ھو،، خالہ نے ھمیں گھور کر دیکھا اور خواتین سے مشورے کے بعد ھمیں ھماری خدمات سے اسی طرح ڈی نوٹیفائی کر دیا جس طرح میاں صاحب نے ابا جی سے مشورے کے بعدسجاد علی شاہ کو ڈی نوٹیفائی کیا تھا، حالانکہ اللہ جانتا ھے ھمیں نازک صورتحال کا بالکل علم نہیں تھا،،خیر ڈیوٹی تو ختم ھوئی مگر اس کے نتیجے میں ھمیں بھی مٹی کھانے کی لت لگ چکی تھی،، خواتین کی مٹی سے اتنی رغبت پر تجسس کے مارے ھم بھی ایک دن چکھ بیٹھے،، بس پھر تو ھر کنسائنمنٹ میں سے اپنی چونگی وصول کر لیتے اور سکول تفریح کے ٹائم بچے کھانا کھاتے اور ھم مٹی تناول فرماتے ! مٹی چھڑوانے کے لئے یہ طے کیا گیا کہ ھمیں بھنگالی شریف لے جایا جائے،،،بھنگالی والے پیر عبداللہ شاہ ماشاء اللہ بہت نورانی چہرے والے باوقار بزرگ تھے، ان کے یہاں پرنٹیڈ تعویزوں کا ٹوکرا پڑا ھوتا تھا،جس میں سے وہ اس بھینس کے لئے بھی مٹھی بھر نکال کر دے دیتے جو دودھ سکھا گئی تھی،،اس ساس کو بھی دیتے جس کا بیٹا چھٹی نہیں آتا تھا اور بہو سوکھ کے کانٹا ھو گئی تھی،اسی ٹوکرے میں سے مٹھی بھر کے انہوں نے ھمیں بھی تعویز عنایت فرما دیئے،، ھم نے کچھ اس شان سے وہ تعویز کھائے کہ تعویز تو ھفتے بھر میں ختم ھوگئے مگر ھمیں کاغذ کھانے کی لت پڑ گئی،، اور اس کا پہلا شکار ھمارے والد صاحب کا دبئی سے لایا ھوا انتہائی خوبصورت قرآن بنا، جس کی ایک لائن سفید ایک گرین جبکہ پیپر کا بیک گراؤنڈ ھلکا گرین تھا،، ھم جتنا سبق روز ختم کرتے اتنا گرم گرم کھا لیتے، سال بعد والد صاحب تشریف لائے اور پڑھنے کے لیئے قرآن مانگا تو ھم نے بغدادی قاعدے کے حجم جتنا قرآن لا کے ان کے سامنے رکھ دیا، امریکہ والوں سے بہت پہلے ھم نے بستہ چھوٹا رکھنے کا اصول دریافت کیا تھا،ھم جتنا سبق پڑھتے اس پیج کو اگلی صبح نصیب نہیں ھوتی تھی،، روز کا روز کھا لیتے،ایک صفحہ معاشرتی علوم کا،ایک انگلش کا ،ایک سائنس کا ،ایک اسلامیات کا اور ایک میتھ کا،ھمارا ٹھیک ٹھاک لنچ ھو جاتا،،بچے تفریح کے وقت چنے کھاتے اور ھم آرام