حدود و قصاص

ایک سوال کا جواب !
حدود و تعزیرات  کا نظام تو چل رھا ھے قابلِ فروخت گواھوں ،ججوں اور وکیلوں کی موجودگی میں بس اتنی ھی ھو بھی سکتا ھے ، یہ نظام کس حکومت کے دور میں رکا ھے ؟ ،، آپ بس ھاتھ کاٹ کر ثابت کرنا چاھتے ھیں کہ اسلام آ گیا ،جب کہ ھاتھ کاٹنے کے لئے عدل کے تقاضے کون پورا کرے گا ؟ ایک گروۃ تو یہ کر سکتا ھے کہ ایک بندے کو پکڑا ،چار ڈنڈے مار کر اس سے اعتراف کرایا اور پھر نہ کوئی گواہ اور نہ اس بندے کا کوئی بیک گراؤنڈ دیکھا ،بس پکڑ کر ھاتھ کاٹا اور سمجھا کہ لو جی اسلام نافذ ھو گیا،، جبکہ حقیقی اسلامی طریقِ عدل میں یہ ھے کہ قاضی مجرم کو مکرنے کی ترغیب دے ،، اور پھر مدعیوں سے کہے کہ وہ جرم ثابت کریں ، پھر ملزم کے وہ احوال دیکھے جائیں جن میں اس سے چوری سرزد ھوئی ،، پھر فیصلہ سنایا جائے ،، اللہ کے رسول ﷺ نے اعتراف جرم کرنے والوں کو حتی الامکان مکروانے کی کوششش کی اور ان کو مختلف بہانے فراھم کیئے کہ ان میں سے کسی کو بھی وہ قبول کر کے کہہ دے کہ جی ھاں ایسے ھی ھوا تھا ،، جب چار دفعہ اقرار ھو گیا تو بھی اس عورت پہ بچہ جننے کی شرط لگا دی ( جب کہ تم بچے سمیت مار دیتے ھو کیونکہ تمہیں پتہ نہیں ھوتا کہ تمہاری اپنی کل کس پہاڑی غار میں ھو گی ) پھر جب وہ بچہ جن کر آئی تو خود آئی حضورﷺ نے پولیس بھیج کر نہیں بلائی ،، پھر واپس بھیج دیا کہ بچہ جب روٹی کھانے لگے گا تو دیکھیں گے ،، وہ روٹی کا ٹکرا بچے کے ھاتھ میں پکڑا کر لائی پھر بھی حضور ﷺ نے پولیس نہیں بھیجی تھی اور میں اپنے ایمان کے زور پر کہتا ھوں کہ اگر وہ واپس نہ آتی تو رسول ﷺ اس کے نہ آنے کو اس کا انکار سمجھ کر معاف کر دیتے بس جھوٹ کی سزا 80 کوڑے مروا دیتے ،، کیونکہ جب اعتراف کرنے وال غامدی لڑکا بھاگا اور اس نے کہا کہ مجھے میری قوم نے مروا دیا خدا را مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس لے چلو ،، مگر لوگوں نے اسے پکڑ کر مار دیا ،، اور جب رسول اللہ ﷺ سے اس کی بات ذکر کی تو آپ نے فرمایا کہ ” تم اس کو لوٹا کر کیوں نہ لائے شاید وہ توبہ کر لیتا اور اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ،، پھر اعتراف کرنے والاسزا یافتہ اگر دورانِ سزا چند پتھر کھا کر بھی مکر جائے تو سزا منسوخ کر دی جائے گی اور اس کو 80 کوڑے جھوٹ کی سزا دی جائے گی ، اعتراف کرنے والے کا انکار گواہ کا مکر جانا ھے ،، سزا کے وقت گواھوں کو پاس کھڑا کیا جاتا ھے تا کہ اگر ان میں سے کوئی جھوٹا ھے تو اذیت کو دیکھ کر خود اسے خوف خدا آ جائے اور وہ مکر جائے ،صرف ایک گواہ کے مکر جانے پر سزا روک دی جائے گی اور باقی تین گواھوں کو بھی 80،80 کوڑے مارے جائین گے اگرچہ وہ سچے ھوں بس چوتھا گواہ جھوٹا شامل کیا ھو ، اسی اصول کے تحت ابوموسی الاشعری جب شام کے گورنر تھے تو ان کے پاس ایک حبشی عورت چوری کے جرم میں لائی گئ کہ اس نے چوری کی ھے اور اعتراف بھی کر لیا ھے ، آپ نے فرمایا تم نے ایک ان پڑھ اور بھولی بھالی عورت کو چار تھپڑ مار کر اعتراف کروا کر لے آئے ھو جس بیچاری کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اس اعتراف کے نتیجے میں تم اس کا ھاتھ کٹوا دو گے ( وہ سمجھی ھو گی کہ اعتراف پر تم اس کو چھوڑ دو گے ) اس کے بعد آپ اس عورت کی طرف متوجہ ھوئے اور اس سے سوال کیا ،،ھل سرقتِ ؟ قولی ” لا "،، کیا تم نے چوری کی ھے ؟ کہو ” نہیں کی ” اور اس عورت نے کہہ دیا کہ اس نے نہیں کی ، اب آپ نے پکڑ کر لانے والوں سے کہا کہ اب اگر کر سکتے ھو تو گواھیوں کا بندوبست کرو اور اس عورت کا رستہ چھوڑ دو ،، یہ نام نہاد اسلامی گروپ جو سر سے پاؤں تک مسلمانوں کے خون سے لتھڑے ھوئے ھیں ان کو کیا پتہ کہ اسلامی حدود و قصاص کن اصولوں کے ساتھ نافذ ھوتے ھیں ، اور افسوس کی بات یہ ھے کہ ھماری مساجد سے بھی اس قسم کی باتوں کی نہ تشہیر ھوتی ھے اور نہ ھی لوگوں میں اسلام کے عدل و انصاف کے حقیقی روپ کے بارے میں آگہی پیدا کی جاتی ھے