ھم بدلے نہ تم بدلے

ھمارے تایا مرحوم نے ایک گرما گرم گائے خریدی ، زمانہ تھا 1971 کا ،، مگر جب وہ گائے ٹھنڈی ھوئی تو صبح اٹھ کر نہ دی ،، بڑے دھرنے دیئے ،، گو نواز گو کہہ کر بھی دیکھا مگر گائے بھی اتنی ڈھیٹ تھی کہ اک ادا سے مُڑ کر دیکھتی اور پھر پرویز رشید صاحب کی شستہ اور با ادب زبانِ حال سے پوچھتی کہ ” مینوں کج کیہا جے ؟ ”
آخر محلے کے دو چار انقلابی بُلا کر اسے اٹھایا گیا ،،،،،،،،، اب اک نئ مصیبتھماری راہ دیکھ رھی تھی ،، گائے بھی اس چاک و چوبند فوجی دستے کا سپاھی نکلی جو مہمان سرکاری شخصیات کو گارڈ آف آنر پیش کرتا ھے ،، وہ بمشکل پاؤں گھسیٹ کر آگے کرتی اور دوسرا گھسیٹ کر اس تک پہنچاتی ،، یوں اسے چلا کر گرم کرنا پڑتا اس طرح ھمارا ناشتہ تو خراب ھوتا ،، اسکول جانے میں بھی تاخیر ھو جاتی نتیجے میں ماسٹر صاحب بھی ھمیں خوب گرم کرتے ،،، مگر ھم بھی مظلوم عوام کی طرح دونوں طرف کی ڈیوٹی بخوبی انجام دیتے ،، تایا کی گائے کو گرم کرتے اور خود ماسٹر عزیز صاحب کے ھاتھوں گرم ھوتے ،،یہ وہ اپنے الحاج مولانا جنرل عزیز نہیں تھے جو نو سو چوھے کھانے کے بعد مفتی تقی عثمانی صاحب سے فتوی پوچھتے پائے گئے تھے کہ ” میں نے اور میرے آقا نے قوم کو جس اندھے کنوئیں میں دھکا دیا تھا ،،نواز شریف کا اس میں پڑے رھنا گناہ ھے یا نہیں ؟ بلکہ یہ ڈھوک بُدال کے ماسٹر عزیز صاحب تھے ،، اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے !
خیر ھماری قوم میں نظریہ ضرورت کے تحت ایک سنہرا اصول جاری و ساری ھے کہ ؎” لے کہ رشوت پھنس گیا ھے ،دے کے رشوت چھوٹ جا ” یعنی اگر آپ کے ساتھ بے ایمانی کی گئ ھے تو اب آپ کو دوسرے کے ساتھ بے ایمانی کرنے کا شرعی حق حاصل ھو گیا ھے ، یوں روزِ حشر ، جو کچھ آپ کو اپنے ساتھ دھوکا کرنے والے سے ملے گا وہ اُسی طرح گرما گرم اپنے دھوکے کے عوض اس کے ھاتھ پہ رکھ کر جنت کی طرف چل دینا جس کو آپ نے دھوکا دیا تھا ،، یہ قوم اور کسی بات کو پریکٹس کرے یا نہ کرے اس اصول کو داڑھوں سے پکڑ کر چل رھی ھے ،، اور یوں اوپر صدر اور وزیرِ اعظم سے چلنے والا دھوکا شام ڈھلے ھمارے گھر پہنچ جاتا ھے اور ھم کنڈے سے مسجد اور گھر روشن کر لیتے ھیں ،، کہ حکمران حرام کھا سکتے ھیں تو ھمیں حرام کھانے سے شوگر ھو جائے گی ؟
میڈیا جتنا حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کر رھا ھے عوام نہایت پھرتی سے وھی نقاب اپنی کرپشن پہ ڈالتے چلے جارھے ھیں کہ ” ھم آدمی ھیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ھم کریں گے ”
