یہ مٹی کی مورت بڑی چیز ھے !

یہ مٹی کی مورت بڑی چیز ھے !
انسان سے معافی منگوا لینا ، یا انسان کو معافی مانگنے پہ آمادہ کر لینا یا انسان سے سجدے میں سر رکھوا لینا ،،، بہت بڑی بات ھے ،، اور اللہ پاک اس بات کو بڑی اچھی طرح جانتا ھے کیونکہ وہ ھی اس ٹیڑھی مخلوق کا خالق ھے ،،
جب فرشتوں نے سوال کیا کہ یہ مٹی کی مورت کیوں چنی ھے خلافت کے لئے ؟ تسبیح و تحمید کے لئے ھم تھوڑے ھیں ؟ جواب دیا میں جانتا ھوں تم نہیں جانتے ،، علم الاسماء کا امتحان لیا اور فرشتے پہلے راؤنڈ میں ھی ناک آؤٹ ھو گئے ،،جواب دیا کہ میں نے بولا تھا ناں کہ جو میں جانتا ھوں تم نہیں جانتے،، مٹی پر حکومت کے لئے مٹی والا ھی درکار تھا ،، یہی اس مٹی کا حق ادا کر سکتا ھے ،،
ابلیس نے بھی اعتراض کیا تھا کہ بہتر میں ھوں مادے کی وجہ سے بھی اور تجربے و عبادت کی وجہ سے بھی ،،،،،،،، ابلیس جنوں میں سے ایک عبادت گزار جن تھا جو بہترین خطیب تھا اوراپنی عبادت اور باغی جنوں کے خلاف جہاد کی بدولت فرشتوں میں شامل کر لیا گیا تھا مگر اس کی جنیت تو اس کے ساتھ ھی تھی ،بقول ساغر صدیقی؎
میں آدمی ھوں کوئی فرشتہ نہیں حضور،،
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا ،،،
اللہ پاک نے اس کو بھی تجربہ کر کے دکھا دیا مگر بڑے لطیف طریقے سے،، ابلیس جو کچھ مانگتا گیا اللہ دیتا گیا ،، کیونکہ ایک حقیقی مقابلہ کرا کر ابلیس کو دکھانا ضروری تھا ،، آدم علیہ السلام اور اماں حوا علیہا السلام کو بطور میاں بیوی ایک جگہ رکھ کر کھلا ڈُلا کھلا کر پابندی یہ لگائی کہ قریب نہ جانا ،، یہ وھی پابندی ھے جو ھم پر رمضان کے دنوں میں لگتی ھے ،، اور کئ لوگ ھار جاتے ھیں ،، آدم علیہ السلام بھی ابلیس کے اس مشورے پر کہ یہ پھل کھاؤ گے تو شجرہ چلے گا اور اپنی اولاد کے ذریعے تم ھمیشہ زندہ رھو گے ” قال یآدم ھل ادلک علی شجرۃ الخلد و ملکٍ لا یبلی ،، فاکلا ،،، دونوں کھا بیٹھے ،یہ کام دونوں کے اشتراک سے مشروط تھا چونکہ اقدام آدم علیہ السلام کے ذمے تھا لہذا الزام بھی انہیں کے سر آیا ،، و عصی آدم ربہ فغوی ،، ،،کپڑے اترے اور ھوش آیا تو درختوں کے پتے لپیٹنے لگ گئے ،،
اللہ نے پکارا کہ تم دونوں کو سمجھایا تھا ناں کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ھے ، تم تک دسترس بھی رکھتا لہذا بچ کر رھنا ،،، دونوں نے رو رو کر معافی مانگی ،،قالا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین ،،،،،،،،،،، اللہ پاک نے ابلیس کو بلا لیا تیرے سوال کا جواب آ گیا ھے آ کر دیکھ لے ،، ان کی حالت دیکھی ھے ؟ ان کا رونا دیکھ ، مجھ سے التجائیں دیکھ ،، میں نے اس لئے آدم کو پیدا کیا تھا ،، عبادت چپے چپے پر ھو رھی تھی ،،، فرشتوں میں عصیان کو صلاحیت ھی نہیں دی گئ تھی ،، تو نے بھی سجدوں سے آسمان کے چپے چپے کو بھر دیا ،، اور پہلا گناہ کیا ،، میں پہلی بار تجھ پہ ناراض ھوا اور تو نے مجھے راضی کرنے کی کوئی کوشش ھی نہیں کی الٹا اکڑ گیا کہ میں اس کو فتنوں میں ڈال کر تجھے ثابت کر دونگا کہ میں اس سے بہتر ھوں ،، تیرے جیسی عبادت تو فرشتے بھی کر رھے تھے، اور فرشتوں جیسی عبادت تو تُو بھی کر رھا تھا ،،،،،،،،، مگر مجھے منانے والا نہ کوئی زمین پر تھا ، نہ آسمانوں میں تھا ،، دیکھ ایک خطا ھوئی ھے آدم سے مگر اس کی گریہ زاریاں دیکھ ، آدم نے ھمیں منا کر ثابت کر دیا ھے کہ وہ تم سب سے افضل ھے جس کا دل اپنے مالک کی ناراضی کے تصور سے دھل کر رہ گیا ھے ،میں نے اسے سجدوں کی وجہ سے نہیں آنسوؤں کی وجہ سے تم پر فوقیت دی ھے ،،
اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ آدم علیہ السلام کو ٹرافی گر کر اٹھنے اور ناراض کر کے منانے پر ملی ھے ،،،
یہ ھے وہ بات جو نبئ کریم ﷺ نے مسلم شریف کی آخری حدیث میں بیان فرمائی ھے ،،کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ھے اگر تم سے گناہ سرزد نہ ھوں اور تم توبہ نہ کرو پھر اللہ کو بخشنے والا نہ ملے تو اللہ تمہیں لے جائے اور ایسی مخلوق لائے کہ جن سے گناہ سرزد ھوں پھر وہ اللہ سے معافی مانگیں پھر اللہ ان کو معاف کرے ،،،
: رواه من حديث أبي هريرة رضي الله عنه : والذي نفسي بيده لو لم تذنبوا لذهب الله بكم وجاء بقوم يذنبون فيستغفرون الله فيغفر لهم رواه مسلم عن أبي هريرة رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم.،،
انسان کے اندر فرشتوں کی معصومیت بھی رکھی ھے، اور شیطان کی طرح خطا کا امکان بھی رکھا ھے ،، فالھما فجورھا و تقواھا ،، جو خطا کر کے توبہ کرلے تو فرشتوں کی طرح معصوم ھو جاتا ھے ، اکڑ جائے تو ابلیس کی صف میں جا کھڑا ھوتا ھے ،، مگر جب جب انسان توبہ کرتا ھے تو وھی منظر سج جاتا ھے کہ ” اوئے ابلیس خبیث ادھر آ دیکھ کہ کیوں پیدا کیا تھا ،،دیکھ جس مٹی کو تو ادنی کہہ رھا تھا وہ توبہ کر کے اس وقت میرے کتنے قریب ھے اور مجھے کتنا عزیز ھے ،،اب بھی تجھے اپنا فالٹ نظر آیا ھے کہ نہیں ؟ مجھے پتہ تھا تو قیامت تک توبہ نہیں کر سکتا تیری عبادت نے تجھے اس معاملے میں بانجھ کر دیا ھے ،، جبکہ مجھے توبہ والا چاھئے تھا ،،
1- جب کوئی مومن توبہ کرتا ھے ، اللہ کی طرف پلٹ آتا ھے تو اللہ پاک کو اس سے زیادہ خوشی ھوتی ھے جتنی امھات المومنین کو حضورﷺ کی اپنے گھر آمد کی خوشی ھوتی تھی ،
2- اللہ پاک کو اس مسافر سے زیادہ خوشی ھوتی ھے جس کی اونٹنی سامانِ زندگی لے کر صحراء میں کھو گئ تھی اور وہ مایوس ھو کر موت کے انتظار میں ایک ٹیلے کے سائے میں لیٹ گیا جہاں اس کی آنکھ لگ گئ ، آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اونٹنی سارے سامان سمیت واپس آ کر اس کے سامنے کھڑی تھی ،، اس کا انگ انگ رب کے شکر کے جذبات سے اس طرح بھر گیا جس طرح شھد کا چھتہ شہد سے بھر جاتا ھے ، اس خوشی کے عالم میں اسے اپنی زبان پہ قابو نہ رھا اور اس کے منہ سے بیساختہ نکلا کہ ” اے اللہ میں تیرا رب تو میرا بندہ ” جبکہ وہ کہنا یہ چاھتا تھا کہ ” اے اللہ تو میرا رب میں تیرا بندہ ” اللہ کے رسول فرماتے ھیں کہ اللہ کو کسی گنہگار کے پلٹ آنے پر اس مسافر سے زیادہ خوشی ھوتی ھے !
