یہود اور ہم قدم بقدم

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم لوگ یہود کی نقل کرو گے ، اور ان کے ساتھ اس قدر مشابہت اختیار کر لو گے جیسے جوتوں کے جوڑے کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں سے مشابہ ھوتا ھے ،،
456 وأما حديث عمرو بن عوف المزني ، فأخبرناه علي بن حمشاذ العدل ، ثنا إسماعيل بن إسحاق القاضي ، والعباس بن الفضل الأسفاطي ، قالا : ثنا إسماعيل بن أبي أويس ، حدثني كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف بن زيد ، عن أبيه ، عن جده ، قال : كنا قعودا حول رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسجده ، فقال : ” لتسلكن سنن من قبلكم حذو النعل بالنعل ، ولتأخذن مثل أخذهم إن شبرا فشبر ، وإن ذراعا فذراع ، وإن باعا فباع ، حتى لو دخلوا جحر ضب دخلتم فيه ، .
المستدرک ،،،
یہود جب کسی بری بات کا ارتکاب کرتے تو اس کو جائز یا ہلکا بنانے کے لئے اس عمل کو اپنے انبیاء کی سیرت کے کسی واقعے سے کشید کرتے اور ثابت کرتے کہ یہ کام تو فلاں نبی نے بھی کیا تھا اور یہ کام تو فلاں نبی کے فلاں قول یا فعل سے ثابت ھے ،، اس کے لئے وہ انبیاء کے اقوال و افعال کو اپنے موضع اور موقع سے ھٹا کر بیان کرتے(( یحرفون الکلمہ عن مواضعہ ” یوں وہ قول یا واقعہ کچھ کا کچھ ھو جاتا ،، یوں ان میں بدعات و خرافات کا طومار لگ گیا اور ھر برائی انبیاء کی طرف منسوب ھو گئ ،،
انبیاء مینارِ نور یا لائٹ ھاؤس ھوتے ھیں اور ان کی سیرتیں کرائسس مینیجمنٹ کا ادارہ ھوتی ھیں جنہیں ” مخرج من کل ضلالہ ” یعنی ھر گمراھی سے نکلنے کا دروازہ ھونے کا اعزاز حاصل ھوتا ھے ، جب انہوں نے یہ دروازہ خود ھی بند کر لیا اور اپنے آپ کو آسمانی ھدایت سے محروم کر لیا تو انبیاء کی مبارک زبانوں سے خوشخبری کی بجائے لعنت کے حقدار ٹھہرے ،، لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ (المائدہ-78) كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (المائدہ-79) بنی اسرائیل میں سے کافر لعنت کیئے گئے داؤد اور عیسی ابن مریم علیھما السلام کی زبان سے ، اس کی وجہ ان کی نافرمانیاں تھیں اور وہ اللہ کی حدود پر حملہ آور ھونے والے بن گئے ، وہ برائی سے روکتے نہیں تھے کیونکہ وہ خود برائی کرنے والے بن گئے تھے ( اور برائی سے کرنے والے اس لئے بن گئے تھے کہ برائی کو منبع رشد سے منسوب کر بیٹھے تھے ،جن پاک ھستیوں کے ریفرینس سے وہ برائی کو روک سکتے تھے انہی پاک ھستیوں کو روایتوں کے زور پر اس برائی میں مبتلا دکھا چکے تھے )
