قرآنِ کریم پر ملحدین کے تیس اعتراضات ـ

تضاد نمبرـ1. مریم سے ایک فرشتے نے کلام کیا(سورہ مریم آیات 16-19) مریم سے کئ فرشتوں نے کلام کیا(آل عمران آیت 42 اور 45)

الجواب ـ ۱
سورہ مریم میں مریم علیہ السلام سے جبرائیل امین نے کلام کیا بچہ القاء کرتے وقت ـ

سورہ آل عمران میں عیسی علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش پر بہت سارے فرشتوں نے مبارکباد دی اور ان کو شکر کرنے کا طریقہ بتایا ـ
یہ دو مواقع کے واقعات ہیں اس میں تضاد کیا ہے ؟

تضاد نمبرـ2۔قوم ثمود کو ہولناک آواز کے عزاب سے تباہ کیا گیا(ھود آیت 67) قوم ثمود کو زلزلے کے عزاب سے تباہ کیا گیا(الاعراف آیت 78)قوم ثمود کو بجلی کے عزاب سے تباہ گیا(الزاریات آیت 44)

الجواب ـ۲
یہ ایک طوفانِ باد باراں ہے جس میں بجلیاں بھی ہیں ، کڑک بھی ہے اور ہر چیز ڈول بھی رہی ہے ،، اللہ پاک نے کہیں ان میں سے ایک کا ذکر کیا ہے کہیں دو کا ، زلزلے کی بجائے رجفہ یعنی کانپنے کا ذکر کیا گیا ، ایک طوفان خوفناک آوازوں ، گرجتے بادلوں اور کڑکتی بجلیوں کا مجموعہ ہوتا ھے ،، اس میں بھی کوئی تضاد نہیں ـ
یہ ایسے ہے کہ ایک ماں اپنے فوت شدہ بچے کے بارے میں بتائے کہ اس کو بخار تھا ، پھر کسی کہے کہ اس کی ناک سے خون آیا تھا اور مر گیا ،، اور پھر کسی کو کہے کہ وہ تھرتھر کانپ رہا تھا ،،ایک ڈاکٹر تو ان باتوں سے تعین کر لے گا کہ بچہ برین ہیمبرج کا شکار ہوا ہے ، مگر ایک ملحد کہے گا کہ بچے کی ماں جھوٹ بول رہی ہے اس کے بیان میں تضاد ہے کبھی کچھ کہتی ھے اور کبھی کچھ کہتی ہے ـ

تضاد نمبر 3۔ زمین بنائے جانے کا زکر پہلے آیا(البقرہ آیت 29) آسمان بنائے جانے کا زکر پہلے آیا (النازعات آیات 27-30)

الجواب ـ ۳
کسی واقعے کے بیان کرتے وقت اس کی ترتیب کو موقعے کی مناسبت سے آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے ، سورہ البقرہ میں چونکہ زمین کا ذکر پہلے کیا گیا ہے کہ زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا اور آسمان کو چھت بنایا تو پہلے زمینی نعمتوں کا ذکر فرمایا جو روزمرہ ہمارے استعمال میں رہتی ہیں ،، پھر آسمان کا تذکرہ فرمایا ،، جیسے کہ سورہ الغاشیہ میں پہلے اونٹ کی پیدائش کا احسان جتایا پھر آسمان کا ذکر بعد میں کیا ، کیونکہ بدو کی نظر سب سے پہلے اپنے اونٹ کی گردن پر پڑتی ہے ، [ أَ فَلا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ «17» وَ إِلَى السَّماءِ كَيْفَ رُفِعَتْ «18)) کیا یہ دیکھتے نہیں کہ اونٹ کو کیسا پیدا کیا گیا ہے اور آسمان کو کیسا بلند کیا گیا ہے ـ
سورہ النازعات میں انسان کی تخلیق اور آسمان کی تخلیق کا تقابل فرمایا تو کہ کیا تم زیادہ مشکل تخلیق ہو یا آسمان ،،؟ أانتم اشد خلقاً ام السماء؟

جاری ہے

سورس

ملحدین کی اعتراضات میں بھی خیانتیں ـ

اعتراض نمبر 4۔ استطاعت رکھتے ہوئے بھی روزہ چھوڑا جا سکتا ہے فدیہ دے کر(البقرہ آیت 184) استطاعت رکھتے ہوئے روزہ نہی چھوڑا جا سکتا چھوڑے روزے بعد میں ہر حال میں رکھنے ہونگے(البقرہ آیت 185)

جواب ـ
یہ حکم میں تدریج ہے تضاد نہیں ،، اگر کوئی مریض ہے تو روزہ نہ رکھے بعد میں تعداد پوری کر لے یا فدیہ دے دے[ کیونکہ بعض مرض دائمی ہوتے ہیں ،، فدیہ دینے کے باوجود بھی اگرکوئی افاقہ محسوس کرے اور اپنی مرضی سے روزہ بھی رکھ لے تو یہ اس کے لئے خیر ہے ، اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ـ
[ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
مزے کی بات یہ ہے کہ دوسری آیت میں رمضان اور قرآن کی عظمت بیان کر کے وہی حکم دوبارہ دیا ہے کہ تم میں سے جو بھی رمضان کے ماہ کو پالے وہ روزہ رکھے اور اگر تم مریض ہو تو تعداد دوسرے دنوں میں پوری کر لو ـ باقی فدیئے کی تفصیل چونکہ پہلی آیت میں بیان کی جا چکی ہے چنانچہ اس کو یہاں نہیں دہرایا ـ

(184) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (185)

اعتراض نمبر 5۔ زمین اور آسمان چھ دن میں بنائے گئے(الاعراف آیت 54)
زمین اور آسمان آٹھ دن میں بنائے گئے(فصلت 9-12)

الجواب ـ

زمین اور آسمان چھ مراحل میں بنائے گئے اور ایک مرحلہ کتنے لاکھوں کروڑوں سال پر محیط ہے یہ رب ہی جانتا ہے ،، اس سے ہمارا دن تو مراد نہیں ہو سکتا جو سورج کے چڑھنے سے شروع ہوتا ھے اور ڈوبنے پر ختم ہو جاتا ھے جب سورج ہی نہیں تھا تو دن کیسے ؟
سورہ فصلت میں کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ زمین اور آسمان ۸ دن میں بنائے گئے ہیں ،

