مغالطات الاغبیاء

لفظ رکوع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے معنے قرآن حکیم نے بلاغت کی صنف تقابل کے زریعہ سے بتاۓ ہیں : تصدیق کرنا – حکم ماننا اور تسلیم کرنا، ملاخطہ فرمائیں : ویل یومئزللمکزبین و ازقیل لھم ارکعوالا یر کعون (77/47-48) یعنی اس دن ویل ہوگا قرآن کو جھٹلانے والوں کیلیے( وہ اسلیے کہ ) جب کہا جاتا تھا ان کو کہ تصدیق کرو، مانو ، تسلیم کرو ( احکام قرآنی کو ) تو یہ لوگ نہیں مانتے تھے ، اور نہ ہی تصدیق کرتے تھے۔
پورے قرآن میں کہیں بھی رائج الوقت نماز کے اندر مروج طریق والا رکوع کرنے کا حکم نہیں ہے – پورے قران میں حکم اقیموالصلٰوۃ واتٰوالزکوٰۃ کے بعد صرف ایک مقام پر ” یہودیوں ” کو حکم ہے ” وارکعو مع الرٰکعین ” (2/43) اور صرف ایک بار مومنوں کی تعریف میں فرمایا کہ "انماولیکم اللہ ورسولہہ والزین امنو الزین یقیمون الصلوۃ ویوتون الزکوۃ وھم راکعون (5/55) یعنی مومن لوگ وہ ہیں جو نظام صلات قائم کرتے ہیں جس نظام سے سامان نشو نما دیتے ہیں لوگوں کو ، اور وہ احکام قرآن کو ماننے والے ہیں ۔ اب اس ایت میں صلات کے ساتھ بجاۓ رکوع کے اتوزکوۃ کا حکم ایا ہے ، رکوع کا حکم تو زکوۃ کے بعد ہے !
پھر بھی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ رکوع کا حکم بجاۓ صرف زکوۃ کے دونوں کے ساتھ ہے تو جسطرح لوگ صلوۃ کو روزانہ پانچ مرتبہ خلاف قران اقیموا کے ، پڑھتے ہیں جسکا حکم قران نے کہیں بھی نہیں دیا – تو یہ نماز والا رکوع جو روزانہ پانچوں فرض نمازوں میں سترہ (17) بار ادا کرتےہیں تو یہی رکوع پھر زکوۃ دیتے وقت کیوں نہیں کرتے ؟؟
جس زکوۃ کا تعلق پیٹ کی بھوک سے ہے اسے تو آپ نے خلاف قرآن سال میں ایک بار دینے کی معنیٰ دیا ہوا ہے! عجیب بات ہے کہ ایک ہی ایت میں صلوۃ ، زکوۃ اور رکوع کا حکم دیا گیا ہے ، جسے آپ نے اپنی من مانی سے صلوۃ روزانہ پانچ بار، رکوع روزانہ بیسیوں بار اور زکوۃ نہ روزانہ ، نہ ہفتہ وار ، نہ ماہوار ، نہ سہ ماہی ، نہ ششماہی بلکہ اسے سال میں صرف ایک بار محدود کردیا !!!
علاوہ ازیں : پورے قرآن میں کسی ایک مقام پر بھی صلوۃ کے ساتھ سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا !
غور و فکر کریں قرآن میں ۔۔۔۔ القران ۔۔۔
Ap kiya kahiangy respected sir??
الجواب !!
حامداً و مصلیاً
یہ منکرینِ حدیث کا مغالطہ ھے جس کی گرائمر کی غلطیاں درست کرنا بھی میں نے مناسب نہیں سمجھا !
پہلی بات – جب بھی کوئی قول صرف قول کی حد تک رھتا ھے تو آپ اس کے کئ مطلب لے سکتے ھیں ،، مگر جب وہ قول نبی کا عمل بن جاتا ھے تو اپنی منتہا کو پا لیتا ھے اب اس کی تصریف نہیں ھو سکتی کہ اس کو اِدھر سے اُدھر کھینچتے پھرو ،، اللہ کا شکر ھے کہ اس نے صرف کتاب ھی بھیج کر بس نہیں کر دیا بلکہ ساتھ معلم بھی بھیجا جو ان مغالطوں کا سدِ باب اپنے عمل سے کرتا ھے ،نبئ کریم صحابہ کو قرآن بغدادی قاعدے کی طرح الف زبر آ ،، اور بے زبر با کی طرح تعلیم نہیں کرتے تھے ،، یعلمھم الکتاب کا مطلب ھی یہ ھے کہ الفاظ کو اپنے عمل سے فائینل شکل دیتے تھے ، پرکٹیکل سے سمجھاتے اور سکھاتے تھے ،جیسا کہ فرمایا کہ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ھو ،، اس رکوع کا مطلب حضور فائینل کر کے گئے ھیں اور بتا کر گئے ھیں کہ رکوع نماز میں کیا ھوتا ھے ،، اور اس کی تسبیح کیا ھے ، سجدہ کیا ھے اور اس کی تسبیح کیا ھے ، اس لئے اب ھمیں ادھر سے ادھر دوڑایا نہیں جا سکتا اور نہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا سکتا ھے ،، دنیا ھر کتاب بغیر معلم پڑھی تو جا سکتی ھے مگر آپ جب تک اسے کسی معلم سے پڑھ کر سند نہ لیں کوئی آپ کو گھر کا پڑھا ھوا بھی نہیں کہتا ،،
دوسری بات – جب بھی نماز کے کسی رکن کا نام لے کر نماز کا حکم دیا جاتا ھے تو پھر وھی حکم دیا جاتا ھے ، یاد کریں جب بھی آپ کو امی کہتی تھیں کہ اٹھ کر دو سجدے دے لو ،، تو کیا ساتھ پھر نماز کا حکم بھی دیتی تھیں اور کیا آپ ان سجدوں کے حکم سے سمجھ نہیں جاتے تھے کہ نماز کا حکم دیا جا رھا ھے ؟ پھر جب امی فرماتی تھیں کہ اٹھ کر نماز پڑھو تو ساتھ یہ کہتی تھیں کہ رکوع کرو ؟ کیا آپ اسی نماز کے حکم میں رکوع کو شامل سمجھتے تھے یا نہیں ؟ پھر جب امی آپ کو کہتی تھیں کہ اٹھ کر چار ٹکریں مار لو تو کیا آپ سمجھ نہیں جاتے تھے کہ حکم تو نماز کا ھے مگر میری نماز کی ادائیگی پر امی کو اعتراض ھے کہ میں اطمینان سے سجدہ کرنے کی بجائے جھٹ پٹ نماز ” مغروں ” اتارنے والی بات کرتا ھوں ،، جہاں نماز کے ساتھ رکوع کی تاکید دوبارہ کی گئ ھے وھاں کوئی ایسا شخص زیر بحث ھے جو نماز میں ٹکریں تو مار لیتا ھے مگر اس کا دل نہیں جھکتا ،، اور جھک جاؤ جھک جانے والوں کے ساتھ، یعنی تکبر اور نفاق چھوڑ کر اندر کا رکوع بھی کرو ،، صحابہ کی طرح مراد ھے ،، یعنی عملی زندگی میں بھی جھکے رھو ،،
ھو مبارک تمہیں سر جھکانا ،پھر بھی اتنی گزارش کروں گا !
دل جھکانا بھی لازم ھے زاھد، سر جھکانا ھی سجدہ نہیں ھے !