عقائد کا چھانگا مانگا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم !
الحمد للہ رب العالمین ،والصلوۃ والسلام علی اشرف الانیباء والمرسلین وعلی آلہ و صحبہ اجمعین و من والاہ الی یوم الدین !
اللہ پاک نے انسانیت کی ھدایت کے لئے مختلف مواقع پہ رسل اور انبیاء ارسال فرمائے جنہوں نے اپنے قول و فعل سے اللہ پاک کی راہ دکھائی اور اپنا کردار ادا کر کے اس دنیا سے رخصت ھوئے ،، نبئ رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا تمام انبیاء مخصوص قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے ،، جب کہ آپ وہ واحد رسول ھیں کہ جو پوری نوع انسانیت کی راھنمائی کے لئے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گئے ،،
1- وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا و نذیرا ( سبا )
2- قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً ( الانعام )
آپ نے اپنے ذمے کا کام کیا اور اس امانت کو صحابہؓ کے سپرد کر کے ان سے گواھی لی اور ان کی گواھی پر اللہ کو گواہ بنا کر اپنے رب کے حضور ﷺ حاضر ھو گئے ،، اب یہ کام نسل در نسل اسی امت کو آگے چلانا ھے اپنی داخلی مرمت ( Internal Maintenance ) بھی کرنی ھے ” اور باھر لوگوں تک اللہ کا یہ خطاب بھی پہنچانا ھے کیونکہ اس خطاب میں ان کے لئے بھی پیغام ھے ، ھمارے لئے احکام ھیں اور ان کے لئے پیغام ،، یہ پیغام قول و فعل سے پہنچانا ھے تا کہ مجرد باتوں کی وجہ سے لوگ شک میں مبتلا نہ ھو جائیں ،، ٹیڑھے ھینڈل والی سائیکل پہ پیسے دے کر سواری کرنے والے اور اسے سیدھے ٹارگٹ پہ لے جانے کے کھیل میں جب پانچ سات لوگ ناکام ھو جاتے ھیں تو بقیہ تماشائی شک میں مبتلا ھو جاتے ھیں کہ یہ سائیکل ٹیڑھے ھینڈل کے ساتھ سیدھی چل ھی نہیں سکتی اور یہ سائیکل والا فراڈ ھے ،اس شک کو پیدا ھونے سے روکنے کے لئے سائیکل والا خود اس پہ بیٹھ کر دو چار دفعہ اسے سیدھا ٹارگٹ پہ لے جاتا ھے یوں تماشایوں کا جوش و جذبہ اور یقین بڑھ جاتا ھے ،، اور زیادہ لوگ مقابلے میں شریک ھوتے ھیں ،،،
غبارے پھاڑنے والا بھی جب دیکھتا ھے کہ دو چار پارٹیاں ناکام ھو گئ ھیں اور تماشائی متذبذب ھو گئے ھین اور شک میں مبتلا ھیں کہ شاید اس گن کے ساتھ غبارہ پھوڑا ھی نہیں جا سکتا تو وہ خود سے دو چار غبارے ٹھاہ ٹھاہ پھاڑ کر لوگوں کے شوق کو مہمیز دیتا ھے ،، ھم کب تک کتابوں میں لکھا دکھاتے رھیں گے کہ Once upon A time ،، مسلمان ایسے ھوتے تھے اور ویسے ھوتے تھے ،دنیا میں دو چار ایسے بن کر اور بنا کر تو دکھاؤ ،،