سے جیب سے صفحہ صفحہ نکال کر تناول فرماتے- اس میں بھی اگرچہ ھم نے فلم انصاف کا ترازو نہیں دیکھی تھی مگر انصاف کو ملحوظ خاطر رکھتے ھوئے پیریڈ کی ترتیب سے کھاتے ،یہ جو آج کل آپ منبر سے سنتے ھیں یہ پڑھے ھوئے سے زیادہ کھائے ھوئے کا کمال ھے ! مذھبی رجحان کی وجہ سے عموماً چوری وغیرہ کا پتہ چلانے کے لئے معمول بچے کے طور پر ھمارا ھی انتخاب ھوتا،، اس بہانے ھمیں شہر شہر جانا پڑتا،، ساتھ لے جانے والے بھی سارا رستہ کھلاتے پلاتے لے جاتے،،جہاں بس رکتی مونگ پھلی،گنڈیریاں پیش کی جاتیں تا کہ بچہ بھوکا نہ رھے،بھوک کا پہلا اثر نظر پر پڑتا ھے ،اور وھاں سارا کمال ھی نظر کا ھوتا ھے، انگوٹھے کے ناخن کی اسکرین میں چوری کا پورا کلپ دیکھنا اور بندہ پہچاننا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ھوتا،،پیٹ میں کچھ ھو تو نظر کام کرتی ھے،، ساتھ ساتھ وہ یہ خوراک بھی دیتی جاتیں کہ ھمیں تو فلاں پر شک ھے تا کہ بچہ ان کے دشمنوں کا نام لے،مگر بچے کو اپنے بزنس کی زیادہ فکر تھی ،، صورتحال زیادہ گھمیبر اس دن ھوتی جس دن ساتھ جانے والی کسی خاتون کے بھائی یا بہن کا نام نکل آتا،،پھر عموماً واپسی پر بھوکا رھنا پڑتا مگر رزقِ حلال میں یہ دن تو دیکھنے ھی پڑتے ھیں ! جب تیاری شروع ھوتی تو خواتین آتیں اور کوئی روپیہ کوئی آٹھ آنے اور تو اور اگر کوئی غریب ھوتی تو ھمیں گلے سے لگا ایک دو بوسے دیتی،سر پر ھاتھ پھیرتی اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتی،، مقصد سب کا ایک ھی ھوتا کہ ناہنجار کہیں ھمارا نام ھی نہ لے دے، ھم بھی دیانتداری کے ساتھ سب کو ذھن مین رکھتے اور آخر نام اسی کا لیتے جس نے کچھ نہیں دیا تھا تا کہ آئندہ اسے احساس ھو جائے کہ یہ غلطی جان لیوا بھی ثابت ھو سکتی ھے،، وہ بےچاری لاکھ انکار کرتی مگر وہ تو سی سی ٹی وی فوٹیج میں پکڑی گئی تھی،آج بھی یہ واردات کل کی طرح جاری وساری ھے انکار کرنے والے قرآن بھی اٹھا لیں مگر انگوٹھے والے کی بات کو رد نہیں کیا جا سکتا،،

حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہ،نبیﷺ کے پہلے شہید نواسے !

حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہ،نبیﷺ کے پہلے شہید نواسے !

November 22, 2013 at 8:01pm

نبی کریمﷺ نے رمضان 8 ھجری میں مکہ فتح کیا اور سب سے پہلے حرم میں تشریف لائے،، آنے حرم کے صحن اور مطاف میں موجود سارے بت اپنی چھڑی کے ساتھ گرائے،، گویا انہیں ھاتھ لگانا بھی گوارا نہ فرمایا ! اس کے بعد بیت اللہ میں داخل ھوئے اور عمر الفاروقؓ کو ارشاد فرمایا کہ بت اٹھا کر باھر پھینک دو،، عمر الفاروقؓ انہیں توڑتے جاتے اور اٹھا کر بیت اللہ سے باھر پھینکتے جاتے،، اللہ کا رسولﷺ اور نبی کی مراد الفاروق دونوں ” جاء الحق و زھق الباطل، ان الباطلَ کان زھوقاً تلاوت فرماتے جاتے اور بتوں کو توڑتے جاتے ! اس کے بعد آپﷺ بیت اللہ کی چھت کی طرف متوجہ ھوئے اور حضرت علی بن ابی العاصؓ سے فرمایا کہ مجھے اٹھا کر بلند کرو،، یہ علیؓ ابن ابی العاص حضور ﷺ کی سب سے بڑی بیٹی زینب بنت محمد ﷺکے بیٹے تھے،، مکہ میں داخلے کے وقت نبی پاک ﷺ ان کو ھی اپنے ساتھ اونٹ پر پیچھے بٹھائے ھوئے تھے،، علی ابن ابی العاصؓ نے آپ کو اٹھایا مگر اٹھا کر سیدھے بھی نہ ھونے پائے تھے کہ ٹانگیں کانپ گئیں ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ،اور ان پر سے اتر گئے، آپ ﷺ نے فرمایا،، وہ بارِ نبوت اٹھانے والا کوئی اور ھی تھا ! یہ اشارہ ھے ابوبکر صدیقؓ کی طرف جنہوں نے ھجرت کے وقت کھوجی کو دھوکا دینے کے لئے کافی فاصلہ نبی کریمﷺ کو کندھوں پر اٹھا کر طے کیا تھا،، اس کے بعد آپﷺ نے علی ابن ابی العاص سے فرمایا کہ تم میرے کندھوں پر بیٹھو اور پھر آپ نے انہیں بلند کیا،جس کے بعد بقول علی بن زینبؓ ، اللہ کی قسم میں نے اپنے آپ کو اتنا بلند پایا گویا میں چاھوں تو آسمان کو چھو لوں ،، یہ حضرت علی بن زینب بنت رسول اللہ گو سترہ سال کے تھے مگر لمبے دھڑنگے تھے اور بت توڑنے کے لئے چھوٹی عمر اور لمبے قد والا بندہ چاھئے تھا،، !! اس واقعے کو ھر ذاکر ھر مجلس میں علیؓ بن ابو طالب کی طرف منسوب کر کے خوب حاشیئے چڑھاتے ھیں،،جیسے عامر لیاقت کہہ رھا تھا،، ادرکنی یا علی، یا علی میری مدد کر،،وغیرہ ! حضرت علیؓ اور عبداللہ ابن مسعودؓ صحابہ میں سب سے چھوٹے قد کے مالک تھے ! حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمایئے (سنن ابو داؤد،فحمل علی ابن ابی العاص علی عاتقہ ) یہ نبی کریمﷺ کے سب سے بڑے نواسے تھے، ان کے والد ابی العاص بنو امیہ کے ایک مالدار اور سخی شخص تھے،، انتہائی شجاع جنگجو تھے،، حضرت علیؓ نے عرب کے رواج کے مطابق دو سال رضاعت کا وقت صحراء کے بدوؤں کے یہاں گزارا اور پھر چار سال کی عمر سے نبی کریمﷺکی گود میں ھی پرورش پائی ،آپﷺ کو ان سے بہت محبت تھی اور یہ ھر اھم موقعے پر نبی کریمﷺ کے ساتھ ھوتے،، غزوہ حنین میں بھی یہ آخر وقت تک نبی کریمﷺ کے خچر کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں رھے تا کہ تیروں سے نبیﷺ کی حفاظت کریں فتح مکہ پر بھی یہی نبیﷺ کے ردیف تھے اور نبیﷺ کے حکم کے مطابق آپﷺ کے کندھوں پر چڑھ کر بیت اللہ کی چھت کو بتوں کی الائش سے پاک کیا( الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج 2 صفحات، 503 رحمۃ للعالمین ص 98 ج 2) الصداقۃ العظمی ص 32 اس وقت حضرت علیؓ کی عمر 15 سال تھی ( الاصابہ) یہ علی الزینبی رضی اللہ عنہ،، رومی کافروں کے خلاف دادِ شجاعت دیتے ھوئے عمر فاروقؓ کے دور میں 15 ھجری میں جنگِ یرموک میں 22 سال کی عمر میں شہید ھوئے،،یوں نبی پاکﷺ کے نواسوں میں کافروں کے خلاف لڑ کر تاجِ شہادت اپنے سر پر رکھنے والے یہ پہلے اور سب سے بڑے نواسے تھے ! مگر ستم ظریفی یہ ھے کہ ھمارے واعظ حضرات ھی نبیﷺ کے کسی تیسرے نواسے اور اس کی شہادت سے واقف نہیں،، یہ ھے میڈیا کا کمال

آج ھوں میں جو کچھ بھی،یہ آپ کی عنایت ھے ! اپنے محبوب ابا جی کے نام !

