شرعی احکامات کی حکمت اور طریقہ کار !

June 18, 2013 at 6:18am

شرعی اصول ھے کہ ” لا عقوبۃ اِلۜا بالتجریم ،ولا تجریم اِلۜا بالنص ” کوئی سزا نہیں دی جا سکتی جب تک کسی کو مجرم ثابت نہ کر دیا جائے،اور کوئ مجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی ایسا قانون نہ بنا دیا جائے جس کے کسی ارٹیکل یا سیکشن کی خلاف ورزی کو جرم کہا جا سکے ھر فرض ،واجب اور مستحب بصیغہ امر ھی دیا جاتا ھے کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو، جس حکم کی خلاف ورزی پر کسی سزا کا تعین نہ کیا جائے وہ حکم کی بجائے نصیحت کہلانے کی زیادہ حقدار ھوتی ھے،،مثلاً یہ سہولت بھی آپ کوبصیغہ حکم ھی دی گئی ھے کہ جمعے کی نماز کے بعد زمین میں بکھر جاؤ اور جا کر اللہ کا فضل ڈھونڈو ،، اب یہ بکھرنا اور روزی تلاش کرنا فرض بھی قرار دیا جا سکتا تھا،، مگر یہ صرف سہولت قرار پایا اور آپ کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ،حکم شرعی الفاظ کو نہیں کہا جاتا بلکہ حکم شرعی ان الفاظ سے مترتب اور متشرح  نتیجے کو کہا جاتا ھے،،علماء میں اختلاف  الفاظ پر نہین بلکہ حکم کی قسم پر رھا ھے کہ یہ حکم فرض ھے یا واجب یا مستحب ؟ پھر اس کو سمجھنے کے لئے اصول بنائے گئے کہ جس حکم کی خلاف ورزی پر دنیاوی سزا رکھی گئی ھے، وہ فرض ھے اور اس کی خلاف ورزی حرام ھے، وغیرہ وغیرہ ،، قرآنی احکامات بھی اسی اصول کی بنیاد پر تقسیم کیئے جاتے ھیں،،ایک وہ احکامتِ ربانی جن کی خلاف ورزی پر کوئی نہ کوئی دنیاوی سزا متعین کر دی گئی ھے،، اور جب آپ ایک دفعہ قانون کے تحت جرائم اور سزا کی کوڈیفیکیشن کر دیتے ھیں تو اب آپ اپنی مرضی سے اسے نہیں چھیڑ سکتے کہ جب چاھا جو چاھا سزا دے دی ،،بلکہ سزا بدلنے کے لئے جرم کی دفعہ بدلنی پڑے گی ! شراب نوشی کی دفعہ کے تحت زیادہ سے زیادہ 40 کوڑے مارے جا سکتے ھیں ،، مگر اھلِ عراق اس بلا کے شراب نوش تھے کہ یہ سزا ان کے لئے کوئی اھمیت نہیں رکھتی تھی ، شراب نوشی کے واقعات کی کثرت پر گورنر نے کیس دارالخلافۃ ،یعنی مدینے بھیج دیا،، عمر فاروقؓ نے شوری بلائی اور پوچھا کہ کیا شراب نوشی پر سزا کو بڑھایا جا سکتا ھے،، جواب ملا کہ یہ نص ھے اس میں تبدیلی ممكن نهين ، البتہ حضرت علی ؓ نے تجویز پیش کی کہ شرابی جب شراب بیتا ھے تو جھوٹ بھی بولتا ھے تو کیوں نہ اس پر جھوٹ کی دفعہ لگائی جائے اور قذف کی سزا کا اطلاق کیا جائے،،سب کا اس پر اتفاق ھو گیا،یوں شراب نوشی پر قذف کی دفعہ لگا کر سزا کو 80 کوڑے کر دیا گیا،، آج کل شراب نوشی پہ 80 کوڑوں کی سزا شراب نوشی کی دفعہ نہیں بلکہ قذف کی دفعہ کے تحت دی جارھی ھے، اسی طرح قرآن میں زانی کی سزا 100 کوڑے ھی ھے اور دفعہ تبدیل کئے بغیر اس سزا کو نہیں چھیڑا جا سکتا مگر نبی کریمﷺ نے اپنے اختیار کو استعمال فرماتے ھوئے فساد فی الارض کیدفعہ کے تحت رجم فرمایا ھے اور پھر اس مین شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کی تحقیق اسی وجہ سے نہیں کی کیونکہ دفعہ تبدیل ھونے کے بعد اس کی ساری شرائط تبدیل ھو گئی تھیں  !جب کہ احکامات کی ایک قسم وہ ھے جن کی خلاف ورزی ایک غیر اخلاقی حرکت تو ھے مگر ان کی کوئی دنیاوی سزا مقرر نہیں ھے،، مثلاً سورہ الحجرات کے اخلاقی احکامات،مرد مردوں کا اور عورتیں عورتوں کا تمسخر نہ اڑائیں،، ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کریں،،برے لقب نہ رکھیں،، ایک دوسرے کے اعمال و افعال کی جاسوسی نہ کریں، سوء ظن سے کام نہ لیں اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کریں،، ان میں سے انسان اگر کسی کا ارتکاب کر لے،جو کہ ھم بدقسمتی سے روزانہ کی بنیاد پر کرتے ھیں،،تو اس ارتکاب کی سزا کوئی نہیں رکھی گئی، آپ کسی کی کھوج کرید کریں،، کسی کو گنجا کہیں،یا غیبت کریں تو ان افعال کو اخلاقی کمزوری تو کہا جائے گا ،مگر جرم نہیں کہلائے گا،کیونکہ جرم عقوبت کو سزاوار ھے،، اور ان کی عقوبت کوئی نہیں،، تکبر بری چیز ھے مگر اس کی سزا کوئی نہیں کہ پولیس آ کر اپ کا دروازہ کھٹکھٹائے کہ باھر نکلو تمہارے بارے میں رپورٹ ملی ھے کہ آج تم اکڑ کر چلے ھو اور تمہارا تہہ بند بھی ٹخنوں سے نیچے تھا،، گویا یہ ایک اخلاقی کمزوری ھے،، پولیس کے دائرہ اختیار میں آنے والے امور میں سے نہیں،، جن جرائم پر سزا ھے وہ قانون کے تحت آتے ھیں اور جن پر سزا نہیں ھے اور پولیس اس پر ایکشن نہیں لے سکتی ان احکامات کو آداب میں شمار کیا جاتاھے ! جن اخلاقی کمزوریوں پر دنیاوی سزا کا اطلاق نہیں کیا گیا، ان کی آخرت کی عقوبت بہت سخت رکھی گئی ھے،،اور یہ معاملے کو بیلنس کر دیتی ھے ،،لوگ خوفِ آخرت سے ان کو ترک کردیں،اسی حکمت کے مدِنظر بعض معمولی سمجھے جانے والی اخلاقی کمزوریوں پر حیران کن حد تک سخت سزا رکھی گئی ھے،، مثلاً ایک غیبت 36 زنا سے بھی زیادہ بدتر اور مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ھے،، سود کا ایک درھم، ماں سے بدکاری کے برابر ،، چغل خور جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا،، متکبرین کو چیونٹیوں کی شکل مین پیدا کیا جائے گا اور وہ لوگوں کے پاؤں کے نیچے کچلے جائیں گے،، وغیرہ وغیرہ،، اگر پردے کے احکامات اخلاقی ھدایات نہیں ھیں تو ان کی خلاف ورزی پر کیا سزا رکھی گئی ھے ؟ اگر ایک عورت ان احکامات پر عمل نہیں کرتی تو اس کو دورِ نبویﷺ یا خلفاء راشدین کے زمانے میں کیا سزا دی گئی ،جبکہ خواتین کا بے پردہ نبیﷺ کے سامنے آنا ثابت ھے؟؟الٹا لونڈی پر یہ سختی کی گئی کہ وہ نماز میں بھی سر نہیں ڈھانپے گی،اور نہ بازار میں پردہ کر کے یا چادر لے کے چلے گی،،تا کہ آزاد عورت اور لونڈی کا فرق واضح رھے،، حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک عورت کو پردہ کر کے جاتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ
کون ھے؟ جواب دیا گیا کہ یہ ام سلمیؓ ام المؤمنین کی لونڈی ھے،تو آپؓ نے اس کو ڈانٹ کر سرِ بازار اس کا پردہ اتروایا اور کہا کہ اگر ام المومنیؓن کا احترام ملحوظِ خاطر نہ ھوتا تو میں تمہیں سزا دیتا، اور پھر آپؓ نے ام المومنین کو پیغام بھیج کر استدعا کی کہ اپنی لونڈیوں کو پردے سے روکیں ورنہ وہ ان کے لئے سزا مقرر کر دیں گے،، گویا کسی زمانے میں آزاد عورت اور لونڈی میں فرق کا پیمانہ جسے کوئی بازار میں بھی چیک کر سکتا تھا صرف پردہ ھی تھا،، آج کل تھیوری کے لحاظ سے ماشاء اللہ ساری آزاد ھیں،لونڈی کا وجود ختم ھو چکا ھے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ان احکامات کی اھمیت کوئی نہیں،  بلکہ ان کی خلاف ورزی پر اخرت کی سزا مستلزم ھے،، جس کا ڈراوہ باقاعدہ قرآن میں دیا گیا ھے ،،مگر چونکہ اس میں خطاب نبیﷺ کی بیویوں کو کیا گیا ھے لہٰذا اب دوسرا مغالطہ شروع ھوا کہ یہ احکامات صرف نبیﷺ کی بیویوں کو جاری ھوئے تھے ! اس مغالطے کی وجہ ایک دوسرا مغالطہ ھے،،اور وہ اللہ پاک کا طرزِ کلام نہ سمجھنا ھے !(جبکہ سورہ نور کے احکامات تو مومنات کا ذکر کر کے دیئے گئے ھیں) اللہ پاک جب کسی کو اسوہ قرار دیتا ھے تو پھربعض دفعہ اسی کو احکامات کا مخاطب بناتا ھے، جب سورہ بنی اسرائیل میں اللہ پاک نے اپنے احکامات کا رخ نبیﷺ کی طرف کیا تھا تو وہ اسی اصول کی بنیاد پر تھا، مثلاً سنگل صیغہ استعمال کرتے ھوئے اللہ پاک نے نبی کریمﷺ کو فرمایا کہ تیرا رب فیصلہ کر چکا ھے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو،، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو تم ان کو نہ تو اف کہو اور نہ ان کو جھڑکو،اور ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرو،، اب اس میں براہ راست نبیﷺ کو یوں مخاطب بنایا ھوا ھے،جیسے نبی کریمﷺ کے والدین ان کے پاس گھر میں بیٹھے ھوئے ھیں حالانکہ سب کو پتہ ھے کہ نبیﷺ کے والدین تو فوت ھو چکے تھے،، بالکل اسی اصول پر نبیﷺ کو قرآن میں بعض جگہ جو استغفار کے لئے کہا گیا ھے تو آپ کو بطور اسوہ خطاب کرتے ھوئے،امت کو حکم دیا  گیا ھے،، یہ ھی اسلوب پردے کے احکامت میں بھی نبیﷺ کی بیویوں کو مخاطب کر کے امت کی عورتوں کو احکامات دیئے گئے ھیں،، اب عورتیں اپنے اپنے احوال کے مطابق اللہ کے یہاں جواب دہ ھیں،، جو مجبوری کے عالم میں مکمل عمل نہیں کر پاتیں،اللہ پاک رحیم کریم ھے ،مگر بہرحال چہرے ،ھاتھوں کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے ننگا رکھنے پر دور نبوی سے لے کر تا ایں دم کہیں بھی کسی سزا کا تعین یا اطلاق نہیں کیا گیا، جو پردے کے استحباب کو مستلزم ھے ! واللہ اعلم بالصواب  

کبھی میکدے سے گزرے،کبھی ھم حرم سے گزرے !

