ایک سوال کا جواب

میرے نزدیک جن تک نبئ کریم ﷺ کی دعوت پہنچی ھے ان کی نجات کے لئے نبئ کریم ﷺ پر ایمان لانا ضروری ھے ،، قرآن اصل تبلیغی نصاب اور اتمامِ حجت ھے ،جس تک قرآن پہنچ گیا اسے تبلیغ ھو گئ ،،،،،، دوسری جانب اس بات سے غض بصر ممکن نہیں کہ روایات کے ذخیرے نے جس طرح نبئ کریم ﷺ کے مقام اور شخصیت کو مسخ کیا ھے ، اس کی وجہ سے غیر مسلم کیا مسلمان ھونگے خود مسلمان اندر ھی اندر اپنے نبی ﷺ کے بارے میں بدگمان ھو گئے ھیں ،،،،،،،،،، ھمارے پرانے علماء اور نئ کھیپ کا رویہ کچھ یوں ھے کہ روایت پہ ایمان تو لازم رکھو کیونکہ ھمارا کاروبار ان روایتوں کے پڑھنے ، پڑھانے سے وابستہ ھے نبی کے ساتھ نہیں ،،،،،،،،نبی ﷺ پر سے ایمان جاتا ھے تو وہ ھمارا نہیں تمہارا مسئلہ ھے ،، دوسرے مذاھب کی مذھبی شخصیات میں جن جن قباحتوں کا ذکر کر کے ھم ان کے مذھب کا تمسخر اڑاتے تھے وہ سارا کچھ ھمیں اپنی کتابوں میں خود ھماری مذھبی شخصیات کے بارے میں ملا ھے ،،،،،،،،،، میں نے اھون البلیتین کے اصول پہ اپنے نوجوان دوستوں کو یہ بات کہی ھے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ھوں کہ جس بات کو میرا ضمیر اپنے نبی ﷺ کے بارے میں تسلیم نہیں کرتا ،اس کے سلسلے میں کبھی راویوں کی بحث میں نہیں پڑتا ،، جس چیز کو میرا ضمیر عیب سمجھتا ھے میں وہ عیب نو دس نہیں بلکہ دس ھزار راویوں کے کہنے سے بھی اپنے نبی میں نہیں مان سکتا ،، نبی ﷺ کے گھرانے کے بارے میں سورہ نور میں اسی ضمیر کو کسوٹی بنا کر یہ اصول بنایا گیا ھے کہ ” اے ایمان والو تم نے اس بات کو اپنی ذات پر لاگو کر کے کیوں نہیں سوچا ؟ سنتے ھی اس کو رد کیوں نہیں کر دیا ؟ تم راویوں کے قد ھی ناپتے رہ گئے ،نبی کے مقام کو نہیں دیکھا ؟ اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا ،،یہ عیب تم نے نبی ﷺ کی بیوی اور بدری صحابی میں تسلیم نہیں کیا ،، بلکہ اپنے بارے میں قبول کر لیا ھے ،،، راوی بدری بھی ھوں مگر گھر اور ذات نبی ﷺ کی ھو تو ھم کوئی بیہودہ بات تسلیم نہیں کر سکتے ،، اب کوڑے مارو ان راویوں کو اور 80۔80 کوڑے مارے گئے حضرت حسان بن ثابتؓ کو بھی اور مسطح ابن اثاثہؓ کو بھی جو حضرت ابوبکرؓ صدیق کے خالہ زاد بھائی اور حضور ﷺ کی سالی حضرت حمنہؓ کو بھی جو حضور ﷺ کی پھوپھی زاد بہن بھی تھیں ،،، ان سے زیادہ قوی کوئی راوی نہیں ھو سکتا ،،جو لوگ ملحدین کے پیجز پہ جانا چاھتے ھیں اگر وہ اپنے ضمیر کے مطابق ان کہانیوں کو مسترد کرنے کی جرأت نہیں رکھتے تو پھر وہ بھی ھمارے علماء اور شیوخ الحدیث کی طرح ان پیجز پہ جانے سے پرھیز ھی کریں ، ھم عبادات ، اذکار و ادعیہ اور حلت و حرمت سے متعلق احادیث پہ آمنا و صدقنا کہتے ھیں اور انہیں نص قطعی تسلیم کرتے ھیں ،،،،،،،