وہاں ان تفصیل بیان کی گئ ہے ان مراحل کی ـ

[ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (9) وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ (10)
کہہ دیجئے کہ کیا تم انکار کرتے ہو اس ہستی کا جس نے زمین بنائی دو دن میں اور اس کے اوپر سے لنگر رکھے [ پہاڑوں کی شکل میں تا کہ ڈول نہ جائے] اور اس میں برکت رکھی اور قیامت تک اس کی ضرورتوں کا اندازہ لگا کر بندوبست کیا چار دن میں،یہ پہلے دو دن ملا کر ٹوٹل چار دن ہوئے ، کیونکہ زمین کی تخلیق میں پہاڑ بھی شامل ہیں جن کی تخلیق کا ذکر اگلی آیت میں کیا ، گویا زمین کی تخلیق کا معاملہ پچھلی آیت میں ختم نہیں ہوا تھا بلکہ زمین کی روٹیشن میں بینلس رکھنے کے لئے مخصوص جگہوں پر وزن رکھے گئے جیسے ویل بیلنسنگ والے مخصوص جگہوں پر پانچ یا دس یا پندرہ گرام والے وزن چپکا کر ویل کو بیلنس رکھتے ہیں ، سب تسلیم کرتے ہیں کہ پہاڑ زمین کی پہلی شکل کے بعد اس کی حرکت کے نتیجے میں زمین کے سکڑنے سے ابھرے ہیں ۔ پھر اس انگارے کی طرح دھکتی زمین پر کئ سو سال مسلسل بارش برستی رہی اور پہاڑ بننے سے جو گڑھے پیدا کیئے گئے ان میں پانی بھر کر سمندر بنائے گئے ـ یہ سارے کام چار مراحل میں ہوئے ،، اس کے بعد آسمان جو دھوئیں کی شکل میں تھا ،اس کی طرف توجہ فرمائی گئ اور زمین و آسمان کو بیک وقت حکم دیا گیا کہ چلو بھی اپنے اپنے کام پر لگ جاؤ چاہے مرضی سے یا مجبوری سے ، انہوں نے کہا کہ جناب ہم اپنی مرضی سے حکم بجا لاتے ہیں تب سورج کی روشنی زمین پر پڑی ، سماء ہر وہ چیز ہے جو آپ کے سر سے اونچی ہے ،، السماء ما فوق الرأس ،، جو آپ کے سر کے اوپر ہے وہ آپ کا سماء ہے ،، گھر کی چھت بھی ، بارش والے بادل بھی سماء ہیں اور اس کے بعد جو بھی گلیکسیز اور ان میں موجود اربوں کھربوں سیارے اور ستارے ہیں وہ ہمارا سماء ہی ہے ،،
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (11)
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (12) پس اس دھوئیں سے سات سماوات بنا ڈالے دو دن میں اور ہر آسمان میں اس کے لاء آف نیچر رکھے گئے اور جو آسمان زمین کی طرف نظر آتا ھے اس کو ہم نے ستاروں سے مزین کر دیا جو چراغ بھی ہیں اور حفاظت کا سامان بھی ،،

اعتراض نمبر 6۔ اور جو تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو ان بیویوں کو چار مہینے دس دن تک اپنے نفس کو روکنا چاہیے (البقرہ آیت 234)جو لوگ مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو بیویوں کو سال بھر کے لیے گھروں سے نہی نکلنا چاھیے(الہیںہ آیت 240)

جواب ـ
جو عورت بیوہ ہو جائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے ، جس دوران وہ نکاح نہیں کر سکتی ـ

دوسری آیت میں بتایا گیا ہے کہ اگر وہ عورت دوسری شادی نہیں کرتی تو اس کا سال بھر کا خرچہ شوہر کی وراثت میں سے دیا جائے ،، اس کے بعد اس کا حق اس گھر سے ختم ہو جائے گا ،، اس کے بعد وراثت کا قانون بن گیا اور عورت کو اپنے شوہر کی وراثت میں مستقل حصہ مل گیا ،، اس میں تضاد کہاں ہے ؟

اعتراض نمبر7۔ بدکار عورت کو گھر میں بند کر دو موت تک(النساء آیت 15) بدکار عورت کو سو کوڑے مارو(النور آیت 2)

الجواب ـ
پہلی آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی بدکاری کا ارتکاب کرے تو ان پر اپنے میں سے چار گواہ قائم کرو ،، اگر گواہی سے جرم ثابت ہو جائے تو [ تم ان کو غیرت کے نام پر قتل مت کرو جیسا کہ پرانی جاھلیت اور موجودہ جاھلیتس کے زمانے میں لوگ کرتے ہیں ] بلکہ ان کو گھروں میں مقید رکھو باہر مت جانے دو یہانتک کہ اللہ پاک ان کے لئے کوئی راہ نکالے یا ان کو طبعی موت آ جائے ،، اللہ راہ نکالے سے مراد لازم وہ رستہ ہے جس میں موت نہیں ہے ، یا راہ نکالے یا موت آ جائے ،، تو گویا اللہ جو راہ نکالے گا اس میں موت نہیں ہوگی ،، اور سورہ نور میں اللہ پاک نے ان کو ۱۰۰ کوڑے کی سزا دے دی ،، راہ نکال دی ـ اب اس میں تضاد کیا ہے ؟ اللہ نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا ،،
[ وَاللاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [مِنْ نِسَائِكُمْ ]فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلا (15)

[ الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مانۃ جلدۃ (النور : 2)
یہاں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں قسم کی عورتوں کو گھر میں قید کرنے کا حکم اور دونوں کے لئے وعدہ کیا گیا کہ اللہ راہ نکالے گا ،،، اگر رسول اللہ ﷺ پر چھوڑنا تھا تو پھر اسی وقت رسول اللہ ﷺ فیصلہ کر دیتے ،، لہذا سو درے کی سزا شادی شدہ او غیر شادی شدہ دونوں قسم کے عورتوں کے لئے یکساں ہے ، یہ ممکن نہیں کہ اللہ پاک اپنا کوئی شرعی حکم سمجھانا چاہے اور سمجھانے سے عاجز ہو جائے ـ تورات میں سنگسار کی سزا دونوں قسم کی عورتوں کے لئے تھی ،، اور آج بھی موجود ہے ،، قرآن میں اللہ پاک نے تخفیف فرمائی ہے تو دونوں قسم کی عورتوں کے لئے فرمائی ہے ، کسی روایت کے زور پر اللہ کے حکم میں تبدیلی کرنا پورے قانون کو کالعدم کر دیتا ھے ، جیسے پاسپورٹ ویزے اور سرٹیفیکیٹ سمیت ہر سرکاری لیٹر پر لکھا ہوتا ہے کہ ان مندرجات میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ یا تبدیلی سے پورا وثیقہ کالعدم [ Nul&Void] ھو جائے گا ـ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دی گئ سنگسار کی سزاؤں کا سورس سابقہ شریعت تھی ـ

اعتراض نمبر8۔ بیشک نبی اچھے اخلاق والے ہیں(القلم آیت 4)

اور نبی نے تیوری چڑھائ اور منہ پھیر لیا جب ایک نابینا آیا(عبس آیات 1-2)
نبی کو نہی چاھیے کہ قیدی بنائے جب تک زمین میں خوب خونریزی نہ کر لے(انفال آیت 67)
الجواب ـ بےشک نبئ کریم ﷺ عظیم اخلاق والے تھے ، اور اللہ پاک یہ بات قسم کھا کر فرما رہا ہے ، نبئ کریم ﷺ جذبہ خیر خواہی میں بعض دفعہ اپنی جان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال لیا کرتے تھے جس کی وجہ سے اللہ پاک ﷺ شفقت کے جذبے سے نبئ کریم ﷺ کو سختی سے منع کرتے تھے کہ آپ ﷺ کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ؟ اس کے لئے اللہ پاک نے مختلف اسلوب استعمال فرمائے ہیں ، [فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (6ـ الکہف ) شاید آپ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے کے دکھ سے اپنی جان گنوا دیں گے ؟)وہی شفقت سورہ عبس میں ہے ، اللہ کے رسول ﷺ قریش مکہ کے ایک وفد سے ایمان کے بارے میں بات چیت فرما رہے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سمجھ رہے ہیں کہ آپ وفد کو اپنے دلائل سے کسی حد تک قائل کر چکے ہیں کہ اچانک حضرت ابن ام مکتوم نابینا صحابی حاضر ہوتے ہیں اور کوئی مسئلہ پوچھتے ہیں ،، سارا ماحول اسکوائر ون پہ چلا جاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ ان کی طرف ناگواری سے دیکھتے ہیں ، یہ دیکھنا بھی اللہ کے دین کی خاطر ہی ہے ؛ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ من ابغض للہ و احب للہ، واعطی للہ و منع للہ فقد استکمل الایمان ،، جس نے اللہ کے لئے غصہ کیا ، اور اللہ کے لئے محبت کی اور اللہ کے لئے دیا اور اللہ کے لئے روکا ، اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ۔ بالکل یہی صورتحال یہاں ہے ،، اللہ پاک رسول اللہ ﷺ پر غصہ نہیں بلکہ قریش کے لوگوں کو رسوا کرنے کے آپ سے مخاطب ہے گویا اس وفد کو مخاطب بھی نہیں کرنا چاہتا ـ ایک والد اپنے بچے کو دیکھتا ہے کہ وہ رات ۳ بجے بیٹھا پڑھ رہا ہے، اس کی آنکھیں نیند سے سرخ ہو رہی ہیں ، اس حالت میں باپ اس کی کتابیں اٹھا کر پھینک دیتا ھے اور کہتا ہے کہ اپنی حالت دیکھو ، آنکھیں دیکھو ، آگ لگے ایسی پڑھائی کو ، اور ایک تھپڑ لگا کر کہتا ہے ، چل کے سو جاؤ ،، فیل بھی ہو جاؤ گے تو کوئی بات نہیں ،ڈگریوں میں رزق نہیں رکھا ھوا ، اب کوئی بتائے کہ اس باپ کے اس سارے رویئے میں شفقت ہے یا غصہ ؟ اس سورت میں اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺ کی بد اخلاقی ڈسکس نہیں کی ،، بلکہ قریش کے وفد کے ساتھ اس حد تک انوالو ہو جانے کو موضوع بنایا ہے ، بعد والی آیات دیکھ لیں کہ کس طرح اس وفد کی تواضع کی گئ ہے ـ
سورہ انفال کی أیت میں جنگی اصول بیان کیا گیا ہے کہ جب تک دشمن کی قوت فیصلہ کن طور پر توڑ نہ دی جائے تب تک قیدی بنانا درست پالیسی نہیں ، یہاں بھی رسول اللہ ﷺ کے شفقت بھرے رویئے پر تعریض ہے کہ آپ نے کفار کا قتلِ عام کرنے کی بجائے شفقت سے کام لے کر ان کی جانیں بچانے کے جذبے سے کام لیا ،، اور اس کا نتیجہ غزوہ احد میں سامنے آ گیا ـ

