کفر اور اس کی اقسام

مسئلہ صرف یہ ھے کہ غامدی صاحب کافر کی بجائے غیر مسلم کا لفظ استعمال کرتے ھیں ، اور یہی لفظ آپ کے آئین میں استعمال کیا گیا ھے ،، Non Muslim Minorities , یہانتک کہ قادیانیوں کو بھی غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ھے ،گویا اس گناہ میں وہ سارے علماء شامل ھیں جنہوں نے آئین میں لفظ نان مسلم لکھا ھے کافر نہیں لکھا ،، غیر مسلم نہایت جامع مانع لفظ ھے اور تمام غیر مسلموں کو مسلمانوں سے الگ کر دیتا ھے چاھے ان کا مذھب کوئی سا بھی ھو ،
ایک صاحب فرماتے ھیں کہ غامدی صاحب مومن اور کافر کے درمیان ایک تیسری جنس گھسانے کی کوشش کر رھے ھیں ، ایک بفر زون بنانے کی کوشش کر رھے ھیں ، یا معتزلہ کی طرح ” منزلۃ بین منزلتین ” تخلیق فرما رھے ھیں ، جبکہ حقیقت یہ ھے کہ مومن اور کافر یا ایمان و کفر کے درمیان ایک چھوڑ دو دو منزلیں تو ھم ان شاء اللہ قرآن سے ثابت کر دیں گے اور باقی احادیث سے ثابت کریں گے ،،
جیسا کہ ڈاکٹر طفیل ھاشمی صاحب نے فرمایا ھے کہ اصطلحات ھمہ جہتی ھوتی ھیں ان کا ٹھیک ٹھیک مقصود ان کے سیاق و سباق کو دیکھ کر ھی متعین کیا جاتا ھے ، کفر قرآن و حدیث میں کئ معنوں میں استعمال ھوا ھے ، اور اس کے معنے کو اس کی ضد کے سامنے رکھ کر ھی متعین کیا جاتا ھے ،
مثلاً،،
کفر بمقابلہ شکر ،
کفر کا معنی دبانا ھوتا ھے ، دبانے والے کو کفار کہا جاتا ھے اور قرآن حکیم نے کسان کو کفار کہا ھے جو دانے یا بیج کو زمین میں دباتا یا چھپاتا ھے ،،
شکر وہ جذبہ ھے جو انسان کے اندر خود بخود پھٹتا ھے امڈتا ھے جس طرح مشقت سے پسینہ پھوٹتا ھے یا تکلیف سے آنسو پھوٹتے ھیں ، اسی طرح جب کوئی کسی انسان کے ساتھ بھلائی کرتا ھے تو اس شخص کے اندر بھلائی کرنے والے کے بارے میں جو اچھے جذبات پیدا ھوتے ھیں ان کو شکر کے جذبات کہتے ھیں ،جن کو الفاظ کا روپ ھر بندہ اپنی استعداد کے مطابق دیتا ھے، عربی میں اس چشمے کو جس کو انسان نے خود کوشش کر کے نہ کھودا ھو ، اور جسے ھمارے علاقے میں ” چوآ ” کہا جاتا ھے یعنی چوآ سیدن شاہ ،، عربی میں اس کو” عیناً شکرا” کہا جاتا ھے ، وہ چشمہ جو خود بخود پھوٹ نکلا ،، اس چشمے کو دبانے والے چھپا لینے والے کو کافر اور اس کے فعل کو کفر کہا جاتا ھے ،،
1- وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراھیم-7)
اور یاد کرو وہ وقت جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں یقیناً تمہیں زیادہ دونگا ، اور اگر تم نے ناشکری کی ( کفر کیا ) تو میری گرفت بھی یقیناً بڑی شدید ھو گی ،، یہاں کفر سے مراد ناشکری ھے ،،
2- إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ( الزمر-7)
اگر تم ناشکری کرو گے تو بے شک اللہ تم سے غنی ھے ( تمہاری ناشکری سے اللہ کا کوئی نقصان نہیں ھوتا ) اگرچہ وہ بندوں سے ناشکری کو پسند نہیں کرتا ، اور اگر تم شکر کرو تو اللہ تمہاری اس روش سے راضی ھوتا ھے ،،
یہاں بھی کفر سے مراد ناشکری ھے کیونکہ اس کو شکر کے بالمقابل لایا گیا ھے ،،
3- وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ( لقمان -12)
اور تحقیق ھم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ اللہ کا شکر کرو، اور جو اللہ کا شکر کرتا ھے وہ اپنے ھی بھلے کے لئے کرتا ھے اور جو کفر( ناشکری) کرتا ھے تو بے شک اللہ بےپرواہ اور ستودہ صفات ھے
4- وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (النمل-40)
اور جس نے شکر کیا اس نے شکر کیا اپنی ذات کے نفع کے لئے اور جس نے کفرکیا ( ناشکری کی) تو بے شک میرا رب بے پرواہ بڑا کرم کرنے والا ھے
5- قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ (18) وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ (الشعراء- 19)