انہوں نے راوی کے مقام کا تو خوب دفاع کیا اس لئے کہ اس کے بارے میں ان کی کتابوں میں پاک صاف ھونا بیان کیا گیا تھا ،مگر اللہ کے رسولوں اور نبیوں کے مقام کا خیال نہ کیا ، کہ جن کی عصمت اور بلند اخلاقی کے بارے میں اللہ کی کتاب میں گارنٹی دی گئ تھی ،، چنانچہ انہوں نے شرک ،محرمات سے بدکاری اور ھم جنس پرستی تک کے گھناونے جرائم اپنے انبیاء سے منسوب کر دیئے ، اللہ پاک کو ان رسولوں کی عصمت اور مقام کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے سورتوں پر سورتیں قرآن میں نازل کرنی پڑیں ،، آپ ان انبیاء کے بارے میں پڑھیں گے کہ ” وہ مشرک نہیں تھے ، ما کان من المشرکین ،وہ میرے بڑے صالح بندے تھے ، کان من الصالحین ، کانوا من عبادنا الصالحین ،، کانوا یدعوننا رغباً و رھباً و کانوا لنا خاشعین ،، انہ کان من عبادنا المخلصین ،، و کلاً کانوا صالحین ، وتوفنا مع الأبرار،، رسولوں کے تعارف کے ساتھ آیات کے یہ اختتامی کلمات وہ صفائی تھی جو اللہ کی طرف سے ان رسولوں کے بارے میں بیان ھو رھی تھی ، ان پر اچھالی گئ کیچڑ کو ذکر کیئے بغیر ،، بعض ملحدین اور عیسائی بھی یہ بات کہتے ھیں کہ قرآن میں بنی اسرائیل کے رسولوں کا ذکر کیوں چھایا ھوا ھے ،عرض کیا تھا کیونکہ تم نے ان کا دامن اس قدر آلودہ کر دیا تھا کہ انہی کی صفائیوں میں ایک چوتھائی قرآن سے زیادہ نازل ھوا ،،
اسی تناظر میں آپ نبی کریم ﷺ کا معاملہ دیکھ لیں کہ آپ کے بارے میں ھر نامعقول بات روایتوں میں سے کشید کی جاتی ھے ،، یہ سوچے بغیر کہ اللہ پاک نے قرآن حکیم میں نبئ کریم ﷺ کی پوری زندگی کی قسم کھائی ھے(( لَعَمرُک)) جو نبوت سے پہلے ھے اس کی بھی اور جو نبوت کے بعد ھے اس کی بھی اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے اخلاق کی قسمیں کھا کر گواھی دی ھے ، اب رب کی گواھی رد کر کے ” انک لعلی خلقٍ عظیم ” کسی اور کی گواھی پر نبئ کریم ﷺ کی طرف کسی بد اخلاقی اور سماجی عیب کو منسوب نہیں کیا جا سکتا ، چاھے منسوب کرنے والا ھوا میں اڑتا اور پانی پر چلتا ھو ،، آپ ﷺ اور آپ کے اھل بیت کے بارے میں کوئی بھی بری خبر قابلِ اعتبار نہیں ھے ، ھم نے یہ نہیں دیکھنا کہ کون کہہ رھا ھے بلکہ یہ دیکھنا ھے کہ کس کے بارے میں کہہ رھا ھے ،، بات جب نبی کریم ﷺ اور آپ کے گھرانے کی ھو رھی ھو تو اس کے لئے رب کا دیا گیا اصل الاصول یہ ھے کہ ،،
1- (( لولا إذ سمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات بأنفسهم خيرا وقالوا هذا إفك مبين ( النور-12)
جب تم نے اس بات کو سنا تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے بارے میں اچھا گمان کرتے ھوئے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ کھلا ھوا جھوٹ ھے ،
اس بات کو اپنے ضمیر پر پیش کر کے فیصلہ کرو کہ جب تم اس کو برا سمجھتے ھو تو اپنے نبی ﷺ یا ان کے گھر والوں سے کیونکر توقع کر سکتے ھو کہ انہوں نے اس فعل کا ارتکاب کیا ھو گا ؟
اس کا عملی ثبوت ابو ایوب انصاریؓ نے پیش کیا ،،
أبا أيوب الأنصاري لما بلغه خبر الإفك قال لزوجه : ألا ترين ما يقال ؟ فقالت له : لو كنت بدل صفوان أكنت تظن بحرمة رسول الله سوءا ؟ قال : لا . قالت : ولو كنت أنا بدل عائشة ما خنت رسول الله فعائشة خير مني وصفوان خير منك . قال : نعم .