June 10, 2013 at 8:35am

    اب یہ کہنا کہ اختلافی باتیں چھوڑیں اور اتحادی باتیں پکڑیں تو جناب جو قومیں وحی کو چھوڑ کر لغویات میں کھو جاتی ھیں وہ اتفاق اور اتحاد سے سزا کے طور پر محروم کر دی جاتی ھیں،، ھم نے مدارس سے لے کر روزمرہ زندگی کے عملی معاملات تک تو مقام وحئ الہی کو دیا ھے ٹھیک وھی مقام اللہ کی نگاہ میں ھمارا ھے ،، ھم نے بھی کتاب اللہ کو صرف پڑھنے تک محدود کر دیا اور ثواب کمانے تک محدود کر دیا ،، اور ساری دلچسپیاں دیگر مشاغل کو دے دیں،،جس طرح یہود نے کیا تھا،، نتیجہ یہ ھے کہ تلمود تو محفوظ ھے،، تورات ندارد ،، ھمارے علماء ولا تکونوا کالتی نقضت غزلہا من بعد قوۃ انکاثا ،،کا مصداق بن گئے،، علوم ظاھری سے فراغت کے بعد جو کہ اصلاً نبوی امانت تھی پھر اس امانت کا بیڑہ غرق کرنے اور محنت سے کاتے گئے سُوت کو اپنے ھاتھوں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے علوم باطنیہ کی طرف متوجہ ھوتے ھیں،،اور پھر ان حجروں مین ڈاکٹر ھائیڈ اینڈ جیکل تیار ھوتے ھیں،، ایک عالم منبر پر ھمیں بتاتا ھے کہ سب کچھ اللہ کی مرضی سے ھوتا ھے،کوئی کچھ نہیں کر سکتا،،وہ جس کا نام محمد ھےکسیچیزپرتصرفنہیںرکھتا،اللہپاکنےقرآنمیںدو جگہ صاف صاف فرما دیا ھے کہ و ان یمسسک اللہ بضرٍ فلا کاشفَ لہ الۜا ھو ، اور یہ کہ نبی نےیہودیوں کے سوال کے جواب مین ان شاء اللہ کہے بغیر کہہ دیا کہ کل جواب دوں گا پھر وہ کل لگ بھگ ایک ماہ تک محیط ھو گئی،آسمان سے وحی رک گئی،،اور جب شروع ھوئی تو پہلی اصولی بات کہی گئی کہ ” ولا تقولن لشئٍ انی فاعل غداً الا ان یشاء اللہ،،آئندہ خبردار کسی چیز کے بارے میں ان شاء اللہ کہے بغیر یہ کبھی مت کہنا کہ میں یہ کل کر دوں گا،،، یہ ھی عالم جب خود کانگرس کے جلسے میں شریک ھوتا ھے،تو ایک نئی ھی داستان رقم کرتا ھے ،، ساون کا مہینہ ھے بادل گر گر کر آ رھے ھیں اور کانگرس پریشان ھے کہ بارش کی صورت میں جلسہ درھم برھم ھو جائے گا،،اسی سراسیمگی کی حالت میں ایک بکھرے بالوں والا درویش نما ادمی کہیں سے نمودار ھوتا ھے،،اور کہتا ھے،، ۔۔۔۔۔  سے کہہ دو کہ اس علاقے کا ذمہ دار ( قطب ) میں ھوں اگر بارش روکنی ھے تو بات کرے ! مرید خیمے کے اندر گیا،،جناب مدنی صاحب کروٹ کے بل ھاتھ گال کے نیچے ٹیکے لیٹے تھے ،، مرید نے درویش کی بات بیان کی ،، ۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب جو خود قطبِ دوراں تھے، جلال میں آ گئے اسی حالت مین لیٹے لیٹے ایک خاص کیفیت میں مرید سے فرمایا،، جاؤ اسے بتا دو بارش نہیں ھو گی ، اور بارش نہ ھوئی ،، خدا را بتائیے کیا یہ دو دیوتاؤں کی لڑائی نہیں تھی ؟ اس میں کہیں اللہ نظر آیا ھے،، نبی انشاءاللہنہکہےتواللہنبیکیباتپوری نہ ھونے دے ،،اور حسین احمد ایک خاص کیفیت میں ان شاء اللہ کہے بغیر کہہ دے کہ جا اؤؤؤؤؤئے بارش نہیں ھو گی،،اور اللہ بارش روک لے ؟؟ یہ ایک قطب کی بات نہیں، ھمارا ھر بزرگ دیوتاؤں کی سی شکتیاں رکھتا ھے۔۔،، یہ منبر پر بتاتے ھیں کہ بارش نہ ھو تو نبینمازاستسقاءپڑھاکرتےتھے،،مگرخودیہ اپنی سوانح عمریوں میں لکھتے ھیں کہ ھمارے فلاں صاحب تو اس قدر صاحب تصرف تھے کہ پیسوں سے بارش بیچا کرتے تھے،،یعنی اتنے پیسے لنگر میں جمع کرا دو ،،اور کل اتنے بجے بارش ھو جائے گی،، خدایا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں ؟ کہ درویشی بھی عیاری ھے سلطانی بھی عیاری ! قران اور حدیث والی توحید عوام کی توحید ھے ،ان خواص کی توحید بھی کچھ اور ھی ھے ! اور خاص الخواص کی توحید تو اللہ کی پناہ ! یہ جبرائیل کی شراکت پسند نہیں کرتے اور اسے شرک گردانتے ھیں،، ابنِ عربی جس کا فرمایا ھمارے صوفی علماء کے لئے حق الیقین ھوتا ھے ،لکھتا ھے ” ھم نبی اور نبوت کو اعزازاً اور احتراماً مانتے ھیں کیونکہ ھمیں اس کا حکم دیا گیا ھے ،، ورنہ ھم نبی کے محتاج نہیں،،ھم براہ راست احکامات وھاں سے لیتے ھیں جہاں سے جبریل لیتا ھے ” ان کی نگاھیں ھر وقت لوح محفوظ پر رھتی ھیں اور یہ تقدیروں کے بدلنے پر قدرت رکھتے ھیں،، اگر سورہ انبیاء نبیوں کی بے بسی کی داستان سناتی ھے ،،ان کا بلک بلک کر رب سے مانگنا،،کانوا یدعوننا،،وہ ھمیں سے مانگ مانگ کے لئے لیا کرتے تھے،چاھے اولاد ھو یا صحت،، نجات ھو یا ھدایت ،، تو گھبرائیں نہیں ،،اسی لئے تو ولایت نبوت سے افضل ھوتی ھے، کیونکہ نبی کا رخ مخلوق کی طرف اور ولی کا رخ اللہ کی طرف ھوتا ھے،، یہ ھے ھندوستان کا اسلام ( اسلام کا ھندی سروپ ) اور یہ ھیں ھمارے علماء ،،جن کے قول و فعل کا تضاد روزِ روشن کی طرح عیاں ھے،، ان کا منبر کا قول کچھ اور ھے ،، حجروں کا فعل کچھ اور ھے ! انسان جب چلہ کشی کے نتیجے میں آوازیں سنتا اور صورتیں دیکھتا ھے( تنہائی میں جب چلہ کشی کی جاتی ھے تو انسانی ذھن یکسانی سے اکتا کر اپنی دلچسپی کے لئے تصویریں اور آوازیں تخلیق کرتا ھے،، جنہیں سن کر اور دیکھ کر ان کو اپنے تصوف کے حق ھونے کا علم الیقین حاصل ھو جاتا ھے، پھر قرآن ان کا کچھ نہیں بگاڑتا،ظاھر ھے انکھوں دیکھے کو کون جھٹلا سکتا ھے؟ اس لئے یہ دلیل سے زیادہ کہتے ھیں کہ کر کے دیکھو،، اور پھر اپ بھی اسی راہ سے گزر کر علم الیقین پا لیتے ھو ! مین نے پہلا چلہ تقریبا ً ساڑھے نو یا دس سال کی عمر میں کیا تھا اور پھر اس تصوف کی دنیا کا ھر پتھر الٹ کر رکھ دیا،، کبھی میکدے سے گزرے،کبھی ھم حرم سے گزرے،،تیرے در پہ پہنچنے تک بڑے پیچ و خم سے گزرے،،،، مگر مجھے پتہ ھے یہ انسان کی نفسانی قوتوں کا کھیل ھے ،،اس کا دین کے ساتھ نہیں ریاضت کے ساتھ تعلق ھے،،اور یہ ھر مذھب والا اور بے مذھب حاصل کر سکتا ھے،، جس طرح کرکٹ کا تعلق محنت اور پریکٹس کے ساتھ ھے، مذھب کے ساتھ نہیں،،اسی طرح اس یوگا کا تعلق بھی پریکٹس کے ساتھ ھے مذھب کے ساتھ نہیں ،،مگر یہ بات جتنی آسانی سے آج سائنسی طور پر ثابت کی جاسکتی ھے،،گزرے کل تک اسے اس طرح ثابت کرنا ممکن نہ تھا لوگ اسے اپنی کرامت سمجھتے رھے اور ایمان ضائع کرتے رھے،، اس یوگا یا تصوف کی ایک ایک مشق اور اس کے اثرات کی سائنسی توجیہہ کی جا سکتی ھے،،حبسِ دم سے لے کر تسبیح یا مالا تک،،کہ ان کا سائنٹیفک آوٹ پٹ کیا ھے،، ( ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا ،، آمین یا رب العالمین) 

ھمارے دیہات اور ھم !

July 30, 2013 at 6:49am

لیڈیز اینڈ جنٹلمین ! جس شخص نے دیہاتی زندگی کا مزہ نہیں چکھا،سمجھ لیں کہ وہ آدھا پیدا ھوا ھے اور اس زندگی کے متعلق اس کا علم بھی آدھا ھے اور زندگی کی طرف اس کا رویہ بھی لولا لنگڑا اور پولیو زدہ ھے، دیہات کی زندگی اپنے اندر سارے رنگ رکھتی ھے ،دیہاتی زندگی کی اصلیت کی اس سے بڑھ کر دلیل کیا ھو گی پرانے زمانے میں شہروں میں کوئی بھی پیدا نہیں ھوتا تھا،بلکہ لوگ دیہات میں پیدا ھو کر شہر میں جاتے تھے اور شہر بناتے تھے، اللہ پاک نے اپنے دین کے لئے بھی بڑے بڑے ترقی یافتہ شہر چھوڑ کر ایک دیہاتی بستی کو منتخب فرمایا،، دیہات کے لوگ بڑے کھرے ھوتے ھیں،” جب پیار کیا تو پیار کیا،جب نفرت کی تو سروس کی ” دیہات کا ھی مقولہ ھے، وھاں دل میں رکھنے کا رواج ھی نہیں فوراً سر بازار بھڑاس نکال لی جاتی ھے،جس کا فوری فائدہ تو یہ ھوتا ھے کہ دل پر بوجھ نہین رھتا جسکی وجہ سے دیہات کے لوگ صحتمند ھوتے ھیں،دوسرا فائدہ طویل الامد ھوتا ھے کہ سند بڑی آسانی سے مل جاتی ھے کہ کس کے ساتھ کیا ھوا تھا اور کب ھوا تھا! بدنام ِ زمانہ چینل جیو شپروں میں تو بہت بعد میں آیا ھے،جبکہ دیہات میں یہ بہت پرانا ھے،دیہاتی جیـــو نیوز کی نشریات میں لؤڈ شیڈنگ کبھی مخل نہیں ھوتی، بلکہ ایک صاحب کی چڑیا کی خبر کے مطابق تو یہ بجلی دریافت ھونے سے بھی پہلے کی ایجاد ھے ! دروغ بر گردنِ راوی اتنی گواھی تو ھم بھی دیتے ھیں کہ ھمارے گاؤں میں بجلی 1980 کی دھائی میں آئی ھے،مگر ھم اس دیہاتی چینل کی نشریات 1960 کی دھائی سے سنتے آ رھے ھیں،، بلکہ وہ نشریات تو اتنی ھمہ جہتی اور ذو معنی ھوتی تھیں کہ ھم آج تک ان کاترجمہ اور تشریح کرنے کا حق ادا نہیں کر پا رھے ! دیہات میں ھر فرار ھونے والی لڑکی ماں کو بتائے یا نہ بتائے ،مگر باقی پورے گاؤں کی شادی زدہ یا کنواری لڑکیوں کو ضرور اپنی کہانی بتا کر جاتی ھے، جس سے لڑکی کی ماں کا متفق ھونا اسی طرح ضروری نہیں جسطرح ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں ھوتا،، بلکہ بعض خواتین تو لڑکی کی ماں کو لعن طعن بھی کرتی ھیں کہ تم کسی ماں ھو کہ تمہاری بیٹی ھمارے ساتھ دکھ سکھ بانٹتی پھرتی تھی اور تمہیں خبر تک نہیں ! جانے سے پہلے وہ رستے میں ملنے والی ھر لڑکی کو سوزوکی میں سے ھاتھ نکال کے سلام بھی کر کے جاتی ھے،، بلکہ جو لڑکی رستے میں نہ ھو وہ اس سلام کو مدرسے میں بھی وصول کر لیتی ھے ،جسطرح اسلام آباد اسٹوڈیو سے شیخ رشید ،لقمان مبشر کو جوائن کرتا ھے،، کسی حادثے میں مرنے والا چاھے وہ ٹریکٹر کے نیچے آ کر شہید ھو یا عشق میں ناکامی پر گولیاں کھا لے یا ڈوب کر مرے،، مرنے سے ایک دن پہلے بلکہ ایک گھنٹہ پہلے گاؤں کے سارے کنوارے اور شادی زدہ بوڑھے،سب سے ضرور ملتا ھے،یا کم از کم سب کا دعوی یہ ھی ھوتا ھے،اور ان سب کو اپنی کہانی اس شرط پر سناتا ھے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد بیان کی جائے، یہ الگ بات ھے کہ ھر بندے کے پاس اس کہانی کا اپنا ورژن ھوتا ھے اور ھر بندہ اس کو کھرے سچ کے طور پر پیش کرتا ھے ! دیہات کے لوگ بڑے بامروت ھوتے ھیں، ھر کسی کے دکھ درد میں ضرور شریک ھوتے ھیں،اگرچہ اس شراکت کی زیادہ تر دلچسپی خبر بریک کرنے کی نیت سے ھوتی ھے،ایک تعزیتی مجلس میں جسے دیہاتی زبان میں "پُھہڑی ” کہتے ھیں ھمیشہ مرنے والے کی تعریف کی جاتی ھے،بلکہ اس کے وہ وہ کارنامے بیان کیئے جاتےھیں کہ مرحوم کے لواحقین بھی شرما جاتے ھیں،، ایک صاحب فوت ھو گئے، اب ان کو سارا گاؤں جانتا تھا کہ انہوں نے زندگی میں کسی کا بھلا نہ سوچا اور نہ کرنے کی کوشش کی،، ساری پھُہڑی سکتے میں بیٹھی تھی اور پِن ڈراپ سائلینس کا سا سماں تھا کہ ،، نائی کی غیرتِ ایمانی اور مروتِ دیہاتی نے انگڑائی لی،کہنے لگا ھر بندے کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ھے،جتنے منہ اتنی باتیں،کوئی کسی کی زبان تو بند نہیں کر سکتا مگر میں ایک بات جانتا ھوں کہ مرحوم کی شیو بڑی نرم تھی، نرم کیا تھی بلکہ ملائی تھی ملائی،، مجھے تو یوں لگتا تھا مکھن میں استرا مار رھا ھوں،، اب جس کی شیو اتنی نرم تھی اس کے دل کا کوئی اندازہ کر سکتا ھے کہ وہ کتنا نرم ھو گا؟ اور جس کا دل نرم ھوتا ھے اس کی جان بھی بڑی آسانی سے نکلتی ھے ،یعنی عزرائیل کا استرا بھی ملائی کی طرح چل جاتا ھے، نائی کے اس قیاس پر پوری مجلس عش عش کر اٹھی،اور مرحوم کے بیٹے تو احسان مندی میں اسے دور تک رخصت کرنے گئے کہ مبادا رائے کو تبدیل ھی نہ کر لے ! اس کو کہتے ھیں کہ انسان کی سوچ مثبت ھو تو مثبت دلیل بھی مل ھی جاتی ھے ! شہر والوں سے گزارش ھے کہ پہلی فرصت میں قریب ترین دیہہ میں اپنی بکنگ کرا لیں،،کم از کم مرنے کے بعد نیک نامی کا سرٹیفکیٹ تو آسانی سے مل جاتا ھے،، 

