حامد کمال الدین از ایقاظ !
مسلّمات کی ضرورت
قوموں کی زندگی میں اور انسانی معاشروں کے اندر بعض معاملات کو نبیڑے اور ہمیشہ کیلئے طے کردیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ یہ بات سماجی امور کے معاملہ میں بھی سچ ہے، طبعی علوم کے معاملہ میں بھی، فکری امور کے بارہ میں بھی، اور قومی وسیاسی بنیادوں کی بابت بھی۔
مسلّمات کا پایا جانا پس قوموں کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں اگر کہیں کوئی جھول پایا جانے کا امکان ہے تو وہ اس لئے کہ قوموں اور معاشروں میں جن باتوں پراتفاق کر لیا جاتا ہے ان میں سے کسی ایک کی بنیاد بسا اوقات کسی ٹھوس علمی ثبوت کے بغیر رکھ لی گئی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض طبعی یا سماجی مسلّمات کبھی بیک وقت غلط بھی ثابت ہو جاتے ہیں اور قوم کی زندگی میں ایک بنی بنائی عمارت اس کے باعث دھڑام سے گر جاتی ہے اور تب وہ ایک بڑے بحران میں جا پڑتی ہے۔ مگر اس خطرے اور احتمال کے باوجود قوموں اورمعاشروں کی زندگی میں مسلّمات کے پائے جانے کی ضرورت اصولاً ختم نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ اس کے بغیر کسی انسانی اکٹھ کا مل کر آگے بڑھنا اور اس راستے میں ان کے مابین نسلوں تک یکسوئی اور ہم آہنگی کا پایا جانا ممکن ہی نہیں۔ ہاں کچھ ضروری ہے تو وہ یہ کہ مسلّمات پوری طرح ٹھوک بجا کراور ٹھوس علمی بنیادوں پر قائم کئے گئے ہوں۔جس کی کہ ہمارے دین میں حیرت انگیز حد تک تاکید ہے خواہ وہ شرعی مسئلہ ہو یا حتی کہ طبعی اورمادی علوم کا:
وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً ا (الاسرائ: 36)
”کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ یقینا آنکھ، کان اور دِل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے“۔
البتہ جہاں تک اس امت کا تعلق ہے تو اس کو جو مسلمات حاصل ہیں سب اقوام میں وہ اس لحاظ سے منفرد ترین ہیں کہ وہ صحیح معنوں میں ”مسلمات“ ہیں ، یعنی کسی وقت ان میں اضطراب آجانا ممکن نہیں۔یعنی یہ ہماری اجتماعی زندگی میں مضبوط ترین عمارت اٹھا دینے کی ضمانت ہوسکتے ہیں۔
عام خیال اس وقت یہاں یہ ہے کہ امت مسلمہ کو یہ مسلمات صرف ”مصادرِ دین“ ہی کی بابت حاصل ہیں، یعنی کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ، البتہ ان مصادر کے ’فہم وتطبیق‘ کی بابت لوگ جو بھی جہت اپنائیں، حتی کہ اس پر کسی وقت باہم دست وگریباں پائے جائیں، تو اس معاملہ میں کوئی باقاعدہ معیار اور کوئی معتمد علیہ صورت اس امت کو میسر نہیں!یہی وجہ ہے ہمارے برصغیر کی فکری و تحریکی دنیا اس وقت ایک آشوب ناک صورت میں گرفتا رہے۔ اس ثانی الذکر غلط فہمی، یعنی نصوص کے فہم کے معاملہ میں کوئی مراجع ہمیں بطورِ پیمانہ میسر نہیں، اس ثانی الذکر غلط فہمی کو دور کردینا ہی اس کتابچہ میں ہمارا موضوع ہے۔
مراجعِ فہم کیا واقعتا ہماری ضرورت ہے ؟ اس پر کچھ بات ہوجانا شاید مناسب رہے۔۔۔۔
بلاشبہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہمارے لئے ہدایت کا منبع ہے، اور اس کے مُسَلَّمہ ہونے میں، سوائے کچھ ہلاکت میں پڑنے والے فرقوں کے، کسی کو کوئی کلام نہیں۔ یہاں تک کہ اس پر مزید وقت صرف کرنا بھی ہمارے خیال میں ضروری نہیں۔ البتہ ہماری ضرورت صرف یہیں تک نہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ایک آدمی کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ سے استدلال کرنے میں دانستہ یا نادانستہ ایک غلط طرز عمل اپنا لے اور کہیں سے کہیں جا پہنچے یا پھر اس بات کی کوئی ضمانت اتار دی گئی ہے کہ قرآن وحدیث ہر آدمی کو ہر حال میں درست ہی سمجھ آئے گا اور کوئی شخص بھی دین کو اس کے اس مصدر سے سمجھنے میں ہرگز کوئی ٹھوکرنہیں کھائے گا؟
کیا اِس اُمت کا وقت اور وسائل اس بات کے متحمل ہیں کہ ہر شخص یا مجموعۂ اشخاص یا مکتبِ فکر یہاں اٹھے تو دین کی ایک ازسرنو تعبیر کرے اور تب کوئی دوسرے شخص یا مجموعۂ اشخاص یا مکتبِ فکر یا حتی کہ پوری اُمت کیلئے اِس کی تصحیح یا اِس کا رد کرنے کی مصروفیت نکل آئے! ہر وہ شخص جو کسی دوسرے کی پکڑ کرنے کیلئے آگے بڑھے ایک نیا شخص پھر اس کی پکڑ کرنے کو اُٹھ کھڑا ہو اور ’گیند چھیننے‘ کا یہ کھیل فہم دین کے نام پرکھیلا جائے، جیساکہ صدی بھر سے ہمارے برصغیر میں ہو بھی رہا ہے!؟
یا پھر ”مصادرِ شریعت“ ہی کی طرح ”مصادرِ فہم“ کے معاملہ میں بھی اس امت کو کفایت کردی گئی ہے اور یہ مؤخر الذکر مسئلہ بھی اس کی تاریخ میں مسلمات کے زمرے میں آتا ہے؟
حق یہ ہے کہ اصول اہلسنت کی رو سے ہر دو امر میں ہمیں کفایت کردی گئی ہے اور سرگردانی کی اس امت کے پاس ہرگز کوئی گنجائش نہیں۔
آپ بہت ذہین اور وقت کے نابغہ ہیں اوربے شک محنت اور مطالعہ بھی بہت کرتے ہیں۔ کیا یہ اس بات کیلئے بہت کافی ہے کہ آپ دین کی ایک تفسیر نو کے مشن پر نکل کھڑے ہوں اور اپنے ساتھ اُمت کے ایک خاصے بڑے طبقے کو بھی مصروف کرلیں؟حتیٰ کہ ہر ذہین آدمی امت کے اندر یہی کام کرے اور یوں روز اس امت کے چلنے کو ایک نیا راستہ سامنے لایا جائے، یعنی کوئی حتمی چیز اس باب میں یہاں کبھی پائی ہی نہ جائے!!!!!؟
امام مالکؒ کے پاس ایک شخص آیا اور دِین کے کچھ بنیادی اُمور میں آپ کو بحث وگفتگو کی دعوت دی (آپ اندازہ کر سکتے ہیں امام مالکؒ کے ساتھ ماتھا لگانے والا شخص کوئی کم علم یا معمولی قابلیت کا آدمی نہ ہوگا) امام مالکؒ کو اس کا کہنا تھا: ”آؤ بات کر کے دیکھتے ہیں۔ اس شرط پر کہ میں جیتوں تو تم میرے ہم خیال ہوجاؤ گے اور تم جیتو تو میں تمہارا ہم خیال ہو جاؤں“۔
”اور اگر کوئی تیسرا شخص ہم دونوں کو خاموش کرا دے؟“ امام مالکؒ نے اس تجویز پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا۔
”تو ہم اس کی بات تسلیم کر لیں گے“۔ اُس شخص کا جواب تھا۔
بظاہر دیکھئے تو اس شخص کی بات سے بڑی ہی انصاف پسندی اور حق پرستی جھلکتی ہے! ہو سکتا ہے وہ شخص اخلاص ہی سے یہ بات کہہ رہا ہو۔ بظاہر خاصی اصولی پیش کش ہے! مگر امام مالکؒ اس کا جو جواب دیتے ہیں حقیقت یہ ہے وہ آپ ایسے ائمۂ سلف کا ہی حصہ ہے، فرمایا:
”تو کیا جب بھی کوئی نیا شخص میدان میں آئے اور پہلے والے سے بڑھ کر دلیل دے لینے کی مہارت دِکھائے تو ہم اپنا دین اور راستہ تبدیل کر لیا کریں؟ سنو، میں اپنا دین یقینی طور پر معلوم کر چکا ہوں کہ وہ کیا ہے۔ تمہیں اپنا دِین تاحال معلوم نہیں تو جہاں چاہو تلاش کرتے پھرو“۔
یہ ہیں ہمارے ائمہ!
