شرک اکبر

الایقاظ ،،،،،،،،،،،،،،،،
شرک اکبر کی دوسری قسم
شرکِ ارادہ
امام محمد التمیمیؒ رسالہ کے متن میں لکھتے ہیں:
(شرکِ اکبر کی) دوسری قسم ہے: مقصود اور مراد میں شرک۔
اس کی دلیل یہ آیت ہے:
مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَ أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (ھود: ١٥۔ ١٦)
”جو لوگ بس اسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم ان کو یہیں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ یہ ہیں وہ لوگ جن کےلیے آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہے۔ دُنیا میں ان کا کیا کرایا سب برباد ہے۔ اور ان کا سب کیا دھرا محض باطل ہے”۔
شرح
’’مراد‘‘ کا شرک بعض حالات میں شرک اکبر ہوتا ہے اور بعض حالات میں شرک اصغر۔ شرکِ اصغر کا بیان آئندہ رسالہ میں آئے گا۔ یہاں اِس حوالہ سے صرف شرکِ اکبر کا بیان ہوگا۔
شرکِ اکبر کے حوالہ سے، فتح المجید (شرح کتاب التوحید) میں اسی درج بالا آیت کی تفسیر بیان ہوئی ہے؛ جہاں مصنف نے باب باندھا ہے:
من الشركِ: إرادةُ الإنسانِ بعمله الدنيا
شرک میں ہی یہ آتا ہے کہ: انسان کی کل مراد اپنے عمل سے بس یہی دنیا ہو
فتح المجید میں اس شرک کا جو بیان ہوا، اس کا لب لباب یوں ہے:
لوگوں کی ایک ایسی صنف ہے جو صدقہ وخیرات کرلیتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آتی ہے۔ صلہ رحمی، ظلم وزیادتی سے بچنا، رفاہ عامہ کے بہت سے کام کرنا… غرض ایسی بہت سی عمدہ باتوں کا اہتمام کرلیا جاتا ہے، تاہم ان کارہائے خیر سے آدمی کا مقصود دور دور تک اللہ اور یوم آخرت نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ ایسا آدمی کسی وقت ’نماز روزہ‘ کرے یا کوئی اور ’مذہبی‘ رویہ اختیار کرے تو اُس کی یہ نماز اور ’پوجا پاٹ‘ وغیرہ اس لیے نہیں ہوتی کہ آخرت کا ثواب درکار ہے بلکہ محض اور محض اس لئے کہ دُنیا کی خوش حالی ملے اور رِزق میں وسعت اور فراخی حاصل ہو۔ جنت کی طلب یا جہنم سے نجات کا دور دور تک اس عمل سے واسطہ نہیں ہوتا۔ غرض ’بھلائی‘ کا ایک ایسا تصور جو خدا کو پانے یا آخرت کی جستجو کرنے سے سراسر بیگانہ ہے۔ پس یہ وہ شخص ہے جس کو اس کے کیے کا نیک بدلہ جس قدر ملنا ہو دنیا ہی میں مل جائے گا اور آخرت میں اس کا کوئی ذرہ بھر حصہ نہیں۔
أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (ھود: ١٥۔ ١٦)
” یہ ہیں وہ لوگ جن کےلیے آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہے۔ دُنیا میں ان کا کیا کرایا سب برباد ہے۔ اور ان کا سب کیا دھرا محض باطل ہے ”۔