بریلویت اور دیوبندیت میں اتفاق کی کوئی صورت ؟

بریلویت اور دیوبندیت میں اتفاق کی کوئی صورت ؟

June 12, 2013 at 3:57pm

بریلویت اور دیوبندیت میں فرق کہاں ھے! الحمدُ للہ و کفی والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین امۜا بعد ! ادارہ اخوان المومنین نے "العطایا النبویۃ ،الفتاوی الرضویۃ ” کی جلدِ دھم کا پہلا نصف پبلش کروایا ھے،،اس کو چھپوانے والے نے اس کے دیباچے میں  لکھا  ھے کہ مروجہ بریلویت بذاتِ خود احمد رضا بریلوی کے فتاوی کے خلاف اور ان کی بدنامی کا باعث ھے،، آج کے بریلوی کو نمونہ بنا کر جو گالی احمد رضا کو دی جاتی ھے وہ ایک ظلم سے کم نہیں ،، ولا تزرُ وازرۃ وزر اخری ” کے قرآنی اصول کے خلاف ھے ! اب ذرا پڑھئے  "کتاب ھذا کے مطالعے سے پہلے احقر باوجود جدی پشتی اھلِ سنت بریلوی ھونے کے” امام احمد رضا خاں بریلوی” سے متنفر ھو گیا ! اس کے ذمہ دار بریلوی بھائی ھی تھے،کیونکہ انہوں نے آپ کا تعارف ھی ایک نعت خوان اور بات بات پر کفر کا فتوی لگانے والے کی حیثیت سے کرایا تھا،، وہ اپنی بدکرداری و بے عملی کے لئے امام احمد رضا کے نام کو بطورِ ڈھال استعمال کرتے رھے تھے- انہوں نے آپ کے اُن ھی خطوط(رسائل) کی اشاعت پر زور دیا جن میں فاتحہ و درود،تیجہ،چالیسواں وغیرہ وسائل کا بیان تھا،جن سے بلا محنت و مشقت ان کی روٹی میں وسعت ھو سکتی تھی – ھمارے واعظ اور پیر حضرات کی علمی و عملی حیثیت بہت کمزور ھے،،وہ بیمارے دین کی دال بھی نہیں جانتے،دوسروں کو کیا سمجھائیں گے ! رسول اللہﷺ اور اولیاء اللہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے پاکیزہ منبر پر سچ سے زیادہ جھوٹ سے کام لیا جاتا ھے، اس بھولی بھالی قوم کو خوب بیوقوف بنا کر عقل و فکر سے عاری کر دیا گیا ھے،، محبانِ رسولﷺ کے پاکیزہ منبر پر وہ واعظ ھی کامیاب ھوتا ھے جو زیادہ جھوٹ بولے،،ٹھٹھہ مذاق کرے۔ ھنستا ھنساتا اور روتا رلاتا ھو ،، ھماری درسگاھوں میں بھی زیادہ اھمیت فنِ تقریر کو دی جاتی ھے،، بلکہ یوں کہیے کہ وہ فنکار اور گلوکار تیار کرنے کے کارخانے بن گئے ھیں ! موجودہ دور میں مقرر کے پاس اردو کی مولانا محمد بشیر کی بارہ تقاریر کا سیٹ۔۔مولانا محمد شریف نوری کی بارہ تقاریر،، مولانا نور محمد صاحب کی مواعظِ رضویہ کا سیٹ اور قاری محمد دین صاحب کا الخطیب کتابیں ھونی چاھئیں،، بس جناب خطیبِ اعظم،، مبلغ اسلام،یعنی صقلِ اسلام تیار ھیں،، یہ گروہ پورے ملک میں پھیلا ھوا ھے،،یہ لوگ اصولِ دین اور فروعِ دین سے نالکل بے پرواہ ھوتے ھیں،، ان کا نظریہ یہ ھے کہ یا رسول اللہ کہنا،،علی علی کرنا، یا غوث الاعظم کے نعرے لگانا ھی عبادت ھے،،یہ گروہ بہت خطرناک ھے ،یہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں ڈیرے جما کر بیٹھ جاتے ھیں ،بھنگ ،چرس،افیون، بلکہ شراب تک پیتے ھیں ان لوگوں کو اگر کوئی ملامت کرے تو فوراً گستاخ رسول اور گستاخِ اولیاء کا واویلا کر کے اور بہتان لگا کر لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکاتے ھیں،،نتیجۃ وہ بے چارہ بھاگنے پر مجبور ھو جاتا ھے یا جان سے ھاتھ دھو بیٹھتا ھے ،،پہلا اور تیسرا گروہ دراصل شیعہ کے زیادہ قریب ھے، ،، مخالفین ان دونوں گروھوں کو بھی بریلوی سمجھتے ھیں اور ان کی خرافات اور بدعات و بدکرداری دیکھ کر کہہ دیتے ھیں کہ بریلوی بدعتی ھیں،،، حالانکہ یہ حضرات بریلوی نہیں کیونکہ بریلوی وہ ھیں جو امام احمد رضا کی تعلیمات پر عمل پیرا ھیں،،اور احمد رضا ردِ بدعات میں دیوبندی اور اھلِ حدیث حضرات سے چند قدم اگے ھیں ! لیکن جب میں نے فتاوی رضویہ کی دسویں جلد کے نصفِ اول کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تو وہ تمام شکوک و شبہات دور ھو گئے جو امام احمد رضا بریلویؒ کے خلاف میرے دل میں تھے،اس کتاب کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ دیوبندیوں اور بریلویوں مین اختلاف صرف چند متنازعہ عبارات کا ھے اس کے علاوہ اس کے علاوہ ان میں کوئی اختلاف نہیں ھے یعنی یہ جو شرک اور توحٰید کا راگ الاپا جاتا ھے،اس میں کوئی حقیقت نہیں ھے، دیوبندی بریلویوں سے بڑھ کر بریلوی اور بریلوی دیوبندیوں سے بڑھ کر دیوبندی ھیں،، دونوں کی فقہ اور امام ایک ھے،، دونوں کے مدارس مین پڑھائی جانے والی کتب ایک ھیں،، دونوں تصوف کے دل دادہ ھیں اور پانچوں سلاسل دونوں مين موجود ھیں،نقشبندیہ،سہر وردیہ،چشتیہ وغیرہ سلاسل میں سب کے بزرگ ایک ھیں،،لطائف اور مشقیں ایک ھیں،، یہانتک کہ جتنے اختیارات دیوبندی قطب اور غوث کے ھیں  وھی اختیارات بریلوی قطب کے ھیں،، بلکہ بریلوی عموماً پرانے قطبوں  اور بزرگوں سے کام چلا رھے ھیں،جبکہ دیوبندیوں کے مدارس میں پڑھانے والا ھر مدرس قطب ھے،مثلاً شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے سارے بیٹے،شیخ الہند، قاسم نانوتویؒ، انور شاہ کاشمیریؒ،احمد علی لاھوریؒ، عبدالقادر رائے پوریؒ،حسین احمد مدنیؒ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ یہ سارے اپنے وقتوں کے قطب تھے،اور ان میں سے بعض جھٹ کسی ڈوبتے جہاز پر کسی کی پکار پر پہنچنے والے ،،بعض مرنے کے بعد کسی مناظرے مین خامشی سے پہنچ کر مناظر کے کانوں میں دلائل پھونکتے تھے اور بعض کسی کے سینے میں پائے جانے والے وسوسوں سے بھی آگاہ ھوتے تھے ( تفصیل دیکھنی ھو تو  حکایاتِ اولیاء کتاب دیکھ لیں،سستی بھی ھے اور ھر اسلامی بک شاپ کی روحِ رواں بھی ھے،اشرف علی تھانوی اس کے مصنف ومؤلف ھیں)،، دونوں فریق مردوں کی قبروں پر چلہ کشی سے استفادہ کرتے ھیں،، دونوں مردہ بزرگوں کے تصرف کے قائل ھیں،، دونوں فریق قطبوں اور غوثوں کے اختیارات کے چارٹ پر مکمل اتفاق رکھتے ھیں ! پھر توحید کیا ھے؟ اور شرک کیا ھے؟ دونوں میں موحد کون ھے
اور کیوں ھے؟؟ شرک اور توحید کا رونا اصل میں اپنے اپنے بزرگوں کی عبارات کا دفاع کرنا ھے،،اپنے بزرگوں کی خاطر نبیﷺ کی امت کو توڑ کر رکھ دیا گیا ھے،، اگر اپنے ان  بزرگوں کی تحریر میں پائی جانی والی سوء تعبیر پر مبنی چند عبارات کو نکال دیں یا کم از کم ان سے اعلانِ برأت کر دیں تو امت کے یہ دونوں دھڑے اتفاق کے ساتھ بہت ساری برائیوں کے خاتمے اور دینِ حنیف کے قیام و استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتے ھیں،، اگر نبی کریم ﷺ کافروں سے امن کے لئے جناب حیدر کرارؓ کے دستِ مبارک سے  سےلکھا محمد رسول اللہ اپنے دستِ مبارک سے کاٹ کر محمد بن عبداللہ کر سکتے   ھیں تو امتِ مسلمہ کے دو عظیم دھڑے اس دین کی خاطر اپنے بزرگوں کی عبارات کو قرآن بنا کر کیوں بیٹھ گئے ھیں؟ ان عبارات کو نکالنے کے لئے ایک ضابطہ بنا لیا  جائے،،، مثلاً

ایسی عبارات جن میں اللہ پاک کی شرعاً یا عرفاً توھین کی گئی ھو !

ایسی عبارت جس میں کسی نبی کی توھین کی گئی ھو !

قران کی کسی آیت کی وہ تشریح جس میں نبی پاکﷺ کی ختمِ نبوت پر کو ئی زد پڑتی ھو ،،

،کسی آیت یا حدیث کی وہ تشریح جس سے اجماع پر زد پڑتی ھو !

ایسی عبارت جو کسی نص صحیح کے خلاف ھو

ایسی عبارت جو فریقین کے کسی بزرگ کی توھین پر مبنی ھو !

ایسی عبارت جس سے کسی ضرورتِ دینی کا انکار لازم اتا ھو !

ایسی عبارات جن میں شعائر اللہ کا مذاق اڑایا گیا ھو!

کسی بزرگ کی ایسی عبارت جس مین ملک وملت کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ھو !

ایسی عبارت جس مین فریقِ مخالف کو گالیاں دی گئی ھوں !

اگر ایسا ھو جائے تو یہ دونوں عظیم دھڑے مل کر شیعہ مجاوروں سے مزاروں کا قبضہ چھڑوا کر 90٪ قباحتوں کا خاتمہ کر سکتے ھیں،،