فرعون نے کہا کہ کیا ھم نے تمہیں چھوٹے بچے کی حیثیت سے گھر میں نہیں پالا تھا ؟ پھر تو نے وہ کارنامہ کیا جو تُو نے کیا اور تو ناشکروں ( کافروں ) میں سے تھا ،،
یہاں کفر بمعنی ناشکری استعمال ھوا ھے ،،
6- اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ( الحدید-20)
جان لو کہ در اصل دنیا کی زندگی کھیل تماشہ ھے اور زیب وزینت اور آپس میں تفاخر اور مال و اولاد کی کثرت کی جستجو ھے جیسے مثال بارش کی کہ اس کے نتیجے میں اگنے والی روئیدگی ” کسانوں ” کو بہت خوش کن لگتی ھے ، پھر وہ کھیتی پک جاتی ھے چنانچہ تو اس کو دیکھتا ھے زرد رنگ کی پھر گاہ کر بھس بنا لی جاتی ( کھیتی کا انجام تو یہیں پر ھو گیا جبکہ ) انسان کوآخرت میں شدید عذاب یا اللہ کی جانب سے مغفرت و رضا کا معاملہ درپیش ھے ، اور دنیا کہ زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں ،،
اس میں کسان کوکافر کہا گیا ھے اس کے بیج دبانے کے فعل کی نسبت سے ،، اور یہ شکر کے متضاد استعمال ھوا ھے ،،
7- وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا ( الکہف- 29)
اور کہہ دیجئے کہ تمہارے رب کی طرف سے حق پیش کر دیا گیا ھے سو جو چاھے وہ ایمان لے آئے لے اور جو چاھے وہ کفر کر دے ،، یہاں کفر ایمان کے بالمقابل آیا ھے ، اس میں بھی کفر کرنے والے کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا ھے دنیا میں کسی سزا کا ذکر نہیں
8- مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿النحل- 106﴾
جس نے کفر کیا اپنے ایمان لانے کے بعد سوائے اس کے کہ جس کو مجبور کیا گیا کفر کرنے کے لئے مگر اس کا دل ایمان پر مطمئن رہا( اور کلمہ کفر مجرد زبان تک رھا، لیکن جس نے سینہ کھول دیا کفر کے لئے ( اس کو دل میں جانے دیا ) تو ان پر غضب ھے اللہ کا اور ان کے لئے بڑا عذاب ھے ،،
اس آیت میں کفر ارتداد کے معنوں میں استعمال ھوا ھے اور اس کی سزا بھی آخرت پر رکھی گئ ھے ،کیونکہ دلوں کا حال حشر میں ھی کھولا جائے گا –
9- كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (آلعمران -86)
اللہ کیسے ھدایت دے ان لوگوں کو جو کافر ھو گئے اپنے ایمان لانے کے بعد اور گواھی دی کہ رسول ﷺ برحق ھیں اور ان کے پاس براھین ودلائل آ چکے، اللہ بے انصاف قوم کو ھدایت نہیں دیتا ،، یہاں بھی کفر سے مراد ارتداد ھے ، اس میں بھی آخرت کی سزا سے ھی ڈرایا گیا ھے ، اگلی آیات میں ملاحظہ فرمائیں
10-أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (87) خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ (88) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (89) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ (90) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ (91)
یہ وہ لوگ ھیں جن پر اللہ کی لعنت ھے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی ملا کر ، وہ ھمیشہ اس میں رہیں گے، نہ ان سے عذاب کم کیا جائے گا اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی ، سوائے ان لوگوں کے کہ جو بعد میں پلٹ آئیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو بے شک اللہ بخشنے والا رحیم ھے ، بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اپنے ایمان لانے کے بعد پھر بڑھتے ھی چلے گئے کفر میں ، مرتے وقت ان کی توبہ ھر گز قبول نہیں کی جائے گی اور یہی لوگ گمراہ ھیں ، بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور کفر کی حالت میں ھی مر گئے ان میں سے کسی سے بھی زمین بھر کر سونا بھی بطور فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ اتنا دے سکیں ۔ یہ وہ لوگ ھیں جن کے لئے دردناک عذاب ھو گا اور کوئی ان کا مددگار نہ ھو گا