اعتراض نمبر 9۔ دین میں کوئ جبر نہیں(البقرہ آیت 256)
ان سے لڑو جو سچا دین قبول نہی کرتے(توبہ آیت 29)

الجواب ـ
دین میں بالکل کوئی جبر نہیں ـ
اگلی آیت جس کو بطور تضاد پیش کیا گیا ہے وہ کسی اور معاملے میں ہے "

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّمَا ٱلۡمُشۡرِكُونَ نَجَسٞ فَلَا يَقۡرَبُواْ ٱلۡمَسۡجِدَ ٱلۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِهِمۡ هَٰذَاۚ وَإِنۡ خِفۡتُمۡ عَيۡلَةٗ فَسَوۡفَ يُغۡنِيكُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦٓ إِن شَآءَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٞ
28. O you who believe (in Allâh’s Oneness and in His Messenger Muhammad صلى الله عليه وسلم)! Verily, the Mushrikûn (polytheists, pagans, idolaters, disbelievers in the Oneness of Allâh, and in the Message of Muhammad صلى الله عليه وسلم) are Najasun (impure).[1] So let them not come near Al-Masjidal-Harâm (at Makkah) after this year; and if you fear poverty, Allâh will enrich you if He wills, out of His Bounty. Surely, Allâh is All-Knowing, All-Wise
یہ مکے کے ان مشرکین کا معاملہ ہے جن کی طرف رسول مبعوث کیئے گئے ، دین میں تو کوئی جبر نہیں مگر ایسی قوم کے ایمان قبول نہ کرنے کی صورت میں اس قوم کو اللہ کا عذاب تہس نہس کر دیتا تھا ، ان میں سے سوائے ایمان والوں کے کوئی نہیں بچتا تھا ،، مگر رسول اللہ ﷺ کے معاملے میں چونکہ آپ کو ریاست اور قوت فراہم کر دی گئ تھی ، لہذا فرمایا کہ اب کافروں پر عذاب تمہارے ہاتھوں آئے گا ـ
[قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (14) وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ ۗ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (15) توبہ
ان سے قتال کرو، اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، اور تمہارے ہاتھوں مروا کر رسوا کرے گا[ اللہ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے دشمن کے ہاتھوں مرنے میں ذلت و رسوائی ہوتی ہے ] اور اللہ ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور ایمان والوں کے سینوں کو شفا بخشے گا اور ان کے دلوں کے غصے کو اس طرح ختم کرے گا ـ
اس کے لئے مشرکین کو چار ماہ کی مہلت دی گئ ،ایمان یا موت کے سوا کوئی تیسرا آپشن نہیں دیا گیا ، اھل کتاب سے جزیہ لینے کی اجازت دے دی گئ ـ

اعتراض نمبر 10۔ سو مومن ہزار پر بھاری ہیں(الانفال آیت 65)
سو مومن دو سو پر بھاری ہیں(الانفال آیت 66)

الجواب ،،
[الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (66)
یہ دو کیفیات بیان کی گئ ہیں ، ان میں کیا تضاد ہے ،، جب مومن ۳۱۳ کی حالت میں تھے تو تعداد کم اور جذبہ زیادہ تھا ،، جب تعداد زیادہ ہوئی تو تعداد زیادہ ہو گئ مگر جذبہ کم ہو گیا ،، جب خالص مومنین میں صحراء کے بدو شامل ہوئے تو وہ دین کو سمجھے تو تھے نہیں ،ایک لہر کے تحت اسلام میں داخل ہو گئے تھے ،، اسی کا بیان ہے ان دونوں آیتوں میں ،، دس کفار کے مقابلے میں ایک مومن کبھی نہ بھاگے اور دو کفار کے مقابلے میں ایک مومن کبھی نہ بھاگے کہنے سے پہلے بتا دیا کہ علم اللہ ان فیکم ضؑفاً ،، اللہ نے جان لیا ہے کہ تم میں کمزور پیدا ہو گئ ہے لہذا اب دو کے مقابلے میں ایک مومن ہو تو اس کو بھاگنا نہیں چاہئے ، اللہ اس کو فتح دے گا ،،

اعتراض نمبر11۔ بدر میں ایک ہزار فرشتوں نے مدد کی(انفال آیت 9)
بدر میں تین ہزار فرشتوں نے مدد کی(آل عمران آیت 124)

بدر میں ھزار ہی فرشتے تھے ، بدر کو سورہ انفال میں ڈی بریف کیا گیا ہے ـ
سورہ آل عمران میں غزوہ احد کو ڈی بریف کیا گیا ہے ، تین ھزار اور پانچ ھزار کا ذکر غزوہ احد کے بارے میں ہے ،، اس لئے تضاد والی کوئی بات نہیں ـ

سورس

اعتراض نمبر12۔ شیطان گمراہ کرنے والا ہے(القصص آیت 15)
شیطان نہی بلکہ انسان خود کو گمراہ کرتا ہے(ق آیت 27)
اللہ جسکو چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسکو چاہے گمراہ کرتا ہے(الاسرا آیت 97 )
جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئ ہدایت نہی(النسا آیت 88)

