ایک مجلس کی تین طلاقوں کاشرعی حکم کتاب وسنت کی روشنی میں
ابوالحسن علوی
طلاق دینے کا صحیح طریق کار:
شریعت اسلامیہ میں طلاق دینے کا صحیح شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ
1۔ بیوی کو ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جائے۔
2۔ اور یہ طلاق بھی حالت طہر میں ہو۔
2۔ اور اس طہر میں ہو کہ جس میں بیوی سے مباشرت یا تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو۔
پس ایسے طہر میں کہ جس میں بیوی سے مباشرت نہ کی ہو، ایک طلاق دیناطلاق سنی کہلاتا ہے جبکہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا یا حیض و نفاس کی حالت میں طلاق دینا یا جس طہر میں بیوی سے تعلق قائم کیا ہو، اس میں طلاق دینا ، طلاق بدعی ہے یعنی سنت کے مطابق نہیں ہے اور بدعت ہے۔
جب عورت کو حالت طہر میں ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے تویہ طلاق، طلاق رجعی کہلاتی ہے اور اس کی عدت تین حیض ہے۔(البقرۃ : ۲۲۸) اگر اس عد ت میں خاوند رجوع کر لے توعورت اس کے نکاح میں باقی رہے گی ۔ اور اگر خاوند حالت طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد رجوع نہ کرے تو عدت گزرنے کے بعد عورت اپنے خاوند سے جدا ہو جاتی ہے لیکن اس صورت میں عورت کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں :
1۔ چاہے تواپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کر لے۔
2۔ اگر چاہے تو کسی اور مرد سے نکاح کر لے۔
طلاق کی یہ صورت طلاق احسن کہلاتی ہے کہ جس میں ایک طلاق کے ذریعے دوران عدت رجوع نہ کر کے بیوی کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس میں آپس میں دوبارہ نکاح کا آپشن بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں جہالت کے سبب سے عوام، بلکہ عرضی نویس اور وکلاء تک بھی اپنے کلائنٹ (client) ذریعے ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کے تحریری نوٹس بھجوا دیتے ہیں حالانکہ یہ طرزعمل سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
محمود بن لبید قال : أخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال : أیلعب بکتاب اللہ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال : یا رسول اللہ ألاأقتلہ۔(سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعۃومافیہ من التغلیظ)
’’ محمود بن لبید﷜ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کو ایک شخص کے بارے خبر دی گئی کہ جس نے ایک ہی ساتھ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپﷺ (یہ سن کر ) غصے سے کھڑے ہو گئے اور آپﷺ نے فرمایا : کیا کتاب اللہ کو کھیل تماشہ بنا لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ (اللہ کے رسول ﷺ کو اس قدر شدید غصے میں دیکھ کر حاضرین مجلس میں سے) ایک شخص نے کہا: کیا میں اسے (یعنی ایک ساتھ تین طلاقیں دینے والے کو) قتل کر دوں؟‘‘
Click to expand…
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
الطلاق مرتان (البقرۃ : ۲۲۹)
’’ طلاق دو مرتبہ ہے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں’طلقتان‘ یعنی دو طلاقیں نہیں کہا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے یعنی ایک بار ایک طلاق ہے اور پھر دوسری بار کسی دوسرے وقت میں دوسری طلاق ہو گی۔ پس ایک وقت میں ایک ہی طلاق جائز ہے ۔(تفسیر احسن البیان : ص ۹۴، مولانا صلاح الدین یوسف، مطبع شاہ فہد کمپلیکس، مدینہ منورہ، مملکت سعودی عرب)

ایک وقت کی تین طلاقوں کاشرعی حکم:
ایک وقت کی تین طلاقوں کے بارے اہل علم میں اختلاف ہے ۔ بعض اہل علم کے نزدیک ایک وقت کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور پاکستان میں عام طور حنفی علما کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا ،طلاق بدعی ہے اور ایسا کرنے والا گنا گار ہے لیکن تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی جبکہ اہل علم کی ایک دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں ، طلاق بدعی ہیں اوراس کا مرتکب گناہ گار ہو گا لیکن یہ تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی۔ پاکستان میں بعض حنفی علما اور عام طور اہل حدیث علما کا یہی موقف ہے۔ ہماری رائے میں دوسرا موقف ہی راجح ، کتاب وسنت اور مقاصد شریعت کے مطابق ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن ابن عباس قال طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بن مطلب امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا، قال : فسألہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :کیف طلقتھا ؟ قال : طلقتھا ثلاثا، قال : فقال : فی مجلس واحد ؟ قال : نعم ، قال : فانما تلک واحدۃ، فارجعھا ان شئت، قال : فرجعھا، فکان ابن عباس یری انما الطلاق عند کل طھر ۔(مسند احمد : ۴؍۲۱۵، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
’’حضرت عبد اللہ بن عبا س﷜ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید ﷜ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور اس پر شدید غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان صحابی سے دریافت فرمایا : تم نے اپنی بیوی کو کیسے طلاق دی ہے؟ حضرت رکانہ ﷜ نے عرض کیا : میں نے اسے تین طلاقیں دی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کیا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں ؟ رکانہ﷜ نے عرض کی : جی ہاں ! اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : یہ صرف ایک ہی طلاق ہے۔ پس اگر تو چاہتا ہے تو اپنی بیوی سے رجوع کر لے۔ پس رکانہ ﷺنے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ ابن عباس ﷜ کا کہنا تھا کہ ہر طہر میں ایک طلاق ہو گی۔ (یعنی خاوند نے اگر تین طلاقیں دینی ہو تو ایک ساتھ دینے کی بجائے ہر طہر میں ایک طلاق دے گا یعنی ایک ایک مہینے کے وقفے کے ساتھ دوسری اور تیسری طلاق دے گا)۔‘‘