آل عمران کی یہ ساری آیات مرتدین کو ایڈریس کر رھی ھیں اور کفر بمعنی ارتداد استعمال ھوا ھے ۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں مرتد کی دنیاوی سزا بیان کی جاتی ، مگر پورے قرآن میں جہاں جہاں بھی مرتدین کا ذکر ھوا ھے کہیں بھی دنیا کی سزا مذکور نہیں بلکہ آخرت کے عذاب کا ھی ذکر ھے ،، کسی کو دنیا میں ایمان و کفر اختیار کرنے کا حق دینے کا مطلب ھی کوئی نہیں بچتا اگر آپ اس کے سر پر تلوار لئے کھڑے ھیں ،،
ھمارے تکفیری سوچ والے متشددین سلفی اور دیوبندی احباب بریلویوں کو مشرک بمعنی کافر کہتے ھیں اور جب ھم ان سے کہتے ھیں کہ ھم تو بریلویوں کی مسجد میں بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ھیں ، اس کا شرک اس کی ذات کے ساتھ ھے ، نماز وہ بھی اللہ کی پڑھتا ھے ،ھم بھی اللہ کی پڑھتے ھیں تو وہ کہتے ھیں کہ جناب عجیب منطق ھے کہ بندہ کفر کرے اور اس کو کافر نہ کہو ؟ شرک کرے اور اس کو مشرک نہ کہو ؟
اسی بحث میں آج یہ مسئلہ بھی حل کر لیتے ھیں ،،
ایسا ھوتا ھے کہ مسلمانی کا دعوی کرنے والے بعض کفریہ حرکات بھی کر جاتے ھیں ، جس کی مذمت ان الفاظ میں کی جاتی ھے کہ جس نے یہ کیا اس نے کفر کیا یعنی کافروں والی حرکت کی مگر ایسا شخص حقیقی کافر نہیں ھوتا ،جب تک کہ خود اسلام کو چھوڑ دینے کا اعلان نہ کرے کیونکہ جو اقرار کے ساتھ اسلام میں داخل ھوا ھے وہ اپنے برضا و رغبت انکار سے ھی اسلام میں سے نکلے گا اس کو کوئی اسلام میں سے نہیں نکال سکتا کیونکہ اس کے ایمان کی رجسٹریشن اللہ کے یہاں ھوئی ھے ،کسی تھانے میں یا مسجد میں نہیں – وہ گنہگار ھو سکتا ھے ،گمراہ ھو سکتا ھے ، مشرکانہ فعل بھی اس سے سر زد ھو سکتا ھے مگر وہ جب بھی جس وقت بھی توبہ کرتا ھے تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ھیں اسے نئے سرے سے مسلمان ھونے کی ضرورت نہیں ، کفریہ اعمال و اقوال کا حامل شخص حقیقی مومن نہ ھوتے ھوئے بھی مسلمانوں میں سے ھی ھوتا ھے ،جس طرح بیمار انسان جتنے مرضی خطرناک و متعدی امراض سے بھرا پڑا ھو وہ رھتا انسان ھی ھے اگرچہ اس کی وہ بیماریاں بندر والی ھوں یا گائے والی ھوں یا مچھر والی ھوں ،
آیئے اس بات کو ثابت کرتے ھیں ،،
1- لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (72)
بے شک کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ بے شک مسیح ابن مریم ھی تو اللہ ھے ، جبکہ مسیح ابن مریم تو کہہ گئے ھیں کہ اے بنی اسرائیل بندگی کرو اللہ کی جومیرا بھی رب ھے اور تمہارا بھی رب ھے ، بے شک جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ھے اور اس کا ٹھکانہ آگ ھے ، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ھو گا –
2 – لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلا إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنْ لَمْ يَنْتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (المائدہ- 73)
بے شک کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ تین میں تیسرا ھے ، جبکہ ایک کے سوا کوئی خدا ھے ھی نہیں – اور اگر باز نہ آئے اپنے اس قول سے جو وہ کہتے ھیں تو یقیناً جن لوگوں نے کفر کیا ان کو دردناک عذاب پیش آ کر رھے گا ،،
3- لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ( المائدہ-17)
تحقیق کفر کیا انہوں نے جنہوں نے کہا کہ بے شک مسیح ابن مریم ھی تو اللہ ھے ، آپ کہہ دیجئے کہ ” پھر کون اختیار رکھتا ھے اللہ کو روکنے کا اگر وہ ارادہ کر لے کہ ھلاک کرے ابن مریم کو بھی اور اس کی ماں کو بھی اور جو زمیں میں سارے ھیں ان کو بھی ؟ اللہ کا ھی ھے کو کچھ کہ آسمانوں میں ھے اور جو کہ زمین میں ھے اور جو ان کے درمیان ھے وہ پیدا کرتا ھے جیسے چاھتا ھے ( صرف عجیب طریقے سے پیدا ھونے سے کوئی خدا تھوڑی بن جاتا ھے، سورہ آل عمران میں فرمایا کہ اگر یہ عجیب پیدائش خدائی کی دلیل ھے تو آدم تو اس سے بھی عجیب طریقے سے پیدا ھوئے تھے ) اور اللہ ھر چیز پر قدرت رکھتا ھے،