آج ھوں میں جو کچھ بھی،یہ آپ کی عنایت ھے ! اپنے محبوب ابا جی کے نام !

November 6, 2013 at 9:03pm

اولاد کو برباد کرنا!

انہیں پل پل زخم دینا!

ان کی شخصیت کو کچل کچل کر مسخ کرنا !

کھلا پلا کر اپنا دشمن بنانا کوئی والدین سے سیکھے

 

ان میں کبھی بھی اعتماد کو پنپنے نہ دینا،بلکہ دوسرے اگر اعتماد کا اظہار کریں تو تعجب کا اظہار کرنا اور اپنی اولاد کے

لطیفے بنا بنا کر انہیں سنانا، ان کی ھر قسم کی صلاحیتوں پر شک کا اظہار کرنا، اگر وہ اچھے نمبر لے آئیں تو حلف لے

 

کر اس بات کا یقین کرنا کہ انہوں نے نقل نہیں کی،، غلطی کسی کی بھی ھو مار اور گالیاں اپنی اولاد کو دینا،، سودا

سلف لائیں تو بار بار شک کا اظہار کرنا کہ پیسے مار تو نہیں لیئے ؟ اور دکاندار سے فون کر کے ایک ایک چیز کا ریٹ

پوچھنا،، دکان پر بھیجنا تو پیسے پورے گن کر دینا،چار آنے زیادہ نہ چلے جائیں،، سکول جائے تو بس کے کرائے کے

پورے پیسے دینا،، یہ گنجائش نہ رکھنا کہ شاید ٹیکسی پہ آنا پڑ جائے،، جو بھی کاپی یا کتاب لینا ،،بچے کی خوب

کلاس لے کر اور اگلا ھفتہ اسی ورد میں گزارنا کہ ھم تیرے اوپر کتنا خرچ کر رھے ھیں، ھمارے والدین یہ کچھ ھم کو

نہیں لے کر دیتے تھے،،بچہ کچھ کھانے کو مانگے تو اسے یاد کرانا کہ اسلامک اسٹڈی کی بک 90 درھم کی لائے

ھیں،،وہ کوئی اچھی ڈش پکانے کا بولے تو پورے سال کی فیس کا بل اس کے آگے رکھ دینا،، وہ کہیں آؤٹنگ میں جانے

کی فرمائش کرے تو اس کی مارکس شیٹ اس کے سامنے رکھ کر اسے پڑھائی پر لیکچر دینا تا کہ آئندہ وہ اس قسم کے

شوق سے توبہ کر لے،عین جس وقت وہ کارٹون دیکھنے کو ریموٹ پکڑے یا کھیل کے لئے بیٹ اٹھائے تو اس سے سوال

کرنا کہ کیا قرآن پڑھا تھا؟ وہ وضو کرے تو اس کے ھاتھ پاؤں کو بار بار ھاتھ لگا کر چیک کرنا،، گیلے ثابت ھو جائیں تو پھر

بھی کہنا کہ کمال ھے ابھی ابھی تو تم غسل خانے میں گئے تھے،ھمارے زمانے مین اتنا جلدی وضو تو نہیں ھوتا

تھا،،اس کے برعکس جب غسل کے لئے جائے تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دروازہ بجا کر پوچھتے رھنا کہ کیا کر رھے ھو؟

نہانے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی؟ اور جب نماز پڑھ کے آئے تو یقین نہ کرنا اور اس سے پوچھنا مولوی صاحب نے

کونسی سورت پہلی رکعت میں پڑھی تھی،،پھر اس کے دوست کو فون کر کے تصدیق کرنا یا پوچھنا کہ تیرے دائیں طرف

کون تھا اور بائین طرف کون تھا،،پھر اس کے باپ سے تصدیق کرنا،، پیرینٹس ٹیچرز میٹنگ پہ جانا ھی اس نیت سے کہ

بچے کی برائیاں کر کے اسے ٹیچر کی نگاھوں سے بھی گرانا ھے ، مولوی صاحب کو ختم شریف پہ بلانا تو سارا وقت