الجواب ـ
شیطان گناہ کی ترغیب دینے والا ہے ۔ اس لحاظ سے گمراہ کرتا ہے ، گناہ کے رستے کو آسان بتاتا ہے ، بڑے گناہ کو بھی معمولی بنا کر دکھاتا ہے ، گناہ کو مزین کر کے دکھاتا ہے ، لہذا گمراہی کی دعوت دیتا ہے ـ
گناہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار انسان کے پاس ہے لہذا آخرکار جرم کا کھُرا اسی پر آ کر ملتا ہے ، چنانچہ سورہ ق کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہاں شیطان عذر پیش کر رہا ہے کہ اس نے خود گناہ کیا ہے میں نے نہیں کرایا ، یہی بات سورہ ابراھیم کی آیت ۲۲ میں بھی شیطان کے آخری بیان میں بھی پیش کی گئ ہے کہ وہ کہے گا میں نے صرف دعوتِ گناہ دی تھی اور تم نے میری دعوت بخوشی قبول کی میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا ، میں کبھی بھی تمہارے گناہوں میں شریک نہیں رہا ـ
یضل من یشاء و یھدی من یشاء کا مطلب ہے ھدایت اور گمراہی کا کوئی الگ الگ خدا نہیں ، بلکہ اللہ نے ہی انسان کو خیر یا شر کرنے کا اختیار دیا ہے ، جو گمراہ ہونا چاہتا ھے اللہ اس کو گمراہ ہونے دیتا ھے اور جو ھدایت پانا چاہتا ہے اللہ اس کو ہدایت دیتا ہے ، اب چونکہ یہ اصول بنانے والا اللہ پاک ہے ، یہ اختیار دینے والا اللہ ہے تو انسان کو ترغیب دی گئ ہے کہ وہ اللہ سے ھدایت طلب کرتا رہے ـ
جس طرح کوئی کہتا ھے کہ حکومت نے فلاں کو لٹکا دیا ہے ،، اب حکومت نہ تو کسی مرد کا نام ہے نہ عورت کا ،، حکومت ایک نظام ہے چونکہ اس نظام نے لٹکایا ہے تو حکومت کی طرف منسوب کیا جاتا ھے ،جیسے اللہ پاک کہیں فرماتا ہے کہ اللہ یتوفی الانفس ،، اللہ وفات دیتا ھے جانوں کو ،، کہیں فرماتا ہے قل یتوفاکم ملک الموت الذی وکل بکم ،، کہہ دو تمہیں وفات دیتا ہے موت کا فرشتہ جو ذمہ دار بنایا گیا ہے تمہاری موت کا ،، اب فرشتہ چونکہ اللہ کے حکم سے وفات دیتا ھے تو وفات اللہ کی طرف منسوب ہو گئ اور چونکہ فرشتہ ذریعہ بنتا ہے تو ملک الموت کی طرف بھی منسوب ہو گئ یہ تضادات نہیں تفصیلات ہیں ،، جیسے کوئی ماں کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے ،پھر یہ کہے کہ یہ ہمارا بیٹا ہے یعنی میاں بیوی دونوں کا تو اس میں کوئی تضاد نہیں تفصیل ہے ـ
اللہ جس کو گمراہ قرار دے دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا ،، یہ ایسا ہی جملہ ہے جیسے کہا جائے کہ جس کو فلاں ڈاکٹر لاعلاج کر دے اس کو کوئی ڈاکٹر نہیں بچا سکتا ،، ھدایت اور گمراہی کے فیصلے اللہ پاک ہی کرے گا ، ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ و ھو اعلم بمن اتقی ،، تیرا رب ہی بخوبی جانتا ہے کہ کون ہے جو راہ سے بھٹک گیا ہے اور کون ہے جو تقوے پہ قائم ہے ـ

اعتراض نمبر13۔ بیشک اللہ سب گناہ بخش دے گا(الزمر آیت 53)

[اللہ کی طرف سے کہہ دیجئے اے میرے وہ بندو جو اپنی جان پر زیادتی کر بیٹھے ہو اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو جاؤ ، بےشک اللہ سارے گناہ معاف کر دے ،حقیقت میں بس وہی ایک بخشنے والا دائمی رحم کرنے والا ہے ]

اللہ شرک نہی بخشے گا(نساء آیت 116)

[اللہ [ قیامت کے دن] یہ تو ہر گز نہیں بخشے گا جو اس کے ساتھ شرک کیا گیا ، باقی جو بھی گناہ ہونگے جتنے بھی ہونگے ،جس کے بھی ہونگے سب معاف فرما دے گا ـ

الجواب ـ

پہلی آیت میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ زندگی میں توبہ کرنے والے کا شرک و کفر بدکاری اور دیگر گناہ سب معاف کردیئے جاتے ہیں ،، ]

جبکہ دوسری آیت میں بغیر توبہ مرنے والے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ پاک رحم فرما کر سارے گناہ معاف کر سکتا ہے مگر شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں کرے گا ـ یہ آیت اھل ایمان کے لئے بہت بڑی امید ہے کیونکہ موت اکثر و بیشتر اچانک آ پکڑتی ہے اور انسان کو توبہ نصیب نہیں ہوتی، اگر کوئی توحید والا ہے اور اس نےاپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کر رکھا تو اللہ پاک اس کے سارے گناہ معاف کرنے کے امکان کی امید دلا رہا ہے اور شرک کا وبال واضح کر رہا ہے ـ

اعتراض نمبر 14۔ کوئ رب کی باتوں کو بدل نہیں سکتا (الانعام آیت 115)

ہم جو کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کے برابر لاتے ہیں(البقرہ آیت 106)

الجواب
لا تبدیل لکلمات اللہ سے پہلے جو آیات چلی آ رہی ہیں اور بعد میں جو بیان جاری ھے ، اس سیاق و سباق میں قرآن کی آیات کی تنسیخ کا بیان نہیں بلکہ رسولوں کے مقابلے میں آنے والوں کی تباہی و بربادی کا جو اصول اللہ پاک نے بنا رکھا ھے اس کا بیان ہے کہ وہ کبھی بدل نہیں سکتا ـ بالکل اسی بات کو اسی پسِ منظر میں لا تجد لسنت اللہ تبدیلا ،، اور ولا تجد لسنۃ اللہ تحویلا کہہ کر بیان کیا گیا ہے ، جہاں بھی آپ کو یہ آیت ملے گی کسی نہ کسی قوم پر گرفت کا بیان ہو گا ـ
جبکہ سورہ البقرہ کی آیت میں پچھلی کتاب کے کسی حکم کو نئی کتاب میں منسوخ کرنے کے بارے میں بیان ہے ، موسی علیہ السلام کی شریعت کی بہت ساری چیزیں عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں منسوخ کرائی گئیں اور سابقہ کتابوں کے بہت سارے احکامات قرآن میں منسوخ کر دیئے گئے ،، سابقہ وحی بھی اللہ کی تھی اور نئی وحی بھی اللہ کی تھی ، اللہ کو اپنے احکامات منسوخ کرنے اور نئے جاری کرنے سے کون روک سکتا ھے ،،

اعتراض نمبر 15۔ ابلیس فرشتہ تھا(البقرہ آیت 34)
ابلیس جن تھا(الکہف آیت 50)

الجواب ـ
اللہ پاک نے سورہ البقرہ میں کہیں بھی نہیں فرمایا کہ ابلیس فرشتہ تھا ،،

جبکہ سورہ الکہف میں ابلیس کے بارے میں فرمایا گیا کہ چونکہ وہ جنوں میں سے تھا اور جنوں کو بھی ارادہ اور اختیار دیا گیا ہے لہذا اس نے اس اختیار کو مس یوز کیا اور فسق کے لئے استعمال کیا ،، کان من الجن ففسق عن امرِ ربہ ،، چونکہ جنوں میں سے تھا لہذا اپنے رب کے حکم سے نکل بھاگا ـ جبکہ فرشتوں کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں تھا لہذا ان سب نے سجدہ کیا ـ
اب سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ اللہ پاک نے حکم تو فرشتوں کو دیا تھا سجدہ کرنے کا پھر ابلیس کے سجدہ نہ کر کے کافر ہونے کا ذکر کیا گیا تو ان لوگوں نے وہاں سے اخذ کر لیا کہ ابلیس فرشتہ تھا مگر جب اللہ نے دوسری جگہ خود واضح فرما دیا کہ وہ جنوں میں سے تھا تو یہ استنباط باطل ہو گیا ،، اللہ پاک نے ۹۹ فیصد احکامات مردوں کو مخاطب کر کے دیئے ہیں جبکہ وہ عورتوں کے لئے بھی ہیں ، اسی طرح اللہ پاک نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دینے کا ذکر کیا کیونکہ وہ کثرت میں تھے جبکہ ابلیس اکیلا تھا وہ بغیر نام لئے اس حکم میں شامل تھا اور ابلیس کو بھی معلوم تھا کہ وہ اس حکم میں شامل ہے ، ورنہ جب اللہ پاک نے اس سے پوچھا کہ آدم کو سجدہ کیوں نہیں کیا تو وہ ملحدین جتنی عقل بھی نہیں رکھتا کہ پلٹ کر کہہ دیتا کہ خدایا تُو نے تو مجھے سجدے حکم دیا ہی نہیں ، وہ تو فرشتوں کو دیا تھا ؟

