گاھے گاھے باز خواں ایں قصہء پارینہ را ! قندِ مکرر
لاھور کی تلاش ،،،،،،،
مکــتــــبِ عشـــــــــــــــق کا دستــــــــــور نـرالا دیکھا !
اُس کو چھــــــــــــٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا !
راوی ریان ملز لمیٹڈ کالا شاہ کاکو لاھور سے ھمارے پھوپھا جان تشریف لائے تو ھمارا بھی جی للچایا کہ لاھور دیکھا جائے، مگر وھی اھم اور حساس ذمہ داریاں یاد کرا کر ھمیں چپ کرا دیا گیا اور ھماری خالہ زاد کو ساتھ جانے کی اجازت مل گئ، یوں ھمارے اندر بغاوت کی چکی چلنا شروع ھو گئ ! گھر سے بھاگنا ھمارا خاندانی مشغلہ تھا،،میرے دادا جان کے سترہ اٹھارہ بچوں میں سے ایک آدھ بھاگا ھی رھتا تھا،،موسم اچھا ھو تو دو بھی بھاگ جاتے تھے اور دادا جان کو کوئی خاص تشویش بھی نہیں ھوتی تھی، زیادہ بچوں کا یہی تو فائدہ ھوتا ھے کہ بندہ ایزی رھتا ھے،، ایک آدھ بچہ ھو تو بندہ ایسے ھی سنبھال سنبھال کر رکھتا ھے،جیسے وہ بندہ جو اپنی اکلوتی لِٹ کو GEL لگا کر سنبھال سنبھال کر رکھتا جس کا باقی سر جناح ٹرمینل کا رن وے نظر آتا ھے ! یہ بھگوڑے بچے دو چار دن کے بعد نئے تجربات کے ساتھ واپس آتے اور یوں اگلے چند ھفتے ھمیں نئ کہانیاں سننے کو مل جاتی ورنہ دادا جان کی پرانے زمانے کی کہانیاں سن سن کر سارے بچے منہ بناتے رھتے تھے،، سب سے لمبا کیس ایک چچا جان کا تھا جو 35 سال بعد واپس آئے تھے اور کہانیوں کے ساتھ ایک عدد بیوی اور آٹھ بچے بھی ساتھ لائے تھے،۔ مگر ٹریجڈی یہ ھو گئ کہ دادی 25 سال پہلے ان کی جگہ دوسرا بیٹا تبادلے میں سکھو شہر سے لے آئی تھی جن کی دو شادیاں کرائی گئی تھیں اور وہ بھی تین عدد بچے اور دو بیویاں لیئے بیٹھے تھے، یہ پہلا کیس تھا کہ جس میں منافع پر دادا کو پریشان دیکھا گیا ! دادا جان کی اولاد میں سب سے پہلا نر بچہ پیدا ھونے کا فخر ھم کو ھی حاصل ھے،،یوں اس خاندان کے ریکارڈ برقرار رکھنے اور نئے ریکارڈ بنانے کی اھم ذمہ داری میرے ناتواں کندھوں پر ڈال دی گئ، اور ھم نے بھی اسے باوا آدم علیہ السلام کی طرح ھنس کر اٹھا لیا،، انہ کان ظلوماً جہــولاً ،، ریکارڈ بنانے کی ابتدا ھم نے پیدائش کے بعد 40 ویں میں ھی شروع کر دی تھی،جب ھم کتے کی مدد سے فرار ھوئے تھے،جس کی داستان آپ ٹارزن کی واپسی کے عنوان سے پڑھ چکے ھیں،، اسی وقت گھر والوں کو یہ اندازہ ھو گیا تھا کہ یہ کوئی ” چن ” چڑھائے گا ،،جو کام ھمارے تائے چاچے دسویں گیارھویں سال کرتے تھے وہ ھم نے چالیسویں میں ھی شروع کر دیا تھا،، پھر ھم نے ھر موسم میں فرار ھونے کا ریکارڈ بھی قائم کیا،، بات لمبی ھوتی جارھی ھے،،تو جناب ھمارے دل میں گھر