عبداللہ ابن سبا،حقیقت یا فسانہ

ابن سبا اور سبائی ،،
گزشتہ سے پیوستہ ـ
ہم جب جب شھادتِ عثمانؓ کے سلسلے میں لفظ ’’ سبائیوں ‘‘ پڑھا یا سنا کرتے تھے تو سمجھا کرتے تھے کہ یہ بھی ’’ بلوائیوں ‘‘ قسم کی چیز ہے ،، مگر ابن سبا یہود کے مکر و فریب کی چلائی گئ ایک آندھی کا نام تھا ، یہود جب طاقت سے عیسائیت کا رستہ نہ روک سکے تو سینٹ پال کو عیسائی بنا کر عیسائیت میں داخل کیا اور پھر وہ عیسائیت تخلیق کی کہ خود عیسی علیہ السلام بھی قیامت کے دن اس کو عیسائیت ماننے سے انکار کر دیں گے ـ قرآن نے ان کی اس چال کو واضح انداز میں پیش فرمایا ہے ، اس کے بعد بھی مسلمانوں کا رویہ نو مسلم یہودیوں کے بارے میں بےاحتیاطی کا ہی رہا ، مسلمانوں نے سمجھا کہ اتنی بڑی سلطنت کو بھلا اب سازشوں سے کیا خطرہ ھو سکتا ھے ؟ مگر حقیقت میں یہود کی سازش نہ صرف ریاست کے خلاف ہوتی ہے بلکہ اس دین کے اندر طفیلیہ بن کر بیٹھ جاتی ھے خون مسلم کا بہتا ھے اور خدمت یہودیت کی ہوتی ہے ـ
[ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (72ـ آلعمران )وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (73)
اور اھل کتاب کے ایک گروہ نے منصوبہ بنایا کہ ایمان لے آؤ اس پر جو نازل ہوا ہے مومنوں پر اولین صبح کے وقت اور دن کے آخر میں کافر ہو جاؤ تا کہ وہ بھی پلٹ آئیں ، مگر سچا ایمان اسی پر رکھو جو تمہارے دین پر چلے ، کہ مبادا تم تسلیم کرو کہ ویسا ہی کلام ان کو دیا گیا ہے جیسا تمہیں دیا گیا تھا ،یا وہ تمہارے ایمان کو بطور حجت پیش کریں اللہ کے یہاں ـ کہہ دیجئے بےشک ھدایت تو وہی ہے جس کو اللہ ھدایت تسلیم کرے ، کہہ دیجئے کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ھے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا دائم جاننے والا ہے ـ
ابن سبا شام میں ـ
شام کے والی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے جو ایک دور اندیش اور مدبر اور بہترین منتظم تھے یہاں انہوں نے اس قسم کے فتنوں کو پنپنے نہیں دیا ،مگر یہاں ایک دوسری قسم کی صورتحال پیدا ہو گئ جس کو فتنہ پرداز ابن سبا نے خوب استعمال کیا ـ
ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ ایک درویش منش زاہد و عابد انسان تھے ، دنیا کے مال و متاع سے ان کو انتہا درجے کی نفرت تھی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ابوذر اپنی قسم کا ایک ہی فرد ہے ، اکیلا مرے گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا ـ ان کی رائے تھی کہ خمس عوام الناس کا حق ہے اس کو بیت المال میں جمع نہیں کیا جانا چاہئے ـ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ریاست کی سماجی اور تمدنی ضروریات کے لئے اس مال کو بیت المال میں جمع کرانا لازم ہے ، یہ اللہ کا مال ہے جو اجتماعی سماجی اور انسانی مفادِ عامہ کے لئے خرچ ہونا چاہیئے ،،
عبداللہ ابن سبا جب شام آیا تو اس نے حضرت ابوذرؓ کو کہا کہ دیکھیں یہ معاویہؓ کیا کرتے ہیں ؟ وہ بیت المال کو لوگوں کی امانت کہنے کی بجائے اللہ کا مال کہتے ہیں ـ تا کہ مسلمانوں کا اس میں کوئی حق ثابت نہ ہو سکے ـ یہ بات حضرت ابوذرؓ جیسے سیدھے سادھے بندے کے دل میں اتر گئ وہ سیدھے حضرت معاویہؓ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ آپ بیت المال کو اللہ کا مال کیوں کہتے ہیں ؟ اس پر حضرت معاویہؓ نے نہایت نرمی سے جواب دیا کہ اے ابوذرؓ ہم سب اللہ کے غلام میں اور ہمارا مال اللہ کا ہی مال ہے ، حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہئے ،، اس پر حضرت معاویہؓ نے جواب دیا کہ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ اللہ کا مال نہیں ہے مگر آپ کہتے ہیں تو آئندہ اس کو مسلمانوں کا مال کہہ دیا کرونگا ـ
عبداللہ ابن سبا حضرت ابی درداء رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور ان کو بھی بھڑکانے کی کوشش کی مگر وہ اس کی چال میں نہ آئے اور صاف کہہ دیا کہ مجھے تو تُو ابھی بھی یہودی ہی لگتا ہے ، پھر وہ حضرت عبادہ ابن صامتؓ کے پاس گیا اور ان کے کان بھی بھرنے کی کوشش کی ، وہ اس کو پکڑ کر حضرت معاویہ کے پاس لے گئے اور کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے ابوذر کو بھی بہکایا تھا اور میرے سمیت کئ دوسرے اصحابِ رسول کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا ہے ـ