یہ علماء ھیں یا خدا ؟

June 27, 2013 at 1:20pm

    "این کاؤنٹر” (پیرس ریویو )دوسری جنگِ عظیم کے فوراً بعد دنیا میں کمیونزم کا سب سے بڑا نقیب بن کر طلوع ھوا،آفسٹ پیپر پر جدید ترین پرنٹنگ سسٹم کے تحت شائع ھونے والا یہ رسالہ پیرس کی بندرگاھوں ،ائیرپورٹس، اور ریلوے اسٹیشنز سے نکلتا اور پھر چند ھی روز میں دنیا بھر کے ٹی اسٹالز ، کافی شاپس اور شراب خانوں میں پہنچ جاتا،جہاں نہ صرف اس کی ایک ایک سطر کو الہام کے طور پر پڑھا جاتا، بلکہ ایمان کا درجہ دے کر اس پر فوراً عملدرآمد بھی شروع کر دیا جاتا! یہ سچ ھے کہ اگر ھم مارکسی نظریات،مارکسزم کے پیروکاروں کے حلیوں اور ان کے متشدد نظریات کی تاریخ کھود نکالیں تو ھمیں "این کاؤنٹر ” ھی ملے گا،جس نے پوری دنیا میں بھوک کو مضبوط ترین فلسفہ بنا دیا، یہ این کاؤنٹر ھی تھا جس سے متاثر ھو کر نوجوانوں نے بال بڑھا لئے ،غسل کرنا ترک کر دیا،مارکسی لٹریچر کو مقدس سمجھ کر ایک ایک حرف کو رٹ لیا، بیویوں کو طلاقیں دے دیں، اور بچوں کو "ان امیروں کو لوٹ لو” کا درس دینا شروع کر دیا! رسالے کے پیچھے کروڑوں روبل تھے، دنیا کے بہترین ترین مارکسی دماغ تھے،ماہر صحافی،انتہای زیرک نقاد اور دانشور تھے، لہٰذا اس زمانے میں اس سے بڑھ کرمعیاری،جامع اور پر اثر جریدہ دنیا میں کوئی نہیں تھا،معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ سپینڈر۔ آڈن ، اور مارلو جیسے دانشور اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل تھے، اس کے علاوہ ایک بین الاقوامی مجلسِ ادارت تھی،جو دنیا بھر سے موصول ھونے والے مضامین، تجزیوں اور تبصروں کا کڑی نظر سے جائزہ لیتی،انہیں مارکسی کسوٹی پر پرکھتی،زبان و بیان کی غلطیوں کی نشاندھی کرتی،، اعداد وشمار اور حقائق کی صحت کا جائزہ لیتی ،،تسلی کے بعد یہ مضامین مختلف ڈیسکوں پر چلے جاتے،جہاں اپنے وقت کے ماھرین،ان کا انگریزی میں ترجمہ کرتے، ان کی نوک پلک سنوارتے،اس کے بعد ایک اور شعبہ اس ترجمے کا جائزہ لیتا،اس میں پائی جانے والی جھول،سقم اور لفظی کوتاھیاں درست کرتا ،، آخر میں جب اشاعت کا مرحلہ آتا تو انتظامیہ انگریزی ٹیکسٹ کے ساتھ ساتھ اصل متن جو مختلف زبانوں میں ھوتا بھی چھاپ دیتی،تا کہ اگر ترجمے میں کوئی غلطی رہ گئی ھو تو قارئین خود اصل متن کو دیکھ کر اسے درست کر لیں،،اس کڑے معیار ،انتخاب اور عرق ریزی کے باعث ناقدین "این کاونٹر” کو وہ مقام دیتے جو خود شاید کارل مارکس اور لینن کو بھی حاصل نہیں تھا ! مگر تقریباً دو دھائیوں بعد یہ انکشاف ھوا کہ جسے دنیا کمیونزم کی ” بائبل” سمجھ رھی تھی دراصل سی آئی اے کا منصوبہ تھا اور امریکی خفیہ ادارے کے ھیڈکوارٹر کے ایک چھوٹے سے کمرے سے ڈپٹی سیکرٹری رینک کا ایک امریکی، دو کلرک اور ایک چپڑاسی ،چند فائلوں،ٹیلکس کے چند پیغامات، اور کچھ خفیہ ٹیل فون کالز کے ذریعے برسوں تک پوری اشتراکی دنیا کو بے وقوف بناتے رھے،ان کے نظریات میں زہر گھولتے رھے،یہانتک کہ کمیونزم کے ٹارگٹ ممالک میں مقامی سطح پر اس کے خلاف مزاحمت شروع ھو گئی ! عرصے بعد جب این کاؤنٹر پراجیکٹ کا چیف ثقافتی یلغار کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار میں شرکت کرنے پیرس گیا تو شرکاء نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور ھال دیر تک ان کی تالیوں سے گھونجتا رھا،، بوڑھے ریٹائرڈ امریکی نے ھیٹ اتار کر اور جھک کر سب کا شکریہ ادا کیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا،،، پوچھنے والوں نے سوال کیا ” سر آپ نے یہ سب کچھ کیسے کر لیا؟ بوڑھے امریکی نے مسکرا کر مائیک کو چھوا اور جواب دیا،، ینگ مین ویری سمپل،، ھم نے کمیونزم کو اتنا کڑا،سخت اور غیر لچکدار بنا دیا کہ وہ لوگوں کے لئے قابل قبول ھی نہ رھا” ایک اور نوجوان اٹھا اور بوڑھے امریکی سے مخاطب ھو کر بولا،، لیکن سر جریدے کے سارے منتظمین تو بہت کومٹٹیڈ اشتراکی اور کمیونسٹ تھے،، اور جہاں تک ھماری معلومات ھیں ان کا سی آئی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ بھی نہیں تھا؟ امریکی نے قہقہ لگایا اور دوبارہ مائیک کو چھو کر بولا،،،، ھاں بے شک ھمارا این کاؤنٹر کی انتظامیہ ،اس کے ایڈیٹوریل بورڈ اور کمیونسٹ ورکرز کے ساتھ کوئی تعلق اور رابطہ نہیں تھا،،لیکن دنیا کے مختلف کونوں سے اس تک پہنچنے والے مضامین کو لکھنے والے ھمارے ھی پیڈ دانشور تھے اور یہ مضامین ھم ھی لکھواتے تھے،،اس پر ایک اور نوجوان کھڑا ھوا اور بولا ،مگر اس سے کیا ھوتا ھے” بہت کچھ ھوتا ھے ینگ مین،، امریکی نے سنجیدگی سے جواب دیا،،تم خود فیصلہ کرو،جو بائیبل انسانوں کو ایسے احکامات دے جو انسانی فطرت سے متصادم ھوں، جو انسان کو آزادی سے سوچنے،بولنے اور عمل کرنے سے روکتے ھوں،جو لوگوں کو بدبودار اور بے ڈھنگے لباس پہننے، شیو نہ کرنے، دانت گندے رکھنے اور گالی دینے کا درس دیتی ھو،وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ھو سکتی ھے؟ ھم نے یہی کیا،،این کاؤنٹر کے پلیٹ فارم سے اشتراکی نظریات کے حامل لوگوں کو بے لچک متشدد،اور سخت موقف کے حامی افراد ثابت کر دیا، جس کے بعد تیسری دنیا میں ان لوگوں کے خلاف مزاحمتی تحریکیں شروع ھوئیں اور لوگوں نے اپنے جان و مال اور خون سے ھماری جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑا اور ھمارا کام آسان ھو گیا،،یہاں پہنچ کر پورا ھال تالیوں سے دوبارہ گھونج اٹھا اور بوڑھا امریکی پھر نشست سے اٹھا ھیٹ لہرا کر سامعین کا شکریہ ادا کیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا،، میں جب بھی کسی ملحد پیج پر جاتا ھوں،، میں جب بھی نوجوانوں ک
و اسلام کے خلاف بولتے سنتا اور لکھتے دیکھتا ھوں،، تو میرا دل خون کے آنسو روتا ھے،، ان نوجوانوں کو ان کے اپنے ھی مولویوں نے اپنی جنت کمانے کے لالچ میں گمراہ کر دیا،، میں جب بھی کسی مولوی کو بہت جزباتی انداز میں دین کا وہ روپ پیش کرتے سنتا ھوں جو کبھی بھی اللہ اور اس کے رسول
کےپیشِنظرنہیںتھاتو مجھے وہ بوڑھا امریکی یاد آ جاتا ھے،، یہ لوگ دین کو ناقابلِ عمل ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رھے ھوتے ھیں،،اور یوں رھتی دنیا تک کے لئے دیئے گیئے دین کو سابقہ دور میں محصور کرنے کی کوشش کرتے ھیں،،، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام کو جتنا نقصان خود اسلام کے نام پر پہنچایا گیا ھے کوئی غیر یہ نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا،اسلام کے خلاف جتنی نفرت اسلام کے ذریعے پھیلائی گئی ھے،مولوی کو جتنا مولوی کے ذریعے ناقابلِ برداشت بنایا گیا،مدرسے کو مدرسے کے خلاف جس بےدردی سے استعمال کیا گیا اور مسجد کو مسجد کے ذریعے جتنا بدنام کیا گیا،، اتنا ھندؤں،عیسائیوں،اور یہودیوں کی تقریروں اور تحریوں نے پچھلے تین سو سال میں بھی نہیں کیا ! آج ھندوستان کا مسلمان جس سکون اور اطمینان سے مسجد میں نماز پڑھتا ھے اور جس امن اور تحفظ کے احساس کے ساتھ اعتکاف بیٹھتا ھے،،پاکستان والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے،، اور یہ پاکستان میں مدارس اور مساجد کی مشروم نما بڑھوتری کا تحفہ ھے،، مساجد اور مدارس کھلے اور وسیع ھو گئے ھیں،،مگر ان سے نکلنے والے تنگ نظر اور سخت دل ھو گئے ھیں،، اسلام کا نیا پاکستانی ایڈیشن لوگوں سے وہ اختیار چھین لینا چاھتا ھے جو انہیں ان کے خالق نے عطا کیا تھا،، من شاء فلیومن و من شاء فلیکفر،، اما شاکراً و اما کفوراً کو مسجد کے منبر سے ھی منسوخ کیا جاتا ھے،،اور حشر کے فیصلے اللہ پر چھوڑنے کی بجائے زمین پر کرنے کی رسم کو رواج دیا جا رھا ھے،، کیا کسی کو یہ احساس ھے کہ یہ دعوئ خدائی ھے ؟ جب علماء خدا بن جائیں اور لوگ ان کو خدا مان لیں تو امید کی ھر کرن بجھ جاتی ھے، اور قومیں تاریخ کی دیوار میں،چن دی جاتی ھیں،،اتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ !! فیس بک کے استعمال کو حرام کہنے والے اسلام کے دوست نہیں نادان دوست ھیں،، فیس بک ایک نعمت ھے،جسے زحمت کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ھے،، جس طرح انکھیں ایک نعمت ھیں جنہیں زحمت کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتاھے،، حرام صرف وھی ھے جسے بقول قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیقؓ اللہ نے حرام کے نام کے ساتھ حرام کیا ھے،، باقی کے لئے جائز یا ناجائز کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ھے،، اور جائز یا ناجائز کا فیصلہ انسان کی نیت اور اس کا استعمال کرتا ھے،،اپنی ذات میں کوئی بھی ایجاد حرام نہیں ھے ! ھٰذا ما عندی والعلم عنداللہ،وما علینا الا البلاغ

عبادت کی ھیئت اور کیفیت Body and soul

August 10, 2013 at 9:22pm

جس طرح انسان دو چیزوں کا مجموعہ ھے یعنی بدن اور روح کا،اسی طرح عبادت بھی دو چیزوں کا مجموعہ ھوتی ھے، ھیئت اور کیفیت کا،ھیـئت اس کا بدن ھوتی ھے اور مفتی کے فتوے کا میدان،جسطرح کوئی ڈاکٹر کسی بدن کا ھی تجزئیہ کر کے بتا سکتا ھے کہ وہ کن کن بیماریوں کا شکار ھے،مگر روح ایک ڈاکٹر کے بلڈ ٹیسٹ یا سی ٹی اسکین یاا یکسرے کا موضوع نہیں ،اسی طرح ایک مفتی بس عبادت کے اجــزاء کا تجزیئہ کر کے یہ ھی بتا سکتا ھے کہ یہ نماز ھوئی ھے یا نہیں، حج میں کہاں کمی رہ گئی ھے اور یہ کس طرح دور ھو گی،کن کن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ھے،، مگر وہ عبادت جس کیفیت میں کی جانی چاھئے اس کیفیت میں ھو رھی ھے یا نہیں،، اس کا پتہ یا تو خود انسان کو ھوتا ھے یا اس کو جس کے لئے کی جارھی ھے،، ھـیئت کی کمیت کو ناپا جا سکتا ھے مگر کیفیت کو نہیں ناپا جا سکتا،سوشل رویئے ھی اس کی کمی بیشی کا اظہار کرتے ھیں ، ھیئت محدود ھوتی ھے جن کی موجودگی سے اس کے عدم اور وجود کا فتوی دیا جاتا ھے،یعنی نماز میں،نیت،قیام،قرات رکوع اور سجدہ اس کے اجزاء و اعضاء ھیں،ان میں سے کسی کی کمی پر کہا جاتا ھے کہ نماز ھے یا نہیں ھے،مگر کیفیت کسی مفتی کے تجربے میں نہیں آ سکتی اور اس کی بنیاد پر نماز کے عدم کا حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ چونکہ اپ کی کیفیت اتنی نہیں تھی لہذا نماز نہیں ھوئی،،یا روزہ نہیں ھوا یا حج نہیں ھوا،، اسی وجہ سے ھمیں بھی اس کیفیت  کی کوئی پرواہ نہیں ،جب نماز ھو جاتی ھے تو پھر کیفیت کی فکر کیوں کریں،،مگر دوسری جانب جو کام عبادت کی کیفیت کرتی ھے وہ ھیئت نہیں کرتی،، فرمایا نماز تو وہ ھے جو بے حیائی اور برے کاموں سے روک دیتی ھے،، اب ھم اگر پانچ وقتہ نمازی اور سات وقتہ رشوت خور ھیں تو یہ نماز یا حج کی کیفیت کی کمی کی وجہ سے ھے،، بجلی کے وولٹیج کم ھوں تو  فریج جل جاتا ھے،، عبادت کے وولٹیج یعنی کیفیت ناقص ھو تو کردار جل جاتا ھے،، ھیئت جگہ کے ساتھ منسوب و محدود ھوتی ھے،جیسے نماز مسجد میں اور حج مکے میں،، مگر کیفیت جگہ سے منسوب ومحدود نہیں ھوتی،، وہ تو ھر جگہ ساتھ ھوتی ھے اور ھونی چاھئے،، مسجد سے چارج ھو کر بازار جاؤ اور پورا تولو ،سچ بولو اور پھر اگلی نماز کے لئے آ کر چارجر اسٹینڈ پر لگ جاؤ،، جس کو اقبال نے کہا ھے کہ،” دی فاینائٹ ایگو اینڈ دا ان فاینائٹ  ایگو ،دے کم فیس ٹو فیس،، تمہیں یاد رھے کہ بے ایمانی کر کے اسی وضو میں ابھی اللہ کو جا کر فیس کرنا ھے،منہ دکھانا ھے اور تم منہ کالا نہ کرو،عجیب بات ھے،وضوء بچانے کے لئے انسان اپنے پر کتنا جبر کرتا ھے،اس کا دس فیصد بھی ایمان بچانے کے لئے نہیں کرتا ،حالانکہ بغیر وضوء مر جائے تو حرج نہیں،بغیر ایمان مر گئے تو خسرالدنیا  والاخرہ، ھیئت  کا وقت ھے،مگر کیفیت کا کوئی وقت مقرر نہیں ،،یہ ھر وقت مطلوب ھے،بلکہ یہ مطلوب ھی ان مرحلوں یا مقامات کے لئے ھے جہاں ایمان کی گاڑی ہچکولے کھانا شروع کرتی ھے یا پھنس جاتی ھے،وھاں یہ کیفیت فور بائی فور کا کام کرتی ھے، جن لوگوں نے رھنا ھی غاروں میں ھے، اور دائیں بائیں ھرنیاں اور خرگوش دیکھنے ھیں، درختوں کے پھل کھا کے پانی پی کے سو جانا ھے، ان کو اس کی اتنی ضرورت نہیں ،ان کا کام ھیئت سے بھی چل جاتا ھے،، مگر جنہوں نے دائیں بائیں حوریں دیکھنی ھیں اور نظروں کو جھکانا ھے،اس شٹر ڈاؤن مرحلے کے لئے وہ کیفیت درکار ھے،، ان تمام عبادات کا مقصد یہی کیفیت پیدا کرنا ھے،جسے کبھی تقوی کہا جاتا ھے،تو کبھی خدا خوفی کا نام دیا جاتا ھے،، قرآن حکیم ان دونوں صورتوں کا بار بار مطالبہ کرتا ھے،وہ کہتا ھے کامیاب وھی مومن ھوں گے جن کی نمازوں میں خشوع کی کیفیت پیدا ھو گی،اللہ کا ذکر اگر ان کے سامنے کیا جائے اس کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کے رونگھٹے  کھڑے ھو جائیں اور یہ کیفیت صرف نماز کے دس منٹ پیدا ھو کرمسجد کی سیڑھیوں پر ھی دم نہ توڑ دے  بلکہ وہ دائم و قائم رھے،، جب آپ موبائیل کو چارجنگ پر لگاتے ھیں تو اس کی باڈی ایک کیفیت کا اظہار کرتی ھے اور چارجر کی لائٹ جل جاتی ھے،، اب آپ اس موبائیل کو لے کر کہیں بھی جائیں وہ چارجنگ کی کیفیت ساتھ ساتھ جاتی ھے چارجر گھر ھی رہ جاتا ھے،لیکن جب آپ کو ضرورت پڑے اور اسی وقت چارجنگ دوران گفتگو جواب دے جائے تو آپ کا کیا ری ایکشن ھوتا ھے؟ وھی ری ایکشن نمازی مومن کے عین ضرورت کے وقت بے ایمانی کر جانے پر اللہ کا ھوتا ھے،، اللہ کا غضب ایسے نمازی پر بھڑک اٹھتا ھے،،فویلٓ للمصلین،،ھلاکت ھے نمازیوں کے لئے ،جو اپنی نماز کے مقصد سے غافل ھیں،مجرد بے روح نمازوں کے جنازے اٹھائے پھرتے ھیں،ریاکاری کے مرتکب یہ نمازی کسی کو عام استعمال کی چیز تک شیئر کرنے سے کتراتے ھیں،،نماز میں ایک تو مطالبہ خشوع کا ھے اور دوسرا اس کیفیت کی حفاظت کا ھے کہ اس کیفیت کو ” سیو” کرلو اور تیسرا مطالبہ اس کیفیت کے  دوام کاھے،الذین ھم علی صلواتھم یحافظون  اور الذین ھم علی صلاتھم دائمون،، جو اپنی نماز کی کیفیت کو محفوظ کر کے دائم رکھتے ھیں،،روزے کا مقصد بھی تقوی بیان کیا گیا ھے،لعلکم تتقون،، اور تقوی بھی ایک کیفیت ھے،جس میں قلب انسانی سرشار ھوتا ھے، اور یہ خلوت جلوت ھر دوحال میں انسان کے شاملِ حال ھوتا ھے،بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہ” نیک وہ نہیں جس کی  جلوت یا مجلس پاک ھو،، نیک وہ ھے جس کی خلوت پاک ھو ” وہ اکیلے میں بھی اللہ سے اسی طرح حیاء کرے جسطرح مجلس میں لوگوں سے حیاء کرتا ھے،،نبی کری
م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ھے کہ بہت سارے لوگوں کو روزے سے سوائے بھوک کے اور کچھ حاصل نہیں ھوتا اور بہت سارے قیام کرنے والوں کو سوائے رت جگے کے اور کچھ نہیں ملتا،، نیز فرمایا نماز سب پڑھتے ھیں مگر کسی کو نماز کا آدھا ملتا ھے،کسی کو تییسرا حصہ،کسی کو چوتھا،اس طرح حضور
ﷺ نے دس حصے گنوائے ھیں، پھر حج کے بارے میں سورہ حج میں اللہ پاک نے فرمایا ھے،لن ینال اللہ لحومھا ولا  دماءھا   ولکن ینالہ التقوی منکم،، اللہ پاک کو تمہاری قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ھے کہ وہ جانور تول کر تمہیں اجر دے گا،،اور نہ خون پہنچتا ھے،، بلکہ وہ تو اجر کا فیصلہ اس تقوے کی بنیاد پر کرتا ھے جو اس قربانی کے پیچھے ھوتا ھے،، افسوس تو یہ ھے کہ قرآن جتنا کیفیت پر زور دیتا ھے ھم اتنا ھی اسے غیر اھم سمجھتے ھیں اور جن چیزوں کو وہ کوئی اھمیت نہیں دیتا ان پر ھم نے مسجدیں الگ کر لی ھیں ! نتیجہ آپ کے سامنے ھے کہ اب دیانتدار آدمی کو دیکھنے کے لئے شاید ٹکٹ لگانے کی نوبت آ جائے کہ وہ اتنا ناپید ھو گیا ھے، حرم میں منزلوں پر منزلیں بن رھی ھیں، حج مہنگا ھو گیا ھے بلکہ اب لگژری بن کر رہ گیا ھے، حاجیوں کا سیلاب سنبھالا نہیں جارھا شیطان بھی لمبا ھو گیا ھے جو ایک تندور جتنا تھا آج کل ٹریڈ سنٹر جتنا ھو گیا ھر سال 30 لاکھ حاجی ری سائیکل ھو کر آتے اور معاشرے کا حصہ بن جاتے ھیں ،مگر معاشرے مین بے ایمانی ھے کی کنٹرول سے باھر ھو گئی ھے،،ایک ھی خدا کے ایک ھی گھر کے چکر لگا کر آنے والوں میں نفرت کا تناسب بھی بڑھتا جا رھا ھے،،یہ سب مظاھر پرستی کا تحفہ ھے، اندر کوئی جھانکنے کو تیار نہیں کوئی پڑوسی سے نہیں پوچھتا کہ میں کیسا ھوں؟ نبی کریم سے ایک شخص نے سوال کیا تھا،ائے اللہ کے رسول مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں نیک ھوں یا بد،اچھا ھوں یا برا،ھر انسان اپنے کو تو اچھا سمجھتا ھے ؟ آپ نے فرمایا اگر تیرا پڑوسی کہے کہ تو اچھا ھے تو تُو یقیناً اچھا ھے اور اگر تیرا پروسی کہے کہ تو برا ھے تو جان لے کہ تُو برا ھے، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ،اللہ کی  قسم وہ مومن نہیں جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں،، کیا ھم اپنے پڑوسی سے یہ سوال پوچھ سکتے ھیں ؟ کیا ھم حشر یہیں بپا کر کے نہ دیکھ لیں کہ ھم کیا ھیں، کیسے ھیں ؟؟ھیئت اگر علماء کے نوکِ نشتر پہ رھتی ھے تو کیفیت زاھد کا میدان ھے،وہ کیفیت پر زور دیتا ھے،اس کیفیت کو وہ عشق کا نام دیتا ھے،اس کے نزدیک عشق ھی وہ جذبہ ھے جو جلوت و خلوت میں انسان پر حاوی رھتا ھے،اگر اللہ کے احسانات کے استحضار کے نتیجے میں عشق کو پال لیا جائے تو پھر خواھشاتِ نفسانی سمیت ھر چیز کو اللہ پر قربان کرنا آسان ھو جاتا ھے، اللہ پاک کا مطالبہ بھی یہی ھے کہ میری عطا کردہ نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کر کے ان سے محبت کرنے والے اخرت میں خائب و خاسر ھوں گے،جبکہ منعمِ حقیقی کو پہچان کر اس سے شدید محبت کرنے والے ھی  حقیقی مومن ھیں،و من الناس من یتخذ من دون اللہ انداداً یحبونھم کحب اللہ،والذین آمنوا اشدُ حباً للہ( البقرہ ) سورہ آل عمران میں فرمایا لن تنالو البر حتی تنفقوا مما تحبون،، تم نیکی کی حقیقت کو پا نہ سکو گے جب تک کہ تم اللہ کی محبت میں اسے نہ خرچ کرو جس سے تم محبت کرتے ھو،، اقبال نے اس کیفیت کو جذبِ دروں کا نام دیا ھے، اور مسلمانوں کے ایتشار اور پستی کا سبب اسی بے روح عبادت کو قرار دیا ھے،وہ کہتا ھے