سے فرار کا جزبہ نئے سرے سے پرورش پانے لگا،، صبح جب لاھور والے تیار ھوئے جس مین ھماری وہ کزن بھی شامل تھی جس سے ھمیں سب سے زیادہ چِڑ تھی اور جسے بعد میں ھماری سالی ھونے کا شرف بھی حاصل ھوا،، ھم نے آخری بار گھر والوں کو الٹی میٹم دیا کہ میں نے لاھور جانا ھے یا پھر میری کزن کو بھی روک لو،مگر گھر والوں نے ھماری دھمکی کو ویسی ھی سنجیدگی سے لیا جیسی سنجیدگی سے سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم کی دھمکی کو لیتی ھیں ! پھوپھا جان نے ھمیں ایک روپیہ نقد رشوت بھی پیش کی یوں ھمارے فرار کے امکانات مزید روشن کر دیئے، چار آنے ھمارے پاس پہلے کے تھے جو دادی جان کی بھینس چراتے ھوئے ھمیں لپاڑے سے ملے تھے،، اس قدر رزق حلال کی موجودگی میں ھمارا حال وھی تھا جو 14 ارب کے زر مبادلہ کے ذخائر کی موجودگی میں پاکستان کے وزراءِ خزانہ کا ھوتا ھے،، حالانکہ انڈیا 300 ارب ڈالرز کے ذخائر لئے بیٹھا ھے ،، سوا روپیہ ھماری جیب میں تھا جسے ھم تھوڑی تھوڑی دیر بعد ھاتھ پھیر کر چیک کر رھے تھے، خدا خدا کر کے مہمان گھر سے رخصت ھوئے اور ھم نے بھی ان کا سامان بس تک پہنچانے کی نیت سے اٹھا لیا،، ایک ھی بس ھمارے گاؤں سے جاتی تھی،، سردی کی جھڑی لگی ھوئی تھی اور بس کچی سڑک پر بار بار پھنستی نکلتی چل رھی تھی،،کبھی اس کے ٹائرز کے نیچے لکڑیاں رکھی جاتیں،کبھی پتھر،الغرض گاؤں کے بچوں کے لئے بارش والے دن سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ھوتی تھی کہ آج بس پھنسے گی اور ھم پہلے ھی سڑک کے کنارے آ کر کھڑے ھو جاتے اور خشوع و خضوع سے دعا کرتے کہ یا اللہ بس پھنس جائے،، معصوم دعائیں فوراً قبول ھو جاتیں اور یوں سرکس شروع ھو جاتا، ھم بھی بس کو دھکا لگانے میں مدد کر کے ثواب حاصل کرتے بلکہ دھکا لگانے کے لئے اس کھڑکی کا انتخاب کرتے جس میں سے کوئی پری چہرہ جھانک رھا ھوتا،یوں حور نہ سہی اس کا دیدار ضرور نصیب ھو جاتا -بلکہ بعض سے تو فوری محبت بھی ھو جاتی تھی،بس چونکہ عموماً قبرستان میں پھنستی تھی نتیجہ یہ تھا کہ قبرستان کی محبت ھو یا تعویز بہت شدید اثرات رکھتا ھے،،یہ واردات دس محرم کو قبروں پر مٹی چڑھانے اور چونا ڈالنے کی رسم کے دوارن بھی ھو جاتی تھی، ھم زور آگے کی بجائے پیچھے لگاتے اور دعا کرتے کہ بس مزید پھنسے یعنی ” اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں ” بس پھنستی نکلتی اور آنکھ مچولی کرتی ھمیں گاؤں سے کافی دور لے آئی اور یوں ھمارے ارادوں کے سامنے کوئی دیوار نہ رھی،، ھم فرار ھونے کے لئے اسی بس کی سیڑھیوں پر کھڑے ھو گئے،، آغاز تو بسم اللہ انجام خدا جانے !