ابن سبا کے پٹی پڑھانے اور حضرت معاویہؓ سے مکالمے کے بعد ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس خیال کی باقاعدہ اشاعت شروع کر دی کہ دولتمندوں کو ضرورت سے زیادہ مال رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کو دیگر ضروتمندوں میں بانٹ دینا چاہیئے ،، وہ اپنے موقف کے حق میں یہ آیت پیش کیا کرتے تھے ـ
[ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ـ
توبہ ـ ۱۳
اے ایمان والو بےشک بہت سارے یہودی احبار اور عیسائی رھبان لوگوں کو مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں [ یعنی اللہ کےنام پر لے کر اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ] اور جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں مگر اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے پس ان کو دردناک عذاب کی نوید سنا دیجئے ـ
جس طرح ہر مذھب کے پیشوا کے لئے اپنی اصطلاح ہے اس کی اسی کی طرف مسنوب کیا جاتا ھے ،جیسے ھندو مذھبی لیڈر پنڈت کہلاتا ہے ، مسلمانوں کا لیڈر عالم یا علامہ یا پیرکہلاتا ہے ، عیسائیوں کا پادری یا راھب کہلاتا ھے ،، بات شروع اس سے ہوئی ہے کہ یہود و نصاری کے علماء کا وطیرہ یہ ہے کہ یہ سونا چاندی اکٹھا کرتے ہیں مگر اس کو مفادِ عامہ پہ خرچ نہیں کرتے ، اور یہ بات ہر مذھب کے ذھبی راہمناؤں پر لاگو ہوتی ہے ، پیروں کے یہاں بھی ، پنڈتوں کے یہاں بھی اور پادریوں کے یہاں بھی ،،
حضرت معاویہؓ کی رائے میں یہاں فی سبیل اللہ کہہ کر بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں مفاد عامہ کے کاموں پر خرچ کرنے کے بعد جو بچتا ھے وہ کنز یا خزانہ نہیں ہوتا ،، حضرت معاویہؓ کی رائے وقیع بھی ہے اور قانوناً درست بھی ، اس لئے کہ پیر ، پنڈت، پادری تو صدقات و خیرات کی صورت میں ایزی منی لیتے اور جمع کرتے ہیں ،، مگر ایک شخص جو سارا دن محنت مزدوری اور خون پسینہ ایک کر کے کماتا ھے جبکہ دوسرا کوئی ہٹا کٹا سارا دن کنگھی پٹی کر کے گلیوں میں مٹر گشت کرتا یا گیمیز کھیلتا ھے تو آپ اس دہاڑی لگانے والے کو کیسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی محنت کی کمائی اس مسٹنڈے کو دے دے اور اس سے اللہ بہت خوش ہو گا ؟ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں بہت سارے لوگ امیر کبیر تھے جنہوں نے چھ چھ سو اونٹ جہاد کے لئے مہیا کیئے ،، رسول اللہ ﷺ نے تو کبھی حکم نہیں دیا کہ عثمانؓ اور عبدالرحمان بن عوؓف اپنا مال ابوذرؓ یا دیگر غریب صحابہؓ میں تقسیم کر دیں ،،
حضرت ابوذرؓ کی تحریک پہ سارے نکھٹو اور مسٹنڈے ان کے پیچھے ہو لئے کہ امیر اپنا فالتو پیسہ ہم کو دیں یا ہم ان سے زبردستی اپنا حق چھین لیں گے ، یہ تحریک ایک فتنہ بن گئ اورا میر و غریب کے درمیان صف بندی ہونے لگ گئ ـ حضرت معاویہؓ نے تمام احوال حضرت عثمان کو مدینے لکھ بھیجے ، انہوں نے حکم دیا کہ نہایت احترام کے ساتھ ابوذر کو مدینہ بھیج دیں ـ مدینہ پہنچ کر بھی جب ابوذرؓ نے اپنے اسی خیال کی تبلیغ شروع کر دی تو حضرت عثمانؓ نے ان کو بلا کر سمجھایا کہ اے ابوذرؓاللہ اور رسول ﷺ کا جو حق مخلوق کے ذمے ہے یعنی زکوۃ اور خمس ،، ان سے وصول کر لیتا ھوں اور ان کا جو حق ریاست کے ذمے ثابت ہے وہ میں ادا کرتا ھوں ، اس کے بعد میں لوگوں کو کیسے مجبور کر سکتا ہوں کہ وہ اپنا مال اپنے اھل و عیال کے لئے بچا کر نہ رکھیں اور اس کو عوام میں بانٹ دیں ؟ کیا آپؓ نے ایسا کوئی حکم رسول اللہ ﷺ سے سن رکھا ہے ؟ کیا رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد مبارک آپ سے پوشیدہ ہے کہ ’’ تم اپنے عیال کو امیر چھوڑ کر مرو ،یہ بہتر ہے اس سے کہ تم ان کو تنگدست اور فقیر چھوڑ کر جاؤ ؟
