بھائیو جو بات میں کہنے لگا ھوں، اجمالاً ایک جملے میں بیان کی جا سکتی ھے،، مگر تفصیلاً پوری کتاب یا تھیسس لکھا جا سکتا ھے !
وہ اجمالی جملہ یہ ھے کہ ” جتنا زور ھم نے علماء کو کُرسی تک پہنچانے پر صرف کیا ھے،، اس کا صرف 05۔0 ٪ بھی کرسی والے کو فیصل مسجد کے مبنر پر لانے میں خرچ کرتے تو آج پاکستان میں اسلام کا بول بالا ھوتا "،،صرف ایک گھنٹے کی میٹنگ میں نواز شریف کو فیصل مسجد میں خطبہ دینے پر قائل کیا جا سکتا ھے ! اگلے دو ھفتے میں آئینی ترمیم کے ساتھ انہیں امیر المومنین قرار دیا جا سکتا ھے ! لو جی خلافت قائم ھو گئ !
اللہ پاک نے سورہ الحج کی آیت 41 میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صاحب اقتدار پر فرض کیا ھے اور یہ” منبر و محراب” اصلاً خلیفہ کا فرضِ منصبی ھے ! مساجد اس فریضے کی ادائیگی کے ٹولز ھیں ! اور ھمیشہ اسی طرح رھا ھے کہ دارالخلافے میں خلیفہ اور صوبوں میں گورنر خطبہ دیا کرتے تھے جہاں وہ نئے احکامات کا اعلان کیا کرتے تھے،، جن کو تبدیل کرنا ھوتا تھا وہ بھی جمعے میں بیان ھوتے تھے اور جن باتوں سے روکنا مقصود ھوتا تھا اس کی انفارمیشن میں خطابِ جمعہ میں دی جاتی تھی ! یوں اسلام کتابوں میں اور فتوؤں میں نہیں ملتا تھا،، احکامات کی صورت سوسائٹی کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا تھا !
یہی وجہ ھے کہ خلفاء سے احادیث کی روایت بہت کم ھے کیونکہ روایت وہ بیان کرتا ھے جو صرف پریس کانفرنس کر کے مطالبہ کر سکتا ھے،جس کے ھاتھ میں طاقت ھوتی ھے وہ روایت بیان نہیں کرتا روایت پر عمل کرتا ھے کیونکہ یہ اس کا فرض منصبی ھوتا تھا، اسی وجہ سے خلفاء کے آثار فقہاء کے نزدیک سنت کا درجہ رکھتے ھیں !
مساجد یونین کونسل ،تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کی طرح کا سرکاری ادارہ ھے،جسے سرکار ھی قائم کرتی،اور چلاتی تھی،، 100 سال تک کسی پرائیویٹ مسجد کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،،کہ جس کے پاس پیسہ ھوا ایک محلے میں تین تین مساجد بنا کر بیٹھ گئے ! آپ کبھی نہیں سنیں گے ،کہیں نہیں پڑھیں گے کہ امام ابوحنیفہؒ نے فلاں مسجد میں جمعے کا خطبہ دیا،،، البتہ یہ ضرور پڑھیں گے کہ حجاج بن یوسف نے جمعے کا خطبہ دیا ،،زیاد اور ابن زیاد نے جمعے کا خطبہ دیا اور لوگوں نے کنکریاں ماریں،، ابو موسی الاشعریؓ نے بحیثیت گورنر جمعے کا خطبہ دیا،،یہاں تک کہ عبداللہ ابن مسعودؓ جلیل القدر فقیہہ صحابی چونکہ گورنر نہیں بلکہ معلم اور مدرس بنا کر بھیجے گئے تھے ،انہوں نے کبھی جمعے کا خطبہ مرکزی مسجد میں نہیں دیا،،خطیب گورنر کی طرف سے مقرر ھوتے تھے اور اسی کے حکم سے معزول کیئے جاتے تھے،،نبی کریمﷺ کے زمانے سے لوگ خطیب نہیں چنا کرتے تھے بلکہ آپ ﷺ سرکاری حیثیت سے ان کا تعین فرمایا کرتے تھے،ان کا ٹیسٹ لیا جاتا تھا،،ایک دفعہ آپ ﷺ نے خطباء کے تعـین کے لئے کچھ لوگوں کو بلایا اور ان کا امتحان لینا شروع کیا،، ایک خطیب نے کہا ،، من یطع اللہ ورسولہ فقد ھدی و من یعصِھما فقد غوی ،، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ھی ضمیر میں اللہ اور رسول کو جمع کرنے پر اس سے سخت ناراض ھوئے اور اسے فرمایا بئس الخطیب انت ! تو برا خطیب ھے،بیٹھ جا ! اسی سنت کو خلفاء نے زندہ رکھا !علماء کا کردار ھمیشہ سے مشاورتی رھا ھے !