،

مسلماں میں خـــوں باقی نہیں ھے

محبت  کا  جنــوں  باقی نہیں ھے

صفیں کـــج ،دل پریشاں،سجدہ  بے ذوق

کہ   جـــذبِ انــدروں باقـــی نہــیں ھے

 

اس بے کیفیت عبادت اور پھر دیگر رسوم کے ذریعے محبت ثابت کرنے کے رجحان پر عنائت صاحب کا اپنا رونا ھے

 

میری یہ عقیدتِ بے بصر ،میری یہ عبادتِ بے ثمــر

مجھے میرے دعوئ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا

 

تو شوق موسوی کا اپنا انداز ھے

 

 

کئی فرقوں میں بٹتے جا رھے ھیں

کہ روحِ دیں سے ھٹتے جا رھے ھیں

سبھــی پنــد و نصــائـح کر رھے ھیں

ھمــــارے  کان  پھٹـتے جا رھے ھیں

عـمــل  قـــرآن پر کــرتے نہــیں ھـیں

فقــط  الفــاظ  رٹتے  جــا  رھے ھیں

نمــــازی مسجـــــدوں میں بڑھ رھے ھیں

مگـــــر انسان گــــھٹـتے جــا رھے ھیں   

انسانِ کامل محمدمصطفیﷺ! خاتم نبوت،خاتم شریعت،خاتمِ کتاب !