ابوایوب انصاریؓ نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ کیا تم سن رھی ھو کہ لوگ کیا کہہ رھے ھیں ؟ تو ان کی زوجہؓ نے پلٹ کر سوال کیا کہ تم کیا گمان کرتے ھو کہ اگر صفوان‌ؓ کی جگہ ھوتے تو رسول اللہ کے حرم میں خیانت کرتے ؟ ابوایوبؓ نے فرمایا کہ ھر گز نہیں ،، ام ایوبؓ نے کہا کہ صفوانؓ آپ سے بہتر ھے اور عائشہ مجھ سے بہتر ھے پھر وہ اس فعلِ شنیع کا ارتکاب کیسے کر سکتے ھیں ؟؟
2- ( ولولا إذ سمعتموه قلتم ما يكون لنا أن نتكلم بهذا سبحانك هذا بهتان عظيم ( 16 ) يعظكم الله أن تعودوا لمثله أبدا إن كنتم مؤمنين ( 17 ) ويبين الله لكم الآيات والله عليم حكيم ( 18 ) )
جب تم نے اس بات کو سنا تو تم سے یہی نہ ھوا کہ فوراً کہہ دیتے کہ ھم تو یہ بات منہ سے نکالنے کے مجاز بھی نہیں ، اے اللہ تیری ذات پاک ھے ( اس سے کہ کسی عیب دار کو اپنے نبی کے لئے چنے )) یہ تو بہت بڑا بہتان ھے (اللہ پر بھی اور اس خاتونؓ پر بھی ) اللہ تمہیں نصیحت کرتا ھے کہ آئندہ تم پلٹ کر کبھی بھی ایسی بات مت کرنا ، اگر تم مومن ھو ، اور اللہ تمہارے لئے آیات یعنی احکامات کو واضح بیان کرتا ھے کیونکہ اللہ دائمی علم و حکمت والا ھے ،، اللہ کو معلوم تھا کہ میرے رسول ﷺ کی عصمت کا گواہ یہی قرآن ھو گا اور قیامت تک ھو گا ، اگر آپ کو کوئی عیب لگایا گیا تو اس کو صاف کرنے اب نہ کوئی رسول آئے گا نہ کتاب نازل ھو گی ،،
جب ھم اپنے رسول ﷺ کو کسی کے سامنے پیش کریں گے کہ وہ آپ ﷺ کو اللہ کا نمائندہ اور رسول سمجھ کر ایمان لائے اور پھر اپنا سب کچھ آپ ﷺ کے حوالے کر دے ، تو وہ ضرور آپ کے اخلاق اور عائلی زندگی ،سماجی زندگی کے تمام شعبوں کو چیک کرے گا ، کچھ سوال اٹھائے گا اگر اس کے دل و دماغ میں پیدا ھوئے ،، ان سوالوں کا جواب ھم کو دینا ھے اور اس کو مطمئن کرنا ھے واضح رھے کہ ابھی اس کے دل و دماغ میں نبئ کریم ﷺ کے بارے میں تقدس کا وہ خول نہیں چڑھا جو ھمیں پیدائشی طور پر ملتا ھے اور ھم کوئی ایسی ویسی بات اپنے نبی ﷺ کے بارے میں نہیں سوچتے ، وہ آپ ﷺ کو ایک عام انسان کی طرح ڈیل کرے گا اور آپ ﷺ کا صغری کبری غیر جانبدار ھو کر چیک کرے گا ، انسانی ویلیوز پر رکھ کر ان کو ناپے تولے گا جس میں سالوں لگ سکتے ھیں تو مہینے اور ھفتے بھی ،، جس نوجوان نے اس غیر مسلم کو ملبورن میں دعوت دی ، اس نے جوابی طور پر کچھ سوال اٹھائے ،، اب وہ مسلم نوجوان خود بھی ان سوالوں کی Validity پر غور کرنا شروع کر دے گا، گویا جسے اپنے دین کے بارے میں سوچنے کی عادت ھی نہیں تھی اسے بھی سوچنے پر لگا دیا ،، اور یوں
