غیر عرب دنیا اور عربی قرآن

الحمد للہ وحدہ !
والصلوۃُ والسلامُ علی من لا نبیَ بعدہ !
اما بعد ! تھنکرز فورم اور نظامی صاحب کے یہاں ایک نئ تہلکہ خیز کتاب کی خبریں مسلسل دی جا رھی تھیں اور ساتھ لوگوں کی التجائیں بھی چل رھی تھیں کہ خدا را اس کا لنک ضرور دیا جائے ،، میں نظامی صاحب کے یہاں کسی اور کام سے گیا تھا مگر وھاں لنک دیکھا تو ڈاؤن لؤڈ کر لیا ، اور اسے ویسی ھی دلچسپی سے پڑھا جیسے کسی زمانے میں سب رنگ ڈائجسٹ کے سلسلے "اقابلا ” ، اور ” انکا ” پڑھا کرتے تھے ،،، یعنی کھانے پینے کی فکر سے آزاد ھو کر ،،،،،،،،،،،،،،
کتاب جنرل نالج کی حد تک ٹھیک ھے ، کہ بہت ساری چیزیں پڑھنے والے کو ایک جگہ مل جاتی ھیں ،۔ نیز مختلف اکابر کے نقطہ ھائے نظر ایک جگہ مل جاتے ھیں ! مگر کتاب کے لکھنے والا خود بھی کنفیوز ھے کہ وہ اس ساری محنت سے نتیجہ کیا نکالنا چاھتا ھے ،، کتاب کا پہلا حصہ جو کہ کتاب کا چوتھا حصہ بنتا ھے ،، وہ کسی اور موضوع پر ھے ،، اور وھی اس کتاب میں زھر کی پوٹلی ھے ،،،،،،، اور یہی میرا موضوع ھے ،، باقی سب جنرل نالج ھے ،،
پہلا اعتراض صفحہ 28 پہ کچھ اس طرح سامنے آتا ھے !
” اس لئے کہا جائے گا کہ قرآن حکیم کا ترجمہ ھر گز قرآن کا قائم مقام نہیں بن سکتا ، اور نہ ھی اسے قرآن کہا جا سکتا ھے ،لفظِ قرآن کا اطلاق صرف متنِ قرآن پر ھی کیا جا سکتا ھے – اور جب متن کے ترجمے پر لفظ قرآن کا اطلاق ھی نہیں ھو گا تو پھر اس سے استدلال بھی نہیں کیا جا سکتا ،، کیا فرماتے ھیں علمائے دین بیچ اس مسئلے کے ؟ ”
الجواب !
صرف متن کے قرآن ھونے پر پوری امت میں سے کسی کو اختلاف نہیں ، اور ترجمے کے غیر قرآن ھونے پر بھی سب کا اتفاق ھے ، اب بات یہ رہ گئ ھے کہ ترجمے سے بھی استدلال ھو کر اتمامِ حجت ھوتا ھے یا نہیں ؟
آئین پاکستان انگلش میں ھے ، اور اس کے تراجم بھی دستیاب ھیں ، عدالت اپنے حکم میں اردو ترجمے کو پڑھ پڑھ سناتی ھے کر اور وکیل اور گواہ اسی کو سن سن کر سر ھلاتے ھیں اور اردو میں ھی جوابی دلائل پیش کرتے ھیں ،، اردو میں اتمامِ حجت کے بعد کیس کا فیصلہ سنا دیا جاتا ھے ،، استدلال اور اتمام کا تعلق سمجھ کے ساتھ ھے ،زبان کے ساتھ نہیں ،، مثلاً آپ امارات میں ایک جگہ دیکھتے ھیں کہ لکھا ھے ،،
ممنوع الدخول !
No Entry
داخلہ منع ھے !
کوئی پاکستانی اس جگہ سے داخل ھو جاتا ھے تو پولیس والا اس سے پوچھے گا کس ملک کے ھو ؟
جی پاکستان سے ھوں ،،،، اب وہ استدلال عربی سے کرے گا کیونکہ وہ اس ملک کی سرکاری زبان ھے یا اردو سے کرے گا ؟ وہ ” داخلہ منع ھے ” والی جگہ ھاتھ رکھ کر پوچھے گا کہ یہ پڑھا تھا ؟ اور چالان کر دے گا ، انگریز کو ” No Entry ” اور عربی کو ” ممنوع الدخول” دکھا کر اتمامِ حجت کرے گا اور چالان کر دے گا ،،،،،،،
اس لئے یہ دلیل ھی غلط ھے کہ چونکہ قرآن عربی میں ھے لہذا غیر عربوں کے لئے حجت یا دلیل نہیں بن سکتا ،،،،،،،، قرآن کا حکم جس زبان میں ترجمہ کیا جائے گا ،اس زبان والے کے لئے حجت بن جائے گا ، جس طرح دنیا کے باقی قوانین بنتے ھیں !
صفحہ 32 !
