حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشہور زمانہ زرہ کا واقعہ !

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشہور زمانہ زرہ کا واقعہ !
قصے کی مشہوری اور واعظون کے اس پر چرچے اگر معیار بنائے جائیں تو یہ قصہ متفق علیہ حدیث کی ریٹننگ رکھتا ھے،، ھم نہ صرف اس کو مانتے تھے بلکہ اس کو بیان بھی کئی دفعہ کیا،، اصل میں اس قسم کے قصوں میں جو چاشنی ھے وہ سامع کو ایک گھنٹہ بٹھانے کے لئے بہت ضروری ھے، 

قصہ کچھ یوں ھے جو اور جتنا ھم نے بیان کیا ھے کسی جمعے میں اور یہ ھمارے مولوی پنے کے بچپن کا واقع ھے جب ھم ھاؤس جاب کر رھے تھے، کہ حضرت علیؓ کی زرہ گر گئ جو یہودی نے اٹھا لی مقدمہ قاضی کی عدالت میں گیا،، اور فیصلہ حضرت علیؓ کے خلاف ھو گیا کیونکہ ان کے غلام اور بیٹے کی گواھی رد کر دی گئ،، یہ دیکھ کر یہودی مسلمان ھو گیا،، سبحان اللہ،، گلوری بی ٹو اللہ !
مگر تفصیلی روایت کچھ یوں ھے !
حافظ ذہبیؒ لکھتے ھیں،راوی نے ابراھیم تیمی سے نقل کیا ھے کہ حضرت علیؓ نے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی اور اسے پہچان لیا،اور فرمایا یہ میری زرہ ھے جو فلان دن گر گئ تھی،یہودی نے کہا کہ یہ میری زرہ ھے اور میرے قبضے میں ھے،لہذا میرا اور آپ کا فیصلہ مسلمانوں کا قاضی کر سکتا ھے،الغرض یہ دونوں قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے،،قاضی شریح نے جب حضرت علی کو دیکھا تو اپنی کرسئ عدالت سے کھڑے ھو گئے اور حضرت علی اس کرسی پر بیٹھ گئے،، اس کے بعد فرمایا اگر میرا دشمن مسلمان ھوتا تو مین اس کے ساتھ بیٹھتا،، لیکن میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ھے،،نہ تو غیر مسلموں کو اپنی مجالس میں بٹھاؤ اور نہ ان کے مریضوں کی عیادت کرو، بلکہ انہیں راہ چلتے بھی تنگ سے تنگ جگہ چلنے پر مجبور کرو،اگر وہ تمہیں برا کہیں تو ان کی پٹائی کرو اور اگر وہ تمہیں ماریں تو تم انہیں قتل کر دو،، پھر اس یہودی کی طرف متوجہ ھو کر فرمایا یہ میری زرہ ھے !
یہودی نے کہا کہ امیر المومنین سچ کہتے ھیں مگر گواہ لائیے ! حضرت علیؓ نے اپنے غلام قنبر اور بیٹے حسن کو بلایا،،انہوں نے گواھی دی، قاضی شریح نے ( جو بے چارے کھڑے ھو کر مقدمے کی سماعت کر رھے تھے ) کہا کہ بیٹے کی گواھی باپ کے حق میں قبول نہیں،،اس پر علیؓ نے کہا کہ مین تمہیں قسم دیتا ھوں کیا تم نے عمرؓ سے یہ روایت نہیں سنی کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ھیں ؟ قاضی شریح نے کہا واللہ ایسا ھی ھے،، اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا تو حسن کی گواھی قبول نہیں کرتا،اللہ کی قسم تو بھی ھمارے پاس فیصلہ لے کر آئے گا،، یقیناً اس کے گھر والوں کے درمیان چالیس دن کے اندر فیصلہ کر دیا جائے گا،،اس کے بعد حضرت علیؓ نے زرہ یہودی کو دے دی ! اس یہودی نے کہا کہ اپ میرے کہنے سے قاضی کے پاس آئے اور اپنے خلاف فیصلے کو مان لیا،،یہ زرہ آپ کی ھے،آپ رکھ لیجئے،، اور میں اسلام قبول کرتا ھوں،، اس پر علیؓ نے کہا تو یہ زرہ بھی رکھ اور یہ گھوڑا بھی لے لے ! اور اس کا وظیفہ بھی مقرر کر دیا وہ آخرکار وہ یہودی جنگِ صفین میں قتل ھوا ، ( المیزان )
اس روایت کے راویوں پر بعد مین بحث کریں گے پہلے دیگر امور جن کو آپ نے بھی نوٹس کیا ھو گا، اور ھر صاحب ضمیر شخص محسوس کر لیتا ھے،،
حسنؓ اور حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ھیں یہ ایک منکر حدیث ھے،اور عمر فاروقؓ سے تو یہ سرے سے روایت ھی نہیں ھوئی ھے !