3- جب کوئی بندہ گناھوں سے پلٹ آتا ھے اور اپنے گناھوں پہ شرمندہ ھوتا ھے ، تو اللہ پاک اس کے سارے گناھوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ھے ،،
یہ ساری باتیں یہ واضح کرتی ھیں کہ ایک انسان کو ترک و اختیار کا آپشن دے دینے کے بعد اللہ پاک کے نزدیک اس کی کتنی اھمیت ھے اگرچہ وہ سر سے پاؤں تک گناھوں کی دلدل میں دھنسا ھوا ھو ،،،
میں اپنی زندگی کی نصف صدی کے تجربات کی بنیاد پر حلفیہ کہنے کو تیار ھوں کہ رب سے بھاگے ھوئے کو ڈرا کر کبھی واپس نہیں لایا جا سکتا ،، اسے صرف میرے رب کا پیار اور عفو و درگزر کی صفت ھی واپس آنے پر آمادہ کر سکتی ھے ،، زیادہ ڈراوہ انسان کو بغاوت پر آمادہ کر دیتا ھے ،، دونوں رخ اس ایک حدیث میں ھی دیکھے جا سکتے ھیں جس میں ایک 99 قتل کرنے والے ایک شخص کے دل میں پلٹ آنے کی جستجو جاگ اٹھی ،،اور اس نے ایک مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھا کہ کیا اس کی واپسی کی کوئی سبیل ھے ؟ اس پہ اس مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ایک قتل ھی مان نہیں ، اور تو 99 قتل کر کے توبہ کی قبولیت کی امید لگائے بیٹھا ھے ؟ بندے نے مایوس ھو کر اس مولوی کو بھی مار دیا تا کہ وہ آئندہ کسی پلٹ آنے والے کو مایوس نہ کرے اور سنچری مکمل کر لی ،، مگر چونکہ اپنی توبہ میں مخلص تھا ،، کسی دوسرے مولوی کے پاس جا پہنچا ،، مولوی صاحب نے اس کی بات بڑی توجہ سے سنی اور کہا کہ جب تو پلٹ آنے کو تیار ھے اور اللہ پاک تجھے قبول کرنے کو تیار بیٹھا ھے تو تیرے پلٹنے میں دیر کیا ھے ؟ تیرا پچھتاوہ بتاتا ھے کہ تو ایک سلیم الفطرت انسان ھے مگر یہ معاشرہ تیرے قابل نہیں ، یہ تجھے مشتعل کر کے گناہ کرا لیتا ھے ،تُو فلاں بستی کی طرف چلا جا جو تیری طرح تائب لوگوں کی بستی ھے تیرا گزارا وھاں ھو جائے گا ،،، بندہ ابھی اس بستی کی طرف چلا ھی تھا کہ منہ کے بل گرا اور اس کی جانکنی میں مبتلا ھو گیا ،، کچھ فرشتے قتل والی فائل لے کر آ پہنچے اور اسے جھنم کی طرف لے جانے کا قصد کیا ، جبکہ دوسری پارٹی توبہ والی فائل لئے اسے جنتی لوگوں کا سا پروٹوکول دینے کا مطالبہ کرنے لگے ،، اس جھگڑے میں اللہ پاک نے ایک فرشتے کو بھیجا جس نے ان دونوں پارٹیوں سے کہا کہ تم لوگ ناپ کر فیصلہ کیوں نہیں کرتے اگر وہ گناھوں والی بستی کے قریب ھے تو جھنم والے اسے لے جائیں اور اگر تائب بستی والوں کے قریب ھے تو جنت والے لے جائیں ،دونوں پارٹیاں اس پہ تیار ھو گئیں اور اللہ پاک نے تائب بستی کی طرف والی زمین کو کہا کہ سمٹ جا ، یوں صرف ایک قدم کا فاصلہ تائب بستی کے قریب نکل آیا اور یہ وھی قدم تھا جو اس نے توبہ کے بعد اس بستی کی طرف لیا تھا ،، یوں جنت والے فرشتے اسے لے گئے ،