June 20, 2013 at 2:59pm

الحمد للہ و کفی والصلوٰۃ والسلام علی اشرف الانبیاء ،محمدٍالمصطفیوعلیآلہوصحبہومنوالاہ،امابعد ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا سوال پیدا ھونا ھی ایمان میں کسی قسم کے خلل یا علم میں کسی قسم کے نقص کی نشاندھی کرتا ھے ،، یہ وہ بات ھے جو کامن سینس کی ھے مگر عجیب بات یہ ھے کہ یہ سوال اٹھایا ان خواتین و حضرات کی طرف سے جاتا ھے ،جن کا دعوی یہ ھے کہ وہ اصحاب الرائے اور رؤسائے فھم و فراست ھیں،، جب تک کسی جواب کے ساتھ عقلی دلیل نہ ھو بقول ان کے نہ تو وہ ان کے حلق سے اترتی ھے اور نہ دل و دماغ میں بیٹھتی ھے ،، بات عقلی دلیل سے ھی شروع کرتے ھیں، کہ نبوت اور رسالت ایک ادارہ ھے،جس میں سارے نبی،نبی ھی ھیں اور ایک ھی ھستی کے فرستادہ ھیں،، بحیثیت نبی اللہ اور رسول اللہ ان کی ذمہ داریاں یکساں ھیں،، مثلاٍ بحیثیت شوھر،، سارے شوھر ایک جیسے ھیں اور یہ ادارہ احترام اور تابعداری کا تقاضہ کرتا ھے،، جہاں بھی اور جس جگہ بھی اس کی ذمہ داریاں اور حقوق گنوائے گئے ھیں کسی شوھر کا نام لے کر نہیں گنوائے گئے بلکہ ایک ادارے کے طور پر گنوائے گئے ھیں،، مگر جس خاتون کو اصرار ھے کہ کسی نبی کو کسی دوسرے نبی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ھے ،،میں ان سے پوچھتا ھوں کہ کیا آپ کے شوھر کا نام کہیں کتاب و سنت میں آیا ھے ؟ شوھر تو سارے محترم ھیں،،مگر کیا آپ کے لئے آپ کا شوھر افضل ھے یا نہیں؟ یا سارے شوھروں کے ساتھ آپ کا معاملہ مساوات پر مبنی ھے؟ کیونکہ ذمہ داریاں تو سب شوھروں کی ایک جیسی ھیں ،، اور نکاح رجسٹر بھی ایک جیسے ادارے میں ھوتا ھے؟ مگر اپ افضلیت اپنے شوھر کو دیتی ھیں،، اسی طرح سارے نبی اور ان کی ذمہ داریاں ایک جسی ھیں اور ان کی سندِ رسالت ایک ھی ھستی کی طرف سے جاری ھوتی ھے،،مگر جب وہ نبی میرا نبی بنتا ھے تو پھر میرے لئے اسکی افضلیت اور فضیلت ایک فطری اور بدیہی چیز ھے اسی بات کا مرد حضرات بیوی پر اطلاق کر لیں،،، بیویاں اور انکی ذمہ داریاں ایک جسی ھوتی ھیں اور حقوق بھی ،، مگر آپکے لئے شرعی ٖفضیلت آپکی بیوی کو حاصل ھوتی ھے؟ یا جو بیوی بھی بازار میں نظر آ جائے؟؟ بڑی موٹی سی بات ھے کہ آپ نبی ﷺ کی بتائی ھوئی عبادات اور ان کے طریقے کو اپنا ھی نہیں سکتے جب تک آپ اس نبی کو فوقیت نہ دیں، منسوخ شدہ کرنسی بھی کبھی پاکستان کی کرنسی تھی اور آج بھی اس نوٹ پر بینک دولت پاکستان ھی لکھا ھے،مگر فوقیت اور فضیلت آج جاری کرنسی کو ھے سابقہ کرنسی کو نہیں،، اگر قرآن کو اپنی بقا اور اللہ کی آخری کتاب ھونے کی نسبت سے تمام سابقہ کتب پر فضیلت حاصل ھے تو آخری رسول ﷺ جس کی شریعت آخری شریعت اور جس کی رسالت رھتی دنیا تک قابل اتباع  ھے ،اس رسول کو سابقہ رسولوں پر فوقییت حاصل ھونا کیونکر غیر فطری ھے ؟پھر یہ کہنا کہ کسی رسول کو افضلیت نہیں دینی چاھئے تو ایک لا یعنی بات ھو کر رہ جاتی ھے،، النبی اولٰی بالمؤمنین من انفسھم و ازواجہ امھاتھم ( الاحزاب-6 ) ،، نبیﷺ مومنوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ھیں اور اس کی ازواج ان کی مائیں ھیں،، صرف ایک نبی،، ھمارے نبی اور ھم مومنوں کے بارے میں اللہ پاک نے دعوی کیا ھے،، باقی کسی نبی کی زوجہ کو ھم ام المؤمنین نہیں کہہ سکتے ! ھم اپنے نبی ﷺکو دوسرے انبیاء کے برابر کیسے کر سکتے ھیں،،جبکہ اللہ نے بھی لفظ الانبیاء نہیں بولا،، صرف ھمارے نبیﷺ کا ذکر کیا ھے، اگر برابر رکھنا مقصود تھا تو اللہ پاک فرما دیتے کہ الانبیاء اولی بالمومنین من انفسھم،،و ازواجھم امھاتھم ! سارے نبی مومنوں کو اپنی جان سے پیارے ھیں ؟ گویا جونہی کوئی شخص نبی کریمﷺ کو اپنا رسول مانتا ھے،نبیﷺ اس کو جان سے پیارے ھو جاتے ھیں،،جب کہ سابقہ انبیاء کا احترام اور ان پر ھمارا ایمان ھونے کے باوجود انکی اس درجے کی محبت ھمارے لئے ضروری نہیں ھے،،،شرعی طور پر نبی یا رسول کی دو حیثیتیں ھوتی ھیں،، ایک اللہ کا رسول اور دوسری ھمارا رسول ،، اللہ پاک نے نبیوں کو اپنی طرف بھی منسوب کیا ھے،، رسولنا، بھی کہا ھے اور ھماری طرف منسوب کر کے، یا دیگر قوموں کی طرف منسوب کر کے ، رسولکم ،، رُسُلُھُم بھی کہا ھے،، مثلاً سورہ المؤمن میں فرمایا،،اَوَلَم تَکُ تَاتیکُم رُسُلُکُم بالبینات؟-50 پھر سورہ المؤمن مین ھی فرمایا فلما جاءتھم رُسُؒلُھُم بالبینات-83 سورہ ابراھیم مین 4 جگہ مسلسل استعمال ھوا ھے،(9-10-11-13 )،یعنی ایک حیثیت رسول اللہ،، جس مین سارے رسول برابر ھیں،، اور ایک حیثیت رسولنا،، ھمارے رسول جس مین فوقیت اور افضلیت ھمارے رسول کو ھو گی،، ایمان کے لحاظ سے سارے رسولوں پر ایمان برابر ھو گا،،کوئی کمی بیشی یا شک شکوک ممکن نہیں اور ان میں سے کسی کا انکار بھی برابر کا کفر ھے،، مگر اطاعت کے لحاظ سے میرے نبی کو فوقیت اور افضلیت حاصل ھو گی ! اس کے بارے میں یہ حدیث کفایت کرتی ھے جسے دارمی نے عمر ابن الخطابؓ کے بارے میں جابر ابن عبداللہؓ سے روایت کیا ھے، اور مشکوۃ المصابیح نے کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ میں نقل کیا ھے، کہ عمر ابن الخطابؓ کہیں سے تورات کا ایک نسخہ لے آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول یہ تورات ھے،، اللہ کے رسول خاموش رھے، عمرؓ نے تورات میں سے پڑھنا شروع کیا تو نبی کریم کے چہرے کا رنگ متغیر ھونا شروع ھو گیا( جو آپ کے غصہ ھونے کی علامت تھی) ابوبکرؓ نے کہا تجھے گم کر دیں گم کرنے والیاں تو اس چیز کو نہیں دیکھ رھا جو رسول اللہ کے چہرے پہ ھے؟ اس پر عمرؓ نے چہرہ اقدس کی طرف نظر اٹھائی اور فوراً کہا ” میں اللہ اور اس کے رسول کے غصے سے اللہ کی پناہ چاھتا ھوں ! مین راضی ھو گیا، اللہ کے رب ھونے پر اور محمد کے رسول ھونے پر اور اسلام کے دین ھونے پر( یہ ایسا فوری اور عجیب ایمان بھرا جملہ تھا کہ نبی کریم نے بعد میں اس کو توبہ کرنے والوں کو بشارت کے طور پر بتانا شروع کر دیا اور توبہ کی قبولیت میں اکسیر کا اثر رکھتا ھے،،رضیتُ باللہ رباً و بمحمدٍ نبیاً و رسولاً و بالاسلام دیناً) نبی کریم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺکی جان ھے اگر آج موسی بذاتِ خود بھی ظاھر ھو جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرو تو گمراہ ھو جاؤ،،اگر موسی زندہ ھوتے اور میری نبوت پا لیتے تو یقیناً وہ بھی میری پیروی کرتے ! یہ میرے ان دوست اور غامدی صاحب کی دعوتی ٹیم کے اھم رکن کے لئے بھی پیغام ھے جو ھر دوسرے دن لوگوں کو تورات کی تلاوت کی ترغیب دیتے ھیں،، اب آئیے ان حضرات کے استدلال کی طرف ،، قرآنِ حکیم سے ان کا استدلال یہ ھے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 285 میں اللہ نے ایمان والوں کی طرف سے بیان کیا ھے کہ” لا نفرق بین احدٍ من رُسُلہ” اور اس کا ترجمہ کرتے ھیں کہ۔۔ لا نفضل بین احدٍ من رسلہ،، ھم کسی ایک رسول کو دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے،، گویا تفریق کا مطلب تفضیل ھے،، اب اس تقریق کا اصل ترجمہ تو یہ ھی ھے کہ ھم ایمان لانے میں رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں برتتے کہ ایک کو مانیں اور دوسرے کو کسی تعصب کی بنیاد پر نہ مانیں ! بلکہ ھم سارے رسولوں کو من جانب اللہ اور کتابوں کی اللہ ھی کی کتابیں مانتے ھیں،،( ، یہ اصلاً بنی اسرئیل پر طنز ھے جو نبی کریم کو اس تعصب کی وجہ سے نہیں مان رھے تھے کہ وہ بنی اسماعیل مین سے ھیں،، انہیں شرم دلائی جا رھی ھے کہ ادھر میرے نبیﷺ اور اھل ایمان کی روش دیکھو کہ تمہاری اتنی دشمنی اور سازشوں کے باوجود تمہارے رسولوں اور کتابوں کو بلاتعصب مانتے ھیں) نہ کہ یہاں فضیلت کا تعین ھو رھا ھے ! القرآنُ یفسرُ بعضہ بعضاً،، ایک اصول ھے کہ قرآن اپنی ایک بات کی تفسیر خود دوسری جگہ کر دیتا ھے،،لہٰذا قرآن کو سب سے پہلے قرآن کے ذریعے ھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاھئے اور یہ کوشش 99۔99 ٪ کامیاب ھوتی ھے،اس اصول کو اپنے غامدی صاحب المکرم المعظم بھی جانتے اور مانتے ھیں! پھر بھی میں ان سے کہتا ھوں کہ اب اپنے ترجمے اور تفسیر پر قائم رھنا کہ تفریق کا ترجمہ تفضیل ھے، سورہ النساء آیت نمبر 150 چھٹے پارے کا پہلا صفحہ دیکھ لیجئے ! یہاں سورہ البقرہ کی تفریق کی تفسیر کی گئی ھے، کہ کافر اللہ اور رسول کے درمیان تفریق کرتے ھیں، کہ ھم اللہ کو تو مانتے ھیں،مگر فلاں رسول کو نہین مانتے،، اور پھر رسولوں اور رسولوں کے درمیان تفریق کرتے ھیں کہ ھم فلاں رسول کو تو مانیں گے مگر فلاں کو نہیں مانیں گے،،یوں وہ کچھ رسولوں کو مان کر رسالت پر ایمان کا دعوی بھی ثابت کرتے ھیں ،، رسولوں کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لا کر ایمان باللہ بھی ثابت کرتے ھیں،،جبکہ مومنوں کے بارے میں وھی بات جو سورہ بقرہ میں کہی گئی ھے وھی بات یہاں بھی کہی گئی ھے کہ وہ سب رسولوں پر ایمان رکھتے ھیں اور اللہ پر بھی ایمان رکھتے ھیں اور کہیں بھی ایمان میں تفریق نہیں کرتے،،، اس وضاحت کے بعد اب غامدی صاحب والا ترجمہ،تفریق بمعنی تفضیل دیکھ لیجئے ! بے شک جو لوگ کفر کرتے ھیں اللہ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ،اور چاھتے ھیں کہ فضیلت قائم کریں اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان( یعنی کہیں کہ اللہ افضل ھے رسولوں سے) اور کہیں کہ ھم بعض رسولوں پر تو ایمان لاتے ھیں اور بعض کا انکار کرتے ھیں اور چاھتے ھیں کہ اس کے درمیان کی راہ اختیار کریں،150،یہی ھیں وہ حقیقی (22 کیرٹ) کے کافر ،،اور کافروں کے لئے ھم نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ھے 151( یہاں وہ اللہ کو رسولوں سے افضل کہہ کر کافر ھو گئے) ! اور جو ایمان لائے اللہ پر اس کے رسولوں پر اور ان میں سے کسی کے درمیان بھی ‘ایمان’ میں تفریق نہیں کرتے یہ وہ لوگ ھیں جن کو ان کی اجرتیں دی جائیں گی اور اللہ بڑا غفور اور رحیم ھے ! ان آیات میں ان لوگوں کا بھی رد ھو گیا جو سورہ البقرہ کی ایت 62 کوٹ کر کے کہتے ھیں کہ اللہ اور آخرت پر ایمان اور عمل صالح ھی کافی ھے نجات کے لئے! ایمان بالرسالت کی کیا ضرورت ھے ،کیونکہ ایمان بالرسالت تعصب پیدا کرتا ھے ،، ایمان بالرسالت یا اس میں تفریق و تبعیض بذات خود کفر ھے اور کفر بھی حقیقی کفر نہ کہ کسی مفتی کا مستنبط کردہ کفر ! رسول تو رسول ھوتا ھے چاھے ایک بستی کا ھو یا پوری دنیا کا مگر نبی کریم کے سوا سارے رسول ایک خاص قوم اور قبیلے کی طرف مبعوث کیئے گئے،، یہاں تک بائبل ھی کے مطابق جب عیسی علیہ السلام کے پاس صیدوں جو آج کل لبنان کی بندرگاہ ھے،، سے چند لوگ ھدایت کی درخواست لے کر آئے تو آپ نے ان کو بہت ھتک آمیز جواب دے کر لوٹا دیا کہ بھلا اپنے بچوں کی روٹی کوئی کتوں کے آگے تھوڑا ھی ڈالتا ھے؟ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ھوئی بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا ھوں،، دوسری طرف وہ ھستی ھے جو نہ صرف تمام انسانوں کے لئے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام جہانوں اور زمانوں کے لئے مبعوث فرمائے گئے ” وما ارسلناک الا کآفۃً للناس بشیراً و نذیراً ولٰکنَۜ اکثر الناسِ لا یعلمون ( سبا-28 )اور نہیں بھیجا ھم نے آپ کو مگر ساری انسانیت کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر مگر لوگوں کی اکثریت اس(فضیلت ) کو نہیں سمجھتی،، مگر یار لوگوں کو عملی فضیلت ھی نظر نہیں آتی،، اور پھر اپنے آپ کو اصحاب الرائے اور اینٹیلی جینسیا، اور اینٹی لیکچوئل اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے ھیں،،مگر حالت یہ ھے کہ آزاد کشمیر کے صدر اور امریکہ کے صدر کو برابر جانتے ھیں کیونکہ دونوں صدر ھیں ! جو فضیلت اس غیر مسلم کو نظر آ گئی ھے جس نے 100 صاحب الرائے اور صاحب عقل و خرد انسانوں میں پہلا نمبر محمد مصطفی کو دیا ھے وہ مسلمانوں کو نظر کیوں نہیں آتی ؟ قران اس فضیلت کا نقشہ سورہ الاعراف کی آیات 157 میں کھینچتا ھے،، موسی علیہ السلام ابھی ابھی تجلی کا جھٹکا کھا کر فارغ ھوئے ھیں ،،اللہ کی رحمت پوری طرح متوجہ ھے کہ موسی علیہ السلام نے رحمتِ خاصہ کا سوال کر دیا ! فوراً جواب دیا گیا کہ موسی یہ کسی اور کا حصہ ھے،، الذین یتبعون النبی الامی الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التورۃ والانجیل،،،،،،،، اے موسی یہ تو ان کا حصہ ھے جو ایمان لائیں گے اس نبی اُمۜی پر جس کو وہ لکھا پاتے ھیں تورات اور انجیل میں،وہ حکم دے گا ان کو بھلائی کا اور روکے گا برائی سے ،،طیب چیزیں ان پر حلال کرے گا اور خبیث چیزیں حرام کرے گا،اور ان سے وہ طوق اور بیڑیاں ھٹا دے گا جو ان پر ڈال دی گئی تھیں،، تو جو ایمان لائیں گے اس پر اور عزت و توقیر کریں گے ان کی اور مددگار بنیں گے ان کے اور پیروی کریں گے اس نور کی جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہ لوگ ( اس رحمت کے حصول میں) کامیاب ھوں گے( الاعراف 157 ) اگلی ایت میں اپ سے کہا گیا ھے کہ اپ اعلان فرما دیں کہ اے نوعِ انسانیت میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ھوں،الاعراف 158 !!

اگر دین کا اتمام مصطفیﷺ پر ھونا ،آخری کتاب کا نزول آپ پر ھونا،، آخری اور مستقل شریعت مصطفوی ھونا،، نبوت کی تکمیل آپﷺ پر ھونا،، 2500 سال تک ساری کتابوں کا اس نبیﷺ کی بشارت دینا کہ جس پر دین کی تکمیل اس طرح ھو گی کہ اسی کا حلال کردہ آخری اور فائنل حلال ھو گا اور اس کا حرام کردہ آخری اور فائنل حرام ھو گا اور رھتی دنیا تک آپ کی سنت کا اللہ کے نزدیک معیارِ زندگی قرار پانا، عیسی علیہ السلام کا و مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمدﷺ کا اعلان ،، عیسی جیسا انوکھی پیدائش والا جس کی آمد کا نقیب ھو،اللہ جس پر خود درود پڑھے اور مومنوں کو پڑھنے کا حکم دے،،یہ درود صرف نبی کریمﷺ کی خصوصیت اور فضیلت ھے! عیسی علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھ سکتے،،کیونکہ اللہ نے قران میں ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی  میں صرف ایک نبی کی بات کی ھے، ابراھیم علیہ السلام کے نام کے ساتھ بھی تب ھی لگایا جا سکتا ھے جب ساتھ میں ھمارے نبی ﷺ کا نام بھی ھو ! اگر تمام اھلِ کتاب سے یہ مطالبہ کہ اگر اللہ سے محبت کا دعوی کرتے ھو تو اپنے رسولوں کو چھوڑ کر میرا اتباع کرو تب اللہ تم سے محبت کرے گا (آلعمران )اگر یہ سب فضیلت نہیں ھے تو پھر شاید دنیا میں فضیلت نام کی کوئی چیز پائی ھی نہیں جاتی،، شاید یہ کسی خاتون کا نام ھو گا  !

اب رہ گئیں وہ احادیث جن میں نبی کریمﷺ سے تفاضل کی ممانعت ھے، اس سے مراد یہ نہیں ھے کہ مومن آپس میں نبی ﷺ کی عظمت کے چرچے نہ کریں،، بلکہ اس کا اپنا ایک بیک گراؤنڈ ھے، کسی مسلمان نے جو کہ یہودیوں کے مدرسے میں تھا وھاں اس نے جب موسی علیہ السلام کے فضائل سنے تو بدلے میں نبی کریمﷺ کے فضائل بیان کرنا شروع کر دیئے،، بات بڑھ گئی اور مسلمان نے یہودی کو تھپڑ دے مارا ،، شکایت جب دربارِ نبی میں پہنچی تو آپ نے اس طرح کی فضیلت جو کسی دوسرے کی تنقیص  کر کے کی جائے منع فرما دی،، ورنہ حضرت حسۜان بن ثابت نے اپ کے سر پر کھڑے ھو کر وہ قصیدہ پڑھا تھا ،جس میں کہا تھا ،کہ اپ جیسا خوبصورت کسی آنکھ نہیں دیکھا اور آپ جیسا خوب سیرت کبھی کسی عورت نے نہیں جنا،،مگر نبیﷺ نے ان کو منع نہیں فرمایا تھا،، !

 

میں اللہ کے سارے رسولوں پر ایمان رکھتا ھوں ! اور بحیثیت اللہ کے رسول ان میں سے کسی کے درمیان فرق محسوس نہیں کرتا ! مگر وہ اللہ کے رسول تھے،،جو کسی اور قوم کی طرف بھیجے گئے تھے،، اور قرآن جہاں ان کا تذکرہ کرتا ھے،، رسولاً الی بنی اسرآئیل کے طور پر کرتا ھے،، وہ عیسی علیہ السلام کو،،و جعلناہ مثلاً لبنی اسرائیل بیان کرتا ھے ! میرے نبی محمد مصطفیﷺ ھیں جن کو میری طرف بھیجا گیا ھے جو نبیوں میں میرا حصہ ھیں اور میں امتوں میں ان کا حصہ ھوں ! میری نجات ان کی پیروی میں ھے،، سارے نبیوں کا احترام کرنے کے باوجود میں ان کا اتباع نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے کسی اور ﷺکے اتباع کا حکم دیا گیا ھے، میں اس ھستی کو فضیلت دیتا ھوں جس ﷺسے میری نجات جڑی ھے،میرے لئے وہ افضل ھیں جو مجھے بچانے کے لئے بھیجے گئے ھیں،، !! میں تورات ،زبور ، انجیل کو اللہ کی کتابیں سمجھتا ھوں جو بنی اسرائیل کی طرف بنی اسرائیل کے لئے بنی اسرائیل کے نبیوں پر نازل کی گئیں ،چاھے وہ دستیاب ھوں یا نہ ھوں ،، مگر میں قرآن کو اللہ کی وہ کتاب سمجھتا ھوں جو میرے لئے بھیجی گئی ھے،، جو تمام انسانیت کے لئے ایمان و ھدایت کا منبع ھے ،،جس پر عمل کا میں نے اللہ سے عہد کیا ھے اور حتی الامکان اس عہد کی پاسداری کی کوشش کرتا ھوں،، کتابیں چاروں اللہ کی ھیں،، مگر میں قرآن کو افضلیت اور فوقیت دیتا ھوں،، ایمان سب پر رکھتا ھوں مگر عمل صرف ایک کتاب پر کرتا ھوں،،جسے میں افضل سمجھتا ھوں ! جو "اُنزِلَ الینا ” ھے،، جو ھماری طرف،ھمارے لئے نازل کی گئی ھے !! میرے اس عقیدے میں اگر کوئی خرابی ھے تو اھلِ علم میری موت سے پہلے میری سوچ ،، میرے عقیدے ،، میرے ایمان کی تصحیح فرما دیں ! اللہ پاک انہیں جزائے خیر عطا فرمائے !