اولاد کی برائیاں بیان کرتے رھنا اور کہنا کہ یہ نماز پڑھنے جائے تو اس پر خصوصی نظر رکھا کریں یا کوئی تعویز دیں جو

اس کو انسان کا بچہ بنا دے یوں بچے کو امام مسجد کی نظروں سے بھی گرا دینا،،اس کے سامنے دوسروں کے بچوں

کی ھر وقت تعریف کرنا اور ان کی ماؤں کی بیان کردہ خوبیاں اپنے بچوں کے سامنے بیان کر کے انہیں لعن طعن کرنا

حالانکہ وہ بچے اچھی طرح جانتے ھیں کہ ممدوح بچے کیا گُل کھلاتے پھرتے ھیں،، شوھر کو ھر وقت ٹوکتے رھنا کہ تم

بچے پر سختی نہیں کرتے ھو، اسے تھپکی دے کر اولاد پر پھینکنا کہ مرد بنو مرد،، باپ بن کے دکھاؤ،،بچہ فیس بک پر

بیٹھے تو تھوڑی تھوڑی دیر بعد سلام پھیرنے کے انداز مین نظر ڈال لینا، کہیں شادی کا کہہ دے تو تمسخر اڑانا اور دنبی

 

میں دانا پڑنے کی بشارت سنانا ،، سہیلیوں کو فون کر کے بتانا کہ اس کا بیٹا” وہٹی "مانگتا ھے- جاب کی تلاش مین

 

دھکے کھا کر آئے تو اسے دیکھتے ھی کہنا” کھا آئے او” مجھے پہلے ھی پتہ تھا،، یا کہنا دوستوں کے ساتھ ھوٹلوں

میں بیٹھ کر گپیں لگا کر آ جاتے ھو ،تم کام ڈھونڈتے کب ھو،، کڑیاں پچھے پھر کے آ جاتے ھو،، شادی مین کوشش کرنا

 

کہ لڑکا اپنی پسند کی لڑکی سے شادی نہ کرنے پائے بلکہ کسی ایسے رشتہ دار کی بیٹی سے شادی کرے جس نے

زندگی مین آپ پر احسان کیا تھا، تاکہ اسے بَلی کا بکرا بنایا جا سکے،، شادی کے بعد پہلی صبح کو دلہن کے کمرے

 

کے بعد اپنی برادری کی عورتوں کو لے کر گِــــــــدھــــــــــــوں کی طرح جھرمٹ لگا کر بیٹھ جانا تا کہ لڑکی کی عصمت کا

حساب کتاب ان خرانٹ عورتوں پر مشتمل جیـــــــــــــــــــــــــوری میں پیش کر کے نشانِ حیدر لیا جائے،، دو چار ماہ اولاد

کا سلسلہ نہ چلے تو ،،بار بار بچے کو اکیلے میں امان جی کا مشکوک انداز میں پوچھنا” منڈیا تو ٹھیک تو ھے ناں ؟

،

اور پھر تعویز دھاگے اور پیر بابے کے چکر،، پھر ھم بریکنگ نیوز سنتے ھیں،، پنڈی چھاونی میں حاضر سروس کیپٹن بیٹے

 

نے اپنے ریٹائرڈ برگیڈیئر والد ،والدہ اور تین بہنوں سمیت پورے خاندان کو رشتے کے تنازعے میں قتل کر دیا،، کل ماں اور

باپ کو قتل کرنے والا بیٹا اورنگی ٹاؤن مین گرفتار ! لوگ والدین کو کیوں مارتے ھیں ؟ اس لئے کہ وہ خود چلتی پھرتی

لاش ھوتے ھیں !! فــاعتبروا یا اولو الابصار،،اھل بصیرت عبرت پکڑو

!