اس کے بالمقابل رویہ یہ ھے کہ اچھی بھلی پردہ دار لڑکی کو ایک متشدد سہیلی حدیث سناتی ھے کہ جو عورت بھنوؤں کی تراش خراش کرتی ھے اس کو ھر بال کے بدلے ایک زنا کرنے کا گناہ ھوتا ھے ،، اس لڑکی نے پردہ کرنا بھی چھوڑ دیا کہ اتنے زنا کرنے کے بعد یہ پردہ کیا فائدہ دے گا ، جب اللہ ھی تُل گیا ھے کہ مجھے جھنم میں پھینکنا ھے تو پھر وہ مجھے کسی نہ کسی بہانے پھینک کر ھی رھے گا ، اس سے کون جیت سکتا ھے ،، اس قسم کی جھوٹی حدیثیں جو کچھ متقی لوگوں نے لوگوں کو ڈرانے کے لئے تخلیق کی ھیں وہ Counterproductive ثابت ھوتی ھیں ،، یہ بگڑا ھوا انسان سنبھالے نہیں سنبھلتا ،، اس قسم کی احادیث اور بھی بہت ھیں جن پر رد عمل بھی الٹا ھوا ھے اور میں وہ واقعات بھی کبھی لکھونگا ،، مگر اب دنیاوی مثال بھی سن لیجئے ،،،
ایک لڑکی تھی کوئی بارہ تیرا سال کی وہ قرآن پڑھنے کسی کے گھر جایا کرتی تھی – اس کا ایک بھائی بڑا سخت مزاج تھا جو کافی نیک بھی تھا لہذا ذرا ذرا سی بات کو بہانہ بنا کر چمڑی اتار دیتا تھا ،، ایک دن لڑکی لیٹ ھو گئ تو جس خاتون کے گھر وہ پڑھتی تھی اس نے اسے بتایا کہ اس کا بھائی بڑے غصے میں اسے ڈھونڈتا پھر رھا ھے ،،بچی ڈر سے تھر تھر کانپنے لگی ، اس عورت نے اسے بستروں والی چھتی میں چھپا دیا ، تھوڑی دیر بعد اس کا بھائی آ پہنچا اور غصے سے اسے آوازیں دینے لگا اور دھمکیاں دینے لگا کہ اگر آج مل گئ تو ٹوکے سے اس کے ٹکڑے کرونگا ،،، لڑکی مزید ڈر گئ ،، یوں مکمل طور پر اس عورت کے رحم و کرم پر رہ گئ ،، اس عورت نے اپنے دیور کے ساتھ اسے لگا کر وھاں سے نکال دیا اور اس دیور نے اسے کسی کے پاس جا کر بیچ دیا ،، اس کے بعد ایک لمبی داستان ھے جس میں پھر قتل بھی شامل ھو جاتا ھے ،، اسی طرح اس عورت کی جگہ شیطان کو سمجھ لیں جو گناہ سے پہلے تو انسان کو اللہ کی رحمت کے سمندر دکھاتا ھے ،مگر جب وہ گناہ کر لیتا ھے تو پھر اسے اللہ کے عذاب سے ڈرا کر اغوا کر لیتا ھے ،جبکہ اللہ پاک گناہ سے پہلے خبردار کرتا ھے مگر گناہ سر زد ھو جانے کے بعد دلاسے دیتا ھے ، اے نبی میرے ان بندوں سے کہہ دیجئے جو اپنی جانوں پہ ظلم کر بیٹھے ھیں کہ وہ رب کی رحمت سے مایوس نہ ھوں ، اللہ ان کے سارے گناہ معاف کر دے گا ، بے شک اللہ ھی بخشنے والا رحم کرنے والا ھے ،،
قل ياعبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعا إنه هو الغفور الرحيم (53 -الزمر)