اعتراض نمبر 16۔ انسان پانی سے بنایا گیا(الفرقان آیت 54)

انسان مٹی سے بنایا گیا(الانعام آیت 2)

الجواب ـ

صرف انسان ہی نہیں ہر زندہ چیز پانی سے ہی پیدا کی گئ ہے ،، قرآن نے خود اس کی تفصیل بیان کر دی ہے کہ مٹی سے کس طرح پیدا کیا ، اس مٹی میں پانی مکس کر کے اس کو چھوڑ دیا یہانتک کہ وہ لیسدار اور بدبودار ہو گئ، پھر سوکھ کر کھنکھنانے لگی تو اسی سے انسان کی ابتدا کی ،، پھر وہ مٹی اور پانی جن جن مراحل سے گزرے مٹی کا نام تبدیل ہوتا چلا گیا ،، من تراب ،، ابھی پانی مکس نہیں ہوا ، من طین ،، اب پانی مل کر گارا بن گیا ، وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ اب اس گارے میں چپچپاہٹ اور بدبو پیدا ہو گئ ہے ، گل سڑ کر بیکٹیریا پیدا ہو گیا ہے ،،
یہ ایسے ہے جیسے کوئی عورت کہے کہ میں نے اس گائے سے چالیس کلو گھی بنایا ہے ، کبھی کہے کہ میں نے اس گائے کے دودھ سے گھی نکالا ہے ،، اور کبھی کہے کہ میں نے اس گائے کے مکھن سے گھی نکالا ہے اور ملحد اس عورت کا بیان لے کر اعلان کرتا پھرے کہ دیکھو اس کی باتوں میں کتنا تضاد ہے کبھی کیا کہتی ہے کبھی کیا کہتی ہے ـ

سورس

اعتراض نمبر17۔ شراب شیطانی کام ہے(المائدہ آیت 90)
شراب کا زکر اللہ کی نعمتوں کے ساتھ کیا گیا ہے(نحل آیت 67)

الجواب

شراب بالکل شیطانی کام ہے جس کے ذریعے ابلیس انسانوں میں بغض و عداوت ڈالتا ہے ، انسان معاشرے میں رہتے ہوئے بہت ساری باتیں برداشت کر لیتا ھے مگر شراب پی کر جب اس کی گرفت اپنے دماغ اور شعور پر کمزور پڑتی ہے تو وہ وہ بکواس کرتا ھے کہ سننے والوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں اور اس کی حقیقت کھُل کر سامنے آ جاتی ہے ،جس کی وجہ سے بغض و عداوت پروان چڑھتے ہیں ـ
سورہ النحل میں بھی شراب کو برا ہی کہا گیا ہے ، اللہ کی نعمتوں میں شمار نہیں کیا گیا ، مگر یہ قرآن عقلمندوں کے لئے ہے ، دو ٹانگوں پر چلنے والے ڈھور ڈنگروں کی سمجھ میں نہیں آتا ـ اولئک کالانعام بل ھم اضل ـ
پہلے سورہ النحل کی آیت دیکھ لیجئے تا کہ ملحدین کا جھوٹ آپ کی سمجھ میں آ سکے ـ[ وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (67)
اور کھجور اور انگور بھی اللہ پاک نے تمہارے لئے پیدا کیئے ہیں جس میں سے تم نشہ آور مشروب بناتے ہو اور اچھا رزق بھی لیتے ہو ،، بےشک اس میں نشانی ہے عقلمندوں کے لئے ـ
قرآن حکیم کا یہ اسلوب ہے کہ وہ ایک صفت کا تو ذکر کرتا ہے مگر دوسری کو عقلمند پر چھوڑ دیتا ھے کہ وہ خود سے اس کے مخالف کو سمجھ لے ـ جیسے یہاں فرمایا کہ تم نشہ آور مشروب بناتے ہو اور ’’ اچھا رزق بھی لیتے ہو‘‘ اب اسے اچھے رزق کی ضد کیا ہے ؟ برا رزق ،، گویا نشہ آور مشروب برا رزق ہے ،، چونکہ اعتراض نشہ آور پر تھا لہذا اس کو پہلے ذکر کیا ،، اور بقیہ تمام استعمالات کو رزقاً حسناً کہہ کر نشہ آور کی مذمت کر دی ـ یعنی تم اللہ کی نعمت کا کفران کرتے ہو اس کا برا استعمال کر کے ،، جیسے آنکھیں بدنظری کے لئے نہیں دیں مگر یعلم خائنۃ الاعین ،، جب تم نظر میں خیانت سے کام لیتے ہو تو وہ اس کو جانتا ہے کہ تم مس یوز کر رہے ہو اس نعمت کا ،، اب جو عقلمند یہ کہے کہ اللہ پاک نے آنکھوں کی نعمت کے ساتھ خیانت کا بھی چونکہ ذکر کیا ہے لہذا خیانت کا شمار نعمتوں میں کر دیا ہے ، تو ایسے عقلمند کو کوئی کیا کہہ سکتا ھے ـ سورہ جمعہ میں اللہ پاک نے بعض مومنوں کی جانب سے نبئ کریم ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے چھوڑ کر تجارت اور لہو کی طرف جانے کا ذکر فرمایا ہے ،، مگر دیکھیں اسلوب کس طرح تبدیل ہوتا ھے ـ
[ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (11)
اور جب انہوں نے دیکھا تجارتی قافلے کو اورلہو( اس قافلے کے آنے کی اطلاع دینے والے بینڈ باجے ) کوسنا تو اس کی طرف لپکے اور آپ ﷺ کو کھڑا چھوڑ گئے ، کہہ دیجئے جو اللہ کے پاس ہے وہ لہو سے بہتر ہے اور تجارت سے بھی ـ اللہ بہترین رزق دینے والا ہے [ یعنی تمہارے کالکولیٹڈ سورسز سے ہٹ کر ]

دیکھئے چونکہ صحابہ کے خطبہ چھوڑ کر جانے کی وجہ تجارت تھی لہذا اس کا ذکر پہلے کیا ،، اور لہو جو ایک ضمنی بات تھی کیونکہ وہ قافلے کی آمد کی اطلاع کے لئے تھا تو اس کا ذکر بعد میں کیا ،،مگر جب مذمت کرنے کی باری آئی تو لھو کو پہلے ذکر کیا اور تجارت کا ذکر بعد میں رکھ کر دیگر ذرائع سے رزق دینے کا بھی عندیہ دے دیا ، اس کی بہت ساری مثالیں قرآن میں موجود ہیں مگر تحریر طویل ہو جائے گی ـ
ایک آسان مثال سے سمجھ لیجئے کہ ایک والد اپنے بیٹے کو کہتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ تم جابر کے ساتھ گھومتے پھرتے ہو جبکہ کچھ اچھے لڑکوں سے بھی تمہاری دوستی ہے ،، اس میں جابر کی صفت دوسرے لڑکوں کو نیک کہہ کر واضح کی گئ ہے کہ وہ برا لڑکا ہے ، جس پر باپ کو اعتراض ہے جبکہ اچھے لڑکوں کی دوستی کو بطور تحسین ذکر کر رہا ہے

