مکہ کے لوگ شروع میں بت پرست نہ تھے ، ان کے اصلی لوگ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد تھے ، اور اپنے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والے سمجھتے تھے ، اور ان کے دین کو اپنا دین سمجھتے تھے ، ا ن کے ساتھ یمنی قبیلہ جرہم پھر خزاعہ کے لوگ آکر بس گئے تھے ، وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے مختلف دین رکھتے تھے ،
اسماعیلی لوگوں میں بت پرستی بعد میں آئی ، اس طرح کہ مکہ کے ایک شخص عمرو بن لحی جو جرہم قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا ، اس کے ذریعہ آئی تھی جس نے اپنے شام وعراق کے ایک سفر کے دوران وہاں بت پرستی دیکھی اور وہ اس کو اچھی لگی اور وہاں سے بت لاکر مکہ مکرمہ میں اس کا تعارف کرایا اور کعبہ کے دروازہ پر اس کو نصب کیا ، اس کا ہبل نام تھا ، اور وہ انسان کی شکل میں تھا ، اس کو بتدریج اہل مکہ سب سے بڑا اور اہم بت سمجھنے لگے ، او راس کے ساتھ مختلف جگہوں پر دوسرے بت نصب ہوتے چلے گئے ، بالآخر اس طرح بتوں کی کثرت ہوگئی ، عرب ان بتوں کو خدا کے برگزیدہ بندے اور اس کے تحت کام کرنے والے قرار دے کر ان کی تعظیم عبادت کی شکل میں کرنے لگے ، وہ ان سے مرادیں مانگتے اور سمجھتے کہ وہ ان کی مدد خدا کی طرح کرسکتے ہیں ، پھر بت پرستی ایسی عام ہوئی کہ گھر گھر میں بت حتی کہ کعبہ کے اندر بت رکھ لئے گئے ، وہ یہ کہتے کہ ان کو ہم اصل خدا نہیں مانتے ، ان کو ہم چھوٹے چھوٹے خدا مانتے ہیں جیسا کہ بادشاہ کے تحت مختلف شعبوں اور کاموں کے لئے حاکم ہوتے ہیں اسی طرح یہ ہماری زندگی کے مختلف کاموں کے لئے چھوٹے پیمانہ کے خدا ہیں ، ان کو خوش کرکے ہم بڑے خدا کو خوش کرسکتے ہیں ، یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کریں گے ، اور ہمارا کام اس طرح آسانی سے ہوجائے گا ، اور ہم کو بڑے خدا سے کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ، وہ بت کو کسی قدیم بڑی شخصیت کی نشانی قرار دیتے تھے اور ان کی عبادت کو کافی سمجھتے تھے ، حالانکہ اللہ رب العالمین کو چھوڑ کر یا اس کی ذات پاک کے ساتھ کسی دوسرے کو اس کے کسی کام میں کسی طرح سے بھی خدائی کام میں شریک سمجھنا یہی شرک ہے ، کیونکہ اس نے سب کو پیدا کرکے باقی کام کسی دوسرے کو سپرد نہیں کردیا ہے ، وہ کائنات اور مخلوقات کا نظام خود ہی چلا رہا ہے ، کسی کا اس کے کام میں دخل نہیں ہے ، وہ جو چاہتا ہے کرتاہے اور اپنی مخلوق کی دعا کو سنتا ہے ، اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنا بہت زیادہ ناپسند ہے ، اور اس سے سخت ممانعت کی گئی ہے اور اس کے خلاف حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے آواز بلند کی اور اپنی اپنی قوم سے جھگڑا مول لیا،اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اسی شرک کی مخالفت میں اپنے والد کو ، اپنے گھر بار کو اور اپنی عزت وراحت کو خیر باد کہا ، اب یہ دعوت عربوں میں مبعوث ہونے والے نئے نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاً اپنی قوم کو پھر دوسری قوموں کو دینا تھا ۔
قریش یوں تو متعدد بتوں کی عبادت کرتے تھے ، لیکن ہبل کو خدا کا نمائندہ اور بااثر سمجھ کر اپنی بڑی ضرورتوں کے لئے اسی سے کہتے تھے ، اور اس کو اپنا خاص اور اہم معبود مانتے تھے ، اس کے علاوہ اسف اور نائلہ نام کے بت بنائے تھے ، جو قریب ہی تھے ، مکہ کے باہر بھی کئی اہم بت رکھ لئے گئے تھے جن کو قریش بھی مانتے تھے ، ان میں ایک عزیٰ تھا جو مکہ سے کچھ فاصلہ پر مقام قدید میں رکھا گیا تھا ، یہ بت خاص طور پر اہل مدینہ کا بت سمجھا جاتا تھے ، تیسرا بت لات تھا جو طائف میں تھا ، اور اہل طائف کا خاص بت سمجھا جاتا تھا ، ان کے علاوہ ہر ہر قبیلہ نے اپنے اپنے علیحدہ بھی بت رکھ لئے تھے ، کعبہ کے اندر ہر قبیلہ نے اپنی پسند کے بت اپنی نمائندگی کے طور پر رکھ دئے تھے ۔ اس طرح کعبہ اس طرح عربوں کی عبادت کا مزاج توحید سے ہٹ کر بت پرستی کی طرف ہوگیا اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ سے دور ہوگئے ، پھر اپنی زندگی کے دیگر پہلوؤں میں بھی غیر اللہ کی عقیدت وعبادت داخل کرلی ، جانوروں کے سلسلہ میں بھی طرح طرح کے عقیدے گھڑ لئے ، ان میں بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حامی نام سے جانوروں کو مخصوص کر دیتے اور ان کو استعمال نہ کرتے اور ان کے سلسلہ میں مختلف قسم کے عقیدے بنالئے تھے ، جس کی سخت مذمت قرآن مجید میں آئی ہے : ما جعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ ولا وصیلۃ ولا حام ، ولکن الذین کفروا یفترون علی اللہ الکذب وأکثرھم لا یعقلون (سورۂ مائدہ : ۱۰۳) خدا نے نہ تو بحیرہ کچھ چیز بنایا ہے اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام بلکہ کافر خدا پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں اور یہ اکثر عقل نہیں رکھتے ۔
اس میں شبہ نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے فیض الٰہی کی خفیف شعاعیں عرب میں پھیلنی شروع ہوگئیں تھیں ، چنانچہ قس بن ساعدہ ، ورقہ بن نوفل ، عبیداللہ بن جحش ، عثمان بن الحویرث اور زید بن عمرو بن نفیل نے بت پرستی سے انکار کردیا تھا ، ان میں ورقہ بن نوفل اور عثمان بن الحویرث نے نصرانیت اختیار کرلی اور زید بن عمرو نے نصرانیت اختیار نہیں کی او راپنے آباء واجداد کی بت پرستی کا طریقہ چھوڑدیا ۔ (رہبر انسانیت / مولانا محمد رابع حسنی ندوی صفحہ نمبر : ۸۰)