قرآن کی فصاحت و بلاغت سے عام عرب تک واقف نہیں تھے تو غیر عرب کیسے ھو سکتے ھیں ؟ لہذا قرآن کی فصاحت و بلاغت سے محروم غیر عرب کے لئے قرآن کوئی حجت نہیں ،،
الجواب ! فصاحت و بلاغت کا واقع الامر پہ کوئی فرق نہیں پڑتا ،،، یہ صرف ذوق کی حد تک ھے ،، اگر عرب سیب کو فصاحت سے تفاح کہہ کر مانگتا ھے اور دکاندار اسے پکڑا دیتا ھے اور پاکستانی ،اسے عجمی لہجے میں تفاہ کہہ کر مانگتا ھے اور دکاندار اسے دے دیتا ھے تو ،،، عرب کی فصاحت سے سیب کے ذائقے پہ کیا اثر پڑا ؟ جھوٹ کو فصاحت کے ساتھ "کذب "کہا جائے یا عمجی لہجے میں "کزب” کہہ لیا جائے ،اس سے جھوٹ کی شنأت پر کیا اثر پڑا ؟ الغرض فصاحت ذوقی چیز ھے جس سے حقائق تبدیل نہیں ھوتے ،،
آئین کی اپنی ایک مخصوص زبان ھوتی ھے ،جس سے آئینی امور کے ماھرین ھی کما حقہ واقف ھوتے ھیں ،، اس لئے ھر جماعت آئینی ترمیم کے وقت اپنے اپنے آئینی ماھر لے کر بیٹھتی ھے ،، کیا عوام الناس کا آئین کی زبان سے نابلد ھونا انہیں آئین کی پابندی سے آزاد کر دیتا ھے ؟ خود اراکینِ اسمبلی میں سے کتنے انگلش جانتے ھیں اور انگلش جاننے والوں میں سے کتنے آئین شق وار پڑھ کر ان کو ایک دوسرے کے ساتھ تقابل دینے کے قابل ھیں ؟ قرآنی فصاحت و بلاغت سے عدم واقفیت اوامر و نواھی سے انسان کو آزاد نہیں کر دیتی ، یہ وہ بات ھے جسے امرود بیچنے والا بھی سمجھتا ھے ،،
اگلا اعتراض صفحہ 37 پہ کچھ اس طرح سے ھے !
” قرآن سوائے بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کے کسی اور کو مخاطب نہیں کرتا – شاہ ولی اللہ دھلوی نے اسے محسوس کر لیا اور اپنے ایجاد کردہ الفاظ سے اسے غیر عربوں کے لئے بھی جواز بنا دیا ” خدائے تعالی خواست کہ بدستِ آنحضرتﷺ عرب را پاک کند و بدست عرب سائر اقلیم را ” یعنی اللہ تعالی نے پسند کیا کہ آںحضرت ﷺ کے ذریعے عربوں کو پاک کرے اور پھر عربوں کے ذریعے باقی دنیا کی اصلاح کرے ” مگر شاہ والی اللہ نے یہاں یہ نہیں بتایا کہ آپ نے یہ نتیجہ قرآنِ حکیم کی کس آیت سے اخذ کیا ھے کہ خدائے تعالی نے یہ پسند کیا کہ عربوں سے زیادہ مہذب باقی دنیا کی اصلاح کا کام اس زمانے کے غیر مھذب عربوں سے لیا جائے !
الجواب !
سورہ الجمعہ کی جس آیت میں اللہ پاک نے نبی کریمﷺ کے فرائضِ منصبی گنوائے ھیں ، اسی سے متصل اگلی آیت میں ھی ساری دنیا کو شامل کر لیا ھے ،،،، اور اتفاق یہ ھے کہ اس آیت کا حوالہ کتاب میں جگہ جگہ دیا گیا ھے مگر اگلی آیت کو بالکل ھی نظر انداز کر دیا ھے،، ورنہ انہیں پتہ چل جاتا کہ شاہ ولی اللہ صرف اس آیت کا ترجمہ و تشریح کر رھے تھے ، کوئی بات اپنی طرف سے اپنے الفاظ سے ایجاد نہیں کر رھے تھے !
” هو الذي بعث في الأميين رسولا منهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين ( الجمعہ 2 ) وھی اللہ ھے جس نے امیین میں رسول بھیجا ان ھی میں سے پڑھتا ھے ان پر آیات اس کی اور پاک کرتا ھے ان کو اور سکھاتا ھے ان کو کتاب و حکمت ،اگرچہ وہ تھے اس سے پہلے صریح گمراھی میں تھے !
اس کے فوراً بعد اگلی آیت میں فرمایا ” و آخرین منھم لما یلحقوا بھم و ھو العزیز الحکیم ،، اور دوسرے بھی ان میں سے جو ابھی ان سے ملحق نہیں ھیں ،، اور و ہ زبردست حکمت والا ھے ،، الجمعہ 3 ،،،،، گویا امیین اور بعد میں اس امت کا حصہ بننے والے یکساں طور پر اس ھدایت کے پانے والے ھونگے ،، یہ اللہ کا فضل ھے جسے چاھتا ھے عطا فرماتا ھے ،، اور اللہ بڑے فضل والا ھے !