کیا ھمارے مدارس معاشرے کو وسیع النظر عالم فراھم کر سکتے ھیں ؟

June 14, 2013 at 7:11am

اگر دینی مدارس میں پڑھے لکھے اور کھاتے پیتےگھرانوں کے بچے بھیجے جائیں تو کیا مدارس کے ماحول اور مساجد کی صورتحال میں کوئی ڈرامائی تبدیلی واقع ھو سکتی ھے؟ کیا وھاں سے فارغ ھونے والا طالب علم روشن خیال ھو سکتا ھے،،روشن خیال سے مراد یہ نہیں ھے کہ وہ صدیوں سے رائج تعلیم کا منکر بن جائے،اسے غلط کہے، یا اس سے ھٹ جائے ،،یہ ایک ناممکن بات ھے،، روشن خیالی کا مطلب قوت برداشت میں اضافہ ،،دوسرے کے لئے گنجائش پیدا کرنا یعنی اس کے دلائل کو جگہ دینا ھے، یعنی ھر مکتبہ فکر کو اکاموڈیٹ کرنا ھے ،، آپ اگر الاتحاد ائیر لائن مین سفر کر رھے ھیں،تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ لاؤنج میں ،ائیر بلو اور پی آئی اے والوں سے اپنی ائیرلائن کی خوبیوں اور دوسری ائیر لائن کی خامیوں پر بحث مباحثہ اس حد تک لے جائیں کہ لاؤنج کے اندر ھی دست و گریباں ھو جائیں،، خوبیاں بیان بھی کی جا سکتی ھیں اور خامیاں گنوائی بھی جا سکتی ھیں،،مگر کسی کے ترک و اختیار پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی ! اس سوچ کا نام روشن خیالی ھے ! اور اس کے مخالف نقطہ نظر کو تنگ نظری کہا جاتا ھے     !

بعض لوگ بڑے وثوق سے یہ دعوی کرتے ھیں کہ اگر بہتر میٹریل فراھم کیا جائے تو بہترین پراڈکٹ تیار ھو سکتی ھے ،، بہت سارے احباب اس نقطہ نظر سے متفق بھی ھوں گے، مگر میرا تجربہ کچھ اور کہتا ھے،، میرا تجربہ یہ کہتا ھے کہ اگر آپ مدارس کو موجودہ نصابِ تعلیم اور اساتذہ کے موجودہ مائنڈ سیٹ کے ساتھ یورپ کے اے لیول کے بچوں سے بھر دیں تو جب وہ بچہ وھاں سے نکلے گا تو ،اس کے مائنڈ سیٹ  اور فاٹا کے کسی دور دراز گاؤں سے آنے والے اس کے ھم سبق کے مائنڈ سیٹ میں رائی کے دانے کے برابر بھی فرق نہیں ھو گا،، آپ جب کاپی نکالنا چاھتے ھیں تو پیپر کی کوالٹی سے تحریر پر کوئی فرق نہیں پڑتا     !

 

تفصیل اس اجمال کہ یہ ھے کہ میرے ایک اعزازی شاگرد ھیں،، میرے پڑوس میں پیدا ھوئے،یہاں یو اے ای میں تعلیم مکمل کی ،،پاکستان تشریف لے گئے ، آج تک جتنے ایم اے دریافت ھوئے ھیں سارے ختم کر بیٹھے ھیں جس میں ایم اے انگلش لٹریچر بھی ھے،مجھ سے چیٹ کرتے وقت ان کو اردو اور رومن اردو میں چیٹ کرتے ان کو دقت ھوتی ھے،،،انگریزی کو ترجیح دیتے ھیں، کسی مضمون میں پی ایچ ڈی کی بھی شنید تھی اور دینی تعلیم کے تمام مراحل طے کر کے مفتی بھی بن چکے ھیں ،، ایک انٹرنیشنل یونیورسٹی سے وابستہ ھیں، اور اسلام اباد میں رھائش پذیر،، والدین کے اکلوتے ھونے کی وجہ سے دنیا کی ھر چیز منہ سے نکلتے ھی فراھم کر دی جاتی تھی اور اب بھی صورتحال کچھ ایسی ھی ھے،،ایسا شاندار اور لائق بچہ صرف عمیرہ احمد کے افسانوں میں ھی ملا کرتا ھے،،یعنی 150 پلس کی آئ کیو والا ،،،

مگر اس ساری تعلیم اور ایم ایز کی لسٹ نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا،،  روشن خیالی کا یہ عالم ھے کہ لڑکی پسند کر کے، بات چیت کر کے منگنی کا فیصلہ ھو گیا، لڑکی کے والدین کو بتا دیا گیا کہ فلاں تاریخ کو منگنی کرنے آرھے ھیں،تیاری کر لیں،لڑکی والوں نے تیاری کر لی،، مگر یہ منگنی نہ ھو سکی ! کیونکہ اس دوران کہیں سے پتہ چل گیا کہ لڑکی نے الھدی سے کورس کیا ھوا ھے ! بس ساری تعلیم کے اندر سے دولے شاہ کا چوھا نکل کر سامنے آ گیا،،بائی دا وئے اگر اس بچی نے الھدی سے غلطی سے کورس کر لیا ھو گا،تو فرق کہاں پڑا ھو گا؟ لڑکی نے رفع یدین شروع کر دیا ھو گا،، تو مفتی صاحب کے پاس علم تھا،اثر ورسوخ بھی ھوتا تو لڑکی کو قائل کر لیتے،، جو اپنی بیوی کو قائل کرنے کی ھمت نہیں رکھتا،دنیا کو کیا قائل کرے گا؟ آپ جانتے ھوں گے کہ گیرج والا اور مکینک ھر میک اور ماڈل کی گاڑی خرید لیتے ھیں کہ میں خود مکینک ھوں ،،بنا لوں گا،،ان مفتی صاحب سے وہ مکینک زیادہ دلیر اور پر اعتماد ھوتا ھے،،یہ ھمارے مدارس کی پراڈکٹ تھی ،حالانکہ میٹریل بہت اعلی تھا   !

میرے دوست کے بچے ھیں،، امریکہ میں پیدا ھوئے، امریکن نیشنل ھیں، النہدہ اسکولز میں پڑھے ھوئے ھیں،، والد صاحب رئیس المھندسین ھیں،، پورا گھرانہ تعلیمیافتہ ھے،، دادا جان  سے لے کر تایا تک،، میں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کے مدارس کا ماحول ذرا تنگ نظر ھے، بچوں کو ساؤتھ افریقہ بھیج دیں ،، دونوں بچے ساؤتھ افریقہ سے 7 سال لگا کر آ گئے،، رمضان کا مہینہ تھا،، افطار پارٹی کے بعد فارغ ھو کر نمازِ مغرب کے لئے جا رھے تھے، رستے میں سڑک کراس کرتے ھوئے،کسی موضوع پر بات چل رھی تھی تو مولانا مودودیؒ کا ذکر ھوا،، بڑے بھائی نے فوراً فتوی دیا کہ مودودی کوئی عالم تھا، وہ تو گمراہ آدمی تھا،، میں تو سڑک کے بیچوں بیچ کھڑے کا کھڑا رہ گیا،اگر دوسرا آدمی دھکا نہ دیتا تو مین گاڑی کے نیچے آ گیا ھوتا !

اس کا مطلب یہ ھوا کہ اس نصاب تعلیم اور اس تنگ نظری کے حامل اساتذہ کے زیر نگرانی مدارس آپ لندن،واشنگٹن،نیو یارک یا جوھانسبرگ میں بنا لیں اور کتنی ھی پڑھی لکھی فیملی کا بچہ ان کے حوالے کر دیں وہ آپ کو ایسا ھی ایک تنگ نظر عالم تیار کر کے پکڑا دیں گے جو سب سے پہلے اپنے والد کی گمراھی کا فتوی دے گا ،،

یہ ایسی حقیقت ھے جس سے کوئی مفر نہیں ھے،،  اور اس کو بدلنے کی بجائے اس کے ساتھ جینا سیکھنا پڑے گا،، شوگر کی بیماری کی طرح یہ دائمی مرض ھے،، یہ ھاسپٹل ڈیزیز ھے جو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو لگتی ھے،،یہ تنگ نظری کا مرض مدارس کا مرض ھے جو اساتذہ اور طلباء کو لگتا ھے،، علاج اس لئے مشکل ھے کہ یہ قران و حدیث پڑھ پڑھ کر ھی تو بھرا جاتا ھے !

ھمیں شیخ جی آپ جیسے اللہ والوں سے اللہ بچائے !