” ھیر کے ساتھ ھمشیر بھی گئ ”
وہ غیر مسلم تو پتہ نہیں مسلمان ھو گا یا نہیں ، الٹا مسلمان کو سوچنے کی عادت ڈال گیا مطلب سوچنے والی اپلیکشن کو ایکٹیویٹ کر گیا ،، وہ مسلمان نوجوان علماء سے ان سوالوں کے بارے میں رجوع کرتا ھے تو اس کو بتایا جاتا ھے کہ چندا تم مسلمان ھو اور مسلمان سوچا نہیں کرتے اور جو سوچتے ھیں وہ مسلمان نہیں رھتے ،، تم منکرِ حدیث ھو ،، تم ملحد ھو ،،
لے کے ارمان کعبے کا نکلے تھے ھم ،،،
لے گیا بتکدے میں دلِ مضطرب ،،،
ھم کو جانا کہاں تھا ، کہاں آ گئے ،،
دل کو لٹنا کہاں تھا کہاں لٹ گیا ،،
جو بیچارا کسی کو مسلمان کرنے نکلا تھا وہ خود کافر بنا دیا گیا ،،
حالانکہ کہ نبئ کریم ﷺ کی ھستی سے متعلق ھر خبر کو ھزار دفعہ الٹ پلٹ کر دیکھنا ، اورقرآن میں انبیاء کی بیان کردہ سیرت اور پیمانے پر رکھ کر پرکھنا ھر مسلمان کا فرض ھے ،، مگر یہی فرض جرم بنا دیا گیا ،، اس کی وجہ یہ ھے کہ سوچ کے نتیجے میں سوال اٹھتے ھیں اور ان سوالات کے جوابات میں ھماری کچھ ممدوح ھستیوں پہ زد پڑتی ھے ،،،،
جو چیز آپ کی اپنی ھو جاتی ھے آپ اس کے ساتھ اپنی مرضی کا سلوک کرتے ھیں اور جو چیز امانت ھوتی ھے ،کسی اور کو ابھی پہنچانی ھوتی ھے ، اس کو بڑا سنبھال سنبھال کر رکھنا پڑتا ھے ، جو گاڑی آپ کی اپنی ھو جاتی ھے ، ذاتی ھو جاتی ھے اس کو آپ دھوئیں یا نہ دھوئیں ، آپ کے اپنے موڈ پر ھوتا ھے مگر جو شو روم میں ابھی آپشن پہ لگی ھوتی ھے اس کو روز صاف کیا جاتا ھے ، بے عیب رکھا جاتا ھے کہ گاھک کی توجہ حاصل کرے ، اللہ نبیوں کو اسی وجہ سے صاف ستھرا اور معصوم رکھتا ھے کیونکہ وھی انسانوں کے ساتھ اللہ کا رابطہ ھوتے ھیں ، ھم نبی ﷺ کو اپنا ذاتی سمجھ کر سلوک کرتے ھیں کہ جیسا بھی ھے ھمارا نبی ھے کسی کو کیا تکلیف ھے ؟ ، جناب نبئ کریم ﷺ بطورِ نبئ استجابت ھمارے نبی ﷺ ھیں مگر بطور نبئ دعوت ﷺ قیامت تک آنے والے لوگوں کے نبی ﷺ ھیں اور آپ ﷺ کا بے عیب رھنا بہت ضروری ھے ،آپ ﷺ ھمارے پاس اللہ کی امانت ھیں جو ” آخرین منھم ” والوں کے لئے ھیں ،آنے والی آخری نسلوں کے لئے ھیں ، اس ھستی کے امیج پر کسی قسم کا دھبہ بھی لگانا امانت میں خیانت کے زمرے میں آتا ھے