حضرت ابوذر نے فرمایا کہ آپ میرا کوئی انتظام مدینے کے باہر کر دیں ، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کہا تھا کہ اے ابوذر جب مدینے کی آبادی سلح تک پہنچ جائے تو تم وہاں سے رخصت ہو جانا ،، حضرت عثمانؓ نے مقام ربذہ میں ان کے لئے انتظام کر دیا ، گھر کے ساتھ ایک مسجد بھی وہیں بنوا دی کچھ اونٹ اور دو غلام بھی ان کی معاش اور آرام کے لئے ان کو مہیا کر دیئے ـ
تینتیس تا پینتیس ہجری کے برسوں میں ایک یمنی یہودی عبداللہ بن سبا نے، جو ابن السودا کے نام سے مشہور تھا، اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے ظاہری تقوی کا یہ عالم تھا کہ نماز فجر کے لیے مسجد میں داخل ہونے والا وہ پہلا شخص ہوتا اور عشاء کے بعد مسجد سے رخصت ہونے والا ھی وہ آخری شخص ہوتا ۔ ہر وقت نوافل کی ادائیگی میں مصروف رہتا۔ اکثر روزہ رکھتا اور درود و وظائف کا تو شمار ہی نہ تھا۔ اس کے بعد وہ عالم اسلام کے دورے پر نکل کھڑا ہوا۔اور حجاز، بصرہ، کوفہ، شام، مصر میں لوگوں کو اپنے بناوٹی تقوی سے متاثر کرتا اور خصوصاً ان لوگوں کی ٹوہ میں رہتا جنہوں نے جان بچانے اور وقتی مفاد کے تحت اسلام کا لیبل اپنے اوپر لگا لیا تھا لیکن دراصل وہ اس کی جڑیں کاٹنے کے درپے تھے۔ جب اس نے تمام صوبوں میں اپنا نیٹ ورک قائم کر لیا اور ایسے بہت سے افراد جمع کرلیے تو اپنا منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا جو سادہ مگر دور رس اثرات کا حال تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی وہ اس کے سگنل کے منتظر رہیں۔ اس نے ایک خط تیار کیا جو ہر علاقے میں اس کے معتمدینِ خاص کو دوسرے علاقوں کے معتمدینِ خاص کی طرف سے پہنچایا گیا۔ اس میں لکھا تھا "پیارے بھائی۔ آپ خوش قسمت ہیں آپ کے علاقے میں اسلام زندہ ہے۔ گورنر دیانت دار ہے، انتظامیہ منصف مزاج ہے جبکہ میرے علاقے میں اسلام مردہ ہوچکا ہے۔ کوئی شخص اس پر عمل پیرا نہیں۔ گورنر شرابی اور عورتوں کا رسیا ہے۔ انتظامیہ بدعنوان ہے۔ بہتری کا کوئی امکان نہیں۔”
اس طرح کے خطوط مسلسل مدینہ سے ہر شہر میں آئے اور اس کے معتمدین نے نمازوں کے بعد مساجد میں پڑھ کر سنائے اور اسی طرح ہر شہر سے ایسے ہی خطوط مدینہ آئے۔ پہلے پہل تو لوگوں نے کوئی توجہ نہ دی لیکن جب "حالات "کی "مسلسل مگر جعلی تصدیق بھی "ہونے لگی تو عوام میں ناراضگی پھیلنے لگی۔ بعض نے یہ اطلاعات خلیفہ(حضرت عثمانؓ )تک بھی پہنچائیں۔ اپنے معمول کے مطابق انہوں نے فورا کارروائی کی اور لوگوں سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے ؟ فیصلہ ہوا کہ مدینہ سے با اعتماد اور غیر جانبدار لوگوں کو ان علاقوں کے دورے پر بھیجا جائے جہاں کے بارے میں شکایت کی گئی ہے کہ وہ اسلام سے دور ہوگئے ہیں اوریہ لوگ خود مشاہدہ کرکے الزامات کی تحقیقات کریں۔ بظاہر یہ لوگ گروپوں کی شکل میں نہیں گئے بلکہ ہر ایک اپنے لیے مقرر علاقے کی طرف گیا۔ طبری کے مطابق تمام نمائندے اپنے مقررہ وقت پر دارالحکومت پہنچ گئے اور یہی خبر لائے کہ نامعلوم افراد کی طرف سے عاید کیے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں اور حالات بہت اچھے اور معمول کے مطابق ہیں (مگر بدقسمتی سے صوبوں میں اس قسم کا کوئی انتظام نہ کیا گیا جہاں لوگ حضرت عثمانؓ کے خلاف پھیلائی جانے والی بے بنیاد کہانیوں پر مسلسل یقین کرتے رہے)۔
صرف مصر جانے والے عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ واپس نہ آئے اور مصر ہی میں ٹھہر گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد گورنر مصر نے خلیفہ کو رپورٹ بھجوائی کہ یہاں کچھ لوگوں نے عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو چکر دے کر ساتھ ملا لیا ہے اور ان کے ساتھ جمع ہورہے ہیں جن میں عبداللہ بن السوداء بھی شامل ہے، مگر خلیفہ نے اپنی سادہ لوحی کے تحت درگزر کی روش اختیار کی اور کوئی خاص ایکشن نہ لیا ۔ ۳۵ ہجری میں ابن سبا نے مصر سے مدینہ کا سفر کیا ۔ طبری نے لکھا ہے کہ ” چھ سو کے لگ بھگ فدائی ا اس کے ساتھ تھے۔ اپنے آپ کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا رکھنے لیے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ حج کے لیے جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی بصرہ اورکوفہ سے بھی سبائی مدینہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ بلاشبہ یہ سب یہودی النسل نہیں تھے۔ ان میں بعض مخلص مسلمان بھی تھے جو اپنی سادگی کے باعث ان کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ سبائی پراپیگنڈہ کافی کاٹ دار تھا اور ان سب کا مطالبہ یہ تھاکہ خلیفہ کو معزول کیا جائے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے لیکن ان میں یہ اتفاق رائے نہیں ہورہا تھا کہ خلیفہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کرکے کس کو ان کی جگہ لایا جائے۔ مصریوں کا مطالبہ تھاکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ مقرر کیا جائے۔ بصرہ کے سبائی حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں تھے جبکہ کوفی حضرت زبیر ابن العوام رضی اللہ تعالی عنہ کے حامی تھے۔ عامۃ المسلمین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے زمین بڑی احتیاط سے ہموار کی گئی۔ جو خطوط مدینہ سے بھجوائے گئے ان پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دستخط کئے گئے تھے۔ جن میں مصریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ مدینہ آئیں اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو خلافت کی گدی سے اتارنے میں ان کی مدد کریں ۔ دوسرے خطوط پرام المونین حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دستخط تھے جن میں صوبوں کے لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا تھا ۔ جبکہ بعض خطوط پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے دستخط کئے گئے (ابن کثیر)
جب شام اور فلسطین کے گورنر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مشکوک افراد کے قافلوں کی مختلف مقامات سے مدینہ روانگی کی اطلاعات ملیں تو انہوں نے خلیفہ کو مطلع کرتے ہوئے استدعا کی کہ انہیں اپنے کچھ قابل اعتماد فوجی دستے دارالحکومت بھجوانے کی اجازت دے دیں مگر خلیفہ نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔
جب مصر، بصرہ اور کوفہ سے آنے والے باغی مدینہ پہنچے تو وہ سیدھے اپنے "محبوب "لیڈروں علیؓ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے۔ انہوں نے امہات المومنینؓ کے پاس بھی حاضری دی۔ ان سب اصحاب نے آنے والوں (یعنی باغیوں )سے یہی سوال کیا کہ وہ اچانک ان پر کس طرح اتنے مہربان ہوگئے ہیں؟ انہوں نے خلافت کی پیشکشیں بھی ٹھکرا دیں اور انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کیا۔ (ادھر سے مایوس ہونے کے بعد )مصری باغی خلیفہ کے پاس چلے گئے اور گورنر کے خلاف شکایت پیش کی۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ آپ لوگ اس کی جگہ کس کو گورنر لانا چاہتے ہیں؟ "ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے محمد کو۔” باغیوں نے جواب دیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مدینہ میں ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ان صاحبزادے کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جاتا تھا بلکہ انہیں فاسق کہا جاتا تھا اور بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کھلے لفظوں میں اس کے بارے میں نا پسندیدگی کا اظہار کرتی تھیں۔
عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فوری طور پر باغیوں کا مطالبہ تسلیم کیا اور نئے گورنر کی تقرری کا خط لکھ کر محمد بن ابی بکر کے حوالے کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ فورا مصر پہنچیں۔ باغیوں کو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ ان کا یہ مطالبہ اتنی آسانی سے تسلیم کر لیا جائے گا۔ اب ان کے لیے مصر واپسی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا۔ پھر اس بدنام کہانی کا آغاز ہوا کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے خفیہ طور پر ایک ایلچی مصر بھیجا جس میں گورنر کو مبینہ طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ نئے نامزد گورنر محمد بن ابی بکر جونہی مصر پہنچے انہیں قتل کردیا جائے۔