لیکن اگر یہ بالفرض صحیح بھی ھوتی تو بھی اس کا عدل و انصاف کے اصولوں اور تقاضوں پر کیا فرق پڑتا ھے،، کوئی جنتی ھے یا جنتیوں کا سردار،، گواھی کی شرائط اور نصاب سب پر لاگو ھوتا ھے،جیسے نماز روزے کے احکامات سب کے لئے یکساں ھیں ! شریعت کا مسلمہ اصول ھے کہ باپ بیٹے کی گواھی ایک دوسرے کے حق میں قبول نہیں کی جاتی ! کیا عدل کے تقاضوں کو توڑنے کا نام انصاف ھے؟ پھر کیا علی المرتضیؓ کے شایانِ شان ھے کہ وہ ایک معمولی زرہ کے لئے اپنے بیٹے کی جنت کو کیش کرانے کی کوشش کریں گے ؟؟

دوسری بات جو حضرت علیؓ سے روایت کی گئ ھے کہ غیر مسلم کو مجلس میں نہ بیٹھنے دیا جائے،، نبیﷺ پر بہتان ھے،جن کی تعلیمات بالکل برعکس ھیں،،اگر غیر مسلم آپ کی مجلس مین نہیں بیٹھے کا تو اسلام کی دعوت کو کیسے سمجھے گا؟ اور اگر اسلام کی تعلیم بھی ھندو ازم کے شودر تیار اور برھمن تیار کرتی ھے تو پھر کسی کو مسلمان ھونے کی ضرورت ھی کیا ھے؟؟ جب کہ نبیﷺ کا خود چل کر جا کر غیر مسلموں کی مجلس میں جانا ،ان کی عیادت کرنا،موت پر تعزیت کرنا ،، ثابت ھے،، آپ کے گھر مہمانوں کی دیکھ بھال پر یہودی لڑکا مامور تھا جس کا پکا ھوا نبی کریمﷺ بھی تناول فرماتے تھے،، بیمار ھوا تو اس کے گھر جا کر تیمار داری کی،، اور دعوت دے کر موت سے پہلے مسلمان کر لیا !نیز عیسائیوں کو مسجد نبوی میں اپنی نماز پڑھنے کی اجازت دی،ایک کافر کو اپنے مہمان خانے میں سلایا اور گھر والوں کے حصے کا دودھ بھی اسے پلا دیا

یہ کونسا انصاف ھے کہ جب کوئی امیر مدعی بن کر عدالت جائے تو قاضی کو ھٹا کر خود اس کی کرسی پر بیٹھ جائے، پھر جب کوئی قانونی اعتراض اٹھایا جائے تو بدلے میں مدعی علیہ کے بیوی بچوں کو 40 دن کے اندر نتیجہ بھگتنے کی دھمکی دی جائے،،ایسا اصول تو آج کل کے کالے قانون میں بھی نہیں،،اگر قاضی شریح مدعی کو دیکھ کر کھڑے ھو گئے تھے اور اپنی کرسی علیؓ کو پیش کر دی تھی تو وہ اسی لمحے فیصلے کی پوزیشن کھو بیٹھے تھے اور جانبدار ھو گئے تھے ! یہ تو جناب شیرِخدا اور قاضی شریح دونوں کے حق میں تبرہ ھے !