اس قسم کی بہت ساری آیات قرآن میں بھری پڑی ھیں جن میں یہود و نصاری کے شرک کو واضح کیا گیا ھے ، انہیں مشرک بھی کہا گیا ھے اور کافر بھی کہا گیا ھے ، اس کے باوجود ان کا الگ اور انوکھا اسٹیٹس قائم کیا ھے ، وہ کفر کرتے ھیں مگر کافر نہیں ، وہ شرک کرتے ھیں مگر مشرک نہیں ،، یہ ان کے گناہ ھیں ان کا مذھب اور دین شرک نہیں ،
وہ اھل کتاب ھیں ،،
مندرجہ بالا آیات سورہ المائدہ کی ھیں ، اور اسی المائدہ میں ان کا سٹیٹس مشرک یا کافر نہیں بلکہ اھل کتاب قائم کر کے کہا گیا ھے کہ ان کا کھانا تمہارے لئے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ھے اور ان کی عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ھیں وہ زندگی بھر عیسائی اور یہودن بن کر تمہاری بیویاں بھی رہ سکتی ھیں اور تمہارے بچے بھی پیدا کر سکتی ھیں اور اپنے عقائد کا اتباع بھی جاری رکھ سکتی ھیں اور اپنی عبادت بھی کر سکتی ھیں تم ان کو عبادت سے نہیں روک سکتے ،خود اللہ کے رسول ﷺ نے نجران کے عیسائی وفد کو اپنے سامنے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ھے اور نماز کا وقفہ دیا ھے –
الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (المائدہ – 5)
آج کے دن تمام طیب چیزیں تم پر حلال کر دی گئ ھیں ، اور کھانا ان لوگوں کا جو کہ دیئے گئے کتاب، اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ھے ، اور پاکباز عورتیں ایمان والیوں میں سے اور پاکباز عورتیں ان کی بھی جو دیئے گئے تم سے پہلے کتاب ، جب تم ان کے مہر ادا کرد و گھر بسانے کی نیت سے نہ کہ مستی نکالنے کے لئے اور نہ یاریاں گھانٹھنے کے لئے،اور جس نے کفر کیا ایمان کو چھوڑ کر پس اس کے اعمال ضائع ھو گئے اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ھو گا ،،
یہ تو وہ ھیں جو کفر کر کے بھی کافر نہیں بلکہ اھل کتاب ھی رھے اور قیامت تک رھیں گے اور اللہ کی کتاب ان کے اسٹیٹس کو تحفظ دے گی ،اور ان کی عورتوں سے نکاح جائز رھے گا ،، ھمارے یہاں بندہ ذرا سا ہلتا ھے تو مولوی صاحب پہلا فتوی یہی دیتے ھیں کہ ” اس کی بیوی اس سے جدا ھو گئ ”
اب اگلی قسط میں ان لوگوں کو دیکھیں گے کہ جن کو اللہ نے بار بار کافر کہا ، اور ان کے اقوال و افعال ایک ایک کر کے گنائے اور ان سے کہا کہ عذر پیش مت کرو تم کفر کا ارتکاب کر چکے ھو ،،
اس کے باجود وہ لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھتے رھے ، ان کی بیویاں ان کے ساتھ رھیں ان کے جنازے بھی پڑھے جاتے رھے اور کسی نے بھی ان کو کافر نہیں کہا نہ الگ قبرستان میں دفن کیئے گئے ، ان کے کفریہ اعمال و اقوال ان کے گناہ ھیں ، ان کے برے اعمال ھیں ، ان کا اسٹیٹس نہیں ھیں ،، چنانچہ اس اسلام میں اپنے اقرار سے داخل ھونے والے کو کوئی زبردستی باھر نہیں نکال سکتا ، جو اپنے اقرار سے آیا ھے ، اپنے انکار سے نکلے گا ، اگر اسلام کا انکار نہیں کرتا تو ھمالیہ سے بھی وزنی اور بلند گناہ کر لے وہ گنہگار مسلمان ھو گا کافر نہیں ھو گا ،،

سورہ بقرہ میں آپ پڑھتے ھیں کہ-
1- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (104)
"اے ایمان والو تم مت کہو ” راعنا ” بلکہ کہو "انظرنا ” اور غور سے سنا کرو ( تا کہ تمہیں انظرنا کہنے کی ضرورت بھی نہ رھے) اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ھے” و للکافرین عذاب الیم – ( البقرہ 104)
سورہ ال عمران میں غزوہ احد کو ڈی بریف کیا گیا ھے ، اس میں عبداللہ ابن ابئ نہ صرف 300 منافق ساتھ لے کر پلٹ آیا تھا یوں ھزار میں سے 700 مسلمان مجاھد باقی بچے تھے گویا وہ ایک تہائی طاقت لے کر منحرف ھو گیا تھا، پھر جب مسلمان جانی نقصان سے دو چار ھوئے تووہ بجائے شرمندہ ھونے کے زبانیں دراز کرنے لگ گئے ،،
2- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (156)
اے ایمان والو ، انکی طرح مت ھو جاؤ جنہوں نے کفر کیا اور کہا اپنے بھائیوں کو کہ جب وہ غزوے پہ نکلیں یا سفر میں جائیں کہ اگر وہ ھمارے ساتھ ھوتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے (،آل عمران156 ) یہاں ان کےاس فعل شنیع کوکفر قرار دیا ،مگر نہ کوئی مقدمہ نہ کورٹ مارشل نہ کوئی سزا !
3- {إِنَّ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بالإيمان لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ (177)
بے شک جن لوگوں نےایمان کے بدلے کفر خریدا وہ اللہ کو ھر گز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے اور ان کے لئےدردناک عذاب ھے( ” دنیا میں کوئی سزا نہیں ” ) آل عمران 177
4- وَمَا مَنَعَهُـمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْـهُـمْ نَفَقَاتُـهُـمْ اِلَّآ اَنَّـهُـمْ كَفَرُوْا بِاللّـٰهِ وَبِرَسُوْلِـهٖ وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلَاةَ اِلَّا وَهُـمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُـمْ كَارِهُوْنَ (54)
اور ان کے خرچ کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نماز میں سست ہو کر آتے ہیں اور ناخوش ہو کر خرچ کرتے ہیں۔
5- فلا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ ( 55 )
ان کا مال و اولاد آپ کوتعجب میں نہ ڈالے درحقیقت اللہ یہ چاھتا ھے کہ انہیں ان دونوں چیزوں کے ذریعے دنیا میں سزا دے اور وہ اس حال میں جان دیں کہ وہ کفر میں ھوں (55)
6- لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُـمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ ۚ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَـآئِفَةٍ مِّنْكُمْ نُـعَذِّبْ طَـآئِفَةً بِاَنَّـهُـمْ كَانُـوْا مُجْرِمِيْنَ (66)
بہانے مت بناؤ ایمان لانے کے بعد تم کافر ہو گئے، اگر ہم تم میں سے بعض کو معاف کر دیں گے تو بعض کو عذاب بھی دیں گے کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں۔
7- يَحْلِفُوْنَ بِاللّـٰهِ مَا قَالُوْاۖ وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِـمْ وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا ۚ وَمَا نَقَمُوٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنَاهُـمُ اللّـٰهُ وَرَسُوْلُـهٝ مِنْ فَضْلِـهٖ ۚ فَاِنْ يَّتُـوْبُوْا يَكُ خَيْـرًا لَّـهُـمْ ۖ وَاِنْ يَّتَوَلَّوْا يُعَذِّبْـهُـمُ اللّـٰهُ عَذَابًا اَلِيْمًا فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَمَا لَـهُـمْ فِى الْاَرْضِ مِنْ وَّلِـىٍّ وَّلَا نَصِيْـرٍ (74)
اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم نے نہیں کہا، اور بے شک انہوں نے کفر کا کلمہ کہا ہے اور مسلمان ہونے کے بعد کافر ہوگئے اور انہوں نے قصد کیا تھا ایسی چیز کا جو نہیں پا سکے، اور یہ سب کچھ اسی کا بدلہ تھا کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے دولتمند کر دیا، سو اگر وہ توبہ کریں تو ان کے لیے بہتر ہے، اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا، اور انہیں روئے زمین پر کوئی دوست اور کوئی مددگار نہیں ملے گا۔
8- اِسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّـٰهُ لَـهُـمْ ۚ ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ كَفَرُوْا بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْفَاسِقِيْنَ (80)
تو ان کے لیے بخشش مانگ یا نہ مانگ اگر تو ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش مانگے گا تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا، اور اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔
یہ تھی مسلمانوں مین ایمان اور کفر کے درمیان کی پہلی منزل – جن کو اللہ پاک بار بار کافر کہتا ھے ، ان کے کفر کو کوٹ کر کے فرماتا ھے کہ تم نے کفر کیا ھے ( مگر کافر نہیں کہتا ) گویا ان کا اسٹیٹس مسلم کا ھی ھے ،نبئ کریم ﷺ نے خود ان کا جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا تھا مگر صحابہؓ کو جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا ، ان کے نکاح بھی چلتے رھے اور جنازے بھی چلتے رھے ،، ان کو کسی نے کافر نہیں کہا یہ Muslim Cum kafir تھے ، ان کے کام کافروں والے مگر اسٹیٹس مسلم والا رھا ، نہ انہوں نے ھمت کر کے اسلام کا انکار کیا اور نہ کسی کو انہیں کافر کہنے کی ھمت تھی ،،
ایمان اور کفر کے درمیان کی دوسری منزل بھی پڑھ لیجئے ،،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مسلمانوں میں کتنے ایسے ھیں جو بے ایمان ھیں ،مگر کافر نہیں ھیں بلکہ ان سے ملک بھرا ھوا ھے ،مساجد بھری ھوئی ھیں،
1-
(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سِنَانٍ ، أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ , يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ : ” وَاللَّهِ لا يُؤْمِنُ ، وَاللَّهُ لا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ ، وَاللَّهِ لا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ ، وَلا يُؤْمِنُ ” . قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا ذَلِكَ ؟ قَالَ : ” جَارٌ لا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ ” . قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا بَوَائِقُهُ ؟ قَالَ : ” شَرُّهُ "( متفق علیہ )
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ھیں کہ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتا ، اللہ کی قسم وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتا ، پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کون ھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ پڑوسی جو اپنے پڑوسی کو اپنے شر سے امن نہ دے ،،
اپنے ارد گرد دیکھ لیجئے کہ کتنے مسلمان ھیں کہ جن کے پڑوسی ان کے ستم کا نشانہ بنے رھتے ھیں ، اس میں بد نظری سے لے کر اس کی طرف کچرہ پھینکنا ، ان کا پانی چرا لینا ، بے وقت تنگ کرنا اور ناجائز تجاوز کرنا سب کچھ شامل ھے ، سب سے زیادہ تنگ مسجد کے پڑوس والے ھوتے ھیں اور یہ پڑوسی کو تنگ کرنے والے سارے بےایمان ھیں مگر مسلمان ھیں ،،
2- من حلف بغیر الله فقد کفر،،
جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا ،
3- لیس بمومن من اشبع و جارہ جائع( الطبرانی )
وہ مومن نہیں جس نے پیٹ بھر کر کھا لیا اور اس کا پڑوسی بھوکا سو گیا ،،
جب مومن نہیں اور کافر بھی نہیں تو کیا ھے ؟ درمیان کی منزل
4- العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر ” ( رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن حبان والحاكم )
ھمارے اور کفار کے درمیان فرق نماز کا ھے جس نے نماز کو ترک کیا اس نے کفر کر دیا –
5- عن شداد بن أوس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من صلى يرائي فقد أشرك، ومن صام يرائي فقد أشرك، ومن تصدَّق يرائي فقد أشرك،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جس نے ریاکاری کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، جس نے ریاکاری کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا ، جس نے ریاکاری کا صدقہ دیا اس نے شرک کیا
6- حديثُ جَريرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لَهُ في حَجَّةِ الْوَداعِ: (اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، فَقالَ: لا تَرْجِعُوا بَعْدي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقابَ بَعْضٍ). متفق عليه.