مصری دستہ نے مطمئن ہوکر واپسی کا سفر اختیار کیا۔ نامزد گورنر محمد بن ابی بکربھی ان کے ہمراہ تھے۔ راستے میں ایک تیز رفتار اونٹ سوار ان کے پاس سے گزر کر آگے گیا۔ اس کا رخ مصر کی جانب تھا۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ وہی اونٹ واپس مدینہ کی طرف جاتا نظر آیا۔ اور ایک بار پھر دیکھا گیا کہ وہی ِ اونٹ سوار دوبارہ مصر کی جانب عازمِ سفر ہے۔ مگر کسی نے اس سے تعرض نہ کیا پھر اچانک اس نے قافلہ والوں پر دشنام طرازی شروع کردی۔ انہوں نے پوچھا "تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟ "اس نے بڑے متکبرانہ انداز میں جواب دیا "میں خلیفہ کا قاصد ہوں اور گورنر مصر کےلیے ان کا خط لے کر جا رہا ہوں۔” اور خط بھی انہیں دکھا دیا۔ متجسس ہوکر محمد بن ابی بکر نے وہ خط کھول لیا اور پڑھا جس میں مبینہ طور پر گورنر مصر کو ہدایت کی گئی تھی کہ جونہی نامزد گورنر محمد بن ابی بکر اپنا تقرر نامہ لے کر آپ کے پاس پہنچیں انہیں قتل کردیا جائے اور ان کے ساتھیوں کو دیگر سزائیں دی جائیں۔
کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ یہ خط بھی ابن سبا کی ایک اور جعل سازی تھی؟ سازشیوں کی توقع کے عین مطابق خط پڑھ کر محمد بن ابی بکر برافروختہ ہوگئے۔ انہوں نے فی الفور مدینہ واپسی کا سفر اختیار کیا اور دارالحکومت پہنچ کر طوفان کھڑا کردیا اور اگرچہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے قسم اٹھا کر انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ خط انہوں نے نہیں لکھا مگر محمد بن ابی بکر نہ مانے۔
مصری باغی پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچے اور مطالبہ کیا کہ خلیفہ کے قتل کے لیے ان کا ساتھ دیں جنہوں نے بلاوجہ ہمارے قتل کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا "آپ ہمیں کس طرح انکار کرسکتے ہیں؟ آپ ہی نے تو خط لکھ کر ہمیں بلوایا ہے۔” انہوں نے کہا "خدا کی قسم !میں نے کبھی کوئی ایسا خط نہیں لکھا۔” باغی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا "تم مصر کے راستے سے حضرتت عثمان کے ایک جعلی خط کا بہانہ بنا کر واپس آگئے ہو مگر بصرہ اور کوفہ جانے والے دستے جو اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہوچکے تھے وہ بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ واپس پہنچ چکے ہیں۔ انہیں کیسے معلوم ہوا کہ تم لوگوں کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟ یقیناً یہ سازش کا شاخسانہ ہے ـ
حج کا زمانہ قریب آ رہا تھا۔ خلیفہ نے مدینہ گریژن کے فوجی دستوں کو حج پر جانے کی اجازت دے دی اور مدینہ امن و امان قائم رکھنے والی فوج سے خالی ہوگیا۔ باغیوں نےخلیفہ کی رہاںئش گاہ کا محاصرہ کرلیا اور انہیں مسجدِ نبوی میں نمازیوں کی امامت سے روک دیا۔ غفیقی نامی ایک یمنی نے، جو ابن سبا کا نائب تھا، خلیفہ کی جگہ نمازوں کی امامت شروع کردی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ابن سبا کی طرح وہ بھی ِ یہودی تھا کیونکہ شہادت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد اس نے اس قرآن کو پاؤں سے ٹھوکر ماری جسے شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پڑھ رہے تھے اور یہ الٹ کر خلیفہ کے گھٹنوں پر گر پڑا۔
باغیوں نے خلیفہ کی رہائش گاہ کا گیٹ جلادیا تاہم وہ اندر نہ جاسکے۔ اس پر حملہ آور محمد بن ابوبکرؓ کے ہمراہ پیچھے کی گلی سے ہوکر مکان کی عقبی دیوار پر چڑھ گئے اور اندر کود کر قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے خلیفہ کو شہید کرڈالا۔ انکی اہلیہ شوہر کو بچانے کی کوشش میں شدید زخمی ہوگئیں۔ ان کے ہاتھ کی انگلیاں بھی کٹ گئیں۔ باغیوں نے گھر میں لوٹ مار بھی کی۔ حملہ سے قبل محمد بن ابی بکرنے معمر خلیفہ کی داڑھی پکڑلی۔ جب خلیفہ نے انہیں شرم دلائی کہ "اگر آپ کے والد(ابوبکرؓ )یہاں ہوتے اور آپ کو اس حالت میں دیکھتے ۔۔۔۔۔۔” تو انہوں نے داڑھی چھوڑ دی اور واپس چلے گئے تاہم دوسروں نے اپنا کام مکمل کر دیا ۔ شومی قسمت دیکھیے کہ باغیوں نے خلیفہ کے جسِد خاکی کو جنت البقیع میں دفن کرنے سے بھی روک دیا اور کہا کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ یہودی ہیں (استغفراللہ )اور یہ حقیقت ہے کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو جس قطعہ اراضی پر دفن کیا گیا وہ ایک یہودی کی ملکیت تھی۔ بعد میں جب معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے وہ قطعہ اراضی جس میں مظلوم خلیفہ کی قبر تھی خرید کر جنت البقیع میں شامل