ھم نے تو سوچا تھا کہ ان سیڑھیوں پہ کھڑے کھڑے لاھور پہنچ جائیں گے،اور پھوپھا کو بس سے اترتے ھی”چہاہ ” کر کے سرپرائز دیں گے تا کہ انہیں گاؤں کے بچوں کے باصلاحیت ھونے کا پختہ یقین ھو جائے اور وہ فیکٹری میں گاؤں سے بچے بھرتی کر کے لے جایا کریں،یہ ویسی ھی سوچ ھے جیسی جہاز کے پہیوں والے کیبن میں چھپ کر لندن جانے والی سوچ ھے،مگر یہ سوچ لاھور کے جوانوں میں ھی آ سکتی ھے،گوجرخان کے بچے بس لاھور تک ھی سوچ سکتے ھیں اور بس کی سیڑھیوں پر ھی اکتفا کر سکتے ھیں،اس سے آگے جس نے سوچا اس کا حال فاسٹ بولر "عامر ” جیسا ھی ھوا،، سردی کے موسم میں بس والے اندر موج کر رھے تھے اور وٹامن اے اور ڈی سے بھرپور فضاؤں میں سانس لے رھے تھے جبکہ ھمارا سردی میں سیڑھیوں پر ٹھٹھرنا بھی ڈرائیور کو ایک آنکھ نہ بھایا،سچ کہا تھا کسی نے!
"لوگ اس دنیا میں رو رو کے بھی جی لیتے — ھم ھنسـے تو بھی گزارا نہ ھوا”
ڈرائیور نے کنڈیکٹر کو کہا کہ پیچھے چیک کرو سیڑھیوں پہ کسی کا سر نظر آرھا ھے،،بس کھڑی کی گئ اور ھمیں اسی طرح اتار دیا گیا ،جس طرح میاں صاحب کو ٹو تھرڈ میجارٹی اور ایشیا میں سب سے بڑے مینڈیٹ کے باوجود گدی سے اتار دیا گیا تھا،،ھمیں بھی پورے ایک روپیہ چار آنے جیب میں ھونے کے باوجود انتہائ گستاخی سے اتارا گیا ! ھم نے بھی سردی کی وجہ سے آنکھوں میں آئے ھوئے پانی کو اُلٹے ھاتھوں سے صاف کیا،اور سڑک کے کنارے کھڑے ھو گئے، اور سوچا لگتا ھے پیدل ھی لاھور جانا پڑے گا،، چنانچہ ھم پیدل ھی روانہ ھونے والے تھے کہ دولتالہ سے گوجرخان جانے والی بس آ گئ اور ھم بس میں سوار ھو گئے، واہ میرے مولا، انسانوں کو ھمارا سیڑھیوں پر کھڑا ھونا گوارہ نہ تھا مگر تو نے راجہ جاوید اخلاص کے والد کی بس بھیج دی،یوں ھم بھی سیٹ پر بیٹھ کر گوجرخان پہنچے،چار آنے کرایہ دیا اور سارا رستہ کلینر کی نصیحتیں سنتے رھے جو گھر سے بھاگنے والے بچوں کے انجام کے بارے میں تھیں، اسے ھمارا حلیہ دیکھ کر ھی شک ھو گیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ھے، مگر ھمارے چہرے کا عزم اسے کھل کر بات کرنے سے روک رھا تھا، گوجرخان اترنے کے ساتھ ھی سامنے نیو خان ٹریولز والوں کی بس کھڑی تھی اور ھاکر ،لہور،لہور لہور کی آوازیں لگا رھا تھا،ھم جھٹ روڈ کراس کر کے یوں پہنچے جیسے تکبیرِ اولی فوت نہ ھونے پائے اور شرافت کے ساتھ اس سے پوچھا،بھائی لہور کا کرایہ کتنا ھے؟