اعتراض نمبر 18۔ اگر بیویوں میں انصاف کر سکتے ہو تو دو تین چار نکاح کرو(النساء آیت 3)
تم ہرگز بیویوں میں انصاف نہیں کر سکتے(النساء آیت 129)

الجواب ـ

اللہ پاک نے النساء آیت تین میں مادی و مالی معاملات میں عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ، جبکہ سورہ النساء ۱۲۹ میں خلع کے موضوع پر دل کے معاملے میں فرمایا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ تم چاہتے ہوئے بھی محبت میں عدل نہیں کر سکتے ،، کسی سے محبت دل کا معاملہ ہوتا ھے انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی ، کوئی زیادہ خوبصورت ہوتا ہے کوئی کم ، کوئی اچھے طریقے سے بات کرنے کا فن جانتی ھے اور کوئی سیدھی ڈانگ مار دیتی ہے ،، اس لئے کوئی دل میں کھب جاتی ھے اور کسی سے طبیعت میل نہیں کھاتی ، اس صورت میں پورا حکم یہ دیا ھے کہ یہ محبت جو تمہارے بس میں نہیں ایک فطری عمل ہے یہ تمہیں کسی بےانصافی پر آمادہ نہ کرے کہ تم ایک کو جنسی لحاظ سے معلق کر کے رکھ دو کہ وہ نہ شوہر والی رہے اور نہ آزاد ھو سکے کہ کوئی دوسرا دیکھ لے ،، محبت کم و بیش ہو سکتی ھے مگر معاملات کو عدل سے چلانا ہو گا ـ فتذروھا کالمعلقہ ،،

عترض نمبر 19۔ روز آخرت والے دن اللہ کچھ لوگوں سے کلام نہی کرے گا(ال عمران آیت 77)
سب سے سوال کیا جائے گا(الحجر آیت 92)

الجواب

اللہ پاک کا کسی کو براہ راست مخاطب کرنا ایک اعزاز ہے جس سے کچھ لوگوں کو بطور سزا محروم رکھا جائے گا ،، لیکن محاسبہ تو سب کا ہو گا ،، کلام سے انکار کیا ہے ،، مگر اللہ پاک کا نیب اپنا کام کر رہا ہو گا ، جن سے عمران خان بات کرنا پسند نہیں کرتا کیا ان سے سوال جواب نہیں ہو ریے ؟ پیار اور محبت کے مکالمے کا انکار کیا جا رہا ہے ،، اسی طرح ان سے اس قدر نفرت کا اظھار کیا جا رہا ہے کہ صرف کلام نہیں بلکہ اللہ پاک ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں فرمائے گا ، ولا ینظر الیھم ،، یہ دیکھنا پیار کا دیکھنا ہے ، یہ دیکھنا وہ دیکھنا ہے کہ جس کو اللہ پاک اس نظر سے دیکھ لے گا وہ جھنم میں نہیں جائے گا کیونکہ اللہ پاک اس نظر سے ان کو گناھوں سے پاک کر دے گا ، جبکہ کفار کو نہ اس نظر سے دیکھے گا نہ پاک کرے گا ، ولا ینظر الیھم ولا یزکیھم ،، اس پیار کی نظر سے دیکھنے کا انکار ہے ، اسی پیار سے بات کرنے والے تکلم کا انکار ہے ،، اور یہ کفار کو رسوا کرنے کے لئے ہیں ،،

اعتراض نمبر20۔ مصیبت اللہ کی طرف سے آتی ہے (تغابن آیت 11)
مصیبت خود انسان کیوجہ سے آتی ہے (شوری آیت 30)

الجواب ـ

کچھ مصائب بطور آزمائش آتے ہیں وہ اللہ پاک کی طرف منسوب ہیں ،، جبکہ کچھ مصائب انسان کے اپنے فیصلوں کے مرھونِ منت ہوتے ہیں ،، یا وہ اس کے گناھوں کی کمائی ہوتی ہے یا پھر فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے انسان کے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے ،جیسے کلورو،فلورو گیسز کی وجہ سے اوزون کی Layer میں سوراخ ہو جانا ، اس سوراخ کی وجہ سے درجہ حرارت میں حدت پیدا ہونا جو برف کے پگھلنے اور سیلاب آنے کی صورت میں ظاھر ہوتا ھے ،، اسی کا حوالہ اللہ پاک نے اس آیت میں دیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس ،، لوگوں کے ہاتھوں خشکی اور سمندر میں فساد بپا ہو گیا ہے تا کہ ان کو اُن کے کیئے کا مزہ چکھائے ـ

سورس

اعتراض نمبر21۔ قران متقین کے لیے ہدایت ہے (البقرہ آیت 2)
قران سب کے لیے ہدایت ہے(الانعام آیت 91)

الجواب ـ

قرآن متقین[ وہ لوگ جو اللہ کی حدیں توڑنے سے بچنا چاہتے ہیں ] کے لئے گائیڈ لائن ہے ، جس میں اللہ کی حدیں واضح کی گئ ہیں تا کہ ایسے مخلص لوگ قیامت کے دن یہ گلہ نہ کر سکیں کہ ہمارے لئے حلال اور حرام کو واضح نہیں کیا گیا ـ اس لئے آگے ان کی تفصیل بیان کی گئ ہے کہ وہ متقین کن صفات کے حامل ہیں ،، اور آیت ان لوگوں کو ڈسکس کر رہی ہے جو ایمان لا چکے ہیں اور اب احکامات کے منتظر ہیں ـ
سورہ الانعام کی آیت ۹۱ میں تورات کی بات کی گئ ہے ، قرآن کی بات ہی نہیں کی گئ ،لیکن ہرآسمانی کتاب میں کچھ گائیڈ لائنز ان لوگوں کے لئے ہوتے ہیں جو ابھی ایمان نہیں لائے ، آسمانی کتاب ان کے لئے عقائد کو بیان کرتی ہے جو تمام نوع انسانیت کے لئے ہوتے ہیں جن کو ھدی للناس کہتے ہیں ،، یعنی سب انسانوں کے لئے ھدایات ،، اس کے بعد پھر اگلے مرحلے میں ان لوگوں کے لئے احکامات ہوتے ہیں جو ایمان لے آئے ہیں اور اب اپنے فرائض جاننا چاہتے ہیں کہ ان کو کرنا کیا ہے ؟، قرآنِ حکیم میں 6236 آیات ہیں جن میں سے چار ،ساڑھے چار سو آیات ان لوگوں کے لئے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں اور ان کو احکامات دیئے گئے ہیں ،، باقی کی سب آیات میں اللہ پاک کی توحید ، اور معاد آخرت کے بارے میں دلائل ہیں ، جو تمام انسانیت کے لئے ہیں ،،
یہ ایسے ہی ہے جیسے تینوں مسلح افواج میں بھرتی کے فارم ٹائپنگ سنٹرز سے ملتے ہیں اور نیٹ پر ان کی ویب سائیٹس پر سے بھی ڈاؤن لوڈ کیئے جا سکتے ہیں ، ان فارمز پر بھرتی کے قواعد و ضوابط طریقہ کار ، کوالیفیکیشن کا معیار وغیرہ درج ہوتا ھے ،، یہ ان تمام لوگوں کے لئے ہدایات نامہ ہے جو فوج میں بھرتی ہونا چاہتے ہیں ، یہ ھدی للناس ہے ،، پھر جب کچھ لوگ شرائط پوری کر کے بھرتی ہو جاتے ہیں یعنی مومن ہو جاتے ہیں اور فوج کے احکامات پر چلنے کے پابند ہو جاتے ہیں تو اب جو ھدایات ان کو دی جاتی ہیں وہ صرف اور صرف فوجی کے لئے ہیں باہر ریڑھی والے پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا ،، یہی وہ ھدی للمتقین ہیں ، غیر مسلم کا نماز روزہ زکوہ حج وغیرہ کی ھدایات وتفصیلات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،یہ ھدی للناس ہیں ـ لہذا تضاد کا دعوی باطل ہے ۔