کردیا
جنگ جیت لینا اور ایک شریف النفس بے دست وپا خلیفہ کو قتل کرنا تو آسان تھا مگر اب امن و امان کیسے بحال ہو؟ باغی اب چاہتے تھے کہ اپنے جرم کا کوئی جواز پیدا کرلیں تا کہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہونے سے بچ سکیں۔ پہلے وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور انہیں خلافت کی پیش کش کی مگر انہوں نے انہیں جھڑک کر واپس بھیج دیا۔ جس کے بعد وہ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے لیکن انہوں نے بھی انہیں منہ نہ لگایا۔ پھر انہوں نے ایک اور حربہ اختیار کیا کہ مدینہ کی گلیوں میں اعلان کرنے لگے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہو کہ وہ خلافت سنبھال لیں ورنہ ہم تمہارا قتلِ عام شروع کردیں گے۔ اس کے نتائج خاطر خواہ نکلے۔ لوگ روتے پیٹتے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور استدعا کی کہ انہیں ہتھے سے اکھڑے ہوئے باغیوں کی دستبرد سے بچائیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان کی آہ و فغاں سے متاثر ہوئے مگر کہا کہ خلافت عوام الناس کا معاملہ ہے۔ میں نہ تو آپ کے کہنے پر اور نہ ہی باغیوں کے کہنے پر اسے سنبھال سکتا ہوں۔ یہ بات تو درست ہے کہ خلیفہ کی ِ ضرورت ہے مگر اس کے لیے لوگوں کی رائے لینا ہوگی۔ اس لیے میں کل نماز فجر کے بعد لوگوں سے اس بارے میں پوچھوں گا۔
اگلے روز نماز کے بعد علی رضی اللہ تعالی عنہ نے منبر پر کھڑے ہوکر بے گناہ خلیفہ کے بہیمانہ قتل پر دلی دکھ اور صدمے کا اظہار کرنے کے بعد کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ منتخب کرلیں۔ شاید سب سے پہلے چیخنے والے سبائی ایجنٹ ہی ہوں جنہوں نے کہا "صرف آپ ہی اس کے مستحق ہیں، کیونکہ آپ سب سے اچھے مسلمان ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کہنے والےسچے مسلمان ہی ہوں تاہم اس موقع پر کوئی اور نام سامنے نہ آیا اور لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کرنا شروع کردی۔ باغیوں نے دیکھا کہ بعض ممتاز اصحابِ رضی اللہ تعالی عنہم اس موقع پر خاموش رہے اور انہوں نے کسی قسم کی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
زبیر، طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ ، زید بن ثابتؓ ، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور صہیب رضی اللہ تعالی عنہ ، اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ شامل تھے، باغیوں کو سب سے زیادہ خدشہ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے تھا۔ اس لیے وہ ان دونوں کو شمشیر کی نوک پر رکھ کر مسجد میں لائے اور دھمکی دی کہ اگر انہوں نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت نہ کی تو وہ انہیں قتل کر دیں گے۔ چنانچہ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے جبر اور دباؤ کے تحت بیعت کی۔
عام لوگوں کو توقع تھی کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ خلافت کا آغاز ہی قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی گرفتاری سے کریں گے مگر دن اور ہفتے گزرنے لگے اور ایسا کچھ ھی نہ ہوا۔ (مدینہ کا کنٹرول عملی طور پر باغیوں کے ہاتھ میں تھا اور علی رضی اللہ تعالی عنہ باغیوں کی مرضی کے بغیر کچھ بھی کرنے کے قابل نہ تھے۔ اگر حضرت علی قاتلین سے قصاص لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو بہتر ہوتا کہ وہ پھر مقتول فیملی کے بہی خواہوں کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھاتے تا آنکہ ان کو مکے سے یا شام سے کمک نہ پہنچ جاتی ـ مگر اللہ کا لکھا ھو کر رہتا ھے ،حضرت علیؓ نے چن چن کر ان گورنروں کو معزول کرنا شروع کر دیا جو بدلہ لینے کی پوزیشن میں تھے ـ ان اقدامات نے مقتول خلیفہ حضرت عثمانؓ کی فیملی کو یقین دلا دیا کہ ان تلوں میں تیل نہیں اور حضرت علیؓ مقتول پارٹی کو ہی دباؤ میں لانا چاہتے ہیں ـ