،اس نے اچانک بغل سے نکل آنے والی وی آئی پی سواری کو سر سے پاؤں تک گھورا اور مومو کی طرح اچانک گرجا ،چپ اوئے،چل بھاگ،،اس نے سمجھا ھو گا بھکاری ھے، اصل میں قصور اس کا بھی نہیں آگے چل کے جب اپنا حلیہ تفصیل سے بیان کروں گا تو آپ کو اس کی بات پر ذرا بھی غصہ نہیں آئے گا،، اس نے اچانک جو اتنا سخت ڈانٹا تو ھمارا تراہ نکل گیا،، اور چھوٹا سا دل اس کی آواز کی گونج ختم ھونے سے پہلے کرچی کرچی ھو کر سڑک پر بکھر گیا ،، دور کہیں کسی ھوٹل پہ گانا بج رھا تھا ! شیشـــہ ٹــــــــــوٹے تو اک شــور اُٹھے،دل جــــو ٹوٹے صـــــدا تک نہ آئے ! ھم نے پھر پیدل لاھور جانے کا پختہ عزم کیا اور راولپنڈی کی طرف منہ کر کے لاھور جانے کے لئے چل پڑے ، زندگی میں بہت دفعہ ایسا ھوا کہ ھم لاھور کی تلاش میں پنڈی کی طرف منہ کر کے چل دیئے اور اللہ پاک بھی اسباب کے جال بچھاتا چلا گیا ! ظہر کے وقت تک پیدل چل چل کر تھک گیا تو ایک درخت کے پاس بیٹھ گیا،اور سوچنا شروع کیا کہ یہ میں نے کیا کر دیا ؟ تھوڑی دیر بعد اس درخت کے پاس بارات سے بھری ایک بس آ کر رکی،،سواریوں نے پیشاب شاب کیا اور دوبارہ سوار ھو کر چل دئیے ،، یہ کسی نے غور نہ کیا کہ ایک نامعلوم باراتی بھی ان کے ساتھ شریک سفر ھو گیا ھے، بس روات رکی اور بارات والے نیچے اتر کر چائے پینے لگ گئے،ھم بھی اترے اور پورے چار آنے کی چائے پی،یوں ھمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید چار آنے کی کمی ھو کر صرف بارہ آنے نصف جن کا چھ آنے ھوتا ھے بچ گئے ! ھم ریزگاری کو بار بار گنتے رھے،کیونکہ یہ تمام غریبوں کی مشترکہ نفسیاتی کمزوری ھے کہ وہ پیسوں کو بار بار گنتے ھیں اس امید میں کہ شاید اب کے گننے سے پورے ھو جائیں یا چار آنے کا اضافہ ھو جائے،غریب کی جیب میں پڑے نوٹوں کی مت ماری ھوئی ھوتی ھے، حلیہ غریب کے حلیے جیسا ھی ھو چکا ھوتا ھے ان کا،بعض غریب تو اس کو یوں مروڑ دیتے ھیں کہ نوٹ راکٹ لگتا ھے، خیر ھم نے جب تسلی کر لی کہ بار بار گن کر بھی یہ بارہ آنے ھی ھیں تو دیکھا وہ بس باراتی لے کر اڈے سے نکل رھی تھی، ھمارا کوئی ھوتا تو شور مچاتا کہ میرا بچہ پیچھے رہ گیا ھے، ھم سوچ ھی رھے تھے کہ بس کس طرف سے آئی تھی اور لاھور اندازً اب کتنا دور رہ گیا ھو گا کہ، اچانک اسلام آباد اومنی بس سروس والوں کی بس ھمارے سامنے آ کر کھڑی ھو گئ،سواریاں چڑھتے دیکھ کر ھم بھی لاھور کو طلاق دے کر اسلام آباد جانے کے ارادے سے بس میں سوار ھو گئے،کیونکہ وھاں ھمارے تایا اور ھونے والے سسر چائنا ایمبیسی بنا رھے تھے، یہ 1972 کی بات ھے، چونکہ ایڈریس ھم سے ھی لکھایا جاتا تھا،، مستری شاہ محمد ڈار کیئر آف اسلم ٹھیکے دار چائنا ایمبیسی اسلام آباد ! لگتا تھا اس دن تقدیر بھی ھمارے ساتھ دل لگی کر رھی تھی، بس اسلام آباد جانے کی بجائے سہالہ چلی گئ اور کسی دیہات مین پہنچ کر سڑک کے کنارے کھڑی ھو گئ، ساری سواریاں اتر گئیں تو ھم بھی شرم وشرمی اتر آئے اور اتر کر اسلام آباد جانے کے لئے واپس پیدل چل پڑے مغرب کی اذانیں ھو چکی تھیں اور اندھیرا چھا چکا تھا،اسٹریٹ لائٹس تو تھیں نہیں ، آگے کتے بھونکنے کی آوازیں بھی آ رھی تھیں،،کتوں سے تو خیر اپنے کو بالکل ڈر نہیں