اگلا سوال یہ بنتا ھے کہ مھذب کس کو کہتے ھیں ؟ کیا بڑی بڑی فوجیں رکھ لینا مھذب ھونے کی دلیل ھے ؟ دنیا کی ھر برائی اپنی بدترین صورت میں روم و ایران میں موجود تھی ،، عقیدے سے لے کر روزہ مرہ زندگی کے معاملات تک ،، ظلم کی تہہ در تہہ گھٹائیں تھیں جو ان نام نہاد مھذب قوموں پہ چھائی ھوئی تھیں ،، آج بھی مھذب کہلانے والے یورپ میں مرد کی مرد سے شادی باقاعدہ چرچ میں ھوتی ھے ، اور ان کی پارلیمنٹ کے ارکان تک اس اعزاز سے محروم نہیں ھیں ،، یہ وہ حرکت ھے جو کبھی تاریخ میں نکاح کے نام پر کسی قوم نے نہیں کی ،، یورپ تو اس بات کا اقرار کرتا ھے کہ اسے جدید علم کی روشنی اسپین کی مسلم دنیا سے ملی ھے ،مگر شاید مصنف اس بات کو تسلیم کرنے پہ تیار نہیں ھے ،، جو برائی اس وقت عربوں میں 2 پیسے تھی اور مھذب قوموں میں 100 پیسے تھی ! جبر ، ظلم ، شیروں سے قیدیوں کو پھڑوانا اور عوام کو حقوق سے محروم رکھنا ، اس کے علاوہ عربوں کے چند بتوں کے مقابلے میں وہ کروڑوں خداؤں کو ماننے والے تھے ،،، اسلام عقیدے کو سن سے زیادہ اھمیت دیتا ھے ، وہ کہتا ھے مومن نجس نہیں ھوتا اور مشرک پاک نہیں ھوتا ،،
مادی ترقی کی امنگ اللہ نے انسان کے اندر رکھی ھے لہذا باھر سے اسے ترغیب دینے کی ضرورت نہیں گھونسلہ چڑیا بھی بغیر تبلیغ کے بنا لیتی ھے ،، اسلام عقیدے کی درستگی کے لئے آیا ھے اور وحدتِ آدم کی بنیاد پر مساوات کی عمارت کو تعمیر کرتا ھے ،، جبکہ مصنف قرآن ان تمام آیات کو کہ جن میں ” یا ایھا الناس ” کہہ کر خطاب کیا گیا ھے اسے بنی اسماعیل سے متعلق سمجھتا ھے اور یہ سوائے تعصب کے اور کچھ نہیں ،،
اللہ پاک جب فرماتا ھے اے نوعِ انسانیت ھم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ھے ،اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لئے بانٹا ھے کہ تم تعارف کرا سکو،، عزت و کرامت والا تو رب کے نزدیک وھی ھے جو زیادہ پرھیزگار ھے ،، رب کا قرب قومیت کی بنیاد پہ نہیں ،، کردار کی بنیاد پہ نصیب ھوتا ھے ،، اس آیت کا مصداق صرف بنی اسماعیل کو سمجھنا ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں،، کیا صرف بنی اسماعیل ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا ھوئے ھیں ، باقی لوگ آم کے پیڑ کے ساتھ لگے ھیں ”
قرآن نے دعوت تو ” اے نوعِ انسانیت کہہ کر دی ھے ، مگر احکامات ” اے ایمان والو ” کہہ کر دیئے ھیں ،،مصنف اے ایمان والو سے مراد بھی بنی اسماعیل ھی لیتا ھے ،، جب بھی کوئی خطاب کرتا ھے تو اس کے اولین مخاطب سامنے کے لوگ ھی ھوتے ھیں ،مگر اس اولیت سے دوسروں کے استفادے کی نفی نہیں ھوتی ،،جنہیں مصنف الناس سمجھ رھا ھے وہ اناسۤ ھیں ،، ﺟَوَابَ ﻗَوْﻣِﮫِ إِﻻﱠ أَن ﻗَﺎﻟُواْ أَﺧْرِﺟُوھُم ﻣﱢن ﻗَرْﯾَﺗِﮐُمْ إِﻧﱠﮭُمْ أُﻧَﺎسٌ ﯾَﺗَطَﮭﱠرُونَ. 82. یہ اناس ھے جسے ملحدین ” الناس ” کے معنوں میں لے رھے ھیں ،،مثلاً جب ھم ملحدین کے بارے میں بات کر کے کہیں کہ ان لوگوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دو یہ ضدی لوگ ھیں ،، تو یہ اناسۤ کے معنوں میں لوگ کہلائیں گے ، ” الناس کے معنوں میں نہیں ،،
قل اعوذ برب الناس ، مالک الناس ، الہ الناس ،،، میں نوع انسانیت کا رب ، نوعِ انسانیت کا مالک اور نوعِ انسانیت کا الہ ھے ، صرف بنی اسماعیل کا رب، مالک اور الہ نہیں !!