اب مدینہ سے ایک اور خط پورے عا لمِ اسلام میں پھیلایا گیا جس میں کہا گیا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفہ بننے کے لیے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کرایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قاتلینِ عثماؿ رضی اللہ تعالی عنہ سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو اس الزام پر یقین آنے لگا۔ یہ فطری بات تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ اور بچوں کو ہر شخص سے زیادہ دلچسپی تھی کہ قاتلینِ عثمان رضی ِاللہ تعالی عنہ کے خلاف نظام انصاف کو حرکت میں لایا جائے۔ اس لیے(شاید مدینہ سے مایوس ہوکر- مترجم ) آپ کی اہلیہ نے اپنی کٹی ہوئی انگلیاں اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا خون آلود کرتا جو بوقتِ شہادت ز یبِ تن کیے ہوئے تھے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شام بھجوا دیا جو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے اور ان پر زور دیا کہ قتلِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقام لیا جائے۔ اس موقع پر اپنے مخلص دوستوں کے مشوروں کو نظر انداز کرکے علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا۔ ِ انہوں نے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت صوبائی گورنروں کو شہادت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے سانحہ کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ وہ خلافت کا منصب سنبھال چکے ہیں اب وہ نہ صرف خود نئے خلیفہ کی بیعت کریں بلکہ اپنے اپنے صوبوں میں ھی خلیفہ کے لیے بیعت لیں۔ انہوں نے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نام خط میں انہیں گورنر کے منصب سے معزول کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ چارج نئے گورنر کے حوالے کردیں۔
یقینی طور پر سبائیوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی لیکن وہ آسانی سے ان کے چکر میں آنے والے نہ تھے۔ انہوں نے حضرت علیؓ کے خط جواب نہایت نرمی سے دیا اور کہا کہ جب قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو گرفتار کرکے سزا دے دی جائے گی وہ بیعت کرلیں گے۔
اب ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ اسی اثناء میں سبائیوں کی طرف سے عائشہ رضی اللہ ِ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا اور دوسری ، ازواج مطہرات کو خط بھجوائے گئے جن میں الزام لگایا گیا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو سزا دینے سے انکاری ہیں اور امہات المومنین ہونے کی حیثیت سے آپ کا یہ حق اور فرض ہے کہ آپ اپنے "بیٹے "عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتلوں کےسروں کا مطالبہ کریں۔ بصرہ سے آنے والے خطوط میں یہ پیشکش بھی کی گئی کہ اگر امہات المو منینت بصرہ آئیں وہ تو وہ انہیں ہر ممکن مدد کے لیے حاضر پائیں گی۔
کچھ عرصہ بعد طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ مکہ جانے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوگئے۔ ان کی منزل بصرہ تھی۔ مورخوں کا کہنا ہے کہ ان کی روانگی سے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر انہوں نے بصرہ کے خزانے پر قبضہ کرلیا اور وہاں کی فوج ان سے مل گئی تو وہ حکومت کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے بھی عراق جانے کا قصد کرلیا۔ اور یہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی جان لیوا غلطی تھی ، مدینے کے مخلص لوگوں سے نکل گر باغیوں کی کھچار میں جا گھسنا ہر گز حکیمانہ فیصلہ نہیں کہا جا سکتا ، جب وہ مدینے میں کہ جو مخلصین کا گڑھ تھا چند سو باغیوں کے یرغمال بن کر آزادانہ فیصلے نہیں کر پا رہے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے تو یہ کیسے ممکن تھا وہ باغیوں کے گڑھ میں رہ کر کوئی مثبت عملی اقدامات کر پائیں گے ؟ ادھر ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا پر ان کے بھائی ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلسل زور دے رہے تھے کہ وہ سیاست میں سرگرم حصہ لیں۔ اسی اثناء میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی اپنے کچھ قریبی عزیزوں کے ہمراہ عراق تشریف لے گئیں۔ بصرہ کے نزدیک ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کے گرد جمع ہوجانے والوں اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج میں تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
سبائیوں کی خطوط مہم سے بہت سی غلط فہمیاں جنم لے چکی تھیں۔ بعض مخلص اور غیر جانبدار مسلمانوں نے مصالحت کی کوششیں شروع کر دیں اور جلد ہی یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔ حقیقت یہ تھی کہ نہ تو حضرت علی قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو سزا دینے کے خلاف تھے اور نہ ہی عائشہ صدیقہؓ ۠ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے کوئی ذاتی عزائم تھے۔ لہذا امن معاہدہ ہوگیا اور دونوں طرف کے لوگ پہلی بار سکون کی نیند سوگئے۔ بظاہر ابن سبا کے کھیل کی بساط الٹ چکی تھی۔ مگر وہ حوصلہ ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔ رات کے آخری پہر اس کے کچھ آدمی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کیمپ میں داخل ہوگئے اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج پر حملہ کردیا۔ قدرتی طور پر علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کیمپ میں یہی سمجھا گیا کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور دھوکہ سے حملہ کردیا ہے۔ تاہم جلد ہی ان کے فوجیوں نے صورتحال پر قابو پا لیا۔ ادھر عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کیمپ کو گمان ہوا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس ساری صورتحال میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انتہائی جرأت مندی سے صورتحال کا مقابلہ کیا اور آخر تک اپنی اونٹنی پر سوار رہیں۔ اسی بنا پر اس جنگ کو جنگِ جمل کا نام دیا گیا۔ لڑائی کے دوران علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گرد گھیرا ڈال دیا اور عملاً وہ مخالف فوج کی حراست میں آگئیں۔ ان کے آدمی موقع سے فرار ہوگئے۔ اس کے بعد جب صورتحال واضح ہوئی تو بہت دیر ہوگئی تھی۔ اس موقع پر عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے حریف معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف مدد کی پیشکش کی تاہم علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انتہائی احترام سے ان کی پیشکش کا ِ شکریہ ادا کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ واپس مدینہ تشریف لے چلیں اوران کی شایانِ شان واپسی کے انتظامات بھی کر دئیے۔
مورخوں نے ایک اور بظاہر معمولی واقعہ کا ذکر کیا ہے جسے یہاں بیان کرنا نا مناسب نہ ہوگا۔ جنگِ جمل سے قبل یا فوراً بعد کچھ مخلص مسلمانوں نے علی رضی اللہ تعالی عنہ سے شکایت کی کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ان کی فوج میں آزادی سے پھر رہے ہیں اور وہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر رہے۔ اس
پر علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آدمیوں سے پوچھا کہ قاتلینِ عثمانؓ کون ہیں؟ کم و بیش بارہ ہزار آدمی اٹھ کر کھڑے ہوئے اور چلاچلا کر کہنےلگے "میں ہوں۔ میں ہوں۔” یہاں حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ اپنی نیک دلی کے باوجود علی رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ آزادی حاصل نہیں تھی جو ایک حکمران کو حاصل ہونی چاہئے ـ
ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم ـ بتصرف مترجم