کتاب اللہ اپنےمطالب اور معانی میں نہایت واضح ھے ،یہ ممکن نہیں ھے کہ اللہ پاک ایک بات سمجھانا چاھے اور سمجھا نہ پائے ،، واضح کرنا چاھے تو اسے الفاظ نہ ملیں ، وہ جان بوجھ کر ایک جگہ بات کو مبھم رکھتا ھے تو دوسری جگہ اسے کھول کر بیان کرتا ھے ،قرآنِ حکیم اپنی تفسیر خود کرتا ھے اور یہ 95 فیصد اسی طرح کرتا ھے کیوں کہ کم و بیش 400 آیات کے علاوہ جو کہ مسلمانوں کے احکامات سے متعلق ھیں باقی 6236 آیات میں سے ساری آیات میں دعوت و تبلیغ ، انذار و تبشیر کرتا ھے ، وہ انسانوں کا خالق ھے اور ان کے اذھان کا پروڈیوسر ھے ، وہ اچھی طرح جانتا ھے کہ کونسی بات کس طرح کرے تو انسان کو اپیل کرتی ھے ،، عبادات سے متعلق تمام فرائض و واجبات سنن و مستحبات نبی کریمﷺ کی سنت سے ثابت ھیں ،، عقیدہ قرآن سے باھر کہیں نہیں ھے ،، یہی قرآن نبی کریمﷺ کے ایمان کا مبع بھی ھے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے ایمان کا Sole Source ھے ،، عقائد بس چند ایک ھیں ھر خبر عقیدہ نہیں ھے اگرچہ ھم نے ھر کہانی کو عقیدہ بنانے کا رواج صدیوں سے اپنا رکھا ھے اور اب یہ بھی یاد نہیں کہ اس میں سے رکھنے والا کون سا ھے اور چھوڑنے والا کونسا ھے ،، اسلام اپنے عقائد کی سادگی کی وجہ سے جو کشش رکھتا تھا ، ھماری عقائد کی ھوم انڈسٹری نے اسے ایک چیستاں بنا کر رکھ دیا ھے ،، چند باتیں ھیں جنہیں ماننے سے انسان مومن ھوتا ھے اور ان کا انکار کفر ھے اور وہ باتیں حدیث جبریل میں مذکور ھیں اور اتنی اھمیت رکھتی ھیں کہ جبریل امین نے انسانی صورت میں آ کر ان کا مذاکرہ نبی کریمﷺ کے سامنے دو زانو بیٹھ کر فرمایا ھے اور یہ پوری رسالت کی 23 سالہ زندگی میں انوکھا اور اپنی قسم کا اکلوتا واقعہ ھے ،، ھر خبر ایمان یا عقیدے کا جزء نہیں ھوتی – اس کے ماننے والے کے ایمان میں کوئی اضافہ نہیں ھوتا اور اس خبر کا انکار کرنے والے کے دین میں کوئی کمی نہیں ھوتی ،،،،
ھم اسی طرح پیدا ھوئے جس طرح ھر پاکستانی بچہ 3000 ڈالرز قرض اور ایک لگا بندھا عقیدہ لے کر پیدا ھوتا ھے ،،،،،،،،، نہ قرض میں اس کی کوئی سعی ھوتی ھے اور نہ عقیدہ ھی اس کا اپنا ھوتا ھے ،، یہ قرض اور عقیدے کا فرض اسے والدین سے ھی ملتا ھے جسے وہ ساری زندگی نباھتا ھے ،،،،،،،،،، بعض خوش قسمت ایسے بھی ھوتے ھیں کہ جن کے سودے رحمِ مادر میں ھی ھو جاتے ھیں ،میری لڑکی ھوئی تو تمہارے بیٹے کو اور تمہارے لڑکی ھوئی تو میرے بیٹے کو ،،،،،،،،
ھم عیسی علیہ السلام کی واپسی ،، دجال کے خروج اور امام مھدی کے ظہور کے بارے میں اندھے مقلد تھے ،،،،،،،، اور یہ عقیدہ جو کہ قطعاً عقیدہ نہیں ھے ،، ھمارے اندر ھی نہیں بڑے بڑے کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ ٹائپ لوگوں کے اندر بھی ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت رکھتا ھے کہ جسے آپ ڈیلیٹ نہیں کر سکتے ،، گویا یہ روحانی خود کشی ھو گی ،، ھم ان کہانیوں کو انہی آیات سے فیڈ کرتے رھے جن کو آج میرے دوست کمنٹس میں کوٹ کرتے ھیں ،، اور انہی احادیث کو بیان کرتے رھے جن کو وہ آج اپنا اوڑھنا اور بچھونا سمجھتے ھیں ،، کوئی پرانی بات نہیں صرف دو تین سال پرانی بات ھے ،، اس سے قبل میں اپنے دروس اور خطباتِ جمعہ میں ان باتوں کا دفاع کرتا رھا ھوں ، اس لئے احباب یہ نہ سمجھیں کہ جن آیات کو وہ دلیل بنا رھے ھیں یا جن احادیث کو پیش کر رھے ھیں ، وہ میری نظر سے نہیں گزریں ،،
