حکم قرآن سے ثابت ھوتا ھے ،حدیث صرف شرح کرتی ھے !!
وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب ولا الإيمان ولكن جعلناه نورا نهدي به من نشاء من عبادنا وإنك لتهدي إلى صراط مستقيم( شوری 52)
اور اسی طرح ھم نے وحی کیا روح کو آپ کی طرف اپنے حکم سے ، نہیں جانتے ھوتے تھے آپ کہ کتاب کیا ھے اور ایمان کیا ھے لیکن ھم نے بنایا اس کو روشنی جس کے ذریعے ھم ھدایت دیتے ھیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاھتے ھیں ، اور بے شک آپ ( اسی وجہ سے ) سیدھے رستے کی طرف رائنمائی کرتے ھیں —
ھر حکم کی اصل قرآن میں موجود ھونا بہت ضروری ھے – یہ الہی احکامات کا مجموعہ ھے اور اللہ کے تمام احکامات اس میں محفوظ ھیں ،، نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے شارح ھیں ، شارع نہیں ھیں ،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے گئے احکامات ،اصل میں اللہ پاک کے قرآن میں دیئے گئے احکامات سے ھی مستنبط ھیں ، اس اسنتباط کو اللہ پاک کی خاموش تائید حاصل ھے اور جہاں اللہ پاک نے چاھا ،وھاں اس استنباط کو مداخلت کر کے منسوخ کر دیا ،، پھر بعد میں کہیں نہ کہیں اس استنباط کا ذکر کر کے اس کو اپنا حکم بھی کہہ دیا ،، قرآن حکیم کی مختلف سورتوں میں اس قسم کی آیات موجود ھیں ،، بیت المقدس کو قبلہ بنانا اور خیبر کے درختوں کا کاٹنا اس کی بہترین مثالیں ھیں ،، عبادات کی عملی صورت بھی کچھ اسی طرح کی ھے – نماز تو مکے والے اسلام سے پہلے بھی پڑھتے تھے ، جبکہ ھم یہ سمجھتے ھیں کہ نماز سے دنیا معراج میں فرضیت کے بعد واقف ھوئی جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ھے ،، نماز اولادِ ابراھیم کی تینوں شاخوں میں رھی ھے ،، یہود نصاری کے علاوہ بنو اسماعیل بھی اس کی ادائیگی کرتے تھے ، ابوذرؓ فرماتے ھیں کہ میں اسلام سے پہلے بھی نماز پڑھتا تھا ، پوچھا گیا کس کے لئے ؟ فرمایا اللہ کے لئے – پوچھا گیا ، کس طرف ؟ فرمایا جس طرف منہ ھو جائے پڑھ لیتا تھا اس تصور کے تحت کے اللہ ھر طرف ھے ،،
نفلی عبادت چاھے وہ بدنی ھو یا مالی اس کی اصل فرائض میں ھونا ضروری ھے ، نوافل اسی فرض کا اوورٹائم ھے ،، دن کے وتر مغرب کی نماز ھے تو اس کی نفلی صورت تین رکعات نماز رات کے وتر ھیں ، اگر نماز دو رکعت سے کم ھوتی تو فجر بھی قصر ھوتی ،، اور اگر وتر تین سے کم ھوتے تو مغرب بھی قصر کر کے ایک رکعت ھو جاتے یوں دن کے وتر بھی ایک رکعت ھوتے ،،
مالی صدقات فرض زکوۃ کا اوورٹائم ھے ،، اور مختلف مواقع کے روزے ،، رمضان کے فرض روزوں کا اوورٹائم ھے – جس عبادت کی اصل فرض عبادات میں نہ ھو وہ ایجاد کردہ ھی ھو گی ،، اس طرح ثواب کے نام پر ھمارے یہاں ھونے والے طرح طرح کے نسخے بدعات اور مسلکی Get together کے سوا کچھ بھی نہیں ،،
معروف و منکر !
معروف و منکر کی دو قسمیں ھیں ، ایک وہ معروف و منکر ھے جو ھر مذھب کی عبادات سے تعلق رکھتا ھے ،مثلاً نماز پڑھنا معروف ھے اور نہ پڑھنا منکر ھے ، روزہ رکھنا معروف ھے اور نہ رکھنا منکر ھے ، زکوۃ دینا معروف ھے اور استطاعت کے باوجود نہ دینا منکر ھے ، حج کرنا معروف ھے اور استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا منکر ھے ،، اور اس معروف و منکر کا تعلق لا محالہ وحی کے ساتھ ھے !
مگر باقی تمام معروف و منکر Universal Truth ھیں جن کا تعلق کسی بھی مذھب سے نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ ھے ،، آپ ھر شخص سے توقع رکھتے ھیں کہ وہ آپ سے سز بولے چاھے اس کا کوئی مذھب ھے یا نہیں ، آپ ھر شخص سے امید رکھتے ھیں کہ وہ پورا تولے اور جتنے پیسے لئے ھیں ویسا ھی مال دے اور جس کوالٹی کے پیسے لئے ھیں وھی کوالٹی دے ، آپ اس سے یہ امید اس کے مذھب کی وجہ سے نہین رکھتے بلکہ ایک انسان ھونے کے ناتے اس سے دیانت کی توقع رکھتے ھیں ، ابوسفیان نے قیصر کے دربار میں سچ جنت جانے کی امید سے نہیں بولا تھا بلکہ اپنی انسانیت کے ناتے بولا تھا ،، جھوٹ ھر مذھب اور لا مذھب کے نزدیک ایک عیب ھے چاھے اس کی وجہ سے کوئی جھنم جائے یا نہ جائے مگر یہ ایک بری عادت ھے جس کو کوئی انسان پسند نہیں کرتا ، تکبر ایک یونیورسل برائی ھے جس کو کوئی دوسرا انسان اچھا نہیں سمجھتا ،، آپ ایک سکھ کو گاڑی کے اے سی کی جس کوالٹی کی گیس کے پیسے دیتے ھیں ، امید کرتے ھیں کہ سکھ کوئی دوسری گھٹیا گیس استعمال نہیں کرے گا ، یہاں امارات میں کار اے سی کی اکثر دکانیں سکھوں کی ھیں ، اور ان پہ رش ھی نہیں ٹوٹتا کیونکہ سکھ ایماندار ھیں اصلی کے پیسے لے کر نقلی گیس نہیں ڈالتے اور جس دن گاڑی دینے کا کہتے ھیں اس دن ضرور دیتے ھیں ،جبکہ پاکستانی اور بنگالی دو نمبر کام کرتے ھیں ، نقلی گیس استعمال کرتے ھیں اور کمپریسر کا بیڑا غرق کر دیتے ھیں ،، یہ ھے انسانی فطرت کے معروف و منکر ،،،،،،، بحث کو گڈ مڈ کر کے کسی کے بارے میں مغالطے پھیلانا ایک گھٹیا حرکت ھے جسے مذھبی مافیا آخرت کی باز پرس سے بے خوف ھو کر سر انجام دیتا ھے ،،،