چاروں ائمہ اور ان کے شاگردوں نے کبھی نہ حکومت طلب کی، نہ لوگوں نے انہیں حاکم اور خلیفہ بنانے کی کوئی تحریک شروع کی ! ائمہ نے بھی اپنے مشاورتی کرادر پر ھی توجہ دی اور اسے دیانت کے ساتھ نبھایا،حالانکہ وہ کوئی آئیڈیل حکمران نہیں تھے،، کہ جن پر کوئی اعتراض وارد نہ کیا جا سکتا ھو، وہ قتل سمیت ھر جرم میں ماخوذ کیئے جا سکتے تھے، اس کے باوجود لوگوں نے ان کو ھٹا کر کبھی بھی ،،امام مالک ،امام ابوحںیفہ ،امام شافعی اور امام احمد کو حکمران بنانے کی کوئی تحریک یا مہم نہیں چلائی ! جب سے ھمارے علماء نے اپنی نگاھیں اقتدار پر جمائی ھیں اس دن سے مشاورتی کردار کو بھی متنازعہ اور مشکوک بنا لیا ھے،، خدا ھی ملا نہ وصالِ صنم ،،والی مثال اگر سو فیصد کسی پر لاگو ھوتی ھے تو وہ ھمارے مذھبی طبقے پر لاگو ھوتی ھے
جونہی حکمرانوں نے مساجد کو ایزی لیا انہیں انڑ اسٹیمیٹ کیا اور ان کی اھمیت کا ادراک نہ کیا ،اسے دوسروں کو سونپ دیا اور خود الگ ھو کر بیٹھ گئے اسی دن سے اسلام اقتدار سے محروم ھو کر دین نہ رھا بلکہ مذاھب میں تبدیل ھو گیا !صرف فتوؤں کا مذھب رہ گیا اور فتوی چونکہ نافذ نہیں ھوتا،، نافذ کرنے والوں نے اسے علماء کو گفٹ کر دیا،، بس تب سے دین فتوؤں میں ملتا ھے اور دال جوتیوں مین بٹتی ھے !
مساجد کی بھرمار ھے اور مساجد ایک بیمار کے بدن میں پیدا ھونے والی گلٹیوں کی شکل اختیار کر گئ ھیں جو دین کی وحدت کی نہیں بلکہ مذاھب اور مسالک کے مورچے بن گئے جہاں اپنے اپنے مسالک کے سپاھی پیدا کیئے جاتے ھیں !
حاکم تو ایک ھے،دین بھی ایک ھے، وہ ایک ھی بات کرے گا جو کہے گا اس پر عمل کا اختیار بھی رکھتا ھے یوں دین اپنے اصل منبعے کی طرف پلٹے گا!
الذین ان مکناھم فی الارض،، وہ جن کو ھم زمین پر تمکن عطا فرمائیں تو ظاھر ھے یہ تمکن نواز شریف کو بخشا گیا ھے،، اقامو الصلوۃ ، وہ نماز قائم کریں،، مرکزی مسجد کا امام نواز شریف ھے،، و اٰتوالزکوۃ ،، زکوۃ کی وصولی اور عوام تک اسے پہنچانے کا ذمہ دار بھی وھی ھے ،، و امروا بالمعروف،، منبر سے معروف کی تلقین اور اس کے
لئے ضروری عملی اقدامات کا ذمہ دار وھی ھے، و نہوا عن المنکر ،، اور برائی سے خبردار کر کے اس کی راہ روکنے کے عملی اقدامات اٹھانا بھی اس کا مذھبی فریضہ ھے،، کیوںکہ تمکن اس کو ملا ھے،، مفتی حضرات صرف تقریر کر سکتے ھیں اور کرتے چلے آ رھے ھیں ! کیونکہ سورہ یوسف میں جو بار بار حضرت یوسف کو تمکن فی الارض کا احسان جتایا جا رھا ھے تو ساتھ یہ بھی بتایا جا رھا ھے کہ تمکن کا حقیقی مفہوم صاحب اختیار ھونا اور اس اختیار کو پھر خیر کے لئے استعمال کرنا ھے،،یوں امر بالمعروف حاکم کا فریضہ ھے،عوام بطور آلہ استعمال ھوتے ھیں،، ان پر اپنے اپنے دائرہ کار میں یہ کام فرضِ کفایہ ھے،، اصل ذمہ داری حاکم کی ھے،،
جب اسے معلوم ھو گا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نمائندگی کر رھا ھے تو یقیناً اسے اس عہدے کے ساتھ ایک تقدس کا تعلق اور رشتہ محسوس ھو گا، وہ اس کی اھمیت کو سمجھے گا ،، نتیجے میں اس کے ذاتی کردار میں بھی بلندی پیدا ھو گی اور وہ ایک سیاست دان کے بازاری مقام سے اٹھ کر خلافت کے مقدس مقام پر فائز ھو جائے گا،، یوں ھِــز ھائی نیس اور ھــز ھولی نیس کا ایک ھی ھستی اور ایک ھی عہدے میں ادغام ھو جائے گی،، اور جس پرزے کی خرابی سے اسلام کی disintegration شروع ھوئی تھی وہ پرزہ ٹھیک کام کرنا شروع کر دے گا ،، اور اسلام دوبارہ وحدت کی طرف گامزن ھو گا،، خلفاء کی مساجد اور منابر سے گرفت کمزور ھونے کے زمانے سے ھی مختلف مذاھب کی مارا ماری شروع ھوئی ھے !
اب علماء کو چاھئے کہ وہ اپنی یہ ضد چھوڑ دیں کہ اسلام وھی ھو گا جو ان کے دستِ مبارک سے نافذ ھو گا،، بلکہ جسے اللہ نے اقتدار بخشا ھے اس تسلیم کریں اور منبر اس کی امانت ھے اسے واپس کریں اور نیچے بیٹھ کر اس کا خطاب سنیں ،،