جریرؓ فرماتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حجۃ الوداع میں کہا کہ لوگوں کو خاموش کراؤ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد ایک دوسرے کہ گردنیں مار کر کافر مت ھو جانا ،،
7- حديثُ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: (وَيْلَكُمْ أَوْ وَيْحَكُمْ، لا تَرْجِعُوا بَعْدي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقابَ بَعْضٍ). متفق عليه.
ابن عمرؓ فرماتے ھیں کہ رسول اللہ ق نے فرمایا تمہاری بربادی میرے بعد کافر مت ھو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ ،،
یہ وہ کام ھے جو صحابہؓ کے زمانے سے شروع ھوا اور گلبدین حکمتیار ، احمد شاہ مسعود ، ملا منصور اور سجنا تک سب نے اس میں اپنا حصہ ڈالا ،
دوسروں کو جھٹ کافر اور زندیق ، گمراہ کہنے والوں کی زبان پر اپنے تکفیری قاتلوں کے لئے کلمہ مذمت نکالتے ھوئے چھالے پڑ جاتے ھیں جو نہ مسجد دیکھتے ھیں نہ مدرسہ، نہ شادی نہ جنازہ ، نہ اسپتال نہ بازار مگر صرف داڑھیوں کے زور پر اسلام کے مامے بنے ھوئے ھیں ، اور علماء دم سادھے بیٹھے ھیں کھل کر انہیں غلط نہیں کہتے بلکہ اگر،مگر، چونکہ ،چنانچہ ، سے ان کے قبیح افعال اور بےگناہ مسلمانوں کے قتلِ عام کو جواز فراھم کرتے ھیں ،،
جہاں ذکر آتا ھے کہ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، تو علماء اس میں سوڈا ڈال کر بریکٹ میں لکھتے ھیں ( حقیقی ) مومن نہیں ،یوں سارا ڈنگ نکال دیتے ھیں ،، جب حقیقی مومن بھی نہیں اور حقیقی کافر بھی نہیں تو پھر وہ کیا ھے ؟ جب رسول اللہ ﷺ بار بار کفر کی گردان فرما رھے ھیں ،،
یہ وہ منزل ھے جس میں بندہ کام تو کافروں سے مشابہ کر رھا ھے اور اس کو بار بار تنبیہہ کی جا رھی ھے کہ مسلمان ھو تو مسلمانوں والے کام کرو ،کافروں والے مت کرو ،ٹوکا جا رھا ھے کہ دیکھا تم نے پھر کافروں والا کام کر دیا ھے ،،
کافر ھونا اور کافروں جیسا کام کرنا دو الگ الگ مسئلے ھیں ، اس لئے احادیث میں کفر کے الفاظ دیکھ کر ھر مخالف پر ان کا اندھا دھند اطلاق نقصان دہ اور Counter Productive ھو سکتا ھے ،
ایک غیر مسلم کبھی مسلمان نہیں ھو سکتا مگر کفر کی کتنی قسمیں آپ نے پڑھ لی ھیں جو مسلمانوں میں لفظ کفر کے ساتھ ھی گنوائی گئ ھیں ، یوں لفظ "غیر مسلم ” جامع ترین اور مانع ترین اصطلاح ھے اس کو معمولی مت سمجھئے ،،
اس کے علاوہ مسلمان مکاتب فکر کے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوؤں کی پٹاری میں نے نہیں کھولی ،،،
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ،
” وھھنا أصل آخر وھو الکفر نوعان :
کفر عمل وکفر جحود وعناد. فکفر الجحود : أن یکفر بما علم أن الرسول جاء بہ من عند اللہ جحودا وعنادامن أسماء الرب وصفاتہ وأفعالہ وأحکامہ وھذا الکفر یضاد الایمان من کل وجہ.وأما کفر العمل : فینقسم ا لی ما یضاد الایمان والی ما لا یضادہ فالسجود للصنم والاستھانة بالمصحف وقتل النبی وسبہ یضاد الایمان وأما الحکم بغیر ما أنزل اللہ وترک الصلاة فھو من الکفر العملی قطعا ولایمکن أن ینفی عنہ اسم الکفر بعد أن أطلقہ اللہ ورسولہ علیہ فالحاکم بغیر ما أنزل اللہ کافر وتارک الصلاة کافر بنص الرسول ولکن ھو کفر عمل ولایطلق علیھما اسم کافر وقد نفی رسول اللہ الایمان عن الزانی والسارق وشارب الخمر وعمن لایأمن جارہ بوائقہ وذا نفی عنہ اسم الیمان فھو کافر من جھة العمل وانتفی عنہ کفر الجحود والاعتقاد وکذلک