پھر جب علیؓ قاضی کی کرسی پر بیٹھ گئے تو مدعی اور مدعی علیہ دونوں برابر کہاں رھے، اور جب قاضی نے بھی مدعی کو کرسی دے کر اس کی فضیلت تسلیم کر لی تو مدعی علیہ کو انصاف کون دے
گا ؟ اور وہ کونسا انصاف تھا جسے دیکھ کر یہودی مسلمان ھو گیا ؟؟ یہ روایت کرنے والے اپنے سوا باقی سب کو دولے شاہ کا چوھا سمجھتے ھیں !
کیا کوئی سبائی یہ بتا سکتا ھے کہ یہ واقعہ کس سرزمین پر پیش آیا جہاں یہودی اور مسلمان اکٹھے رھتے تھے؟ اگر مدینہ تو مدینے سے یہود نبیﷺ کی زندگی میں ھی نکال دیئے گئے تھے،، نیز مدینہ سے نکل کر حضرت علیؓ زندگی بھر پھر مدینہ نہیں جا پائے ،، اگر یہ کوفے کی بات ھے تو ممکن ھے کوفے میں یہود بھی ھوں،نیز قاضی شریح قاضی بھی کوفے کے تھے،،تو جناب حضرت علیؓ جنگ جمل سے فارغ ھو کر شام کی بارڈر کی طرف چلے گئے تھے، اور درمیان میں صرف چند دن کے لئے کوفہ آئے تھے طبری کے مطابق جنگ صفین اور جنگ جمل کے درمیان حضرت علی لشکر کی تیاری کے لئے چند روز کے لئے کوفہ تشریف لائے تھے پھر جنگ صفین ھوئی اور وہ یہودی مارا بھی گیا،، ؟
اس روایت کا ناقل آخری آدمی ابراھیم تیمی ھے،یہ مرسل روایات نقل کرتا تھا،،یہ 36 ھ کو پیدا ھوا تھا اور جنگِ صفین 37 ھ میں ھوئی تھی گویا جس وقت وہ یہودی مرا تو یہ ابھی دودھ پی رھے تھے،، ایک سال ان کی عمر تھی !
ابرھیم سے اعمش نے روایت کیا ھے اور یہ صاحب تمام محدثین کے نزدیک ثقہ ھیں مگر خود بھی شیعہ تھے اور سبائیوں سے روایات لیتے اور درمیان سے راوی اڑا دیتے تھے،، یہانتک کہ ابن مبارک اورمغیرہ کو کہنا پڑا کہ اھل کوفہ کو خراب کرنے والے یعنی تدلیس کا مرض لگانے والے دو آدمی ھیں ابو اسحاق سبیعی اور اعمش ،، خود بھی شیعہ تھے اور تدلیس سونے پر سہاگہ تھی،،اس منکر روایت کے راوی بھی یہی ھیں کہ علیؓ نے فرمایا قیامت کے دن جنت اور جہنم میں تقسیم کروں گا،، ان کا انتقال 148 ھ میں ھوا،،اب ان سے کب ملاقات ھوئی ابراھیم تیمی کی،یہ بھی سوچنے کا مقام ھے ،ان دونوں کے درمیان کوئی سبائی غائب کیا گیا ھے !
اعمش سے حکیم بن خِزام نے روایت کی ھے،قواریری کا کہنا ھے کہ میں اس سے ملا ھوں،یہ اللہ کا بہت نیک بندہ تھا،،یہ اصل میں تلمیح ھوتی ھے کہ عبادت کی کثرت نے اسے حفظِ حدیث سے سست کر دیا،،جس نے جو پکڑایا حدیث سمجھ کے روایت کر دیا،ابو حاتم کہتے ھیں منکر الحدیث تھا،،امام یحی بن سعید بن قطان فرماتے ھیں مین نے نیک لوگوں سے زیادہ حدیث میں جھوٹ بولنے والا کوئی نہیں پایا،، اور امام مسلم اس کی وضاحت فرماتے ھوئے لکھتے ھیں کہ یہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے تھے،مگر جھوٹ ھر وقت ان کی زبان پر جاری رھتا،یعنی وہcompulsive lair تھے !