لگتا تھا ،کیونکہ جس طرح داڑھ کے درد سمیت ھر مرض رات کو ھی زور کرتا ھے دردِ زہ بھی رات کو ھی اکثر حملہ کرتا ھے ،اور ھمارے خدمتِ خلق کے جذبے کے مد نظر دائی کو بلانے کی ذمہ داری ھم کو ھی سونپی جاتی تھی،ھم رات کو جب دائی بلانے نکلتے تو کتوں کی پوری بارات ھمارے ساتھ ھوتی جو غالباً اس قصور کو کوستے جاتے جس کی پاداش میں ھم سب کی نیند خراب ھوئی تھی، اور ھمارے پہنچنے سے پہلے کتوں کی دردناک آوازوں سے ھی دائی کو پتہ چل جاتا تھا کہ اس کا رزق چل کے آ رھا ھے،، یہ دائی بھی دیہات کی ملکہ ھوتی ھے، اور دیہاتی زندگی میں اس کا کردار نہایت اھم ھے، بلکہ شریعت میں بھی ایک دائی کی گواھی دو مردوں کے برابر ھے، یہ دائیاں دیہات میں صلح صفائی والا ادارہ ھوتا ھے،یہ کوشش کرتی ھیں کہ میاں بیوی کی زندگی میں ناراضگی اور جدائی کے مواقع کم سے کم آئیں کیونکہ اسی صلح کے ساتھ ان کا رزق جُڑا ھوتا ھے، وہ ناراض میاں بیوی کے درمیان شٹل ڈپلومیسی کے ذریعے امید کے شجر کو زندہ رکھتی ھے،شوھر کو بتاتی ھے کہ وہ تو تیرے لیئے مری جا رھی ھے،کھانا پینا بھول چکی ھے،بس ماں باپ کے ھاتھوں مجبور ھے،، منانے میں پہل تو تم کو ھی کرنی پڑے گی،، ادھر بیوی کو بتاتی ھے کہ وہ کل بھی ھل چلاتے چلاتے گر پڑا تھا،کھانا پینا بلکہ حقہ تک چھوٹا ھوا ھے اس بے چارے کا،، اسی شٹل ڈپلومیسی کا نتیجہ ھم اکثر کتوں کی بارات کے ساتھ بھگتنے نکلتے تھے ! خیر کتوں سے تو ھم کو ڈر نہیں لگتا تھا مگر پٹھانوں سے ھم بہت ڈرتے تھے۔کیونکہ ھمیں بتایا گیا تھا کہ یہ بچوں کو الٹا لٹکا کر سر کے نیچے آگ جلاتے ھیں،جس سے دماغ آئستہ آئستہ پگھل کر قطرہ قطرہ کر کے ٹپکتا ھے،جس سے بعد میں یہ ایک دوا بناتے ھیں جس کا نام ” پتھر ممیائی ” ھوتا ھے ! ھم خیالوں مین گم کوئی چند قدم ھی چلے ھونگے کہ پیچھے سے آواز آئی ، اوئے کاکے ‘ ھم ٹھٹھک کر کھڑے ھو گئے – یہ بس کے ڈرائیور کی آواز تھی،، جو سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے حجرے کے باھر پڑی چارپائی پر بیٹھا تھا،،میں واپس پلٹ کر اس کے پاس چلا گیا،، تم میری بس میں نہیں تھے؟ جی آپکی بس میں تھا ! تمہارے ساتھ کوئی نہیں؟ جی کوئی نہیں ، اتنے میں کنڈیکٹر بولا ،استاد جی یہ جس بوڑھے کے ساتھ بیٹھا ھوا تھا ،میں نے اس سے تین بار اس کا کرایہ مانگا تو وہ میرے گلے پڑ رھا تھا،، !! کہاں جانا ھے؟ استاد نے پوچھا، جی اسلام آباد ! گھر کہاں ھے ؟ جی اللہ داد کے ھوٹل کے پاس ! یہ اللہ داد کا ھوٹل کہاں ھے؟ جی جھمٹوں کے محلے مین ! یار تمہارے گاؤں کا نام پوچھ رھا ھوں،استاد نے زچ ھو کر کہا،،جی آھدی،، ھــــــــــــوں، استاد نے کافی لمبی ھوں کے بعد پوچھا اسلام آباد کا ایڈریس بھی آتا ھے یا وہ بھی اللہ داد کے ھوٹل والا ھی ھے،جی وہ چائنا ایمبیسی جانا ھے،، یہ تو بڑا آسان ایڈریس ھے،،چلو گھر چلتے ھیں،،وہ استاد صاحبھمیں اپنے گھر لے آئے جو سامنے ھی گلی میں تھا،گھر میں داخل ھوتے ھی اس نے نعرہ مارا ،یہ دیکھو بھائی آج ھمارے گھر میں کون مہمان آیا ھے! اس کا ایک بیٹا جو میری ھی عمر کا تھا ،اندر سے بھاگ کر نکلا کہ شاید اس کے ماموں آگئے ھیں، اور ھمیں دیکھ کر اس نے زور کی بریک ماری کیونکہ آفٹر آل ڈرائیور کا بیٹا تھا، اور سر سے پاؤں تک ھم کو دیکھا، سردی کے موسم میں دائیں شانے کے اوپر ٹھیک اس جگہ سے جہاں نیکیاں لکھنے والا فرشتہ بیٹھتا ھے پھٹی ھوئی ویل کی سفید قمیص ،، جو کبھی سفید رھی ھو گی مگر اس وقت تو کیچڑ کے رنگ برنگے نشانات سے جغرافیئے کی کتاب کا معدنیات کا نقشہ لگ رھی تھی، جوتے کے بغیر سوکھے کیچڑ میں لت پت پاؤں،، اور چہرے سے ٹپکتی وحشت اور بے چارگی،، بچے کے ساتھ بچے کی ماں بھی پتہ نہیں کب کی کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ھمیں دیکھے جا رھی تھی،،ماں صادقے جاؤں ،، یہ پہلی آواز تھی جو اس کے منہ سے نکلی،،ماں تو ماں ھی ھوتی ھے چاھے کسی کی بھی ھو،،اس نے مجھے یوں گھونٹ کر سینے سے لگایا کہ ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں بلک بلک کر رونا شروع ھو گیا،، وہ ساری جھڑکیاں جو صبح سے سن رھا تھا اور سارے دن کی بھوک اور تھکاوٹ،منزل کی بے یقینی سب کچھ پانی بن کر آنکھوں سے نکل پڑا،، اب وہ دلاسے دے رھی تھی،استاد جی بھی بیٹھ گئے اور تسلی دی کہ وہ ھر صورت مجھے میرے گھر تک پہنچائیں گے،، انہوں نے جھٹ پٹ مرغی ذبح کی اور بیوی سے کہا کہ پکاؤ،، بیوی نے جھٹ پٹ ھانڈی تیار کی، اور استاد نے مجھے پاس بٹھا کر کھلانا شروع کیا،مگر میری تو ھچکی یا ھتکُورا ھی ختم نہیں ھو رھا تھا، لقمہ اندر کی بجائے باھر نکل رھا تھا،،اس دوران اس اللہ والی خاتون نے میری قمیص کا بازو جھٹ پٹ سی دیا،اور اسے دھو کر کچن کی کھڑکی پر لٹکا دیا جبکہ ھمیں وقتی طور پر اپنے بیٹے کی ایک قمیص دے دی،، ان کے بچے کے ساتھ ایک ھی چارپائی پر سویا ،رات بھر ٹھیک سے ننید بھی نہ آئی اور صبح صبح پراٹھے سے ناشتہ کروایا گیا،، استاد نے اپنے بیٹے کی قینچی چپل دی جو الگ الگ رنگوں کی تھی،مگر ننگے پاؤں کے لئے غنیمت تھی،اپنی چپل تو ھم بس نکانے کے چکر میں اپنے قبرستان میں ھی پھنسا آئے تھے، اس کے بعد پوچھا تمہارے پاس کتنے پیسے ھیں ؟ مین نے بتایا کہ 12 آنے ھیں ،، اس نے کہا کہ وہ مجھے دو ،اور بدلے میں مجھے روپیہ دیا،،کہنے لگا بیٹا میں غریب آدمی ھوں میری بس اتنی ساری ھی استطاعت ھے،، میں ان شاء اللہ تمہیں تمہارے تایا کے پاس پہنچا دوں گا فکر مت کرو،،مجھے اکثر یہ واقعہ یاد آتا ھے اور جب بھی یاد آتا ھے مین ان میاں بیوی کو ٹھیک اسی صدق دل سے اور قلب کی گہرائیوں سے دعا دیتا ھوں جس دل سے اپنے والدین کو دعا دیتا