اب مشورہ یہ ھوا کہ یہ دھوکا اگر ھمارے گھر تک محدود رھا تو بے اولاد مر جائے گا ،یوں اس دھوکے کی نسل کُشی ھو جائے گی جب کہ ھمیں اس کی نسل کَشی کرنی ھے ، ھمارے قریب کے قصبے دولتالہ کی ” روڈی بن ” پر جہاں آج کل کالج پایا جاتا ھے جانوروں کی منڈی لگا کرتی تھی ،، یہ بن روڈی یا گنجی اس لئے تھی کہ یہاں دھوکوں کے تبادلے ھوا کرتے تھے اور یہ ایریا اللہ کی رحمت سے محروم تھا کوئی سبزہ نہیں اگتا تھا ،، ھماری ڈیوٹی یہ لگی کہ ھم گائے کو اس وقت تک منڈی کے چاروں طرف گھما کر خشوع و خضوع کے ساتھ گرم رکھیں جب تک کہ ھمارے تایا جان کو کوئی اپنے جیسا معصوم گاھک مل جائے ،، خیر ھم بھی ٹہل ٹہل کر منڈی دیکھتے رھے اور ساتھ ساتھ گائے کو الوداعی نگاھوں سے بھی دیکھتے رھے کہ ” اب کے بچھڑے تو شاید کہ خوابوں میں ملیں ” گائے سے ھمیں ازل سے پیار تھا ،، آخر کار تایا جان کے پَرنے کا لشکارا پڑا تو ھم گائے لے کر حاضر ھو گئے گائے کی حالت بظاھر اپنے میاں صاحب کی طرح نہایت اچھی تھی لہذا اس گاھک نے جھٹ رسی پکڑی مبادا ھماری نیت میں فتور نہ پیدا ھوجائے ،، جیسے ھم دوکاندار سے کم قیمت سن کر جھٹ چیز کو جھپٹنے کے انداز میں پکڑتے ھیں شاپر کا انتظار بھی نہیں کرتے کہ مبادا پڑوس کا دوکاندار اسے بتا نہ دے کہ یہ چیز مارکیٹ میں دگنی قیمت میں بِک رھی ھے ،،گھر آ کر جب وہ چیز دو نمبر نہیں بلکہ پانچ نمبر نکلتی ھے تو ھم دوکاندار کو گالیاں دیتے ھیں اور زمانے میں ایمان کے زوال کے تذکرے کرتے ھیں !! حالانکہ ھم خود اسوقت بے ایمان تھے جب وہ چیز خرید رھے تھے کیونکہ ھمارا سینس آف جسٹس کہہ رھا تھا کہ اس چیز کی اصل قیمت بہت زیادہ ھے ،،مگر شاید اس دکاندار کو پتہ نہیں ،، ھم اگر اس سے کہہ دیتے کہ بھائی یہ چیز تو دوسری دکان پہ اتنے کی بِک رھی ھے تو وہ ھمیں وھیں بتا دیتا کہ یہ دو نمبر ھے !! ھر شخص دوسرے کو اپنے تئیں دھوکا دے رھا ھے ،جو نہیں دے سکتا وہ دھوکا دینے کی نیت ضرور رکھتا ھے !
گائے پکڑانے اور پیسہ پکڑنے کے بعد ھم سارا رستہ اس گاھک کی حالت کا تصور کر کے قہقے لگاتے رھے جسے صبح گائے سے گارڈ آف آنر لینا پڑے گا ،،
میرے پاکستانیو !
یقین جانو ھم وھی عیب یافتہ گائے ھیں جسے مختلف صوبوں اور مختلف جگہوں پہ جلسے کر کے گرم کیا جا رھا ھے ، ھماری رسی جو بھی پکڑے کا اپنی ماں کو روئے گا جس نے اسے پیدا کیا تھا ،، جب تک ھم درست نہیں ھونگے کچھ بھی نہیں بدلے گا ،، صرف ڈرائیور تبدیل کرنے سے گاڑی کی حالت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا ،، اس کا عملی مظاھرہ جلسہ ختم ھونے کے بعد جلسہ گاہ کی حالت سے ھی ھو جاتا ھے جہاں ایمان و اخلاق کے بڑے بھاشن دیئے گئے تھے ،، مگر سر پر کرسیاں اٹھا کر سرپٹ دوڑتی عوام بتا رھی ھوتی ھے کہ-
” ھم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی !
،، میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں ؟
مولانا طارق جمیل صاحب نے سچ فرمایا تھا کہ ” قوم کی موجودہ اخلاقی حالت کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ھے کہ آج عمر بن عبدالعزیز بھی اس قوم کے حاکم بن جائیں تو بھی کچھ نہیں بدلے گا "