پالنے والے سے حسنِ ظن ،،

(( عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُنِي وَاللَّهِ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ يَجِدُ ضَالَّتَهُ بِالْفَلَاةِ وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِذَا أَقْبَلَ إِلَيَّ يَمْشِي أَقْبَلْتُ إِلَيْهِ أُهَرْوِلُ))
مسلم ،،
((يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً )) البخاری
ایک حدیثِ قدسی میں نبئ کریم ﷺ اللہ پاک کی طرف سے بیان کرتے ھیں کہ اللہ تعالی فرماتے ھیں کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ھی معاملہ کرتا ھوں جیسا کہ وہ میرے بارے میں گمان رکھتا ھے ،، وہ جب میرا تذکرہ کرتا ھے تو میں اس کے پاس ھوتا ھوں ، اگر دل میں یاد کرتا ھے تو میں بھی دل میں یاد کرتا ھوں ، مجمعے میں میرا ذکر کرتا ھے تو میں اس سے بہتر مجمعے میں اس کا ذکر کرتا ھوں ، وہ ایک بالشت میری طرف بڑھتا ھے تو میں ایک کہنی تک اس کی طرف بڑھتا ھوں وہ کہنی جتنا بڑھتا ھے تو میں پورے بازو جتنا اس کی طرف آتا ھوں اور وہ چل کر آتا ھے تو میں دوڑ کر آتا ھوں ( الغرض میں اس سے بڑھ کر اس کا مشتاق ھوں )
بہت سارے لوگوں کو اللہ پاک سے سوءِ ظن برباد کرے گا ،،
دیکھتے نہیں کہ میدانِ محشر میں جب اللہ پاک اس قدر غصے میں ھو گا کہ نہ پہلے کبھی ایسا غصہ کیا تھا اور نہ کبھی بعد میں ایسا غصے میں ھو گا ،،مگر اس دن بھی رحمت اس کے غصے اور جبر پر غالب ھو گی ،، وہ فرماتا ھے،،
” وَخَشَعَتِ الأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلا تَسْمَعُ إِلا هَمْسًا (طۃ- 108)
اس دن آوازیں دب جائیں گے ” رحمان ” کے سامنے پس تو صرف تیز سانسوں کی آواز ھی سنے گا ،،
اس حال میں بھی میرے رب نے یہ نہیں فرمایا کہ آوازیں دب جائیں گی جبار یا قہار کے سامنے ،، بلکہ اس جگہ اپنی رحمت کی امید دلا دی ھے جہاں ھر طرف مایوسی کا عالم ھو گا ،،
اس نے اپنے اوپر کچھ فرض نہیں کیا مگر رحمت کرنا فرض کیا ھے ،، ھم پر روزے فرض کیئے ” کُتبَ علیکم الصیام ،، اور اپنے اوپر انہیں الفاظ میں رحمت فرض کر لی ” کتب ربکم علی نفسہ الرحمہ ”
وإذا جاءك الذين يؤمنون بآياتنا فقل سلام عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة أنه من عمل منكم سوءا بجهالة ثم تاب من بعده وأصلح فأنه غفور رحيم ( الانعام -54 )
اے نبی ﷺ جب وہ لوگ جو ھماری آیات پر ایمان رکھتے ھیں آپ کے پاس آیا کریں تو ان کو میری طرف سے سلام دیا کریں اور بتا دیں کہ تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کرنا فرض کر لیا ھے ، چنانچہ تم میں سے کوئی اگر جہالت کے لمحے خطا کر لیا کرے پھر اس کے بعد توبہ کر لیا کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو وہ بڑا ھی بخشنے والا رحم کرنے والا ھے ،،،