منکرِ حدیث وہ شخص ھوتا ھے جو حدیث کو دین میں حجت نہیں مانتا ،، میں الحمد للہ میں عبادات و معاشرت و معاملات میں قرآن کے بعد دوسرا ذریعہ سمجھتا ھوں اور ان احادیث کی تعبیر و تشریح میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ و ارضاہ کو اپنا مقتدا سمجھتا ھوں ،،
رہ گئیں وہ احادیث جو نہ صرف قرآن سے ٹکراتی ھیں بلکہ پورے دین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ھیں ، وہ جہاں بھی ھوں جتنی بھی قوی ھوں میں انہیں سیریس نہیں لیتا ، اس لئے کہ چھری سونے کی بھی ھو تو پیٹ میں نہیں گھونپ لیتے ، حدیث قوی ھو یا ضعیف جب ایمان کو ھی لے ڈوبے تو ایسی حدیث کو چوم کر ایک طرف رکھ دینا چاھئے ،،، کیوں کہ یہ صرف خبریں ھیں آپ مانیں یا نہ مانیں دین کا ان سے کوئی کام رکا ھوا نہیں ھے ،، ھمارا دین عیسی علیہ السلام کی آمد سے پہلے ھی مکمل کر دیا گیا ھے ،، الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً،، اللہ پاک کا فرمان ھے ،، اب عیسی علیہ السلام آ کر دین کا کچھ بھی نہیں کر سکتے ،،
رہ گیا دجال تو اس کا انتظار ان کو ھے جو عیسی علیہ السلام کو اللہ کا رسول نہیں مانتے ،، جبکہ ھم ان کو اللہ کا رسول مان کر اپنے ایمان کی تکمیل کر بیٹھے ھیں ،یہود کو دجال کا انتظار عیسی علیہ السلام کی حیثت سے ھے یعنی وہ عیسی علیہ السلام کو تو نعوذ باللہ دجال مانتے تھے اور ان کو اپنے زعم میں ٹھکانے لگا چکے ، اب اصلی عیسی ( دجال – مسیح الضلالۃ ) کا انتظار کر رھے ھیں ،، انہیں شک ھو گا ، ھم کیوں ان کے انتظار مین ھاتھ باندھے صف بنائے کھڑے ھیں ،، ؟ کیا ھمیں بھی عیسی علیہ السلام کے رسول اللہ ھونے پہ شک ھے ،، انبیاء کو ری سائیکل کر کے استعمال کرنا اللہ کی سنت نہیں ھے ،، اگر واپس آنے کا کوئی عقلی و منطقی جواز بنتا ھے تو اس رسول کا بنتا ھے جو ؎
1- عالمی رسول ھیں ،، جن کی شریعت قیامت تک Valid ھے جبکہ عیسی علیہ السلام رسولاً الی بنی اسرائیل ھیں اور قیامت تک انہی سے منسوب ھونگے اور انہی میں اٹھائے جاےئ گے اور انہی کے خلاف گواہ ھونگے ،، ھمارے گواہ صرف اور صرف محمد رسول ﷺ ھیں ،،
”وکذالک جعلناکم امۃ وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیداً (بقرہ:)
اور اسی طرح ھم نے تمہیں بہترین امت بنایا ھے تا کہ تم گواہ بنو لوگوں پر اور رسول گواہ بنیں گے تم پر !