Click to expand…
اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں ،حضرت ابو بکر ﷜ کی خلافت اور حضرت عمر ﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک ہی وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ حضرت عمر ﷜ کے زمانے میں ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کا رجحان بہت بڑھ گیا تو حضرت عمر﷜ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ ایسے شخص کی کیا سزا تجویز کرنی چاہیے جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دیتا ہے جبکہ شریعت نے سختی سے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہؓ کی باہمی مشاورت سے یہ طے پایاکہ ایسے شخص کی سزا یہ ہے کہ اس پر تین طلاقیں قانوناً نافذ کر دی جائیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال کان الطلاق علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر وسنتین من خلافۃ عمر، طلاق الثلاث واحدۃ۔ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی أمر قد کانت لھم فیہ أناۃ فلوأمضیناھ علیہ فأمضاہ علیھم۔(صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)
’’حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ سے روایت سے اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ، حضرت ابو بکر ﷜ کے دور خلافت اور حضرت عمر ﷜ کے دورخلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پس حضرت عمر ﷜ نے کہا کہ لوگوں نے طلاق کے معاملے میں جلدی کی ہے(یعنی ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے لگے ہیں) حالانکہ انہیں اس بارے مہلت دی گئی تھی( کہ وہ تین طہر یا تین مہینوں میں تین طلاقیں دیں)۔ پس اگر ہم ایسے لوگوں پر تین طلاقیں جاری کر دیں۔ پس حضرت عمر ﷜ نے انہیں تین طلاقوں کے طور جاری کر دیا۔‘‘
Click to expand…
پس اس وقت سے اہل علم میں یہ اختلاف چلا آ رہا ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی یا تین۔ حنفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ (judgement) اگرچہ سیاسی اور قانونی نوعیت کا تھا لیکن چونکہ اس میں صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت کی مشاورت بھی شامل تھی لہذا ہمارے لیے حضرت عمر ﷜ کا فیصلہ حجت (binding)ہے جبکہ اہل علم کی دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر ﷜ کا یہ فیصلہ سیاست و قضا سے تعلق رکھتا ہے جو اس وقت کے لوگوں کے لیے تو بطور قانون، لازمی امر(binding) کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بعد میں آنے والے علما، مفتیان کرام اور جج حضرات کے لیے اس فیصلے کی حیثیت ایک عدالتی نظیر (precedent)سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور جب یہ عدالتی فیصلہ اصل قانون (primary source of islamic law)سے ٹکرا رہا ہو گا تو اس صورت میں اصل قانون کو ترجیح دی جائے گی یعنی حدیث رکانہ ﷜ کو ترجیح ہو گی۔ اور اس فیصلہ(judgement) کی یہ توجیح کی جائے گی کہ یہ فیصلہ ضرورت کے نظریہ کے تحت عبوری اور وقت دور کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس (ordinance) کی حیثیت رکھتا تھا۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہؓ میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، زبیر بن عوامؓ، عبد الرحمن بن عوفؓ، ایک روایت کے مطابق حضرت علیؓ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کابھی یہی فتویٰ ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ تابعین میں سے حضرت عکرمہ، طاؤس اور تبع تابعین میں محمدبن اسحاق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داؤد بن علی اور بعض اہل ظاہر، بعض مالکیہ، بعض حنفیہ اور بعض حنابلہ کا بھی یہی موقف رہاہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔(اعلام الموقعین : ۳؍۴۴، اغاثۃ اللھفان : ۱؍۳۳۹۔۳۴۱)
یہ بیان کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ 1929ء میں مصر میں حنفی، مالکی، شافعی او رحنبلی اہل علم کی ایک جماعت کی سفارشات پر وضع کیے جانے والے ایک قانون کے ذریعے ایک وقت کی متعدد طلاقوں کو قانوناً ایک ہی طلاق شمار کیاجاتا ہے۔ اسی قسم کا قانون سوڈان میں 1935ء میں، اردن میں 1951ء میں، شام میں 1953 ء میں، مراکش میں 1958ء میں، عراق میں 1909ء میں اور پاکستا ن میں 1961ء میں نافذ کیا گیا۔(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل :ص ۲۱۹، مطبع دار السلام، لاہور)
ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمارکرنے والوں میں معاصر حنفی علما میں معروف دیوبندی عالم دین مولانا سعید احمد اکبر آبادی (انڈیا)،مولانا عبد الحلیم قاسمی (جامعہ حنفیہ گلبرگ، لاہور) اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل بریلوی حنفی عالم دین مولانا پیر کرم شاہ (سابق جج سپریم اپیلیٹ شریعت بنچ، پاکستان) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ معاصر علمائے عرب میں شیخ ازہر شیخ محمود شلتوت حنفی (جامعہ ازہر، مصر) ، ڈاکٹر وہبہ الزحیلی شافعی (دمشق، شام) ، شیخ جمال الدین قاسمی ،شیخ سید رشید رضا مصری اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے بھی ایک وقت کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا ہے۔ ان اہل اعلم کے تفصیلی فتاویٰ جات کے لیے درج ذیل کتاب کی طرف رجوع کریں:
(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل ، حافظ صلاح الدین یوسف، مشیر وفاقی شرعی عدالت، پاکستان، مطبع دار السلام، لاہور)