یہ وہ ساری شکایات ھیں جو والدین یا بچوں کے ذریعے مجھ تک پہنچیں اور میں نے دونوں فریقوں کو یہ سمجھایا کہ اولاد کو اس طرح رسوا نہیں کرتے اور دوسری طرف اولاد کی سمجھایا کہ اگرچہ ان کے طریقہ کار میں خامی ھو مگر ان سے بڑھ کر تمہارا ھمدرد کوئی ھے نہ ملے گا، یہ تمہارے وجود کا حصہ ھیں اور تم ان کی ایکسٹینشن ھو،، وہ تمہیں اپنا آپ سمجھ کر اس طرح کا سلوک کرتے ھیں،،وہ جس طرح خود ھونا چاھتے ھیں تمہیں ویسا بنانے کی کوشش کر رھے ھیں یہ الگ بات ھے کہ وہ عمر کے فرق کو بھول گئے ھیں، اولاد نے وقتی طور پہ اگرچہ میری نصیحت کا برا بھی منایا مگر پھر وقت آیا کہ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ میری بات ھی ٹھیک تھی،جبکہ ان کو بھڑکانے والے انہیں دھوکا دے رھے تھے-

خود میری تربیت الحمد للہ والد صاحب نے اس طرح کی کہ مجھے محسوس ھی نہیں ھونے دیا کہ مجھے کوئی حکم دیا جا رھا ھے،زندگی بھر انہوں نے جب کوئی کام کروانا چاھا مجھ سے مشورے کے انداز میں پوچھا اور مجھے پتہ چل گیا کہ وہ کیا چاھتے ھیں،دین میں جبر نام کی کوئی چیز میں نے ان کی طرف سے محسوس نہیں کی،انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کو اور مجھ کو حکم دینے والی ایک ھی ھستی ھے اور ھم دونوں کو اس کے حکم پر برابر چلنا ھے اور اس چلنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ھے،اگر کہیں کوئی کوتاھی ھوئی ھے تو انہوں نے مجھ سے پہلے آگے بڑھ کر اسے عمر کا تقاضہ سمجھا اور بغیر معافی مانگے معاف کیا ھے اور بغیر نصیحت کیئے اپنے حسن سلوک سے نصیحت کر دی ھے،ان کے چہرے کی ایک ایک سلوٹ سے میں آگاہ تھا،ان کی ناراضی کو ان کے چہرے کی سلوٹ میں پڑ لیتا تھا اور درستگی پر اسی سلوٹ میں خوشی کا سورج طلوع ھوتے بھی دیکھتا تھا،مجھے اچھی طرح یاد ھے جب انہیں پتہ چلا کہ ھم بھائی فرضوں اور سنتوں کے بعد مسجد سے نکل جاتے ھیں اور تراویح نہیں پڑھتے بلکہ پاس کے ھوٹل کے باھر لگے ٹی وی پر ریسلنگ دیکھتے رھتے ھیں اور جب  وتر کی باری آتی ھے تو فوراً مسجد پہنچ کر شریک ھو جاتے ھیں تو بجائے ڈانٹنے کے جب انہوں نے قہقہ مار کر والدہ کو ھم بھائیوں کا یہ کارنامہ بتایا اور فرمایا کہ چھوٹے بھوت بڑے بھوتوں کو ٹھگتے رھے ھیں،،پھر فرمایا دیکھو مسجد سے نکل کر دوبارہ مسجد میں آنا بڑے کمال کی بات ھوتی ھے،اس کھیل میں بھی یہ کان اور دھیان اس بات پر رکھتے تھے کہ کب تراویح ختم ھوئی ھے اور وتر کھڑے ھوئے ھیں،، بس ان کا یہ فرمانا ھی ھماری اصلاح تھی، پھر زندگی میں کبھی ھم سے ایسی خطا نہیں ھوئی، آج جو اعتماد آپ کو مجھ میں نظر آتا ھے یہ اللہ کا فضل اور میرے والد کا مجھ پر احسان ھے کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کی حد کر دی ،ان کے نزدیک حنیف سب علماء سے زیادہ جانتا تھا اور حنیف کا کہا اخری ھوتا