گویا نبئ کریمﷺ کے بعد یہ امت ھی ایک دوسرے پہ گواہ ھو گی ،نبئ کریم ﷺ کے سوا کوئی دوسرا رسول اس امت پہ گواہ نہیں ھو ،، عیسی علیہ السلام کو نبئ کریم ﷺ کا امتی بنا کر دوبارہ لے کر آنا ھمارے لوگوں کی اپچ ھے ،، قرآن کہہ چکا ھے کہ ان کی حیثیت بنی اسرائیل اور عیسائیوں کے خلاف گواہ کی ھے ،، کہیں نہیں کہا گیا کہ اے عیسی ابن مریم بتاؤ امتِ محمد ﷺ کیا کر رھی تھی ؟ جس طرح ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ھیں اسی طرح اس قسم کی لایعنی خبروں کے لئے قرآن کو تاویلوں کی مشین پہ چڑھایا جاتا ھے تا کہ اس میں سے وہ نکالا جائے جو کہ اس میں سرے سے ھے ھی نہیں ،،
فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید وجئنابک علیٰ ھٰؤلاء شہیداً (نساء)” {اور …
پھر وہ منظر کیسا ھو گا جب ھم ھر امت میں سے شہید یعنی گواہ اٹھا کھڑا کرین گے اور آپ کو ھم ان پر گواہ بنائیں گے ،،
بات تاویل کی چلی ھے تو ذرا یہ تضاد ملاحظہ فرماتے چلیئے ،،
اللہ پاک نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں سورہ آل عمران میں فرمایا ،، وجیھاً فی الدنیا والآخرہِ و من المقربین ،، وہ دنیا میں بھی وجیہہ ھو گا اور آخرت میں بھی اور مقربین میں سے ھو گا ،، اس آیت کو عیسی علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے لئے بطور دلیل پیش کیا جاتا ھے کہ آپ کو وجیہہ ثابت کرنے کے لئے اللہ ان کو دوبارہ دنیا میں لائے گا ،، کیونکہ وہ پہلے جنم میں صلیب کے ساتھ بدنام کیئے گئے تھے ،،
یہی وجیہہ جب موسی علیہ السلام کے ساتھ آیا ھے ،،
يا أيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها( الاحزاب )
یہاں بیان کیا گیا کہ موسی علیہ السلام بہت شرمیلے تھے ، بنی اسرائیل کے ساتھ ننگے نہاتے نہیں تھے ،جس پہ کسی نے کہہ دیا کہ شاید ان کو کوئی عیب ھے ( ھرنیا وغیرہ کیونکہ نامرد تو وہ کہہ نہیں سکتے تھے موسی علیہ السلام بیوی اور بچہ ساتھ لے کر آئے تھے لہذا ن کے جنسی اعضاء کے نہ ھونے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا تھا ) اب چونکہ موسی اللہ کے نزدیک بہت ” وجیہہ تھے ” لہذا اللہ نے انہیں ننگا کر کے بنی اسرائیل کو دکھانے کا پروگرام بنایا تا کہ انہین پتہ چلے کہ موسی جتنے باھر سے خوبصورت ھیں اتنے ھی ازار کے اندر بھی خوبصورت ھیں ، چنانچہ جس پتھر پہ انہوں نے کپڑے رکھے تھے اس پتھر کو حکم دیا گیا کہ کپڑے لے کر بھاگ جا ۔۔ پتھر کپڑے لے کر بھاگا تو موسی علیہ السلام پانی سے نکل کر ننگ مننگے اس پتھر کے پیچھے دوڑ پڑے وہ کہتے جاتے تھے کہ اوئے پتھر میرے کپڑے ، اوئے پتھر میرے کپڑے اور ساتھ اس کو ڈنڈے بھی مارتے جاتے تھے ،، وہ پتھر دوڑتا ھوا بنی اسرائیل کے مجمعے میں جا گھسا وھاں پہنچ کر موسی ٹھٹک کر کھڑے ھو گئے اور مجھے نے بھی دیکھ لیا کہ موسی علیہ السلام کی ھر چیز بیلنس ھے اور خوبصورت ھے ،، اس کے بعد آپ نے کپڑے اٹھا کر پہنے اور پتھر کو دو چار اور لگا دیں ،