اعتراض نمبر22۔ جادوگر موسی پر ایمان نہ لائے (یونس آیت 83)
جادوگر موسی پر ایمان لے آئے(الاعراف آیات 117-120)

الجواب ـ
سورہ یونس میں موسی علیہ السلام کی تیس سالہ دعوت کے بعد فائنل راؤنڈ کی بات چل رہی ھے کہ موسی علیہ السلام پر خود بنی اسرائیل کا نوجوان طبقہ ہی ایمان لایا ،جبکہ اکثریت جو فرعون کے بھٹوں پر کام کرنے والے کمی کمین بن کر رہ گئے تھے فرعون سے سے بھی خوفزدہ تھے اور فرعون کی طرف سے بنی اسرائیلی میں سے بنائے گئے سپروائرز یا ایجنٹوں سے بھی خوفزدہ تھے وہ ایمان نہ لائے مگر موسی علیہ السلام کو حکم یہی تھا کہ کافر ہوں یا مسلم سب بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال کر لانا ہے ، یہی کافر اسرائیلی ہی تھے جو قدم قدم پر موسی علیہ السلام کے لئے مسائل پیدا کرتے رہے ، دریا پار کرتے ہی کہا کہ یا موسی اجعل لنا الھاً کما لھم آلھہ ، اے موسی ہمیں بھی ایک مادی الہ بنا دو جیسا کہ جنگل میں مراقب لوگ اپنا اپنا الہ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں ،، یہی وہ کافر اسرائیلی تھے جنہوں نے کہا کہ اے موسی ہم تم پر تب تک ایمان نہ لائیں گے جبتک اللہ کو سامنے نہ دکھا دے ،، یہی اسرائیلی ہی تھے جنہوں نے موسی علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد بچھڑے کو خدا بنا لیا تھا، الغرض یہاں بنی اسرائیل ڈسکس ہو رہے ہیں ۔
جبکہ سورہ اعراف میں تیس سال پہلے کا واقعہ بیان ہو رہا ہے جب موسی علیہ السلام مصر میں تازہ تازہ وارد ہوئے تو فرعون نے آپ کے عصا اور یدِ بیضاء کو دیکھ کر آپ کو جادوگر قرار دیا اور اپنے جادوگر مقابلے کے لئے بلوائے اور جادوگروں کے مسلمان ہو جانے کے بعد ان کو اذیتناک طریقے سے شھید کر دیا تھا ،، اور یہ سیگمنٹ ختم ہو گیا ،، اب تیس سال بعد زندہ لوگوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ کون کون ایمان لایا ،، نیز بنی اسرائیل میں سے کون کون ایمان لایا ، جادوگر قوم موسی میں سے نہیں تھے ، قومِ فرعون میں سے تھے ، نیز باپ کی زندگی میں بیٹا مر جائے تو وہ کالعدم ہو جاتا ھے اور وراثت میں اس کا شمار نہیں ہوتا نہ بیٹوں میں شمار ہوتا ھے ،یہی کہا جاتا ھے کہ فلاں کے تین بیٹے ہیں ، گویا چوتھے کا تذکرہ ہی غائب ہو جاتا ھے ،،

اعتراض نمبر23۔ ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے(اعراف آیت 27)
لوگوں نے خود شیطانوں کو اپنا دوست بنایا ہے (الاعراف آیت 30)

الجواب ـ
آیت نمبر ۲۷ میں اللہ پاک اس واقعے کا ذکر فرما رہا ہے جب شیطان نے آدم علیہ السلام کو بہکایا ،، اور یہ اصولی بات بیان فرما رہا ھے کہ ہم نے ازل سے شیاطین کو بےایمانوں کا دوست ٹھہرا رکھا ہے ، یہ کبھی بھی اھل ایمان کے دوست نہیں ہو سکتے ـ آگے چل کر آیت ۳۰ میں بیان فرمایا کہ [فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ (30)
رسول کے مخاطب لوگوں میں سے کچھ نے ھدایت کی راہ پا لی ، جبکہ دوسرے گروہ نے اپنے اوپر گمراہی کو لازم قرار دے لیا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اللہ کی بجائے شیاطین کو اپنا خیر خواہ سمجھا اور گمراہی کو ہدایت سمجھ کر اختیار کر لیا ـ

اعتراض نمبر 24۔ ایمان والو رسول سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دے لیا کرو (مجادلہ آیت 12)
رسول سے سرگوشی سے پہلے صدقہ نہ کرو اللہ معاف کرنے والا ہے (المجادلہ آیت 13)

الجواب ـ
تعجب ہے کہ اللہ پاک ایک حکم دے رہا ہے ،، دوسری آیت میں اس حکم میں تخفیف دے رہا ہے جو کہ اللہ پاک کا اختیار ہے ، اس میں تضاد کہاں سے آ گیا ؟
تفصیل اس کی یہ ہے کہ منافق اپنی اہمیت جتانے کے لئے مجلس میں اچانک کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ سے کان میں کوئی بات کر دیتے بےشک وہ کتنی ہی غیر اھم ہو ، ان کا یہ فعل صحابہؓ کو تو چبھتا ہی تھا مجلس میں بیٹھا کوئی نوارد ان کو رسول اللہ ﷺ کا مقرب سمجھ لیتا ،، اس پر صحابہؓ بہت جزبز ہوتے ،، انفاق منافقین کا ویک پؤائنٹ تھا ، اللہ پاک نے شرط لگا دی کہ آئندہ رسول ﷺ سے سرگوشی کرنے والا پہلے کچھ صدقہ کرے اللہ کی راہ میں پھر سرگوشی کرے ،، منافقین کی ماں مر گئ اور انہوں نے سرگوشی کرنا چھوڑ دیا ،، جب وہ ایکسپوز ہو گئے تو اللہ پاک نے مخلص مسلمانوں کے لئے وہ پابندی ہٹا دی کیونکہ وہ تو روز کسی نہ کسی مد میں انفاق فی سبیل اللہ کر ہی رہے تھے ان پر مزید بوجھ ڈالنا مقصود نہیں تھا ،، اس دوران صرف حضرت علیؓ نے سرگوشی کی اور اس سے پہلے صدقہ دیا ـ

اعتراض نمبر 25۔ آسمان اور زمین علیحدہ تھے (فصلت آیت 11)
آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے (الانبیا آیت 30)

الجواب ـ

ان ملحدین کے ترجمے میں بھی دغا بازی ہوتی ہے ،، سورہ حم السجدہ یعنی فصلت میں بھی وہی بات کہی گئ ہے جو سورہ انبیاء میں فرمائی گئ ہے ـ

[ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (11)
پھر اللہ پاک سماء کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں ہی دھواں تھا اور اس کو حکم دیا کہ آسمان اور زمین بن جاؤ اپنی مرضی سے یا جبر سے ،، ان دونوں نے کہا کہ ہم بن رہے ہیں برضا و رغبت ،، یعنی دھوئیں کو کائنات میں تبدیل کر دیا ،، جن میں سب ایک دوسرے کے اوپر نیچے تھے ـ
یہی بات سورہ انبیاء میں ارشاد فرمائی کہ زمین اور اس کے ارد گرد اوپر نیچے جو کچھ بھی ہے یہ سب پہلے ایک ہی تھا ، پھر ہم نے ان کو الگ الگ شکلیں اور حجم بخشے ـ اصل مسئلہ لوگوں کو سماء کے بارے میں لاحق ہوتا ہے ، سماء ہر وہ چیز ہے جو آپ کے سر کے اوپر ہے ، گھر کی چھت آپ جا سماء ہے ،، کسی پر چھت گرے تو گویا آسمان گر گیا ،، بادل سماء ہیں ، بادل سے بارش ہو تو گویا سماء سے بارش ہوئی ہے ،، بادل سے بجلی گرے تو گویا آسمان سے بجلی گری ہے ،، جو سیارے ، ستارے بھی ہیں کچھ ہمارے سماء ہیں اور کچھ کے ہم سماء ہیں ـ