اُولئک آبائی فجئنی بمثلھم
امام مالکؒ کے اس جواب میں اہلسنت کا تقریباً سارے کا سارا منہج تلقِّی پوشیدہ ہے۔ ’دین‘ محض ذہانت کا کارنامہ نہیں۔ ’دین‘ کوئی ’دلائل‘ دے لینے کا نام بھی نہیں۔ یہ کوئی ’خوردبینی‘ عمل بھی نہیں۔ ایسا ہوتا تو خدا کی یہ سیدھی سادی مخلوق تو ماری ہی جاتی۔ ایک کثیر خلقت جو بیچاری تلاشِ روزگار میں صبح سے شام کر دینے پر مجبور ہے تب اس کی ہلاکت یقینی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دین ’فلسفہ‘ نہیں گو فکرِ اعتزال کی یہی کوشش رہی ہے کہ دِین کو ذہانت اور فطانت کا کمال ٹھہرا دیا جائے جس کی رو سے ___ فلسفی افکار ہی کی طرح ___ ہر نیا ذہین پرانوں کی بہت سی باتوں کو ’دلیل‘ کے زور پر غلط ثابت کردے اورپھر کوئی اور ذہین اُٹھے تو اس کی دلیل کو بے دلیل کردے ۔۔۔۔ یوں کسی معاملے کا حتمی فیصلہ قیامت تک نہ ہو!
یقینا ان لوگوں کا فیصلہ قیامت ہی کو ہونے والا ہے!
حق یہ ہے کہ ’دین‘ کا تعین ایک بہت ہی سادہ عمل ہے۔ ’دین‘ ایک متعین حقیقت ہے جس کا کہ نزول بھی عمل میں آچکا ہے اور جو زمین پر سمجھی بھی جا چکی ہے۔ بیان بھی ہو چکی ہے۔ روئے عمل بھی آچکی ہے۔ نقل بھی ہو گئی ہے اور روایت بھی۔ ہزاروں لاکھوں کی خلقت___ جس میں ہر اہلیت کے لوگ شامل تھے___ برس ہا برس تک اس کا فکری، نظری، عملی، روحانی اور ایمانی مشاہدہ بھی کرتی رہی اور زندگی کے اندر اس کا عملی اور واقعاتی مظاہرہ بھی۔ پھر ان کے اس فکری مشاہدہ اور عملی مظاہرہ کے عین حق ہونے کی شہادت اس حقیقت کے نازل کرنے والے نے خود بھی دے دی ہے (وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ)(1) اور جس پر یہ حقیقت نازل ہوئی اس نے بھی اس کی توثیق کر دی (ما اَنا علیہ و اَصحابی)(2)۔ پس اب اس حقیقت کی تلاش، تفکیر کے صغریٰ وکبریٰ میں نہیں بلکہ اس انسانی مجموعےؓ کے علم وعمل کے ذخیروں میں کی جائے گی اور اسی کے زیر تعلیم اور زیرتربیت رہنے والے ’تابعین‘ کے ہاں ڈھونڈی جائے گی، جن کی شاگردی کی جانب امام مالکؒ کا اشارہ ہے کہ ”میں اپنا دین یقینی طور پر معلوم کر چکا ہوں کہ وہ کیا ہے، تمہیں اپنا دین تاحال معلوم نہیں تو جہاں چاہو تلاش کرتے پھرو“۔
دِین کا فہم کسی ادھیڑ بن کا نام نہیں۔ مسلمات کا پایا جانا، کہ جس کے بعد ایک قوم صرف آگے سے آگے ہی بڑھے اور اس کی زندگی میں ہر قدم بار بار ازسرنو اٹھانے کی ضرورت نہ پڑے، ایک شرعی ضرورت بھی ہے اور ایک انسانی واقعہ بھی۔ قوموں کی زندگی میں اور نسلوں کا تسلسل برقرار رہنے کیلئے اس سے ہرگز کوئی مفر نہیں۔ پھر امت(3) ہونے کیلئے تو آپ کے ہاں مسلمات کا پایا جانا آپ کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔۔۔۔
ایک ایسی زمین جس پر آپ پورے اعتماد کے ساتھ اور قدم جما کر نہ چل سکیں ایک بڑے قافلہ کی گزرگاہ بننے کیلئے بے کار ہے۔