آیت کے اسلوب سے ظاہر ہے کہ ایسی سخت وعید کفار و مشرکین کے حق میں ہی وارد ہوسکتی ہے نہ کہ کسی ایسے مسلمان کے حق میں جس سے کوئی ظلم زیادتی سرزد ہوجاتی ہو۔ ’’آخرت میں ذرہ بھر حصہ نہ ہونا‘‘ نیز ’’انسان کا سب کیا کرایا برباد ہوجانا اور سراسر باطل قرار پانا‘‘ اور آخرت میں ’’آگ کے سوا اُس کےلیے کچھ نہ ہونا‘‘ ایک مشرک کا ہی حصہ ہے۔ اور یہ بات نہایت اہم ہے؛ مصنف اسے شرکِ اکبر کی ایک صنف کے تحت لے کر آئے ہیں۔
موجودہ دور میں تو سمجھئے یہ ایک باقاعدہ نظریۂ حیات ہے۔ غریبوں اور ناداروں کے کام آنا، رفاہ عامہ کے اعمال کرنا۔ مگر اس عمل سے مقصد دور دور تک خدا اور آخرت کا نہ ہونا۔ بلکہ آدمی کے پیشِ نظر یا تو دُنیا کی حد تک ‘کربھلا ہو بھلا’ ہو… یا محض لوگوں میں مقبولیت پانا اور مخلوق کو متاثر کرنا ہو… یا پھر مقصد صرف اپنے ‘ضمیر’ کی تسکین ہو۔ بہرحال خدا اور زندگانیِ آخرت آدمی کا بالکل ہی مطلوب نہ ہو۔ ‘بھلائی’ کا یہ تصور اور یہ اندازِ فکر شرکِ اکبر ہے۔
ہاں آدمی کا مقصد بیک وقت خدا اور آخرت بھی ہو تاہم نیک عمل سے اُس کا مقصود دُنیا کی شہرت، ستائش اور مقبولیت بھی ہوگیا ہو، جوکہ ریاء کے باب سے ہے… تو تب یہ شرک اصغر ہوگا نہ کہ شرک اکبر۔
البتہ یہ کہ خدا اور آخرت سرے سے انسان کی نیک سیرتی یا خدمتِ خلق کا مقصود نہ ہو، (اور جوکہ دورِ حاضر کا ایک باقاعدہ مذہب ہے) تو تب یہ شرکِ اکبر ہوگا۔
مغرب سے ہمیں جو ایک سماجی اور رفاہی خدمت یا ایک ‘اچھا انسان’ ہونے کا تصور ملا ہے وہ بنیادی طور پر اسی شرک پر قائم ہے۔ یعنی ایک ایسی نیکی جو نہ تو خدا کے کہنے پر کی گئی، نہ خدا کی خاطر اور نہ ہی خدا کے ہاں قبول ہونے کے لیے۔ غرض ‘نیکی’ اور ‘احسان’ کا تصور تو ہو مگر ‘خدا’ سے اُس کا کوئی رشتہ نہ رہنے دیا گیا ہو،ویسے بے شک آدمی خدا کو ‘مانتا’ ہی ہو! یوں ’نیکی‘ اور ’بھلائی‘ کے عنوان کے تحت بھی انسان بالآخر اپنے ضمیر وخرد ہی کو پوجنے لگا نہ کہ اُس ہستی کو جس نے اِسے ضمیروخرد ایسی یہ انمول نعمت دی اور ’بھلائی‘ کا یہ نفیس شعور بخشا۔ ’اچھائی‘ کی تمام تر نسبت اب اِس جاہل نے اپنی ذات یا اپنے نفس سے ہی کرڈالی (جوکہ اس کا مطلق معبود ہوچکا ہے)؛ ’اچھائی‘ کی نسبت اب یہ اُس ذات سے کرنے کا روادار نہیں رہا جس نے یہ ’اچھائی‘ اِس کی سرشت میں سموئی اور یوں اِس کی وہ (احسنِ تقویم) ساخت فرمائی جس کے دم سے یہ خاک کا پُتلا آپ سے آپ نیکی کو سراہنے اور بدی کو معیوب جاننے لگتا ہے۔ مگر یہ اِس کو خاص اپنا کمال جاننے لگا! بھلا مٹی میں یہ خاصیت کہاں سے آنے لگی؟! اس ’’خوبی‘‘ کے جملہ حقوق اب یہ دنیا میں اپنے نام سے چلاتا ہے! اس خودسری کا نام ہے ’ہیومن ازم‘؛ شیطان کے ترکش میں اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی تیر پایا گیا ہو۔ یہ انسانی گھمنڈ اور پرستشِ ذات کی ایک بدترین اور پیچیدہ ترین صورت ہے۔ یعنی ’نیکی‘ ایسی برگزیدہ ترین چیز (کہ جس کو خدا سے ایک خاص نسبت تھی) اس پر سے انسان خدا کا نام کھرچ دے اور اس پر اپنا نام کندہ کرلے! حالانکہ یہ محض خدا کا بخشا ہوا شعور تھا کہ یہ انسان نامی مخلوق برےبھلے میں تمیز کرلیتی ہے؛ اور اِس ناطے یہ خدا کا حق تھا کہ اُس کی ایک چیز اُس کے ہی نام سے دنیا میں جانی جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک ایسی اعلیٰ چیز بنی ہی اس لیے تھی کہ اس کے ذریعے خدا کی جستجو ہو اور یہ خدا تک پہنچنے کا ذریعہ بنے۔ ’اشرف المخلوقات‘ میں یہ چیز خدا نے خاص اپنا پتہ دینے کےلیے اور اپنے در کی راہ دکھانے کےلیے تخلیق فرمائی تھی۔ مگر یہاں اس کو بھی ’اپنا کمال‘ بتایا گیا! بلکہ ایسا مطلق کمال جو (نعوذباللہ) خدا کی بھی ہزارہا غلطیاں اور بےقاعدگیاں نکال کر دکھادے! یعنی (معاذاللہ ثم معاذاللہ) ہمارے پاس ایک ایسی چیز ہے جو خدا کے پاس بھی شاید ہی کبھی پائی گئی ہو اور جس کا نام ہے عقل، خرد، ضمیر، دانائی اور خوب وناخوب کی تمیز! یہ Humanism دورِحاضر کا ایک باقاعدہ دین ہے اور رب العزت کے ساتھ شر ک کی ایک خالص ترین صورت۔ اس دینِ جدید نے ہی یہ طرزِ فکر دیا ہے کہ انسان اپنی مستقل بالذات حیثیت کا ادراک کرے جو ایک ذہنی وفکری ترقی کرتے کرتے اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ ’بھلائی‘ کرنی ہے تو اس کے لیے کسی مافوق الفطرت ہستی کو بیچ میں لے آنے کی ضرورت اب باقی نہیں رہی؛ آدمی بڑےبڑے اچھے کام خدا کی عبدیت کا طوق گلے میں ڈالے بغیر کرسکتا ہے! یہ طرز حیات آج ایک کثیر خلقت میں رائج ہوا ہے اور ‘انسان پرستی’ کے نام سے معروف ہے۔
توحید یہ ہے کہ آدمی اپنی ایک ایک خوبی کو خدا کی جستجو کا ذریعہ بنائے اور اپنے ہر ہر نیک عمل کی غایت خدائے رب العالمین کو ٹھہرائے جس میں کوئی اسکا شریک نہ رہے۔
وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنتَهَى(النجم: ٤٢)
اور یہ کہ (ہر چیز کی) غایت تیرے ربّ تک ہے
وہ عمل یا وہ نیکی یا وہ خوبی جو خدا کے آگے (چڑھاوا) پیش کرنے کے طور پر انجام نہ دی گئی وہ صرف ضائع ہی نہیں بلکہ بلائے جان ہے۔ أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ ’’یہ ہیں وہ لوگ جن کیلئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔
لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ (القصص: ٨٨)
اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، باقی ہر شےء ہلاک ہونے والی ہے سوائے وہ چیز جو اُس کا چہرہ پانے کےلیے ہو۔
إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ أُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (یونس: 7۔8)
بےشک وہ لوگ جو ہم سے ملنے کے امیدوار نہیں، جو دنیا کی زندگانی پر ہی راضی اور اسی پر مطمئن ہورہے، اور جو ہماری آیتوں سے غفلت ہی میں رہے۔ یہ ہیں وہ لوگ جن کا ٹھکانہ ہی دوزخ ہے، اس سبب سے کہ ان کی کمائی ہی یہ رہی تھی۔