June 30, 2013 at 12:48pm

انسان کے خالق نے فرمایا ھے کہ انسان تھُڑ دلا پیدا کیا گیا ھے! بات کچھ یوں ھے کہ جو شخص بھی چار سجدے کر لیتا ھے،،جنت کے دروازے کے سامنے بیریئر لگا کر کھڑا ھو جاتا ھے،کہ میرے پیمانے پہ پورا اترو گے تو جنت جا سکو گے ! علامہ ابنِ جوزی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف تلبیسِ ابلیس میں لکھا ھے کہ سب سے بدترین اور خطرناک ترین تکبر نیکی کا ھے،، اس میں انسان اپنے اعمال کی بنیاد پر خود کو کنفرم جنتی سمجھ کر اللہ کی رحمت سے بے نیاز ھو جاتا ھے اور دوسروں کو اعمال کے پلڑے میں تول کراللہ کی رحمت سے مایوس کرتا پھرتا ھے،، وہ یہ بھول جاتا ھیں کہ انسان کا اللہ سے تعلق ماں باپ کا سا ھے،، آجر اور اجیر کا !نہیں ماں باپ تخلیق میں ایک سبب ھونے کی وجہ سے اولاد پر کتنے رحیم ھوتے ھیں،،کہاوت ھے کہ قاتل کی سب سے مخلص وکیل اس کی ماں ھوتی ھے،،، ساری آسمانی کتابوں میں اس کی مثال باپ کی محبت سے دی گئی ھے اور حدیث میں 70 ماؤں کی ،، کہیں مسیح علیہ السلام کسی گنہگار سے نرمی سے پیش آئے تو شاگرد مچل گئے کہ یہ تو گنہگار ھے ،،آپ اس پہ اتنی شفقت کا سلوک کیوں کرتے ھیں،، فرمایا ابھی ابھی میں نے تمہارا کوڑھ درست کیا ھے،لوگ تمہارے پاس کھڑا ھونا گوارہ نہیں کرتے تھے،، تمہارے بدن کو کوڑھ تھا ،،اس کی روح کو کوڑھ ھے،یہ بھی بیمار ھے اور تیرے جتنی شفقت کا مستحق،، کہیں عمرؓ جنازے کے سامنے کھڑے ھو کے ضد کر بیٹھتے ھیں کہ ائے اللہ کے رسول یہ شخص اس قابل نہیں ھے کہ اپ اس کا جنازہ پڑھائیں، کسی اور کو یہ کام سونپ دیجئے ،، آپ نے رُخِ انور کو عمر فاروقؓ کی جانب سے پھیرا اور حاضرین سے سوال کیا” تم میں سے کسی نے اسے اھلِ اسلام جیسا کوئی کام کرتے پایا ھے؟ ایک شخص نے جواب دیا ائے اللہ کے رسول اس نے ایک دن لشکر میں رات کا پہرہ دیا تھا ،آپ نے فرمایا صفیں درست کر لو اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دی،، جنازے کے بعد آپ نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا ،، ماتھے پر پیار سے ھاتھ پھیرا اور فرمایا” تیرے ساتھی سمجھتے ھیں کہ تو جہنمی ھے،حالانکہ میں گواھی دیتا ھوں کہ تو جنتی ھے،، اللہ اللہ مصطفی کو کیا دکھا دیا گیا تھا جو عمرؓ نہ دیکھ پائے تھے،، امام بخاری ھی یہ روایت بھی لائے ھیں کہ ایک شخص تھا جو غیر سنجیدہ سا تھا،کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا،، مگر جب کبھی نبی کریم کو پریشان دیکھتا تو کوشش کر کے کوئی حرکت یا بات ایسی کر دیتا جس پر آپ مسکرا دیتے اور آپ کا موڈ خوشگوار ھو جاتا،، یہ صاحبؓ شراب کے عادی تھے اور کئی بار کوڑے کھا چکے تھے،، ایک دفعہ کوڑے کھا کے فارغ ھوئے تو ایک شخص نے کہا’ اللہ اسے رسوا کرے یہ کتنی دفعہ اس جرم میں لایا جاتا ھے،، آپ نے ناراض ھو کر فرمایا ،،اپنے بھائی کے مقابلے مین شیطان کی مدد مت کرو،، اللہ کی قسم میں اسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا پاتا ھوں،، نبی کریم کا یہ فرمانا تھا کہ اس شخص کی دنیا تبدیل ھوگئی،،وہ جسے کوڑے شراب نہیں چھڑا سکے تھے،، نبی کے ایک جملے نے اس کی شراب چھڑا دی،، پھر زندگی بھر پلٹ کر شراب کو منہ نہیں لگایا،، علامہ بدر عالم میرٹھیؒ نے ترجمان السنۃ میں اس پر سرخی جمائی ھے "گنہگار بھی اللہ اور رسول سے محبت کرنے والا ھو سکتا ھے،،، اختر شیرانی کے نام سے برِ صغیر میں کون واقف نہیں ! کس پائے کے شاعر اور کس درجے کے شرابی تھے! حکیم سید محمود احمد برکاتی صاحب ان کے بارے میں ایک وقعہ بیان کرتے ھیں کہ ، ان کے چچا جو کہ ایک مدرسے کے اخراجات بھی برداشت کرتے تھے،، انہوں نے ایک مشاعرے کا اھتمام کیا،، حکیم ؐمحمود لکھتے ھیں کہ شیرانی صاحب کی وجہ سے ھم سارے نوجوان اسٹوڈنٹ بھی شاملِ مشاعرہ تھے اور دینی مدرسے کے نوجوان بھی ھماری دیکھا دیکھی شریکِ محفل تھے،، اختر شیرانی جو شراب سے زیادہ دیر دور نہیں رہ سکتے تھے،، مگر مدرسے کے اساتذہ اور طالبِ علموں کے احترام میں اپنی کُپی جس کو ادھا کہتے تھے، مردانے کے ایک طاق میں چھپا کر آگئے،، تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھ کر جاتے اور چُسکی لگا کر واپس آ جاتے ! عام لوگوں نے تو اس طرف کوئی توجہ نہ دی مگر ایک مولوی صاحب یہ بات تاڑ گئے، ، ان کی رگِ جہاد جو پھڑکی تو طاق کی جانب روانہ ھوئے،،ادھر شیرانی صاحب کی چھٹی حس نے بھی خبردار کیا اور وہ مولوی کے پیچھے لپکے،، مولوی صاحب ادھا اٹھا کر بھاگ پڑے،، اور پیچھے پیچھے شیرانی صاحب بھی،، مولوی صاحب بھاگ کر مسجد کی سیڑھیاں چڑھے اور مرکزی دروازے پر جا کھڑے ھوئے،، ان کے پیچھے اختر شیرانی بھی سیڑھیاں چڑھنے لگے ،،مگر پہلی سیڑھی پر قدم جو رکھا تو یوں لگا جسیے ان کو بجلی کا جھٹکا لگا ھے،،70 سال پرانی بات ھے مگر منظر آج بھی اسی طرح دل و دماغ پر نقش ھے،، وہ کچھ دیر تو سکتے کی کیفیت مین رھے ،لگتا تھا ان کے پاؤں کسی چیز نے جکڑ لیئے ھیں !وہ جھرجھری لے کر الٹے پاؤں سیڑھی سے اترے اور کرارے لہجے میں بولے مولوی صاحب نیچے آ جاؤ،، شرم کرو شرم،،اس ناپاک بوتل کو لے کر مسجد مین داخل ھو گئے ھو،، مجھے دیکھو ایک سیڑھی سے زیادہ چڑھا نہیں گیا،،اللہ مجھے اس سیڑھی پر چڑھنا معاف فرمائے،، اس کے بعد ایک خاص کیفیت میں چچا جان کی طرف متوجہ ھوئے ” اظہر میاں ! آپ لوگ طلبہ کو دین کی تعلیم دیتے ھیں تو ان کی تربیت بھی کیا کیجئے !! شراب ناپاک ھے ، حرام ھے،گندی چیز ھے ،میں سیاہ کار شرابی ھوں،مگر شراب کی حرمت کا اسی طرح قائل ھوں جس طرح آپ یہ طلبہ اور علماء ھیں،، بزرگوں کی تربیت کام آئی ھے، میں گنہگارمدھوشی میں بھی مسجد کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکا،، اور یہ مولوی صاحب شراب لئے مسجد میں داخل ھو گئے،، اب مولوی صاحب بھی نیچے اتر آئے،وہ حیران حیران اور سہمے سہمے سے تھے ! انہوں نے کوشش کی کہ وہ بوتل شیرانی صاحب کو لوٹا دیں،،مگر شیرانی صاحب نے دبنگ لہجے میں فرمایا،، مولوی صاحب اس بوتل کو اب نالی مین پھینک دو،، اس نے اللہ کے گھر کی بے حرمتی کر دی ھے، اب یہ میرے قابل نہیں یہ کہا اور بوتل مولوی صاحب سے لے کر زور کے ساتھ دیوار پر مار کر توڑ دی،، ساتھ وہ زار و قطار رو بھی رھے تھے،، عجیب ایمان بھری کیفیت پیدا ھو چکی تھی،، وہ دن تھا کچھ ایسا قبولیت کا تھا،اور اللہ کو شیرانی صاحب کا یہ ادب کچھ ایسا بھایا کہ پلٹ کر شراب کی طرف دیکھا تک نہیں،، یہ قبولیت کے لمحے ھوتے ھیں،، اور اللہ کا مزاج شاہانہ مزاج ھے،، ذرا سی بات پہ بے بہا عطا کر دیتا ھے،، حدیث قدسی ھے کہ ایک نیک صاحب روزانہ ایک بدکار کے اس سے گزرتے اور اسے اس برائی سے منع کرتے،مگر وہ صاحب تھے کہ باز آ کر نہ دیتے، آخر اس نیک ادمی کو بہت غصہ آیا ،اس نے غضبناک ھو کر فرمایا” اللہ کی قسم اللہ تجھے کبھی نہیں بخشے گا” نبی کریم فرماتے ھیں کہ اس کا یہ کہنا تھا کہ اللہ نے دونوں کی جان قبض کر لی اور اپنے حضور ان کو پیش کر لیا،، بدکار سے فرمایا ” تو میری رحمت کے ساتھ جنت میں جا،، اور نیک سے فرمایا تجھے کس چیز نے یہ جرأت بخشی کہ تو مجھے اپنی قسم کا پابند کرے؟ اور اسے جہنم میں ڈال دیا گیا،،، نیکی اچھی چیز ھے مگر وہ ھمارے لئے ھے،، اللہ پر کوئی احسان نہیں ھے کہ جس کی بنیاد پر انسان شوخا ھو جائے،، انسان کو انسان کے خالق کے حوالے رھنے دو،، ان کے درمیان مت آؤ ،، اللہ کی بے نیازی کچل کے رکھ دے گی! متفق علیہ حدیث بطاقہ تو سب کو یاد ھوگی،، وہ شخص جس کے اعمال نامے کے 99 پرنٹ نکلیں گے جو مشرق سے مغرب تک ھوں گے ،،اور سارے برایوں سے بھرے ھوں گے،، بندہ ان کو دیکھ کر خود ھی جہنم کی طرف چل پڑے گا مگر اللہ اسے روک کر کہے گا تیرا تھوڑا سا حساب باقی ھے،اسے چکا کر جاؤ،،آج کسی کا حق نہیں مارا جائے گا،، پھر ایک پرزہ( بطاقہ ) نکالا جائے گا جس پر کلمہ طیبہ لکھا ھو گا جو کہ اس شخص نے بڑے خلوص سے پڑھا ھوا ھو گا،، فرمایا جائے گا،،ان 99 اعمال ناموں کے برابر اس بطاقے کو رکھ دو ،، وہ پرزہ ان تمام99 عمل ناموں سے وزنی ثابت ھو گا ! حشر کا دن حشر کا دن ھو گا،،بھائیو آنے تو دو،، حشر کے فیصلے دنیا مین ھو ھی نہیں سکتے،، مسلم شریف کی آخری حدیث،، لو لم تذنبوا ،، لذھب اللہ بکم، ،، اگر گناہ تم سے سر زد نہ ھوں تو اللہ تم کے لے جائے،، مار دے،،ختم کر دے،، پھر ان لوگوں کو پیدا فرمائے جن سے گناہ سرزد ھوں ،،پھر وہ اللہ سے توبہ کریں اور اللہ ان کو معاف فرمائے ! اپنی نمازوں کو دوسروں کی جنت کا بیرئیر نہ بنائیں،، دعا کیا کرین اللہ پاک ھماری نیکیاں قبول فرما لے،، اور گناہگار کی دعا میں شامل ھو جایا کریں وہ بڑے خلوص سے دعا مانگتا ھے ،کیونکہ مریض جس طرح سچا روتا اور تڑپتا ھے،، نقل اتارنے والا ایسا نہیں ھو سکتا

چاند کو علماء کی پہنچ سے دور رکھیں !

June 30, 2013 at 7:07am

الحمد للہ رب العٰلمین،والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین و علی آلہ و اصحابہ و اھلِ بیتہ اجمعین ! اما بعد ! بہت مشکل سوال ھے اور سوال ھوتا ھی وھی ھے جو مشکل ھو،، جو آسان ھوتا ھے وہ نورا کشتی ھوتی ھے،، تو جناب وہ مشکل سوال یہ ھے کہ پاکستان کے کتنے صوبے ھیں ؟ آپ نے اپنے ھاتھ پر ھاتھ مار کر قہقہ لگایا ھو گا کہ ‘ مولوی پاگل ھو گیا ای اوئے” مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ سالن جل بھی جائے تو سالن ھی کہلاتا ھے ، دال نہیں ھو جاتا،، آپ کا جواب ھو گا کہ پاکستان کے پانچ صوبے ھیں،، سندھ ،بلوچستان، پنجاب،خیبر پختونخواہ،اور گلگت بلتستان،، جی نہیں !! آپ کا جواب غلط ھے ،، آپ اپنی معلومات کو ریفریش کریں،، پاکستان کے چھ صوبے ھیں، میں آپ کو گنوا دیتا ھوں،اگر آپ کو اس پر اعتراض ھو تو دلیل کے ساتھ اختلاف بھی کر سکتے ھیں! سندھ،بلوچستان،پنجاب،گلگت بلتستان،خیبر پختونخواہ اور قاسم مسجد،، یہ سب پانچ صوبے ایک طرف اور صوبہء قاسم مسجد دوسری طرف،، !! رمضان کی آمد آمد ھے اور خیبر پختونخواہ سے خدشات کا شکار خواتین و حضرات کے تشویش زدہ سوالات کا تانتا بندھا ھوا ھے کہ رمضان اور عید کس کے ساتھ کریں؟ قاسم مسجد کے ساتھ یا حکومت کے ساتھ؟؟ آپکے نزدیک عمران خان حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی ھو گا،، تعلیم اور علاج ھو گا،، نیٹو سپلائی ھو گا،، ڈرون کا بندوبست ھو گا،، مگر میرے نزدیک عمران کا سب سے بڑا اور کڑا امتحان چاند پر قابو پانا ھو گا،، کہ یہ کہیں آگے پیچھے نہ ھو جائے، !! ویسے اسے سے بڑا لطیفہ بھی کوئی نہیں کہ ھم دعوی تو رکھتے ھیں کہ ھم وہ نظام رکھتے ھیں جو پوری دنیا کے مسائل حل کر سکتا ھے،مگر خود ھم سے ایک چاند کا مسئلہ حل ھو کے نہیں دے رھا،، طے شدہ امور کو بھی متنازعہ بنانے میں ھمیں یدِ طولی حاصل ھے،،اگرچہ اللہ پاک نے قرآن کریم میں گارنٹی دی ھے کہ سورج اور چاند دونوں کو ھم نے ھی حساب کتاب( کیلکولیشن ) سے بنایا ھے،، اور یہ حساب بھی عام حساب نہیں بلکہ دقیق حساب’ حسبان ” ھے ،،مگر قاسم مسجد والوں کو اللہ پر بھی اعتبار نہیں،، ان کا چاند ھر بار پری میچیور ابارشن کے تحت پیدا ھوتا ھے،، اگر سورج کے معاملے میں 20 سال کا کیلنڈر ھر مسجد میں لٹکا رکھا ھے تو چاند کیا سب کانٹریکٹ پہ چائنا سے بنوایا ھے جو اس کی موومنٹ قابلِ اعتبار نہیں؟ یہود بھی چاند کے ساتھ عبادت شروع کرتے ھیں سو سالہ کیلنڈر بنا رکھا ھے،، ساری دنیا کے یہودی اسی کے تحت ایک ھی دن روزے شروع کرتے اور ایک ھی دن عید کرتے ھیں اور یوں اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ھیں،،مگر ھم ھیں کہ ھر سال اپنی جگ ھنسائی کا اھتمام کرتے ھیں،، غیر مسلموں کو بھی پتہ ھوتا ھے کہ اس ڈگری پہ چاند نظر نہیں آ سکتا اور مسلمانوں کا ملا جھوٹ بول رھا ھے،،مگر اسے کیا پتہ کہ یہ ‘ مقدس جھوٹ” ھے جو صرف کوئی مقدس ھی بول سکتا ھے،، چاند مولوی کا مسئلہ ھے ھی نہیں،،یہ ماھرین فلکیات کا مسئلہ ھے ! ھماری چاپلوس حکومتوں نے مذھبی ووٹ بینک کو متوجہ کرنے کے لئے رشوت کے طور پر اسے مولوی کو دیا ھے ،اور یہ کام ضیاء صاحب نے بدرجہ اتم کیا ھے،، مگر اب کمبل چھوڑ کے نہیں دے رھا ! اس مسئلے کا حل کیا ھے؟ اس مسئلے کا حل یہ ھے کہ خلافت قائم کی جائے،،، مدینے کو مذھبی دارالخلافہ قرار دیا جائے،،جس طرح مدینے کی بیعت ساری اسلامی دنیا کی بیعت سمجھی جاتی تھی،اسی طرح مدینے والے جس دن چاند دیکھیں،، اس دن جتنی اسلامی دنیا میں رات ھے وہ سب اس کے ساتھ شریک ھوں،باقی دنیا اگلے دن خود بخود ان کا اتباع کرے،، اس پر باقاعدہ جامعہ ازھر کا فتوی آ چکا ھے اور دلیل میں انہوں نے وھی صحیح حدیث پیش کی ھے،، صوموا لِرؤیتہ و افطِروا لرؤیتہ،، اس( مدینے) کے چاند دیکھنے پر روزہ شروع کرو،،اور اس کے دیکھنے سے عید کرو،، گویا وہ ” ہ” کی ضمیر مدینے کو قرار دیتے ھین،چاند کو نہیں ! ویسے بھی پتے کی بات یہ ھے کہ زمین پر تو مسلمانوں کو انگریزوں نے لکیریوں میں بانٹا ھے،،ملکوں مین تقسیم کیا ھے،، یہ دین میں لکیریں کس نے ماری ھیں؟ امت کی وحدت کے لئے ایک مقدس مرکز تو قائم کرو،، کیا اس سے بھی انگریز نے روکا ھے؟ آخر لندن والے بھی تو سعودیہ کے ساتھ رمضان اور عید کرتے ھیں،، پاکستانی پاکستان کے ساتھ کرتے ھیں،، پھر یہ 3 گھنٹے کے سفر پر پاکستان کے علماء سعودیہ کے ساتھ اپنا رمضان رکھ لیں گے تو قیامت آ جائے گی؟ عام آدمی میں جرأت ھے تو علماء یہ جرأت کیوں نہیں کرتے،،؟ مگر اس قسم کے فیصلے سے امت میں بے شک وحدت پیدا ھو ،، علماء کے ھاتھ سے سیادت نکل جاتی ھے،، وہ جو مزہ حبیب پلازے پہ کیمروں کی فلیش میں اور لائیو کوریج میں ھے وہ سال میں دو ھی تو دن ھوتے ھیں،، ان سے بھی محروم ھونا کون پسند کرتا ھے،، نتیجہ یہ ھے کہ ،، اس سال بھی پختونخواہ والوں کے روزے اور عید بدمزہ ھو گی،، اگر وحدت پیدا کرنی ھے تو چاند کو علماء کی پہنچ سے دور رکھیں،، اور جن کا کام ھے ان کو سونپ دیں ! وما علینا الاۜ البلاغ المبین