تھا، اسی اعتماد پر میں نے اپنی اولاد کی تربیت کی ھے،، میں نے کل جب وہ یونیورسٹی چلے جائیں گے تو بھی ان کے کہے پر اعتبار کرنا تھا،اس اعتبار کی ابتدا میں نے گھر سے کر دی تھی، یہ اعتبار کی مار بھی بڑی کارآمد ھوتی ھے،میں دسویں کلاس میں تھا،ظہر کی نماز کے بعد میں ھیڈ ماسٹر صاحب کے پاس گیا چھٹی لینے کے لئے جو صحن میں ھمارے اردو کے استاد ماسٹر نواز صاحب آف آدڑہ کے ساتھ ٹہل رھے تھے،میں نے کہا کہ  سر مجھے بخار ھے گھر جانا ھے،ماسٹر نواز صاحب نے ھیڈ ماسٹر سے کہا کہ یہ لڑکا ماشاء اللہ بہت لائق اور نمازی پرھیز گار ھے،بہانہ نہیں کرتا،ان کی اس بات پر ھیڈ ماسٹر صاحب نے چھٹی دے دی،مگر اس چھٹی کی خوشی ختم ھو کر رہ گئی ،ایک آدمی مجھے کتنا نیک سمجھتا ھے اور میں نے بہانہ کر کے اس کے اعتماد کو دھوکا دیا ھے،، اس کے بعد مین نے کبھی یہ حرکت نہیں کی اور زندگی بھر ان کے اعتماد و اعتبارکو یاد رکھا،بعد مین میں نے انہیں یہ بات بتائی جب میں ابوظہبی سے واپس چھٹی گیا تو انہوں نے ھنس کر کہا کہ یہ اعتراف بھی آپ کی نیک شرست کی نشانی ھے، آپ اولاد پر اعتماد کرتے ھیں تو وہ کوشش کرتے ھیں کہ اس اعتماد کو ٹھیس نہ لگنے دیں،، آپ ان کی تعریف کرتے ھیں تو وہ کوشش کرتے ھیں کہ آپ تعریف کر کے شرمندہ نہ ھوں،،آپ ان کے پاس نہیں ھوتے مگر آپ کا اعتماد ان کے ساتھ ھوتا ھے ،اسی اعتماد کی رشتے میں آپ بندھے ھوتے ھیں،، شک ھمیشہ تباھی مچاتا ھے ،جس کے دل میں پیدا ھوتا ھے اس میں بھی اور جس کے بارے میں پیدا ھوتا ھے اس میں بھی ،اس سے کبھی بھی خیر برآمد نہیں ھوتا، میں نے بالکل اسی اعتماد پر اولاد کو پالا ھے، انہیں اجازت ھے کہ وہ جس موضوع پر چاھئیں مجھ سے ڈسکس کریں،میرا بیٹا قاسم جو حافظِ قران بھی ھے ،عربی مادری زبان کی طرح بولتا ،لکھتا اور پڑھتا ھے، اس نے بہت سارے معاملات میں میری رائے کو تبدیل کیا ھے،  میں اگر پھر بھی پیدا ھوں تو اسی حیثیت مین پیدا ھونا چاھوں گا ،انہی والدین کے گھر ،اسی اولاد کے والد کی حیثیت سے،، یہ میرےاطمینان کی حد ھے،،

زمانوں کے تقدس کا المیہ !

! superiority copmlex of ages November 8, 2013 at 7:05pm زمانوں کا احساسِ برتری ! انسانوں میں نفسیاتی خلیج کو وسیع کرنے، اور جینیریشن گیپ کی تخلیق میں زمانوں کے تقدس کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ھے ! یہی زمانی تقدس نئی تحقیق و تخلیق میں زھرِ قاتل اور انسان کی ذھنی نشو و نما … Read more

انسان بمقابلہ شیطان اور توبہ کا امتحان

  اس میں کوئی شک نہیں کہ جھگڑا انسان اور شیطان کے درمیان ھے، اللہ پاک نے ھر جگہ شیطان کو انسان کا دشمن کہا ھے اپنا دشمن کہیں نہیں کہا،، یہ اللہ تھا جس نے انسان کو ایک سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان کے وہ سارے سجدے اٹھا کر باھر پھینک دیئے … Read more