ھوں،شاید ان کا اپنا بیٹا اس قدر دعائیں نہ کرتا ھو گا جتنی میں اپنے والدین کی طرح ان کے لئے کرتا ھوں، بس لیاقت باغ راولپنڈی پہنچی تو ڈرائیور نے ھارن دے کر دوسری ڈبل ڈیکر بس کے ڈرائیور کو اشارہ کیا، دونوں نے بس برابر کر لی ،اس کے بعد میرے والے ڈرائیور نے اسے میری صورتحال بتا کر درخواست کی کہ وہ مجھے اسلام اباد پہنچا دے،، میں اس بس سے اترا اور پہلی بار ڈبل ڈیکر کی سواری کا شرف حاصل کیا،، اسلام آباد پہنچ کر اس ڈرائیور نے مجھے ملیشیا یونیفارم والی ایک تنظیم کے سپرد کیا جو خدمت خلق والے تھے،، وھاں میں نے چار آنے کا ایک کریم رول کھایا اور یوں روپیہ پھر بارہ آنے میں تبدیل ھو گیا، وہ ملیشیا یونیفارم والا ھمیں ایک بس میں لے کر چائنا ایمبیسی کی تلاش میں نکلا،، بارش کہتی تھی بس سارا آج ھی برسنا ھے، مخلتف ٹھیکیداروں سے پوچھتے پوچھتے ایک ٹھیکیدار کے پاس پہنچے تو اس نے پوچھا ،، کاکا کس گاؤں سے ھو؟ جی آھدی سے،ھم نے جواب دیا،، بھائی یہ تو میرا گرائیں ھے،میں ڈھوک بدھال کا ھوں،،اس نے دستخط کر کے مجھے وصول کرلیا اور اس آدمی کو تسلی دی کہ اگر اس کا تایا نہ بھی ملا تو بھی میں اسے گاؤں پہنچا دوں گا ھمارے گاؤں آمنے سامنے ھیں ! اس نے اپنے بھائی کو بھیج کر ھمارے تایا کا پتہ کرایا اور برستی بارش میں سائیکل پر ھماری بھوپھو کا بیٹا اس کے ساتھ سوار ھو کر ھمیں لینے آیا،، اسے دیکھ کر ھمیں بھی تسلی ھوئی،الگ لے جا کر ٹھیکیدار نے پوچھا کہ اس کو پہچانتے ھو،،میں نے اسے تسلی دی کہ یہ میری پھوپھو کا بیٹا ھے،(جو آج کل شارجہ میں ھے اور فیس بک پہ منہ ٹیڑھا کر کے جو بچی دینی معلومات سنا رھی ھے وہ اسی کی پوتی ھے) یوں ھم تایا کے پاس پہنچے ، جنہوں نے خوب ڈانٹا اور پوچھا کہ اب کیا کرنا ھے،،ھم نے کہا کہ جی ھمیں اپنے ساتھ کام پر ھی لگا لیں ھم نے پڑھنا شڑھنا کوئی نئیں،، انہوں نے بڑی لمبی سوچ میں ڈوبی ھوئی "ھــــــــــــوں ” کی اور اگلے دن سے ھمیں کام پر لگا لیا،، کام یہ تھا کہ ھاتھوں سے پائپوں کے جوائنٹ سیمنٹ سے بند کرنے تھے،ھم سارا دن خوشی خوشی کام کرتے رھے، ایک اپنے ھم عمر چچا کے علاوہ جنہوں نے تایا سے چوری ھم سے چار آنے ادھار لے کر سگریٹ خریدے ، برادری کے دیگر جوان بھی تھے،، مگر رات کو انگلیاں اکڑ کر یوں درد کرنے لگیں کہ درد کے پٹاخے چھوٹنے لگے گویا بچھو نے کاٹا ھوا ھے،ھم نے بیٹھ کر رونا شروع کر دیا،، اب کیا ھوا ھے ؟ تایا نے پوچھا،، ھاتھوں کو درد ھو رھا ھے،، کام کرتے رھو گے تو عادت ھو جائے گی درد کی،، انہوں نے آرام سے جواب دیا اور کروٹ لے کر سو گئے،، صبح ھم نے کام پر جانے سے انکار کر دیا اور اعلان کیا کہ ھم اپنی تعلیم جاری رکھیں گے،،یوں تایا جان کی دی ھوئی ڈوز کافی کار آمد ثابت ھوئی، اور ھماری تعلیم کی گاڑی کو دوبارہ دھکا لگ گیا