بندے کا حساب ھوتا ھے اور اس کی بدکاریاں وزنی نکلتی ھیں جس پر اسے جھنم کے فرشتے پکڑ کر لے چلتے ھیں اور وہ مڑُ کر کہتا ھے کہ ” اے دلوں کے بھید جاننے والے تجھے تو بخوبی پتہ ھے کہ میرا تیرے بارے میں کیا گمان تھا ،، اس پر اللہ اس سے پوچھے گا کہ بھلا تیرا میرے بارے میں کیا گمان تھا ؟ وہ کہے گا کہ میرا گمان تھا کہ تو مجھ پر رحم کرے گا اور مجھے معاف کر دے گا ، اس پر اللہ پاک فرمائے گا کہ ھم نے تجھے تیرے گمان کے سپرد کیا اور فرشتوں سے فرمائے گا کہ اس کا رستہ چھوڑ دو ،، ( ترجمان السنۃ از بدر عالم میرٹھی )
دو اشخاص کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ بتاتے ھیں کہ ان کی چیخ و پکار سے اھل جھنم بھی پریشان ھو جائیں گے، اھل جھنم ان کے ھٹانے کی درخواست کریں گے جس پر اللہ ان دونوں کو اپنے حضور حاضر کر لے گا جس پر وہ دونوں بہت پچھتاوے کا اظہار کریں گے اور اللہ سے وعدہ کریں گے کہ اگر وہ ان کو معاف کر دے تو وہ آئندہ اس کی اطاعت کریں گے ،، جس پر اللہ ان سے پختہ عہد لے گا اور پھر ان کو کہے گا کہ میرا حکم یہ ھے کہ جھنم میں واپس چھلانگ لگا دو ،، ایک تو دوڑتا ھوا جائے گا اور جھنم میں چھلانگ لگا دے گا اور سیدھا جنت میں جا کر گرے گا ، جبکہ دوسرا ابھی ٹُکر ٹُکر دیکھ رھا ھو گا ،، اللہ پاک اس سے فرمائے گا کہ تو نے مجھ سے اطاعت کا وعدہ کیا تھا پھر عمل نہیں کیا ؟ وہ کہے گا کہ اللہ تو جانتا ھے جب تو نے مجھے جھنم سے نکالا تھا تو میرا تیرے بارے میں یہ گمان تھا کہ تو مجھے دوبارہ اس میں نہیں ڈالے گا ،، جس پر اللہ فرمائے گا کہ تیرے گمان نے تجھے بخشوا دیا
ایک قریب المرگ جوان کے سرھانے ماں رو رھی تھی ، جوان نے آنکھ کھولی اور ماں کی طرف ھاتھ بڑھا کر اس کے آنسو کو پونچھا اور کہنے لگا ،ماں اگر میرا حساب تیرے حوالے کر دیا جائے تو ، تُو میرے ساتھ کیا معاملہ کرتی ؟ میں تجھے معاف کر دیتی میرے بیٹے ،ماں نے جواب دیا ،، ماں پھر میں جس کے پاس جا رھا ھوں وہ تیری نسبت مجھ سے بہت زیادہ پیار اور رحمت کرنے والا ھے ، اس لئے تو بےفکر ھو جا ،
اس کا نام ھے اللہ سے حسنِ ظن ،،
بدو اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کرتا ھے کہ قیامت کے دن حساب کون لے گا ؟
آپ نے فرمایا کہ ” اللہ ”
بدو نے پھر پوچھا ” بس صرف خود اللہ ”
حضورﷺ نے فرمایا بس صرف اللہ ،،،
بدو نے کہا نجونا ورب الکعبہ ،، رب کعبہ کی قسم ھم نجات پا گئے ،،
آپ ﷺ نے پوچھا ” بھلا وہ کیسے ؟ ”
کریم جب قابو پا لیتا ھے تو معاف کر دیتا ھے ،،، یہ ھے حسنِ ظن ،،
ایک اللہ والے سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کسی ” مستجاب الدعوات ” شخص سے واقف ھیں ؟
انہوں نے کہا کہ نہیں مگر میں اس سے واقف ھوں جو سب کی دعائیں قبول کرتا ھے ،، یہ ھے حسنِ ظن ،
ایک بدو سے کہا گیا کہ تم نے مر جانا ھے ،،،
پھر کہاں جانا ھے ؟ بدو نے سوال کیا ،،
اللہ کی طرف ، جواب دیا گیا ،،،،
اللہ کی قسم آج تک جو خیر بھی پائی ھے اللہ ھی سے پائی ھے ، پھر اس سے ملاقات سے بھلا کیوں ڈروں گا ؟ یہ ھے حسنِ ظن
=============================================
#۱سلام #قرآن #قاری حنیف ڈآر #حسنِ ظن