عام طور پہ ایک سوال کیا جاتا ھے کہ جناب اس بات کا یا اس جملے کا یا اس لفظ کا مطلب یا مفہوم ھمارے بزرگوں نے کیا سمجھا تھا ؟
جواباً عرض ھے کہ دین کا مخاطب لوگ ھیں ،، اللہ پاک کی جس بات کو اکثریت سمجھ لے وھی اللہ کا مقصود ھے کیونکہ اللہ پاک نے عام انسانوں کو خطاب فرمایا ھے اور اس خطاب میں اکثریت کو معیار بنایا ھے ،جو بات زیادہ سے زیادہ عام لوگوں کی سمجھ میں آئے وھی مطلوب و مقصود ھے اور اسی سے اتمام حجت ھوتا ھے ، اور یہی ھر خطیب کا پیمانہ ھوتا ھے کیونکہ اتمام حجت کا تعلق سمجھنے کے ساتھ ھے ،اسی لئے ھر قوم میں نبی انہیں میں سے اٹھایا گیا ھے کہ جن پہ اتمامِ حجت کرنا ھے اور ان کی سمجھ کو آنے والی نسلوں کی سمجھ کے لئے حجت بنانا ھے تو یہی فطری طریقہ ھے کہ خطاب کو عام اور سلیس رکھا جائے ،ولقد یسرنا القرآن للذکرِ فھل من مدکر ،، الہ پاک نے بدو سے خطاب کیا تو پہلے اونٹ کی بات کی پھر آسمان کی بات کی ،، (أَفَلا يَنظُرُونَ إِلَى الإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ)، کیا پھر یہ دیکھتے نہیں کہ اللہ نے اونٹ کو ( ان کی ضرورت کے مطابق ) کیسا بنایا ؟ کیا پھر وہ اللہ ان کی روحانی اور دینی پیاس کو ان کی ضرورت اور مزاج کے مطابق نہیں بجھائے گا ،،
یہ فقہی اصول بھی ھے کہ اگر فلسفیوں ،فریسیوں اور فقیہوں نے کسی لفظ کی چٹنی بنا دی ھے تو گلی میں نکلو اور اس زبان کے کسی آدمی سے بھی اس کا مطلب پوچھ لو،، جو وہ عام آدمی سمجھا ھے وھی اس لفظ کا حقیقی مطلب ھے !