ھمارا کردار اور ھمارے اھل وعیال

شکایت تھی کہ بیٹا پہلے اچھی بھلی نماز پڑھتا تھا اور وہ بھی پہلی صف میں ،، داڑھی بھی سُچی رکھی ھوئی ھے ،،،،،،،،،،،،،،،
داڑھی تو ابھی بھی ھے مگر نماز چھوڑ بیٹھا ھے ، بس کبھی کبھار ھی مسجد آتا ھے ،
پلیز مولوی صاحب اس کو سمجھائیں میں بہت پریشان ھوں ، اس کا اثر چھوٹے بھائیوں پر بھی پڑے گا ،،،،،،،،،،،،،،،
آخر تنگ آ کر بیٹے کو بلوا ھی لیا ،، حال چال پوچھنے کے بعد آئستہ آئستہ موضوع کی طرف آئے ، پوچھا بیٹا نیکیاں زیادہ ھو گئ ھیں ، اب مزید کی ضرورت نہیں یا خود کفیل ھو کر اپنے خدا خود بن گئے ھو ؟ وہ جب بلائے تو پھر نہ آنا ؟ کبھی سوچا ھے کہ اعلانِ بغاوت ھے ، یہ آفیشل کال ھوتی ھے ، اس کے جواب پر ایمان کی تجدید کی جاتی ھے ،، جو حاضر نہیں ھوتے ان کی فائل ایمان والوں سے الگ کر دی جاتی ھے ، اللہ کے رسول ﷺ نے اذان کے بعد فرمایا کہ میرا جی چاھتا ھے کہ بلال سے کہوں کہ اقامت کہے ، اس کے بعد جو لوگ مسجد نہ آئیں میں ان کو ان کے گھروں سمیت آگ لگا دوں ،،،،،،، مگر میں صرف عورتوں اور بچوں کی وجہ سے اپنے اس ارادے پر عمل نہیں کر رھا ،،،،،،،،،،،،
جوان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ،،،،،،،، قاری صاحب میں نہ تو نیک ھوں اور نہ ھی خود کفیل ھوں ، میں اللہ کا گنہگار بندہ ھوں ،، مگر میں جان بوجھ کر نماز کبھی مس کر دیتا ھوں اور کبھی پڑھتا ھوں ، اس کی وجہ یہ ھے کہ مجھے خود اپنے والد صاحب کی نیکی سے نفرت ھو گئ ھے اور ان کی نمازوں سے بھی ، میں ان کو مسجد میں دیکھتا ھوں تو مجھے اُبکائی آ جاتی ھے ،، جس دیدہ دلیری کے ساتھ وہ خدا کو اور لوگوں کو دھوکا دے رھے ھیں ، مجھ میں ابھی ویسی جرأت پیدا نہیں ھوئی ، شاید ان کی عمر کا جب ھو جاؤں گا تو پیدا بھی ھو جائے ، مگر مجھے والد صاحب کی نماز سے نفرت ھوئی تو مسجد میں ان کے آنے سے بھی چڑچڑاھٹ پیدا ھو گئ ،، اگر والد صاحب مسجد آنا چھوڑ دیں تو میں پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ پہلی صف میں پڑھنا شروع کر دونگا ،،،،،،،،،،
میں نے کہا کہ یار صاف صاف بات کرو معاملہ کیا ھے ؟
جوان کہنے لگا ، والد صاحب نے ھم دو بھائیوں کے نام پر کمپنی بنائی ھوئی ھے ،مگر سارا نظام اپنے ھاتھ میں رکھا ھوا ھے ،، قاری صاحب 18 درھم کی دھاڑی لینے والے میسن کی تنخواہ خود اس کے جعلی سائن کر کے کھا جاتے ھیں اور اسے کہتے ھیں کہ تو سائن کر کے تنخواہ لے چکا ھے ،،، جبکہ میں نے خود ان کو مزدوروں کے جعلی سائن کرتے دیکھا ھے ،،،،،،، میں نے منع کیا تو مجھے بھی گالیاں دیں اور میری ماں کو بھی گالیاں دیں کہ کیسا نافرمان بیٹا پیدا کیا ھے ،،مگر ایک دن تو حد ھی ھو گئ ،،ھمیں مسجد کا کنٹریکٹ ملا ،، مسجد بن رھی تھی ، جس دن والد صاحب نے اس مسجد کی مزدوری کرنے والے مزدوروں کے پیسے بھی کھا لیئے تو میں نے والد صاحب سے کہا کہ میں اب کبھی مسجد نہیں جاؤنگا ،، اس کے باوجود ان پر کوئی اثر نہیں پڑا ، اب چھوٹا بھائی کہتا ھے کہ میں مزدور کے ساتھ مل کر والد صاحب پر مقدمہ کرواتا ھوں اور خود گواہ بنوں گا کہ انہوں نے جعلی سائن کئے ھیں ،، الغرض اولاد ھو یا بیوی ،، حقیقت یہ ھے کہ ھماری منافقت کے ہاتھوں بغاوت کرتے ھیں ،، صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا معمول تھا کہ اگر ان کی سواری بھی نافرمانی کرتی تھی تو وہ اپنے عمل کا جائزہ لیتے تھے کہ آج ھم سے رب کی کونسی نافرمانی ھوئی ھے جس کی وجہ سے ھماری سواری نے ھماری نافرمانی کی ھے ،،
مرد شادی کے پہلے چند ھفتوں میں ھی انسانیت سے گر کر حیوانیت کی حد بھی کراس کر کے حیوانوں میں سے بھی بدترین جانور بن جاتے ھیں ،یوں اپنی مرادنگی کیش کرا کر کھا لیتے ھیں اور پھر ساری زندگی گلہ کرتے ھیں کہ ان کی بیوی ان کو مرد تسلیم نہیں کرتی ، ان کی بیوی ان کی عزت نہیں کرتی ،، عورت مرد کی عزت کرتی ھے مگر جب مرد ھی اپنی مردانگی کی عزت نہ کرے،اور مرد کی بجائے کتا بن جائے تو پھر کیسی عزت اور کونسی عزت اور کس کی عزت ،، شریعت یہ چاھتی ھے کہ انسان اپنی فطری زندگی کا ھر تقاضہ انسانیت کی سطح پر رہ کر پورا کرے اور یہی امتحان ھے ،، لوگ بظاھر نہایت دیندار شکل و صورت بنائے پھرتے ھیں مگر ان کی بیوی اچھی طرح جانتی ھے وہ کتنے دیندار ھیں ،، لہذا وہ اس دینداری سے ھی نفرت کرنا شروع کر دیتی ھے ،، بیوی کی نافرمانی کے پیچھے ایک لمبی داستان ھوتی ھے ،،
باقی پھر سہی ، یار زندہ صحبت باقی ،،،،،