گنہگار مگر شرم سے جھکی نظروں والا اس نیک سے رب کو زیادہ محبوب ھے جو چار نفل پڑھ کر ذرا ذرا سی بات پر اسمان کو تیز نظروں سے گھورتا ھے !
دنیا کبریائی کا امتحان ھے ،، اور بس !
بڑے نے پھونک کیا مار دی کہ انسان کو بڑائی کا خبط ھو گیا !
کبریاء اللہ کی چادر ھے ،، تکبر کرنے والا اس چادر پہ ھاتھ ڈالتا ھے ، اور پھر اللہ اسے گھر بیٹھے ذلیل کر دیتا ھے !
دولت کا تکبر،، حسن کا تکبر،، ذات اور نسل کا تکبر ، عہدے کا تکبر ،علم اور تقوے کا تکبر
ھر ایک اپنی صفت کو لے کر اپنے کندھے ٹھونک رھا ھے ،حالانکہ یہ سب عطائی ھے ،ذاتی نہیں ھے ،، خوبی اس کی ھے جس نے دیا ھے نہ کہ اس کی ھے جسے ملا ھے ،بھکاری کو ایک کروڑ بھی دے دو ،مگر پھر بھی منگتا ھے ، اور دینے والا ھاتھ لینے والے سے بہتر ھے ،،
علم کل نہیں تھا ،، پھر ھوا ،، پھر نہیں ھو گا ،، طاقت کبھی نہ تھی ،پھر ھوئی ، پھر نہ ھو گی ،
انسان کا علم جتنا بھی ھو اللہ نے اسے کم اور قلیل کہہ کر اس کا مقدر طے کر دیا ھے ، رائٹ برادران جو کبھی علامہ کہلاتے تھے ،آج آکر شٹل دیکھیں تو پاگل ھو جائیں ،،
اکبر الہ آبادی نے کہا تھا !
مِن العلم قلیلاً یاد رکھنا بعد اُوتیتم !
نہ سمجھو گے تو کھاؤ گے اک دن جُوتی تُم !
اللہ نے جہاں علم دینے کا اقرار فرمایا ھے ساتھ وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً،، اور نہیں دیئے گئے تم علم مگر تھوڑا سا ! کہہ کر عالم کے غبارے مین سے ھوا بھی نکال دی ھے ، و فوق کلِۜ ذی علمٍ العلیم ،، ھر علم والے کے اوپر ایک علم والا ھے !
عبادت اور تقوے کا تکبر انسان کو راندہ درگاہ کر دیتا ھے ،، اللہ پر اپنی نیکی اور تقوے کا احسان جتانا اور اپنے کو عبادت کے بل بوتے پر جنت کا باسی سمجھ کر دوسروں کو جھنم کی وعیدیں سنانا ،، پکی نشانی ھے کہ بندے کو نیکی کا ھیضہ ھو گیا ھے ،،
حشر میں جو نیکی کی بنیاد پر جنت کا طالب ھو گا ، اسے نعمتوں کا بل پکڑا کر کاؤنٹر پہ بھیجا جائے گا کہ پہلے یہ حساب کلیئر کر کے ایئے جو باقی بچ جائیں گی وہ تول لی جائیں گی ،، ایک ادنی نعمت ساری نیکیاں کھا جائے گی اور گلہ کرے کی کہ ابھی میرا حق ادا نہیں ھوا ، اس وقت وہ نیک صاحب منہ منگلوار کی طرح نکال کر دائیں بائیں دیکھے گا ،مگر ھر طرف سے نعمتوں کے انبار نے اسے گھیرے ھوئے ھو گا ،،، اس وقت اسے اللہ کے فضل کی قدر آئے گی ،جس نے نیکیوں کی توفیق دی مگر نعمتوں کو کھاتے میں ھی نہیں لکھا تھا !