اس اُمت کو ایک ’بڑا قافلہ‘ بنا دینے کا انتظام ہمارے دِین میں پہلے دِن سے کردیا گیا ہے۔ یہ دین محض افراد کے ’تحقیقات‘ کا موضوع بننے اور ہر ہر فرد کو اس کی اپنی خوردبین سے نظر آنے کیلئے نہیں اترا۔ یہ لاکھوں کروڑوں افراد کو بیک وقت اور نسل درنسل چلانے اور ایک بہترین جہت دینے اور دئیے رکھنے کیلئے آیا ہے۔ ملکوں کے ملک اور قوموں کی قومیں اس سے جہت پاتے ہیں۔ اس دِین پر سات براعظم اکٹھے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اس کے فہم کی بابت عین اس بنیاد پر آجایا جائے جس سے اس اُمت کے سلف ہم کو روشناس کرا گئے ہیں۔ منہجِ سلف اور اصولِ اہلسنت ___ اس دِین کے فہم کی بابت ___ کچھ ایسے ہی مسلمات کا نام ہے۔
٭٭٭٭٭
پس مسلمات کا پایا جانا تو کسی گروہ کے ’اُمت‘ بننے اور بنے رہنے کیلئے ایک ناگزیر اور ایک طے شدہ امر ہے خواہ وہ دُنیا کی کوئی بھی قوم ہو۔ البتہ جہاں تک اس اُمت کا معاملہ ہے تو اس کیلئے ’کوئی سے بھی‘ مسلمات کام نہیں دیں گے۔ لہٰذا ہم جن مسلمات کی بات کرتے ہیں یہ وہی مسلمات ہیں جو اس وقت سے ہیں جب سے یہ اُمت وجود میں آئی اور جس کو کہ دورِ سلف کہا جاتا ہے۔ رہے وہ مسلمات جو آج ازسرنو قائم کئے یا متعارف کرائے جائیں گے اور لوگوں کو ان پر لایا جانے کیلئے ورق سیاہ کئے جائیں گے (کئی ایک مکتب فکر اس بات کیلئے سرگرم رہے ہیں اور کئی آج بھی ہیں) تو یہ نئے مسلمات نئے اندازکے مریل قافلے تشکیل دیں تو دیں مگر یہ اس اصل قافلہ کی تشکیل کرنے میں کام نہ دیں گے جو دراصل قرونِ اولیٰ کی یادگار ہے۔ جبکہ ہمیں کسی بات کی طلب اور غرض ہے تو وہ اسی سے ہے۔ یعنی اسی انداز کے کارواں کا ’پھر سے جادہ پیما ہونا‘ جو سلفِ اُمت کے نام سے ہمارے دلوں میں بستا ہے اور جس کا وزن تاریخ آج بھی محسوس کرتی ہے۔ رہے محدثاتِ اُمور تو انہوں نے ہمیں اِس دُنیا میں فائدہ دِیا ہے اور نہ آخرت میں دینے والے ہیں۔
مگر صورتحال عملاً آج کیا ہے؟ خاص طور پر ہمارے پڑھے لکھے حضرات دِین کے معاملے میں کس بات سے متاثر ہوتے ہیں؟ جس قدر کوئی نیا خیال ظاہر کیا گیا ہو وہ ان کو اتنا ہی مسحور کرتا ہے۔ پرانی روش سے جتنا ہٹ کر بات کی جائے وہ اُن کو اتنی ہی زیادہ ’مبنی بر تحقیق‘ معلوم ہوتی ہے۔ تحقیق دراصل ایک ’نئی اپج‘ کا نام بن گیا ہے۔ ذرا ایک نگاہ دوڑا لیجئے: برصغیر میں پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کے دوران یہاں کے جدید تعلیم یافتہ طبقوں میں دِین کی جو بھی تعبیریں اور روشیں عام ہوئیں ان میں کوئی قدرمشترک ہے تو وہ بڑی حد تک یہی بات نظر آتی ہے۔
یہاں تک کہ اب کوئی ٹھوس بنیاد، فہم دِین کے معاملہ میں، بیشتر پڑھے لکھوں کے ہاں سرے سے ناپید ہو چلی ہے۔ ایک ’بحث‘ ہے جو کسی بھی موضوع پر ہر وقت شروع کی جا سکتی ہے!