قولہ لاترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض فھذا کفر عمل وکذلک قولہ من أتی کاھنا فصدقہ أو امرأة فی دبرھا فقد کفر بما أنزل علی محمد وقولہ ا ذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا أحدھما…وھذا التفصیل ھو قول الصحابة الذین ھم أعلم الأمة بکتاب اللہ وبالاسلام والکفر ولوازمھما فلاتتلقی ھذہ المسائل لا عنھم فن المتاخرین لم یفھموا مرادھم فانقسموا فریقین فریقا اخرجوا من الملة بالکبائر وقضوا اصحابھا بالخلود فی النار وفریقا جعلوھم مؤمنین کاملی الایمان فھؤلاء غلوا وھؤلاء جفوا وھدی اللہ أھل السنة للطریقة المثلی والقول الوسط الذی ھو فی المذاھب کالاسلام فی الملل فھا ھنا کفر دون کفر ونفاق دون نفاق وشرک دون شرک وفسوق دون فسوق وظلم دون ظلم.” (الصلاة وحکم تارکھا’ فصل فی نوعی الکفر: ص٧٢ تا٧٤’ دار ابن حزم’ بیروت)
” اور یہاں ایک اور بنیادی اصول بھی ہے اور وہ یہ کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک عملی کفر اور دوسرا انکار اور دشمنی کا کفر۔ پس کفر انکار یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے اسماء، صفات، افعال اوراحکام میں سے کسی ایسی شیء کا سرکشی اور ہٹ دھرمی سے انکار کر دے کہ جس کے بارے اسے علم ہو کہ اللہ کے رسول وہ شیء اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں۔ یہ ایسا کفر ہے جو ہر پہلو سے ایمان کے منافی ہے۔ جہاں تک کفر عملی کا معاملہ ہے تو یہ بھی دو قسم پر ہےایک یہ کہ وہ یعنی عملی کفرایمان کے منافی ہو اور دوسرا یہ کہ وہ ایمان کے منافی نہ ہو۔ پس بت کو سجدہ کرنا، قرآن مجید کی اہانت کرنا، نبی کو قتل کرنا یا اس کو گالی دینا ایسا کفر عملی ہے جو اس کے ایمان کے منافی ہے جبکہ ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا اور نماز کو چھوڑ دینا قطعی طور پر کفر عملی ہے اور ایسے کفرکو اللہ اور اس کے رسول کے کفر کہنے کے بعد بھی کفر نہ کہنا ممکن نہیں ہے۔
پس ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا کافر ہے اور نماز کو ترک کرنے والابھی اللہ کے رسول کی نص کے مطابق کافر ہے لیکن یہ عملی کفر ہے اور ان پر کافر حقیقی کے اسم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اللہ کے رسول نے زانی، چور، شراب نوشی کرنے والے اور پڑوسی کو ایذا پہنچانے والے سے ایمان کی نفی کی ہے۔ پس جب آپ نے ایمان کی نفی کر دی تو ایسا شخص عملی اعتبار سے کافر ہے لیکن اس میں انکار اور اعتقاد کا کفر نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول کا قول کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا اور ایک دوسرے کی گردنیں نہ اڑانے لگ جانا بھی کفر عملی کی مثال ہے۔ اسی طرح آپ کا قول کہ جو کسی کاہن کے پاس آیا اور اس نے اس کی تصدیق کی یا اس نے اپنی بیوی سے دبر میں مباشرت کی تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جو محمد عربی پر نازل کی گئی ہے۔ اسی طرح آپ کا قول کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو کہے :اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے یعنی یا تو جسے کہا جا رہا ہے وہ کافر ہے اور اگر وہ کافر نہیں ہے تو کہنے والا کافر ہو جاتا ہے تو یہ بھی کفر عملی ہی ہے.
اب اس ساری بحث میں سے اگر کوئی باقی بچ جانے والے مسلمان آپ کو دائیں بائیں ملتے ھیں تو دیکھ لیجئے ورنہ انہی کافر نما مسلمانوں کے ساتھ گزارہ کیجئے ،