حدثنى إسحاق بن إبراهيم حدثنا روح بن عبادة حدثنا عوف عن الحسن ومحمد وخلاس عن أبى هريرة – رضى الله عنه – قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – « إن موسى كان رجلا حييا ستيرا ، لا يرى من جلده شىء ، استحياء منه ، فآذاه من آذاه من بنى إسرائيل ، فقالوا ما يستتر هذا التستر إلا من عيب بجلده ، إما برص وإما أدرة وإما آفة . وإن الله أراد أن يبرئه مما قالوا لموسى فخلا يوما وحده فوضع ثيابه على الحجر ثم اغتسل ، فلما فرغ أقبل إلى ثيابه ليأخذها ، وإن الحجر عدا بثوبه ، فأخذ موسى عصاه وطلب الحجر ، فجعل يقول ثوبى حجر ، ثوبى حجر ، حتى انتهى إلى ملإ من بنى إسرائيل ، فرأوه عريانا أحسن ما خلق الله ، وأبرأه مما يقولون ، وقام الحجر فأخذ ثوبه فلبسه ، وطفق بالحجر ضربا بعصاه ، فوالله إن بالحجر لندبا من أثر ضربه ثلاثا أو أربعا أو خمسا ،
گزارش صرف اتنی ھے کہ عیسی کو وجیہہ ثابت کرنے کے لئے زندہ آسمان پہ چڑھا لیا ،، اور موسی کو وجیہہ ثابت کرنے کے لئے ان کے سارے کپڑے اتار مادر زاد ننگا کر کے مجمعے کو آگا پیچھا دکھا دیا اور اس کا الزام اللہ پر لگا دیا ،، جبکہ اللہ پاک فرماتا ھے کہ ” قل ان اللہ لا یامر بالفحشاء ،اَتقولون علی اللہ ما لا تعلمون ،، کہہ دیجئے اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا ،کیا تم اللہ پر وہ بات کہتے ھو جس کا تمہیں علم نہیں ،،،،،،،
اس سے ثابت کیا کیا ھوتا ھے ،،،،،،،
1- موسی علیہ السلام غصے میں پاگل ھو جاتے تھے اور انہیں کسی بات کا ھوش نہیں رھتا تھا ،، ورنہ وہ مجمع دیکھ کر دور ھی رک سکتے تھے ،،
2- موسی علیہ السلام اگر جانتے تھے کہ پتھر کو اللہ کا حکم ھوا ھے تو وہ کپڑے لے کر بھاگا ھے ،، لہذا پتھر معذور ھے ،، پھر بے جان چیز کو مارنا ؟
3- ھمارے ساتھ بچپن میں اکثر یہ شرارت ھوتی تھی کہ ھم تالاب میں نہا رھے ھوتے تھے اور کوئی بچہ مذاق میں ھمارے کپڑے اٹھا لیتا تھا ،، اس وقت ھم اس کی منت ترلا کرتے تھے ، کسی دوسرے بچے کی منت کرتے تھے جو اس سے طاقتور ھو کہ وہ مداخلت کر کے کپڑے واپس دلا دے ،، مگر یہ بات طے تھی کہ ھم اس وقت تک پانی میں ھی رھتے تھے جب تک کہ وہ کپڑے ھمیں واپس نہ مل جائیں چاھے اس میں گھنٹہ لگے یا آدھا دن لگ جائے ،،،،،،،، موسی علیہ السلام ایسے ھی چھلانگ لگا کر دوڑ پڑے جبکہ آدم و حوا نے درختوں کے پتوں کی آڑ لے لی اور موسی علیہ السلام پانی کی آڑ چھوڑ کر ننگے بھاگ لئے ؟
4- پھر جو اللہ ننگا کرنے کو شیطان کی طرف منسوب کرتا ھے خود شیطانی کام کیسے کر سکتا ھے ؟ اے آدم کی اولاد شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کر کے تمہارے کپڑے نہ اتروا دے جس طرح وہ تمہارے ماں باپ کو ننگا کر کے جنت سے نکلوا چکا ھے ،،
يا بني آدم لا يفتننكم الشيطان كما أخرج أبويكم من الجنة ينزع عنهما لباسهما ليريهما سوآتهما إنه يراكم هو و قبيله من حيث لا ترونھم ،،
اور اب اس آیت کی اصل تفسیر اس حدیث مین دیکھیں !!
– ثنا الحسين ثنا علي بن مسلم ، ثنا عباد بن العوام ، أنبأ سفيان بن حسين ، عن الحكم ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن علي في قوله عز وجل : ( لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها (1) ) قال : « صعد موسى ، وهارون الجبل ، فمات هارون ، وقالت بنو إسرائيل : أنت قتلته كان أشد حبا لنا منك وألين فآذوه بذلك ، فأمر الله الملائكة ، فحملته حتى مروا به على بني إسرائيل ، وتكلمت الملائكة بموته حتى عرفت بنو إسرائيل أنه قد مات ، فبرأه الله من ذلك ، فانطلقوا به ، ودفنوه ، فلم يطلع على قبره أحد من خلق الله إلا الرخم ، فجعله الله أصم أبكم »