اعتراض نمبر26۔ اللہ کے سوا کوئ مدد گار دوست نہیں (العنکبوت آیت 22)
فرشتے دنیا میں بھی تمہارے دوست ہیں آخرت میں بھی (فصلت آیت 31)۔

الجواب ـ
کفار سے خطاب ـ

وَإِنْ تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿۱۸﴾ الی

اور اگر تم رسولﷺ کو جھٹلا دو تو تم سے پہلے بھی بہت ساری امتیں جھٹلا چکی ہیں ، اور رسول ﷺ کے ذمے سوائے واضح تبلیغ کے اور کچھ نہیں، آیت ۲۲ میں انہی جھٹلانے والوں کو کہا گیا ہے کہ رسول کو جھٹلانے کے نتیجے میں تم پر جو کچھ وارد ہو گا اس کو نہ زمین میں تم روک پاؤ گے اور نہ آسمان سے کوئی تمہاری مدد کو آئے گا [ جیسے اھل ایمان کے لئے فرشتے نازل ہوتے ہیں ]

وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ﴿۲۲﴾
نہ تم اللہ کو عاجز کر سکتے ہو زمین میں اور نہ آسمان میں ، اور نہ ہی اللہ کے علاوہ تمہارا کوئی خیر خواہ اور مددگار ہو گا ـ
یہ بات کفار کو کہی جا رہی ہے ـ

جبکہ سورہ فصلت یا حم السجدہ میں مومنوں سے خطاب ہے ،، دو الگ الگ کیٹیگریز سے الگ الگ خطاب ہے اس میں تضاد کہاں ہے ؟

اھل ایمان سے خطاب ـ

[ : إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلا تَخَافُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (30)
بےشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر [ موت کے وقت ] فرشتے نازل ہو کر کلام کرتے ہیں کہ بالکل مت ڈرو اور نہ غمگین ہو بلکہ خوشخبری لو ہم سے اس جنت کی جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا تھا ـ

سورس

اعتراض نمبر27۔ بنی اسرائیل بچھڑے کو پوجنے پر نادم ہوئے (الاعراف 149)
نادم نہی ہوئے بلکہ اسی پر جمے رہے (طہ آیت 91)

الجواب ـ

[ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الاعراف ـ 149)
جب ان کو ندامت کا احساس ہوا اور انہوں نے دیکھا کہ وہ بھٹک گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں معاف نہ کیا تو ہم یقیناً خسارہ پانے والوں میں سے ہونگے ـ

[وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي (90)
[ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى (91ـ طہ )
تحقیق کہا ان سے ھارون نے پہلے سے کہ اے قوم تم آزمائش میں ڈال دیئے گئے ہوں اس بچھڑے کی وجہ سے ، بےشک تمہارا رب رحمان ہے پس( سامری کی بجائے) میری پیروی کرواور میری بات مانو ـ ۹۰
کہنے لگے ہم تو اس بچھڑے کے استھان پر معتکف ہو کر[ ڈٹ کر ] بیٹھے ہیں جب تک کہ موسی نہ آ جائے ـ
بنی اسرائیل کا یہ مکالمہ موسی علیہ السلام کے واپس آنے سے پہلے کا ہے ،، جو کہ کلام میں واضح ہے [ ولقد قال لھم ھارونُ ’’ من قبل ‘‘ ] جبکہ ان کی ندامت اور توبہ موسی علیہ السلام کی آمد اور بچھڑے کو جلا دینے کے بعد کی بات ہے ، اس میں تضاد کہاں ہے ؟

اعتراض نمبر28۔ روز آخرت کے دن برے لوگوں کو اعمال نامہ پیٹھ پیچھے دیا جائے گا (الانشقاق آیت 10)
بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا (الحاقة آیت 25)
برے لوگوں کو نامہ اعمال واقعی ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا جیسا کہ سورہ الحاقۃ اور مزید کئ جگہ پر بیان کیا گیا ہے ،، اور سورہ انشقاق میں مزید تفصیل بتائی گئ ہے کہ وہ بائیاں ہاتھ ان کے پیٹھ کے پیچھے بندھا ہوا گا ،، وہاں دیا جائے گا ،، اس میں بھی کوئی تضاد نہیں ـ

اعتراض نمبر29۔ عیسی وفات پا گئے(آل عمران آیت 55)
عیسی کی موت مشتبہ بنا دی گئ(نساء آیت 157)

حضرت عیسی علیہ السلام سورہ آل عمران کی آیت ۵۵ کے مطابق واقعی وفات پا گئے ہیں ،، مگر انہوں نے وہاں وفات نہیں پائی جہاں یہود ان کو مارنا چاہتے تھے ،، جس کو انہوں نے عیسی سمجھ کر سولی چڑھایا اس کا معاملہ ان پر مشتبہ کر دیا گیا ـ یعنی کسی اور کو لٹکا کر سمجھتے ہیں کہ انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ ، ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کر دیا ،، جبکہ عیسی علیہ السلام نے بچپن میں ہی اعلان فرما دیا تھا کہ میں پیدا ہونے والے دن بھی سلامتی میں تھا، اور جس دن مرونگا تب بھی سلامتی کے ساتھ مرونگا ، اور جس دن اٹھوں گا اس دن بھی سلامتی کے ساتھ اٹھوں گا ، والسلام علی یوم ولدتُ و یوم اموتُ و یوم ابعث حیاً ،، تین ہی مراحل ہیں ،، پیدا ہونا ، مرنا ، اور پھر اٹھ کھڑا ہونا ،، اور کوئی ایکسٹرا مرحلہ نہیں ہے عیسی علیہ السلام کی زندگی میں ،،

اعتراض نمبر 30۔ انسان کے لیے دو زندگیاں اور تین بار موت ہے (البقرہ آیت 28)
دو بار موت اور دو بار زندگی ہے(غافر آیت 11)

الجواب ـ

سورہ بقرہ میں تین بار موت کا ذکرکہاں ہے ؟

[ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا( پہلی موت یعنی عدم کی حالت) فَأَحْيَاكُمْ ۖ ( پہلی زندگی) ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ( دوسری موت،پیدائش کے بعد والی ) ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ( دوسری زندگی ) ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (28)
کیسے کفر کر لیتے ہو تم لوگ اللہ کا ، جبکہ اس نے تمہیں مردے تھے تو اس نے تمہیں زندگی دی ،پھر تمہیں مار دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر اس کے سامنے پیش کیئے جاؤ گے ـ
سورہ غافر میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے دو زندگیوں اور دو موتوں والی مگر وہ اللہ پاک نہیں فرما رہا بلکہ مجرم اعتراف کر رہے ہیں ـ
[قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ (11)
اے اللہ تو نے ہمیں دو دفعہ مارا اور دو دفعہ زندہ کیا پس ہم نے اپنے گناھوں کا اعتراف کر لیا تو کیا اب اس جھنم سے نکلنے کی کوئی سبیل ہے ؟
تضاد کہاں ہے ؟

الحمد للہ تمت بالخیر
قاری محمد حنیف ڈار عفی اللہ عنہ و عافاہ ـ

سورس

 

x (x)
x (x)
x (x)